مہندی سے اٹے ہاتھوں کو فضاء میں بلند کئے اس نے کندھے کو ذرا جھٹکا دے کر ڈھلکتے آنچل کو سنبھلا اور سہج سہج کر قدم اُٹھاتی سڑھیاں اُتری۔
گھر بھر میں مہمانوں کے شور و غوں غاں نے اس کے تنے عصاب پہ اور بُرا اثر ڈالا تھا۔پھوپھو کی شادی کا غم جہاں اسے ہلکان کئے دے رہا تھا۔وہیں ایک نئی مصیبت نے اس کے گھر کارستہ دیکھ لیا تھا۔
کاشف نے شادی کے تین روز سے اس کا جینا حرام کر دیا تھا۔وہ جب گُزرتی وہ مسکرا دیتا۔جہاں دیکھتا سر سے اشارہ کر کے اس کی تیاری کی داد دیتا۔بلکہ ابھی ابھی اس نے بے غیرتی کے سب ریکارڈ توڑ تے ہوئے اپنی ہی بہن کے سامنے منہ پھاڑ کر اسے ایک حسین و دلکش عورت کا خطاب بھی دے دیا۔یو ں جیسے وہ تو بس اسی ایک خواہش کے پیچھے ہلکان تھی۔کہ محترم کاشی صاحب اس کی تعریف میں چند قصیدے کہیں۔غصے اور چڑھ سے اس کا دل چاہ رہا تھا۔کہ سارے گھر کی حالت خراب کر دے۔اوپر سے امی جی کی خامخواہ کی گھوریاں۔اُنہوں نے شادی پہ ماہ نور کو بھی بلانے نہیں دیا ۔اس نے کتنی ضد کی تھی۔کہ اسے اس کی بہترین دوست کو بلانے کی اجازت دے دی جائے۔مگر انہوں نے یہ کہہ کہ ٹال دیا۔کہ وہ اپنی ناک نہیں کٹوانا چاہتیں۔اس کے پیچھے کیا لوجک تھی۔یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔سو وہ کلس کر رہنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکی تھی۔
ریحانہ !پھوپو جی کے لئے دودھ لے کر جاؤ۔ان کے سر میں درد ہے۔ساتھ یہ سر درد کی دوا بھی لے جاؤ۔
پندرہ سالہ لڑکی کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھی۔جب فرح کے حُکم پہ دودھ گلاس میں اُنڈیلتی باہر کو چلی گئی۔
کچن میں اب اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔اس نے کچن میں ارد گِرد دیکھا تو بہت سی کھانے کی چیزیں اسے منہ چڑھا رہی تھیں۔
ہم م م بھاڑ میں جائے مہندی۔۔۔سر جھٹک کر اس نے سِنک سے ہاتھ دھونے میں سیکنڈ نہیں لگا یا تھا۔
ہاتھ دھونے کے بعد اس نے مٹھائی کی ٹوکری اُٹھائی اور لے جا کر ڈائینگ ٹیبل پہ رکھ لی۔خود کرسی کھینچ کر بیٹھی گلاب جامن کھانے لگی۔
بچپن میں اور کچھ ہو نہ ہو شادی پہ جا کر مٹھائی کے ڈبوں سے گلاب جامن نکال کر کھانا اس کاپسندیدہ کام تھا۔
اکیلے اکیلے۔۔۔تیسری گلاب جامن ابھی اس کے منہ میں جانے کو ہی تھی ۔جب دروازے کی جانب سے آنے والی مردانہ آواز نے باوجود شیرے کے اس کا منہ حلق تک کڑوا کر دیا تھا۔اس نے ناگواری سے پیس واپس ٹوکری میں رکھ کر قریب ہی پڑے ٹیشو کے ڈبے سے ایک لیف نکال کر ہونٹ تھپ تھپائے تھے۔
بے فکر رہیں امی جی سونے سے پہلے آپ کے گھر بھی ایک پلیٹ ضرور بھجوائیں گی۔کمال ضبط سے اس نے دانت کچکچا کر کہا ۔تو مقابل اس کی حاضر جوابی پہ کھل کھلا اُٹھا۔
بہت خوب ۔۔۔اگر آپ چُپ رہتیں تو مجھے حیرت ہوتی۔
جی اور آپ اس حیرت سے مر جاتے۔۔۔اس نے الفاظ اُچک کر مقابل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے کہا اور پھر سبز لہنگا دائیں بائیں سے چٹکی میں اُٹھا تی دروزے سے ترچھی ہو کر نکل گئی۔اس نے روائتی پشاوری کڑھائی والی پیلی کُرتی کے ساتھ جامہ وار کا خوبصورت لہنگا پہن رکھا تھا۔اور ہلکے غلابی رنگ کے آنچل سے دونوں شانے ڈھک رکھے تھے۔
