خود پر سایہ فگن زید کے وجود کو یکے بعد دیگرے دو جھٹکے لگنے پر منیزے کی دھڑکن کا تسلسل ٹوٹا۔
دوسری بار تو وہ کراہ بھی نہیں پایا تھا۔
ایک اور فائر ہوا۔
ڈنڈا بردار حولدار کے پیچھے کسی اہلکار نے عمارت کی چھت پر اسلحہ تھامے شخص کی اور فائر کیا۔
وہاں موجود وہ ہیولا کہیں غائب ہوا۔
زید گھٹنوں کے بل تارکول کی سڑک پر بیٹھا۔
گولی کمر میں اوپر کی طرف کہیں لگی تھی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا گولی لگنے کے سبب تھا یا سر پر حولدار کا ڈنڈا یہ کہنا مشکل تھا۔ منیزے نے اسے کندھوں سے تھاما۔
یہ کیا ہوگیا تھا؟
“زید۔۔”
وہ پیچھے کی طرف گرنے لگا تو اسنے گھٹنے موڑ کر اسکے سر رکھنے کو جگہ بنائی۔
اس تپتی تارکول کی سڑک پر وہ زخم کے ساتھ پیٹھ کے بل کیسے لیٹتا۔
حولدار جو گولیوں کی گونج سے بوکھلایا تھا اسنے ایک بار پھر اس کے سر پر ڈنڈا لہرایا۔
” دور ہٹو۔۔ خبردار۔۔ خبردار جو تم لوگ اس کے پاس بھی آئے ہو تو۔۔”
منیزے کی غراہٹ پر اہلکار کا ڈنڈا ہوا میں معلق ہوا۔
” سنا نہیں تم نے۔۔ میں نے کہا دور رہو۔۔دوبارہ کبھی جیل سے باہر کی شکل دیکھنے کو ترساوں گی تم لوگوں کو۔۔ زید”
وہ اسکا سر گود میں رکھے انگلی لہراتی آگ برساتی آنکھوں سے خود بھی برس ہی رہی تھی۔
پیچھے سے آکر ایک ساتھی نے اس حولدار کا ڈنڈا نیچے کیا۔
ٹی وی پر آنے والی یہ عورت انھیں سالوں رول سکتی تھی۔ وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اپنا نام صاف کرنے کے لئے محکمہ دو تین حولدار فارغ کرتے ایک مرتبہ نہ سوچتا۔
” میڈم گاڑی ہے آپ کے پاس؟”
اس اہلکار نے بیٹھ کر زخمی کا جائزہ لیتے پوچھا۔
اسنے سامنے کھڑی زید کی گاڑی کو دیکھتے اثبات میں سر ہلایا۔ اسکی جینز کی جیب سے چابی نکالی۔
” تم۔۔ تم چل سکتے ہو؟”
منیزے نے اسکے چہرے سے پسینہ پونچھتے پوچھا۔
اسنے لب بھینچے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اس شخص کے ساتھ اسے سہارا دے کر گاڑی کی طرف چل دی۔
♤♤♤♤♤
” انٹری GSW ہے ود نو ایگزٹ exit۔۔ رائٹ سائیڈ پر ہے تو نو کارڈئیک cardiac ڈیمیج، پیروں کی موومنٹ بھی نارمل ہے تو یہ سپائینل انجری بھی نہیں ہے، ہاتھ بھی موو کر رہا ہے سو بارکئیل آرٹری Barchial Artery بھی ہوپ فلی ڈیمیج نہیں ہوئی پر اتنا بلڈ کوئی نہ کوئی آرٹری تو ڈیمیج ہوئی ہوئی ہے، شاید سبکلیوین Subclavian۔۔”
وہ گاڑی کی پیسنجر سیٹ پر بیٹھا درد سے دھیان ہٹانے کو اور خود کو جاگتے رکھنے کے لئے مسلسل طب کی اصلاحات استعمال کرتا با آواز بلند بڑبڑا رہا تھا۔
” ہومرہیج hemorrhage کی وجہ سے الٹیمیٹلی ایکسینگوینیشن exsanguination کے چانسز ہیں۔”
منیزے نے پریشانی میں قریبی ہسپتال کی طرف گاڑی دوڑاتے ایک نظر اسے دیکھا۔
اسکے چہرے پر پسینے کی دھاریں درد کی ترجمان تھیں۔
اسنے لب بھینچے۔
“کیونکہ یہ پوائنٹ بلینک شاٹ نہیں تھا تو بیلیسٹک ٹریجکٹری ballistic trajectory کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔۔ایکزیکٹ لوکیشن مجھے نہیں سمجھ آرہی۔۔ ہاں، مجھے سانس لینے میں بھی مسئلہ ہو رہا ہے، یہ درد کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے یا پھر نیوموتھوریکس pneumothorax ۔”
