“ایسے نہیں کہو فاطی ۔۔۔میں جب جب کمزور ہوا ہوں تب تب مجھے لگا کہ میں تم سے محبت کر کے ہی کمزور ہو رہا ہوں لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے مضبوط کرو ۔۔۔اپنی محبت سے اپنی چاہت سے ” وہ آج کھل کر اظہار کر رہا تھا لیکن فاطمہ کے زہن میں پھر ثانیہ کا نام چمٹ گیا تھا احسن نے اسے سوچ میں پڑے ہوئے دیکھا تو اس کو کندھے سے پکڑ کر آہستہ سے ہلایا
“فاطی میں تمہارے سارے شکوے دور کروں گا لیکن ایسے بے رخی سے پیش تو نہ آؤ ” احسن نے روہانسے لہجے میں کہا
” مجھے درد ہو رہا ہے اور بھوک بھی لگی ہے ” فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا تو احسن کو ہنسی آئی بلکل بلی لگی تھی وہ اسے ،وہ چاہتا تھا کہ وہ نخرے کرے اور وہ اس کے لاڈ اٹھائے ۔۔۔۔یہ بلی تو اس کی جان تھی جس کو کچھ ہو جاتا تو شاید وہ بھی خوش نہ رہتا
“کیا کھانا ہے میری مانو بلی نے ؟” اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لاڈ سے کہا اور اس کی انگلیوں کی پوروں کو چوم لیا
“کچھ نہیں کھانا ۔۔۔ماما کو بھیج دیں اور آپ یہاں سے جائیں ” وہ اب نخرے دکھا رہی تھی یہی تو احسن چاہتا تھا اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور رقیہ بیگم سے کہہ کر سوپ تیار کروایا اور خود لے کر آیا تھا
” اٹھو فاطی ،سوپ پی لو ” اس نے فاطمہ کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر بٹھایا تھا اور پھر خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا اب وہ اسے سوپ پلا رہا تھا جبکہ وہ بھی چپ چاپ پی رہی تھی ۔۔۔
“فاطی ایک بات پوچھوں ؟”
جب احسن نے سوپ پلا دیا تو باؤل سائیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا ،فاطمہ چپ تھی وہ آگے سے کچھ نہ بولی
احسن نے اس کے گرد اپنے بازو جمائے اور اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ لیآ
“کیا ہوا تھا میری بلی کو ؟ جو اسطرح چکر آنے پر پھسل گئی ” فاطمہ نے ناک سکیڑتے ہوئے اسے دیکھا تھا جب کہ وہ بھی اسی پر نظریں جمائے ہوئے تھا ایسے کرتے ہوئے اس۔کی پلکیں احسن کے رخسار سے ٹچ ہو رہی تھیں
” مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ میرا پاؤں پھسلا تھا اور میں گر گئی ” اس نے بچوں کی سی معصومیت سے کہا تو احسن کو لگا جیسے اس کی پوری دنیا انہی آنکھوں میں بستی ہو
“مجھے پتہ ہے فاطی تم کیوں گری ہو ؟”
“کیوں گری ہوں بھلا ” فاطمہ کی ادائیں دل کو لبھانے والی تھیں احسن نے اس کو نرمی سے اپنے قریب کیا اور اس کی آنکھوں پر آہستگی سے اپنے لب رکھ دیے فاطمہ سے سانس لینا بھی مشکل لگ رہا تھا اس قدر قربت اسے نروس کر رہی تھی
“فاطی تم نے اس بات کو اپنے دل پہ لیا ہے کہ میں کل ثانیہ کے ہاں انوائیٹڈ تھا ”
“ایسی کوئی بات نہیں ،مجھے کیا جہاں مرضی جائیں ”