تو آپ کو میرے مرنے کی فکر تھی۔سُن کر اچھا لگا۔۔۔وہ جو جانے والی تھی۔پشت پہ پڑتی جلا دینے والی آ واز میں بولے جانے والے جملے پہ ایڑیوں پہ گھومی تھی۔ایسا کر نے سے اس کی پُشت پہ ڈھلکی چمبیلی کے چیدا چیدا پھولوں سے سجی چوٹی بل کھاتی اس کے بائیں شانے پہ آ ٹھہری تھی۔
خو ش فہمی ہے۔جیسے مرضی پال لیں۔کونسا ٹیکس لگنا ہے۔اور میری بلا سے جو مرضی سوچو۔کہہ کر ناک منہ چڑھاتی وہ وہاں سے اوپر پھوپھو کے پاس ان کے کمرے میں آ گئی تھی۔
میری زندگی میں پتہ نہیں کیوں اتنا ٹوسٹ ہے۔مجال ہے جو میں سکون سے رہ لوں۔بڑبڑاتے کمرے میں آتے ہی اس نے بیڈ پہ بیٹھ کر غصے میں دوپٹہ اتار کر دور اُچھال دیا تھا۔
اتنا غصہ ! خیر تو ہے۔موٹی!ہاتھوں پہ لگی مہندی پہ عرقِ غلاب لگاتے اُنہوں نے بُڑبڑاتی فرح کو دیکھ کر پوچھا تھا۔
پھوپھو ابھی آپ میرے سے بات مت کریں پلیز۔نا گواری سے کہہ کے اس نے مُڑ کر بھی ایک بار اُنہیں دیکھا تھا۔وہ شانے اچکا کر واپس سامنے بیٹھی لڑکی کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں۔جو بڑی تندہی سے ان کے ہا تھ پکڑے کام میں مصروف تھی۔فرح بھنا کر رہ گئی۔
موہی تم باہر جانا ذرا پلیز۔مجھے پھوپو جی سے بات کرنی ہے۔اُٹھ کر ان دونوں کی کُرسیوں کے قریب کھڑے اس نے لہجے کو قدرِ ہشاش بناتے لڑکی کو ادھر سے بھگانے کی کوشش کی تھی۔
ابھی تو کہہ رہی تھی بات نہیں کرنی۔مچلتی مسکراہٹ روک کر اُنہوں نے کہا۔تو وہ موہی کی چھوڑی گئی کرسی پہ دھپ کر کے بیٹھ تھی۔ساتھ ہی گہرہ سانس بھی لیا۔جیسے تنے عصاب کو پُر سکون کر نا چاہا ہو۔
میں اس وقت مذاق برداشت نہیں کروں گی۔اس لئے خاموش رہیں اور میری بات سُنیں۔ان کی بات کے جواب میں اس نے ان کے پھیلے ہاتھ کو پکڑتے عرقِ غلاب گلاتے ہوئے کہا۔تو اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
اندازہ ہے ۔کہ یہ میرے جانے کے غم سے موڈ خراب نہیں لگتا۔اس کے جھکے سر اور ماتھے پہ موجود سیکڑوں بلوں کو دیکھ کر اُنہوں نے پوچھا تو وہ اسی پوزیشن میں آہستہ سے سر ہلا گئی۔
صحیح اندازہ ہے۔
پھر بتاؤ کیا ہوا ہے۔؟
آپ کے خاندان کے لوگوں نے میرا جینا حرام کر دیا ہے۔آپ کا وہ اوباش کزن کاشف ،وہ سٹوپڈ سی اس کی بہن اور سو کالڈ چچی جان نے میرا جینا حرام کر چھوڑا ہے۔حرام ہے مجھ پہ جو میں سکون سے کچھ کھا بھی پائی ہوں۔اس کے لہجے میں غصہ دیکھ کر وہ گہرا سانس لے کر رہ گئیں۔
اچھا! کاشف نے کیا کہا ہے؟
وہ ۔۔۔(منہ میں بڑا بڑاتے) واہیات قسم کی گفتگو کرتا ہے جب میں سامنے سے گُزرتی ہوں۔بتاتے ہوئے پھو پھو کو وہ وہی پُرانی معصوم سی فرح لگ رہی تھی۔جسے بچپن سے اب تک اُنہوں نے ماؤں کی طرح
پالا تھا۔اُنہوں نے اس کے سامنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
فرح نا سمجھی سے اُنہیں دیکھنے لگی۔
فکر مت کرو۔میں بات کرتی ہوں اس سے بھی اور بھابھی سے بھی۔اور اگر کسی اور کو بھی تم سے کوئی تکلیف ہے۔تو اس کا بھی بتاؤ۔چہرے پہ نرمی کا شائبہ تک نہ تھا۔فرح کے حلق میں کچھ اٹکا۔وہ اُٹھ کے ان کے پاؤں میں بیٹھ گئی۔
پھوپھو جب آپ چلے جائیں گی ۔تب میرا کیا ہوگا۔میری تو ماں کے پاس بھی فُرست نہیں ہوتی میرے لئے۔کجا کے اپنا غم ان سے بانٹنا۔پھوپھو میں جب سے لاہور سے آئی ہوں۔چچی جان بات بے بات عجیب و غریب سے شک میں اُلجھے طعنے مارتی ہیں۔سامنے کی بوا آ کے مجھے پہ انگلی اُٹھاتی ہے۔اور آپ ہر بار مجھے بچا لیتی ہیں ۔میری سامنے بیٹھی ماں خاموش رہتی ہے۔اور جب میں اپنے حق میں کچھ بولتی ہوں تو وہ مجھے ڈانٹ دیتی ہے۔پھوپھو آپ کے جانے کے بعد میرا کیا ہوگا۔ان کے گُھٹنوں پہ ہاتھ رکھے ۔آنکھوں میں آنسو لئے وہ لپسٹک سے پاک ہونٹ کاٹتی پوچھ رہی تھی۔زہرہ جو کافی دیر سے آنسو روکے ہوئے تھیں۔ہونٹ بھینچ کر رہ گئیں۔
فری میری جان ۔۔۔شادی کر کے جا رہی ہوں۔آؤں گی۔ہمیشہ کے لئے تھوڑی جا رہی ہوں۔بے فکر رہو۔کوئی کچھ بھی کہے مجھے بتانا۔میں ہوں ناں۔فون بھی ہے۔بے فکر رہو۔۔۔جھک کر اس کے گال پہ بوسہ لے کر اُنہوں نے حوصلہ دیا تھا۔فرح کے آنسو اور تیزی سے بہنے لگے۔
پھوپھو آپ ابھی رک جائیں تھوڑی دیر۔ابھی تو میں چھوٹی ہوں۔میں آپ کی فرح آپ کے بغیر کیسے رہے گی۔فرح کو نہ جانے کیا ہونے لگا تھا۔وہ ایک دم سے سر نفی میں ہلاتی ان کا گھوٹنا ہلاتی گویا ضد کر رہی تھی۔پھوپھو نے ہونٹ بھینچ لئے۔
فری اگر میں مز ید اس گھر میں رکی تو تمہاری ماں اور چاچی مجھے بوجھ سمجھنے لگیں گی۔اور میرے بھائی بے سہارہ۔۔۔مجھے اب ایک مضبوط بیک کی ضرورت ہے۔کاش کہ ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہی ہو۔کچھ روز پہلے کے بڑی بھابھی کے کہے جملے ایک بار پھر سے ان کے کانوں میں گردش کرنے لگے تھے۔
بوا مجھے خوف ہے۔کہ کہیں زہرہ فرح کو بھی اپنے جیسا نہ بنا لے۔اور اب بھی زہرہ کی شادی نہ ہوئی۔تو آپ جانتی ہیں لوگ ہم ہی پہ انگلی اُٹھائیں گے۔اور کل کلاں کو جب میری لڑکی کی باری آئے گی۔تو میں نہیں چاہتی کہ مجھے اس کے معملے میں مصیبت اُٹھانی پڑے۔بیٹی کو اپنے بیٹے کا قاتل سمجھنے والی بڑی بھابھی اس اپنی نند کے بارے میں گفتگو کر رہیں تھیں جس نے ان کی بیٹی کو ہر گرم سرد سے بچانے کی ہر ممکن اور نا ممکن کوشش کی۔جس نے محض پانچ سا ل کے فرق کے با وجود اسے ماں بن کر تربیت دی۔اور جس کی اپنی تربیت وقت نے اس قدر شاندار کی تھی۔کہ اب فرح کو کسی اور کی تربیت کی ضرورت نہ تھی۔وہ عورت نہ جانے کیوں ان سے خار کھائے بیٹھی تھیں۔۔۔اور زہرہ جو سمجھیں تھیں۔اس نے ان کے دل کو خون کے آنسو رلا دیا تھا۔حسد۔۔۔حسد تھا اُنہیں کے زہرہ نے ان سے ان کی بیٹی چھین لی تھی۔اسی جلن نے انہیں ایک اندیکھی آگ میں جلا کر راکھ کر دیا تھا۔جس میں سے اب چنگاریاں نکل رہی تھیں۔اور اسی خوف کو محسوس کرتے اُنہوں نے شادی کو ہی بہتر حل جانا تھا۔
پھوپھو۔۔۔امی جی ایسی کیوں ہیں۔انہیں میرا خیال کیوں نہیں آتا۔انہیں میری فکر کیوں نہیں ہے۔میں ایک بیٹی ہوتے ہوئے کیوں ان سے ضد نہیں کر سکتی۔کیوں انہیں اپنا غم نہیں بتا سکتی۔کیوں نہیں کہہ سکتی ۔کہ امی میں۔۔۔میں ایک انجان شحص کے ہاتھوں تین ماہ تک بلیک میل ہو تی رہی ہوں۔امی مجھے چچی تنگ کر۔۔۔روتے ہوئے وہ جو منہ میں آتا جا رہا تھا۔بولے چلے جا رہی تھی۔جب تیزی سے کھلتے دروازے کی دھاڑ پہ وہ چونک گئی۔پھوپھو بھی حیرت کو چھپاتیں بھابھی بیگم کو دروازے میں دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئیں تھیں۔اور فرح اُنہیں۔۔۔
سبز رنگ ریشمی سوٹ پہ گرم نفیس چادر اُڑھے۔آنکھوں میں شارارے بھرے وہ ان دونوں کو کھا جا نے والی نظروں سے گھور رہی تھیں۔
فرح بی بی تو یہ دیا ہے۔تم نے ہم لوگوں کو ہمارے یقین کا صلہ۔نکلی ناں پھر اسی جیسی جس کی تربیت کا اثر تھا۔ان کی نظر میں پھوپھو کے لئے نفرت ہی نفرت تھی۔زہرہ پھوپھو کی نظر جُھک گئی۔