“اب تو جھوٹ مت بولو ادھر دیکھو میری طرف ” اس نے فاطمہ کی تھوڑی کو اوپر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا لیکن وہ اپنی نظریں جھکا لیتی
“بس اسی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ تم جھوٹ بول رہی ہو ۔۔۔۔۔مان جاؤ نا یار کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے ” احسن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر منوانے والے لہجے میں کہا لیکن وہ چپ رہی
“نہیں بولو گی ؟” احسن نے پھر پوچھا تھا لیکن وہ چپ ہی سادھے رہی
“مجھے منوانا آتا ہے ” اس نے کہتے ہوئے اس کے لبوں پر پیار کی نشانی ثبت کی تو وہ کانپ سی گئی دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے اسے پیچھا کیا تھا
“جو ہونا تھا ہو چکا ۔۔یہ سب اس لیے کیا کہ تمہیں یقین آ جائے کہ ہمیں اب کوئی جدا نہیں کر سکتا ”
“آپ دھوکے باز ہیں ” اس نے اسے اپنے سے دور کرتے ہوئے کہا تو وہ قہقہہ لگا کے ہنسا
“اور کیا کیا ہوں ؟یہ بھی بتا دو مانو بلی ” احسن نے اس کا نرم وملائم نازک گال کھینچا تو فاطمہ نے غصے اور نخرے پن کی ملی جلی کیفیت سے آنکھیں سکیڑتے ہوئے دیکھا اس وقت وہ احسن کو اپنے دل کے بہت قریب لگی تھی
“گندے ہیں آپ ۔۔۔میں آپ کی شکایت مامی جان سے کروں گی ” اس نے کہہ کر لیٹنا چاہا تھا احسن نے اسے آہستگی سے لٹایا تھا
“کبھی میری بھی خواہش ہے کہ تم مجھے جان کہہ کر پکارو ” اس نے شرارت سے فاطمہ کے کان کے قریب سرگوشی کی تو وہ شرم سے سرخ ہو گئی جلدی سے اپنا منہ چادر کے اندر کر لیا
“سونے دیں مجھے ”
“اوکے سو جاؤ لیکن جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ یار بہت انتظار کیا ہے تمہارا ”
“میں آپ کے ہاتھ نہیں آنے والی ”
“بیگم آپ غلطی کر رہی ہیں ۔۔۔آپ میرے ہاتھ آ چکی ہیں کر لی جتنی آپ نے اپنی مرضی کرنی تھی ” احسن جاتے ہوئے کہہ کر گیا تھا اس کے بعد فاطمہ نے چادر سے اپنا منہ نکال کر دیکھا تو وہ جا چکا تھا اس نے اپنے دل کو بہت تیز دھڑکتے ہوئے پایا تھا
“محبت تو وہ اس سے کرتی تھی لیکن کیا وہ تھوڑا سا بھی اسے تنگ نہ کرتی بدلہ تو وہ شروع سے اس سے لیتی آ رہی تھی ایسے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس بات کا احسن سے بدلہ نہ لیتی ، اپنی آنکھیں موندتی ہوئی ،لبوں پر مسکراہٹ لائے وہ اسی کو سوچتی رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ پہلے سے بہت بہتر تھی احسن دن رات اس کی فکر میں لگا رہتا تھا اب وہ بستر سے اٹھ کر کام کرنے لگی تھی ۔۔۔کافی دنوں کے بعد آج پھر وہ احسن کے بک ریک کو چیک کرنے لگی ۔۔۔ہر ڈائری ہر کاپی پر لکھے ہوئے چھوٹے چھوٹے فکرے وہ بہت غور سے پڑھتی رہی ایک خانے میں کتابوں کے پیچھے اسے ایک شاپر نظر آیا تھا اس نے دیکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا جب اسے احسن کی آواز آئی اس نے جلدی جلدی بکس وہیں رکھ دیں