امی جی آپ ۔۔۔آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کہ وہ کیا کہے۔
تم اپنے ساتھ جو گند لائی ہو۔اس کا جواز دو بس ۔اس سے پہلے کے بات تمہارے باپ چچا تک پہنچے اس کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے اُنہوں نے اسے کھینچتے ،گھسیٹے دروازے کی طرف لے کر جاتے سختی سے کہا تھا۔فرح کے ہو نٹ سِل گئی۔اور پھوپھو ڈِھ سی گئیں۔
::::::::::::
نیم اندھرے میں سوندھی سوندی رچی بسی خشبو اور تازہ کئے گئے شیمپو کی خشبو نے اندر داخل ہوتے ہی اس کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔وہ ایک لمبا سانس لے کر کمرے کا جائزہ لینے لگا۔اور جائزہ لیتے بیڈ پہ رضائی کے نیچے دُبکے وجود پہ اس کی نظر سب سے پہلے گئی تھی۔
ماہ نور دنیا اور ما فیا سے بے خبر سو رہی تھی۔اور اس کی شرارتی اور معصوم لٹیں کمرے کے وسط میں کھڑے وجود کو دیکھ کر آنکھیں پٹپٹا رہیں تھیں۔اور مسکرا رہی تھیں۔
ذریت نے آگے بڑھ کر اس کے چہرے سے رضائی ہٹا دی۔اس نے دونوں ہاتھوں کی مُٹھیاں بلکل کسی بچے کی طرح بنا رکھی تھیں۔اور ٹانگوں کو اکٹھا کئے وہ شائد با وجود موٹی رضائی کے سر دی محسوس کر رہی تھی۔ذریت نے خا موشی سے ایک نظر اس چہرے پہ ڈالی ۔جہاں دنیا جہان کی معصومیت سموئے اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔اور پھر اس نے ایک جھٹکے سے رضائی برابر کر دی۔اور جیب سے سیگرٹ نکالتا ٹیرس پہ جا نکلا۔
زندگی کا سکون ،آرام اچھی نیند سب اس ایک لڑ کی کے آنے کی وجہ سے غارت ہو چکا تھا۔وہ با وجود کوشش کے اسے اگنور نہیں کر پا رہا تھا۔وہ شادی کے اس عرصے میں جان چکا تھا۔کہ ماہ نور ان عورتوں میں سے بلکل بھی نہیں ہے۔جو دعوتوں میں شہد کی مکھیوں کا کام دیتی ہیں۔وہ ماہ نور نتاشا کو آپس میں کمپئیر کر چکا تھا۔اور وہ زیادہ وقت گھر پہ نہ رہنے کے با وجود بھی جانتا تھا۔کہ ماہ نور کی روٹین کیا تھی۔وہ جانتا تھا۔کہ اس کی غیر موجودگی میں گھر میں ظفر کا آنا جانا بھی ماہ نور نے کم کر دیا تھا۔اور جب سے وہ خود کچن میں جانے لگی تھی۔ظفر کو وہاں سے بھی بھیج دیتی تھی۔وہ طفر کی موجودگی کی بنا پہ ہنستی بھی کم تھی۔سر کو زیادہ تر ڈھامپ کے رکھتی تھی۔اور جب بولتی تھی۔تو ہر قسم کے احساس سے عاری ہو جاتی تھی۔یہ تھی وہ ماہ نور جسے اس نے سمجھا تھا۔جبکہ دوسری طرف نتاشا تھی۔ہر وقت اپنی خوبصورتی کو کیش کر وانے والی۔ خو دغرض اور بے حس
۔آرٹیفشل سی۔ذریت کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آ یا تھا۔مگر عجیب اس کے ساتھ یہ ہوا تھا۔کہ اس کے اور ماہ نور کے درمیان ایسی دوستی نہیں تھی۔اور بے گانگی اور دوری اتنی زیادہ تھی۔کہ کے با و جود خواہش کے وہ اس سے اپنے مسائل نہیں شئیر کر پا رہا تھا۔وہ نتاشا سے جان نہیں چھوڑوا پا رہا تھا۔
سیگرٹ کا کش لگاتے اس کی نظر سامنے خالی آسمان پہ تھی۔جبکہ دل اور سوچ کہیں غائب۔کہا ں تھی۔یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ہاں اتنا ضرور جانتا تھا۔کہ اس وقت اس کے پاس موجود نہیں تھی۔
فون کی بجتی گھنٹی کو سُن کے اس نے جیب سے فون نکا لا تھا۔سامنے ہی سمارٹ فون پہ چمکتے ابرار کے نام کو پڑ کر اس نے تیزی سے سیگرٹ زمین پہ پھینک کر بوٹ سے مسلا اور کال اٹنڈکر کے مو بائل کان سے لگایا۔
:::::::::::::::
ما ہ نور گہری نیند میں تھی۔جب کسی کے جھنجوڑنے پہ وہ دِہل کے اُٹھ بیٹھی۔اور مُندی مُندی آنکھوں سے ملگجے اندھیرے میں دیکھنے لگی۔سامنے ہی ذریت کھڑا تھا۔ما ہ نور اندھیرے کی وجہ سے اس کے چہرے کے تاثرات پڑ ھ نہیں پا رہی تھی۔البتہ کسی انہونی نے اس کے اندر کی عورت کو سہما ضرور دیا تھا۔وہ رضائی ہٹا تی۔اُٹھ گئی۔اس کے تازہ شیمپو کئے گئے بال بِکھرے پڑے تھے۔گلے میں لپٹے سکارف پہ بل پڑ چکے تھے۔اور لباس بھی کچھ دیر پہلے تبدیل کیا ہوا معلوم نہ ہو تا تھا۔
ج۔۔۔جی! اسے لگا اس کی آ واز کسی کھائی سے آ رہی ہے۔
ما ہ نور انکل!۔۔۔انکل ۔نہ ۔۔۔نہیں رہے۔ذریت حسن سے بھی بولنا مشکل ہوا تھا۔
ماہ نور کی آنکھیں پھیل گئیں تھیں۔اس کے ہونٹ ساکت ہوئے ۔اور جسم گویا ہوا میں مُنجمد ہو گیا تھا۔اس ایک لمحے میں ذریت نے اسے انسان سے برف کا مُجسمہ بنتے دیکھا تھا۔
اس کی آنکھوں میں جو وحشت اور بے یقینی تھی۔اس نے ذریت کو ڈرا دیا تھا۔
اس نے ماہ نور کا ہاتھ پکڑنا چا ہا مگر ماہ نور۔۔۔
دل کا بند ہو جا نا ۔سانس کا رک جانا۔زمیں کا تھم جا نا کیا ہوتا ہے۔یہ اس لمحے وہ سمجھ گئی تھی۔
کچھ دیر پہلے وہ ان سے مل کے آئی تب وہ ٹھیک تھے۔ان سب نے مل کے کھانا کھایا تھا۔
وہ ذریت کے آنے پہ خوش ہوئی تھی۔اور وہ جانتی تھی۔کہ بابا اسے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
اس کا وجود ہوا میں ایک لمحے کے لئے معلق سا ہو گیا۔اور پھر رکی زمین چل پڑی تھی۔زمین نے اپنا چکر اس قدر تیزی سے کاٹا تھا۔کہ وہ چکراتے سر کے ساتھ زمین پہ بیٹھتی چلی گئی۔
ماہ نور ۔۔۔ذریت بے اختیار ہی بول اُٹھا ۔اور وہیں گُھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھ گیا۔ماہ نور کے دونوں گُھٹنے فرش کو چھو رہے تھے۔اور آنکھوں میں بے یقینی تھی۔
ذ۔۔۔ذریت م۔۔۔میرے۔۔۔میرے بابا۔لفظ اس کے منہ سے ادا نہیں ہو پارہے تھے۔
ذریت نے اس کی آنکھوں میں بے بسی دیکھ کر ہونٹ بھینچ لئے۔اور ماہ نور بُھر بھوری مِٹی کی مانند بکھرتی چلی گئی۔
میرے بابا نہیں جا سکتے۔نہیں وہ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔
نہیں اللہ پلیز میرے بابا مجھ سے مت لیں۔اللہ مجھے اس امتحان میں مت ڈالیں۔ذریت میرے بابا مجھے لا دو۔مجھے ان کے پاس چھوڑ آؤ۔وہ بلند آ واز میں رونے کی کوشش کر رہی تھی۔مگر غم کی شدت اس کے ذہن پہ اثر ڈال رہی تھی۔اور با وجود کوشش کے وہ ایک لِمٹ سے زیادہ اونچا نہیں بول پا رہی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسو بھل بھل بیہہ رہے تھے۔اور وہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پہ بیچھے قالین پہ زور زور سے مار رہی تھی۔بکھرے بال اور بکھر گئے ۔اور رونے میں شدت کے ساتھ ساتھ بے بسی بھی در آئی جیسے اپنی قیمتی چیز کو ہمیشہ کے لئے کھوتے وقت انسان کی یہی حالت ہوتی ہے۔
ماہ نور صبر۔۔۔صبر کرو۔اللہ کی مرضی اسی میں تھی۔وہ بس اتنا ہی بول پایا تھا۔ نیم اندھیرے میں ماہ نور پہ نظر پڑتے ہی اسے اپنے الفاظ کھوکھلے لگنے لگے تھے۔
میرے بابا۔۔۔
میں اب ان کو کیسے دیکھوں گی۔اب میری باتیں کون سُنے گا۔اللہ پلیز میرے بابا کو زندہ کر دیں۔اللہ میں ان کے بغیر مر جاؤں گی۔روتے ہوئے وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔
ذریت نے بڑھ کر اس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا۔
ماہ نور صبر!