” فاطی ادھر آؤ زرا ”
“جی بولیں ” اس نے وہیں سے جواب دیا تھا
“آؤ تو سہی یار ” فاطمہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کرنے والا ہے اس نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اس کی بینڈیج چیک کرنے لگا بال بلکل الجھے ہوئے تھے اور ایسے لگ رہا تھا کہ اگر ان کی کئیر نہ کی جائے گی تو وہ ٹوٹ جائیں گے
“یار اب تو چوٹ بلکل ٹھیک ہے لکن احتیاط لازم ہے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ بال وغیرے دھوئے جا سکتے ہیں اب ۔۔۔”اس نے کہتے ہوئے فاطمہ کے بالوں کو کھول دیا تھا
“ایک بات مانو گی ؟”
“بولیں ”
“کئیر کیا کرو بالوں کی ۔۔۔میری خاطر؟” اس نے فاطی کی طرف دیکھا تو اس نے حیرانگی ظاہر کی
” لو جی نئی بات سنو ۔۔۔جناب مجھے اپنے بال بہت عزیز ہیں میں جانتی ہوں مجھے ان کی فکر ہے وہ تو comb نہیں کر سکتی اس لیے الجھ گئے” اس کی بات سن کر ہنسا تھا
“اچھا صحیح ۔۔۔میں تو کہہ رہا تھا کہ نہانا ہو تو نہا لو ڈاکٹر نے پرمیشن دے دی ہے ”
“تھینک یو ” وہ کہہ کر رکی نہیں تھی بلکہ فریش ہونے چلی گئی
” اچھا سنو تو سہی ”
“اب کیا ہوا ؟” پتہ نہیں وہ بار بار اسے کیوں روک لیتا فاطمہ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اس کے ڈائیلاگز آسانی سے سن سکتی ایسا کرتے ہوئے شرماہٹ کہ باوجود اسے اپنے تاثرات بڑی مشکل سے چینج کرنا پڑتے تھے
“پلیز لاک مت لگانا ” اس کی بات سن کر فاطمہ الٹے پیروں گھومی تھی
“کیا مطلب ہے آپ کا ”
“ارے اتنا حیران کیوں ہو رہی ہو ۔۔۔پچھلی دفعہ پتہ ہے مجھ پر کیا گزری اب پلیز اگر میری مانو بلی ہو تو لاک نہ لگانا مجھے ڈر آ رہا ہے کہیں پھر نہ تم ۔۔۔۔” آگے سے وہ اس کے تاثرات دیکھ کر چپ کر گیا اور سر کھجانے لگا ۔۔۔فاطمہ بنا کچھ کہے چلی گئی تھی اور واقعی اس نے دروازہ لاک نہیں کیا تھا احسن تب تک وہیں بیٹھا رہا جب تک وہ باہر نہ آئی جب وہ باہر آئی تو اس نے شکر کیا کہ وہ بلکل صحیح ہے
” آپ ابھی تک یہیں ہیں ” فاطمہ نے اپنے لہجے میں حیرانگی سموتے ہوئے پوچھا تو وہ ہنس دیا
” ہاں کیوں کہ مجھے تمہارا زخم دیکھنا ہے دوبارہ اور دوسری بات یہ کہ میں جانتا ہوں تم comb کرتے وقت کچھ گڑ بڑ کرو گی اور تمہارا زخم تکلیف دے گا ”
“ایسی بھی بات نہیں ہے میں کر لوں گی آرام سے ”
“نہیں تم بیٹھو ادھر میں کر لیتا ہوں سب ” اس نے فاطمہ کو آئینے کے سامنے اسٹول پر بٹھایا اور پہلے تولیہ سے اس کے بال آزاد کیے اور پھر بڑے آرام آرام سے خشک کر کے برش کرنے لگا ۔۔۔فاطمہ اس کی قربت کی مہک سے مسحور ہوئے جا رہی تھی احسن بڑے پیار سے اس کے بالوں کو سلجا رہا تھا جب سلجھا لیے تو کیچر لگا دیا
“چلو بڑی زمہ داری سر انجام دے دی گئی ” احسن ہنسا تھا
فاطمہ اس کی قربت سے گھبرا کر اٹھ کر جانے لگی جب احسن نے ہاتھ پکڑ کر روک لیا اور اسے اپنے قریب کیا نہ جانے اسے کیا ہوا تھا کہ احسن نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا
فاطمہ کی تو جان ہوا ہو گئی ، وہ اسے خود سے لگائے ہوئے تھا لیکن فاطمہ کے لیے یہ مشکل ترین لمحات تھے
” وہ ۔۔۔وہ مجھے مما بلا رہی ہیں ” احسن نے اس کے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس کی آنکھوں پر باری باری پیار کیا اور پھر اس کے بالوں پر بوسہ دے کر اس کو آزاد کر دیا
“اب جاؤ اور ہاں ملتے ہیں پھر دوبارہ ” اس نے فاطمہ کی طرف مسکراہٹ اچھالی جس کے لیے ابھی بھی اپنے دل کو سنبھالنا مشکل تھا
دن ٹھہر جائے، مگر رات کٹے
کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے
خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں
شاخ در شاخ مرے ہات کٹے
حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر
بات سے پہلے جہاں بات کٹے
چاند، آ مل کے منائیں یہ شب
آج کی رات ترے سات کٹے
_____________
احسن آفس میں تھا جب اس نے فاطمہ کو کال کی تھی
“کیا کر رہی ہو فاطی ؟ ” گھمبیر آواذ فاطمہ کا دل دھڑکا گئی تھی
“کچھ نہیں فارغ ۔۔” فاطمہ نے فارغ کو زرا کھینچتے ہوئے کہا تو احسن نے ایک لمبی آہ بھری تھی
“میری مانو کبھی یہ بھی کہہ دے کہ وہ مس کر رہی تھی اپنے بلے کو ”
اس کی بات سن کر فاطمہ کا دل کیا کہ وہ زور کا قہقہہ لگائے لیکن اسے کنٹرول کرنا پڑا تھا
“کس بلے کی بات کر رہے ہیں آپ ”
“بنو مت اب مائی ڈئیر ۔۔۔۔تم بلی ہو نا میری اور میں تمہارا ۔۔۔” ابھی اس نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی جب فاطمہ نے اس کی بات بیچ میں ہی ٹوک دی
“اچھا اچھا بس ۔۔۔کام کی بات کریں ”
“کیا یہ تمہیں کام کی بات نہیں لگ رہی ؟” احسن نے اپنے لہجے میں ناراضگی سموئی
“مجھے تو نہیں لگی کم از کم ” اب وہ جان بوجھ کے بحث کر رہی تھی
“تو پھر تیار رہنا میرے آنے سے پہلے ۔۔۔”
اس کی بات سن کر فاطمہ نے تحیر سے موبائل کو کان سے ہٹا کر دیکھا تھا
“کیوں کہاں جانا ہے ؟۔۔۔”
“جانا کہیں نہیں بس میرے لیے تیار رہنا پھر میں بتاؤ گا کیوں کہا تھا تمہیں ” اس نے زومعنی لہجے میں بات کی تو فاطمہ کے کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں اس نے تھوک نگلتے ہوئے کہا
“میں بند کرنے لگی ہوں کال ”
“ہمت ہے تمہاری کہ تم میری کال بند کرو ۔۔۔۔” احسن نے بہت کچھ جتایا تھا وہ چاہنے کہ باجود بند نہ کر پائی تھی ۔۔۔اب کہاں وہ ایسے کرنے کی ہمت کر سکتی تھی بھلا ۔۔۔اسے تو احسن کی اتنی عادت ہو چکی تھی کہ وہ اسے بتا بھی نہیں سکتی تھی
“میں اب کچھ نہیں بولوں گی ” ناراضگی سے کہا گیا یہ جملہ احسن کو سکون دے گیا تھا
“تو پھر میں تمہاری خاموشی سنوں گا ” احسن کا لہجہ دھیمہ آنچ دیتا ہوا تھا
“بولو نا ۔۔۔چپ کیوں ہو ؟”
“کیا ہے میں نہیں بولتی ”
“جان نہیں ہو میری ” اس نے بڑے جذب سے کہا تھا کاش وہ اس وقت اس کے پاس ہوتا تو فاطمہ کے تاثرات دیکھتا