صبر کرو۔اللہ کی مرضی جو ہو ۔وہی ہوتا ہے۔آذر کے مرنے کے بعد اسکی حالت کیا ہوئی تھی۔یہ صرف وہی جانتا تھا یا اس کا اللہ۔۔۔اور اب ماہ نور کی حالت دیکھ کر اسے آذر پھر سے یاد آنے لگا تھا۔اسے لگا۔ جیسے اس نے بھی آ ذر کو آج ہی کھویا ہے۔
میں کیسے صبر کر لوں۔۔۔میں نے ان کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔اتوار کے روز انہوں نے آنے کا وعدہ کیا تھا۔
اب ۔۔۔اب وہ وعدہ خلافی کر گئے ہیں۔
ذریت آج میں نے ۔۔۔میں نے اللہ سے ان کی لمبی عمر کی دعا نہیں کی۔میں بھول گئی تھی۔اور۔۔۔
اور دیکھو کیا ہو گیا۔دونوں ہاتھوں کو قالین پہ متواتر مارتے وہ چیخنے کی کوشش ک رہی تھی۔مگر ہائے۔۔۔
بے بسی سی بے بسی۔
ماہ نور روتے ہوئے سر اس کے کندھے پہ پٹخ رہی تھی۔اس کا باپ ۔۔۔اس کا دوست اس کا مدد کرنے والا۔سب کچھ ایک جھٹکے میں اس سے چھِن چکا تھا۔اور وہ یقین اور بے یقینی کے درمیان کہیں بیچ میں معلق ہو چکی تھی۔
اور پھر اسے لگا زندگی اس کے لئے رکتی چلی گئی ہے۔یا یوں جیسے زمین ساکت ہو گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار دن بعد
رات کا سناٹا پھیل چکا تھا۔
یہ رات کا دوسرا پہر تھا۔اور ہسپتال کے اس کمرے میں مرگ کی سی خاموشی تھی۔جس کے سٹریچر پہ لیٹے سفید لحاف میں لپٹے وجود نے آ نکھیں کھولی تھیں۔
پانی۔۔۔
پا۔۔۔پانی!
ماہ نور کی آواز پہ ذریت کو کچھ دور صوفے کی پُشت سے سر ٹکائے نیند میں تھا ۔ہڑ بڑا کے اُٹھا تھا۔
ماہ نور کی نیم وا آنکھیں دیکھ کے اسے کتنی خوشی ہوئی تھی۔کاش اس وقت کوئی اس سے پوچھتا۔وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا تھا۔
ما ہ نور اب تم کیسی ہو۔؟میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔وہ اس کے بیڈ کی پائنتی کے قریب کھڑا تھا۔اور چہرے سے معلوم ہوتا تھا جیسے کئی گھنٹوں سے سویا نہ ہو۔
پا۔۔۔پانی۔۔۔میرا گلا۔اپنے گلے کو دباتے وہ لڑکھڑاتے ہوئے پانی مانگ رہی تھی۔ذریت سمجھ کر تیزی سے پانی کا گلا س بھر لایا۔اور اسے کندھے سے سہارہ دیتے گلاس اس کے ہونٹوں سے لگایا۔
ذریت بابا،بھائی وغیرہ کہاں ہیں۔میں کب سے ادھر ہوں۔؟آنکھوں میں آنے والی نمی کو بار بور ہاتھوں کی ہتھیلی سے رگڑتے وہ پوچھ رہی تھی۔ذریت اس کے سامنے صوفے پہ بیٹھا دونوں کہنیوں پہ وزن ڈالے آگے کو جُھکے ہوئے تھا۔اس کے بار بار ہاتھ کی ہتھیلی سے نمی صاف کرتا دیکھ کر اُٹھا اپنا رومال اسے دے دیا۔
ماہ نور نے بھی پکڑ لیا۔
بتایا نہیں آپ نے۔۔۔اس کے جواب میں خاموش رہنے پہ وہ استفسار کر رہی تھی۔
ماہ نور ۔۔۔ماہ نور تم سو جاؤ۔صبح ہم ان کو بلا لیں گے۔
نہیں مجھے نہیں سونا۔مجھے نیند نہیں آ رہی۔منہ بنا کر اس نے کہا تھا۔
اچھا ۔۔۔ابھی تم کچھ کھاؤ گی؟آج دادی جان نے تمہارے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر بھیجا تھا۔نرمی سے بولتے ہوئے وہ اس کے قریب چلا آیا تھا۔جب تک اسے خود یاد نہیں آنا تھا۔کہ انکل اب نہیں رہے اسے لگا اسے بھی یاد نہیں دلا نا چاہے۔
آپ بس بابا کو بلا دیں پلیز ! میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔آنکھوں میں اُمڈتی نمی کو رومال سے صاف کرتے اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔ذریت نے ہونٹ بھینچ لئے۔
ماہ نور سو جاؤ۔۔۔تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔صبح بات ہوگی۔اس کے بالوں میں آہستہ آہستہ ہاتھ چلاتے وہ اسے سہلا رہا تھا۔اور ماہ نور کی بند آنکھوں سے با وجود ضبط کے آنسو قطار کی صورت نکل نکل کر اس کی گردن سے نیچے بستر میں جزب ہو تے جا رہے تھے۔ذریت نے نرمی سے آنسو اپنی پوروں میں چُن لئے۔
ایک تو۔۔۔پتہ نہیں یہ۔۔۔یہ آنسو کیوں بار بار آرہے ہیں۔
آپ۔۔۔آپ پلیز م۔۔میرے۔۔۔میرے بابا کو کال کر کے بلا دیں۔مجھے ان سے ملنا ہے۔مجھے لگ رہا ہے۔مین کافی دیر سے ملی نہیں۔گالوں کو رگڑتے وہ بیچارگی کی انتہا پہ تھی۔ذریت اس کے قریب وہیں بیڈ پہ بیٹھ گیا۔
ماہ نور جب میں کہہ رہا ہوں ۔کہ سو جاؤ۔تو شا با ش سو جاؤ۔صبح ہوتے ہی سب آ جائیں گے۔اب کی بار اس نے جانبھوج کے لہجے کو سخت بنا لیا تھا۔
سب نہیں صرف۔۔۔صرف میرے بابا۔وہ ابھی بھی اسی ضد پہ تھی۔ذریت گہرہ سانس لے کر رہ گیا۔
ماہ نور آنکھیں بند کرو۔میں چاہتا ہوں تم کچھ دیر سو جاؤ۔اس کی آنکھوں کے پٹوں کو اس نے اپنی ہتھیلی سے بند کرنا چاہا تھا۔
ذ ۔۔۔ذریت میرے با۔۔۔بابا ٹھیک تو ہیں ناں۔۔۔میں۔۔۔میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔بہت بہت بُرا خواب۔ذریت تمہیں پتہ میرے بابا۔۔۔
میرے بابا مر گئے تھے۔ذریت وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ذریت کہویہ جھوٹ ہے۔وہ ایک بار پھر سے ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے التجا کر رہی تھی۔اس کی بگڑتی حالت کے پیشِ نظر ذریت کو اسے کندھوں سے پکڑ کر واپس بیڈ پہ لٹا دیا۔اور اس کے شل ہوتے عصاب دیکھتا کمرے سے نکل گیا۔
ڈاکٹر ۔۔۔ڈاکٹر میرے بابا۔۔۔ڈاکٹر اس کے سامنے کھڑی انجیکشن بھر رہی تھیں۔اور وہ سفید تکیے پہ ڈھاڑیں مارتی سر پٹخ رہی تھی۔ذریت سامنے ہی صوفے پہ بیٹھا بائیں ہاتھ کی مُٹھی بنا ئے دائیں گھُٹنے پہ بازو کو کھڑا کئے مُٹھی کو ہونٹوں پہ جمائے بیٹھا تھا۔ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ پڑ رہی تھیں۔
ذریت آپ بہت بُرے ہیں۔آپ۔۔۔آپ نے مجھ سے میرے بابا لے لئے مجھے ان کے پاس جانے نہیں دیا۔روتے ہوئے غنودگی میں جاتے وہ کہہ رہی تھی۔ڈاکٹر نے گہرہ سانس لے کر اسے دیکھا۔اور پھر مُڑ کر پشت کی جانب بیٹھے ذریت کو دیکھا۔
مسٹر ذریت ! ان کی ذہنی حالت بہت کشیدہ ہے۔آپ پلیز ان کا خیا ل رکھیں۔چاروز سے یہ حوش وحواس سے بے خبر رہی ہیں۔دو تین گھنٹوں میں حوش آ جائے گا۔براہِ مہر بانی خیال رکھیں ۔کہ اب یہ اس ذہنی خلفشار سے محفوظ رہیں۔بُردباری سے کہتے ڈاکٹر فاطمہ نے آخر میں اس ایک نظر تین روز سے جاگتے اس شخص کو دیکھا۔اور کمرے سے نکل گئیں۔
ماہ نور پانچ منٹ بعد واپس گہری نیند میں جا چکی تھی۔ذریت نے خود کو پر سکون رکھنے کے لئے سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا۔اور آنکھیں موند لیں۔
:::::::::::::
والدین انسان کی زندگی کا وہ عظیم سرمایہ ہیں ۔جس کو کھونے کے بعد دنیا کی کوئی چیز قیمتی سے قیمتی بھی بے شک ہو ۔اس کمی کو پورا نہیں کر سکتی۔زندگی میں خلا آجا تا ہے۔وہ کبھی بھی پُر نہیں ہو پاتا۔
پتہ نہیں کیوں ہم اتنے انسانوں کی محبت کے محتا ج ہوتے ہیں ۔کہ جب وہ محبت اور محبت کرنے والے ہمارے پاس نہیں رہتے تب دنیا کی ہر چیز خالی محسوس ہو نے لگتی ہے۔
اس نے گہرہ سانس لے کر اپنے کمرے کی بالکنی سے ڈوبتے سورج کو دیکھا۔اُڑ کر واپسی کی راہ پہ گامزن پرندوں کو دیکھا۔اور ریلنگ کی طرف آ گیا۔
ابرار بھائی آپ کی کافی۔۔۔وہ دونوں بابا کی ڈیتھ کے بعد اب گھر میں اکیلے رہ گئے تھے۔خواتین ملازماؤں کو انہونے ادھر سے بھیج دیا تھا۔
سب کچھ بدل چکا تھا۔ہر چیز پرائی اور خالی سی ہو چکی تھی۔اور وہ دونوں اس بڑے سے گھر میں با لکل اکیلے ہو گئے تھے۔