“پتہ نہیں ”
“جان ہو میری تم ۔۔۔اب سیدھی طرح بتا دو نا ”
“کیا بتاؤں ۔۔۔” وہ بھی اب اتنی عادی ہو چکی تھی کہ اس کی طرح آدھے ادھورے فقرے ہی بولتی
“کتنا پیار کرتی ہو مجھے ؟”
“نہیں کرتی ۔۔۔”
“جھوٹ کیوں بول رہی ہو ” وہ جانتا تھا وہ جھوٹ بول رہی ہے پاس ہوتا تو اس کے تاثرات دیکھتا
“جب گھر آئیں گے پھر بتا دوں گی ۔۔۔اللہ حافظ ” اس نے جلدی میں کہا تو احسن نے لمبی سانس کھینچی تھی
“ستا لو جتنا ستانا ہے سارے بدلے لوں گا ” فاطمہ کی ہنسی کی آواز اسے سنائی دی تھی اس۔نے تو کال بند نہیں کی تھی لیکن ایک ،دو تین پورے دس منٹ گزرنے کے بعد بھی جب فاطی نے کال بند نہ کی تو وہ اس کی شبیہہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے لاتے ہوئے ہنس دیا تھا اور خود ہی کال کاٹ دی تھی یعنی اب وہ واقعی اس کی اپنی ،جان سے پیاری مانو بلی بن چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسن کے آنے کا ٹائم ہو گیا تھا فاطمہ نے اپنی وارڈروب چیک کی تو اس کا دل کیا کہ وہ بلیک ساڑھی زیب تن کرے ۔۔۔اس نے آج بڑے ہی دل سے تیاری کی تھی بلیک ساڑھی میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی دودھیا رنگت اور بھی نکھر رہی تھی ۔۔۔ہلکا سا میک اپ ٹچ اسے اور بھی دلفریب بنا رہا تھا آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنا جائزہ لے رہی تھی جب احسن کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔اور اس کو ایسے دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا تھا چلتے ہوئے پاس آیا تو فاطمہ نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہی کیا ہے ؟۔۔۔ احسن نے اپنی طرف دیکھا اور پھر فاطمہ کی طرف ۔۔۔وہ بار بار جائزہ لے رہا تھا اور وہ حیران کھڑی تھی کہ آخر وہ کر کیا رہا ہے
“کیسا لگ رہا ہوں میں ؟۔۔۔” یعنی کہ حد ہے اس کو بتانے کی بجائے وہ پوچھ رہا تھا کہ کیسا لگ رہا ہے
“کیا مطلب ۔۔۔۔ٹھ۔۔۔ٹھیک لگ رہے ہیں ” اس نے ہکلاتے ہوئے کہا تو احسن زور سے ہنسا اور اس کے قریب جاتے ہوئے فاطمہ کو بانہوں میں بھر لیا
“او مائی گڈنیس ۔۔۔۔مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ تم کتنی پیاری ہو ۔۔” اس کی باتوں سے وہ ایکدم گھبرا گئی اور پھر باتیں سمجھ میں آئیں تو سرخ پڑ گئی تھی فاطی آج تو بلکل میری سفید اور کالی مانو بلی ہی لگ رہی ہو ” اس نے جذب سے کہتے ہوئے فاطمہ کو اپنے ساتھ لگایا تو فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے ۔۔۔نہ جانے وہ اس کی اتنی محبت سے ڈر گئی تھی یا خوشی کے آنسو تھے اسے لگا تھا کہ ثانیہ اور احسن کے درمیان ایسا ویسا کچھ نہیں ہے
احسن نے اس کا چہرہ اوپر کیا تو اس کے آنسو دیکھ کر گھبرا گیا
“فاطی کیا ہوا یار ۔۔۔میں نے کیا کہا ؟”
“کچھ بھی نہیں ۔۔۔بس ویسے ہی ”
“آر یو شیور ” احسن نے پوچھا تو فاطمہ نے سر ہلایا تھا
“ویسے میں نے کہا اور تم فورا تیار ہو گئی کوئی تو بات ہے جو مجھ سے چھپا رہی ہو پلیز اب تو بتا دو ”
اس کی باتوں سے نروس ہوتی وہ رخ پھیر گئی تھی اس کی یہ ادا احسن کو بہت پسند تھی اس نے اسے پیچھے سے کندھوں سے پکڑ کر اپنے نزدیک کیا اور اس کے رخساروں پر باری باری پیار کیا تھا فاطمہ کے لیے اب وہاں کھڑے رہنا مشکل ہو گیا ۔۔فاطمہ تو الگ احسن کو لگ رہا تھا
جیسے وہ اب فاطمہ کے بنا ایک پل بھی نہیں رہ سکتا
“فاطی میری ساری تھکاوٹ دور ہو گئی ہے ” اس نے فاطمہ کے کانوں میں سرگوشی کی تھی
“کھانا کھا لیں آپ ۔۔۔۔” فاطمہ نے گھبراتے ہوئے بات بدلنے کی کوشش کی تھی
“یار کھانے سے یاد آیا ۔۔۔آج ڈنر ہم باہر کریں گے ”
“کیوں گھر میں ہی ٹھیک ہے۔”
“نہیں یار اب میں نے آرڈر دے دیا ہے تیار تو تم ہو جب میں نے کال کی تھی تب یہی مقصد تھا میرا ” اس نے فاطمہ کے بالوں میں منہ چھپاتے ہوئے کہا تھا
“تم سے یہ پوچھنا کہ کیسا لگ رہا ہوں ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ آج میں تمہارے سامنے بلکل اچھا نہیں لگ رہا اتنی پیاری میری بیوی ہے میں تو صفر ہوں “جب کہ اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ بہت ہی ہینڈسم ہے اور فاطمہ کے ساتھ تو اس کا کپل کمال کا تھا فاطمہ یک ٹک اسے دیکھے گئی تھی کوئی اس سے پوچھتا کہ احسن پہ وہ کب سے دل ہارے بیٹھی تھی احسن نے اسے یوں اپنی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھا تو اس کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا
“کیا پیارا لگ رہا ہوں ؟۔۔۔”
“ہاں ” بس وہ اتنا ہی بولی تھی اور پھر اپنے ہینڈ بیگ کے ساتھ الجھ گئی تھی وہ اب چاہ رہی تھی کہ احسن اس کی طرف سے توجہ ہٹائے کیوں کہ اس کی نظروں کی تپش اسے کنفیوز کر رہی تھیں
“مجھے پتہ ہے تم کنفیوز ہو رہی ہو ” احسن کو اندازہ ہو گیا تھا کیا تھا وہ شخص فاطمہ کے بارے میں ہر چیز کا علم وہ رکھتا تھا
“اچھا چلو آ کر پوچھوں گا ہمیں لیٹ ہو رہا ہے ۔۔۔جلدی سے آ جاؤ ” گاڑھی کی چابی اس کے پاس ہی تھی اس لیے کچھ دیر بعد اس کے گاڑھی اسٹارٹ کرنے پر وہ اپنا ہینڈ بیگ لیکر آ گئی احسن نے فرنٹ ڈور کھولا تھا اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بڑے آرام سے گاڑی میں بٹھایا تھا فاطمہ نے اپنے کندھوں پر سندھی کڑھائی والی چادر لی ہوئی تھی جو اسے اور بھی پرفیکٹ بنا رہی تھی ۔۔۔۔احسن نے ایک ہاتھ میں اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور دوسرے سے ڈرائیو کرنے لگا
“کیا کر رہے ہیں آرام سے گاڑی چلائیں نا ” فاطمہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔
کاوشیں فرہاد احمد فگار کیں
فرہاداحمد فگار کے بارے میں کیا کہوں کہ میں اسے کب سے جانتی ہوں کیوں کہ جاننے کا دعوا مشکل...