بھائی ہم ماہ نور کو کچھ دن کے لئے اپنے پاس بلا لیں۔؟اس کے ساتھ کھڑے کافی پیتے بابر نے پوچھا تھا۔ابرار نے سامنے کے منظر سے نظر ہٹا کر پہلو میں کھڑے بھائی کو دیکھا۔جو بابا کی دیٹھ کے بعد سے شرارتیں کرنا بالکل چھوڑ چکا تھا۔باتیں بھی کم کرنے لگا تھا۔۔۔شائد ان کی زندگی میں ساری رونک ہی بابا کے دم سے تھی۔اب وہ نہیں رہے تھے۔تو رونکیں بھی مانند پڑ گئی تھیں۔
ماہ نور کو ہسپتال سے آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔اُنہوں نے اس سے زیادہ ملنے کا ترو دو نہیں کیا تھا۔اس سے ماہ نور کی ذہنی حالت مزید خراب ہو سکتی تھی۔ویسے وہ ملنے چلے تو جاتے تھے مگر کم کم۔۔۔تاکہ وہ خود کو جلدی سنبھال لے۔اب سب کو خود ہی اُٹھنا تھا۔اللہ کی مرضی اسی میں تھی۔چاہے لاکھ محبت سہی لیکن وہ جس کے تھے وہ ان کو لے جا چکا تھا۔اور برار یہی سمجھتا تھا۔کہ ماہ نور کو اب اتنا مضبوط بننا پڑے گا۔کہ وہ خود کو خود سنبھالے۔
بابر وہ ابھی ہسپتال سے لوٹی ہے۔یہاں آئے گی تو مزید اس کی طبیعت نہ بگڑ جائے ۔
نہیں کچھ ہوتا بھائی۔اب وہ پہلے سے کافی بہتر ہے۔میں کل اس سے ملنے اس کے گھر گیا تھا۔اس میں کافی تبدیلیاں رونماں ہوئی ہیں۔اور ہم کب تک اس کو ادھر آنے سے روکتے رہیں گیں۔پلیز بھائی مان جائیں۔۔۔اس گھر سے اب مجھے ڈر لگنے لگا ہے۔میرا دل نہیں لگتا ادھر ۔وہ بزنس جوائن کر چکا تھا۔لاکھ میچور ہو چکا تھا۔مگر ابرار کو اس کے اندر کا چُھپا بچہ پھر بھی نظر آ گیا تھا۔
اس نے گہرہ سانس لے کر اندر کے غم کو کم کرنے کی کوشش کی ۔اور سر اثبات میں ہلا کر ہاتھ میں پکڑی کافی کے گھونٹ بھر نے لگا۔نظر سامنے کی جانب تھی۔
بابر بھی پُر سکون ہو گیا۔
کاش تم آ ج میرے پاس ہوتی۔
کاش میں آج تمہیں ادھر دیکھ سکتا۔
کاش آج تم میرے بکھرے گھر کو سمیٹ لیتی۔
ابرار کے اندرفرح خان سے گفت وشنید جاری تھی۔بابا کی ڈیٹھ کے بعد اس نے اپنی تنہائی فرح کی یاد سے شئیر کی تھی۔وہ لڑکی اس کی زندگی میں پتہ نہیں کیوں آئی تھی۔اور اس کہانی کا اختتام کیا ہو گا۔اس سے وہ بلکل انجان تھا۔
کاش فرح خان تم جان سکتی۔کہ آج ابرار ابتسام کو تمہاری کتنی ضرورت ہے۔کاش فرح خان تم محسوس کر سکتی۔کہ آج ابرار کتنا اکیلا ہے۔آخری کافی کا گھونٹ لے کر اس نے جُھک کے مگ زمین پہ رکھ دیا۔اور آنکھوں پہ لگا فریم لیس چشمے کو اُتا ر کر آنکھوں میں آئی ہلکی نمی کو انگلیوں سے صاف کیا۔بابر جا چکا تھا۔شائد ماہ نور کو کال کر نے گیا تھا۔
ابرار اس وقت کریم رنگ کھدر کے شلوار سوٹ میں سیاہ رنگ موٹی چادر لپیٹے ہوئے تھا۔وقفے وقفے سے چلتی ہوا ۔اس کے ہلکے نم بالوں کو اُڑا رہی تھی۔اس وقت ڈوبتے سورج کو دیکھتے نارنجی آسمان کے تلے اُڑتے پرندوں کے پیجوں کے نیچے کھڑا وہ شخص ان پرندوں کو بہت تنہا لگا تھا۔اس کی تنہائی اس کی ذات کے ہر ہر انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
بظاہر مضبوط شخص ۔۔۔ضروری نہیں کہ مضبوط ہو بھی۔جب ایسے لوگ گِرتے ہیں تو سب سے زیادہ چوٹ بھی اِنہی کو لگتی ہے۔جو جگر کے آر پار ہوتی تکلیف کے ساتھ روح تک کو زخمی کر دیتی ہے۔ابرار ابتسام کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا۔وہ ہوا کے تھپیڑوں کے سامنے کھڑا اپنا ضبط آزمہ رہا تھا۔مگر اندر وہ کس قدر ڈرا ہوا سہما ہوا تھا۔اس تنہائی سے ۔۔۔کاش کوئی سمجھ سکتا۔
::::::::::
سلطان محمود چشتی کی کتاب ادبی کہکشائیں
سلطان محمود چشتی کی کتاب "سبیل بخشش"پر اہل فکر و فن جن میں علماء، مشائخ کرام، شعراء، ادیب، وکلاء، صحافی...