“منیزے کیا میرا چہرہ اور ہونٹ نیلے پڑ رہے ہیں؟”
اسنے ذرا سا رخ موڑ کر منیزے سے سوال کیا۔
” زید ہم بس پہنچ ہی گئے ہاسپٹل۔۔ تمھیں کچھ نہیں ہوگا۔۔”
اسنے جواب کے بدلے تسلی دی۔
زید کو۔ خود کو۔
اسکے نیلے پڑتے ہونٹ دیکھ اسکا اپنا وجود نیلاہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔
“تم سن رہے ہو ناں؟”
ایک ہاتھ سٹئیرنگ وہیل ہر گھماتے دوسرے سے اسکا ہاتھ تھام کر دبایا۔
“ہوں”
وہ اسے دیکھتے ہولے سے مسکرایا۔
آنکھیں اب بوجھل ہو رہی تھیں۔
♤♤♤♤♤
ہسپتال کی لابی میں انتظار کرتے ہوئے ادھر سے ادھر ٹہلتے وہ تھک کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔
نظر گود میں رکھے خون آلود ہاتھوں سے ہوتی لہو سے سرخ دامن پر ٹھہری۔
اسکی قسمت میں یہ ہسپتال کی لابیاں ہی لکھی تھیں صرف؟
ابا کی صحت یابی کے وقت ہسپتال سے جاتے ہوئے اسنے دعا کی تھی کہ اسے یہاں دوبارہ نہ آنا پڑے۔ کسی اپنے کے لئے تو کبھی نہیں۔
اسکی عرضی پر آمین کی مہر نہیں لگائی گئی، رد کر دی گئی۔
چند ماہ بعد وہ پھر وہیں موجود تھی۔
وہ کب تک عزیز ہستیوں کو زندگی و موت کے درمیان جھولتا دیکھے؟
اسنے فون پر ڈاکٹر ابراہیم کو اطلاع دی تھی۔
وہ رستے میں تھے۔
شہر کے اس حصے تک پہنچتے انھیں وقت لگنا تھا۔
ڈاکٹر سعدیہ سے وہ بات نہیں کر پائی، یہ حوصلہ اس میں نہیں تھا۔
یہاں آنے تک زید ہوش میں تھا۔
اسنے بہت کوشش سے بوجھل آنکھیں بند ہونے نہیں دیں تھیں۔
اب ڈاکٹر اسے اندر لے گئے تھے۔
ایف آئی آر اور ایسی فارمیلٹیز کے بہت سے مسائل ڈاکٹر ابراہیم کی ایک کال نے سر اٹھانے سے پہلے ہی دبا دیے تھے۔
اب بس اسے یہاں بیٹھ کر انتظار کرنا تھا۔
♤♤♤♤♤
ہسپتال کے کمرے میں اس وقت زید، سعدیہ اور منیزے موجود تھیں۔
فوری طبی امداد کے بعد ڈاکٹر ابراہیم زید کو لیاری کے قریب اس ہسپتال سے اپنے ہسپتال لے گئے تھے۔
سرجری بھی وہیں ہوئی اور کامیاب ہوئی تھی۔
اسے صبح روم میں شفٹ کیا تھا۔ اس وقت عصر کا وقت تھا۔
منیزے اسکے پاس اسٹول پر بیٹھی اسکی دواوں کو دیکھتی ایک ایک کر کے گوگل کر رہی تھی۔
یہ عادت اسے ابا کی بیماری کے دنوں کی تھی۔
سعدیہ صوفے پر موجود تھیں اور منیزے کو دیکھتے کچھ سوچ رہی تھیں۔
انکی آنکھوں کا تاثر زید اور منیزے دونوں نہیں دیکھ پائے تھے۔
” آپ کو ریسٹ کرنا چاہیے اب”
زید نے اسکا مضحمل چہرہ دیکھا۔
وہ کل سے یہاں تھی۔
” تم جاو یہاں سے۔۔جتنا کرنا تھا تم کر چکیں، بہت شکریہ”
وہ نفی میں سر ہلاتے اسے منع کرنا چاہ رہی تھی پر ڈاکٹر سعدیہ کی بات نے اسے یہ نہیں کرنے دیا۔
“مام۔۔”
زید نے انکے لہجے پر انھیں حیرت سے ٹوکا۔
” زید وہاں کیا کر رہا تھا؟ کیوں گیا تھا وہ اس ایریا میں؟”
وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو کر منیزے کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر چکی تھیں۔
اسکے چہرے پر سایہ لہرایا۔
” مام میں خود گیا تھا آپ کیوں منیزے سے ایسے بات۔۔”
زید نے انھیں پھر روکنا چاہا۔
” بیچ میں مت بولو زید۔۔ تم آج سے پہلے تو کبھی نہیں گئے اس جگہ۔۔ تم اسی کی وجہ سے گئے تھے”
انھوں نے درشتی سے بیٹے کی بات کاٹی۔
انھیں اس لڑکی سے اپنے خاندان کا پہلا تعارف یاد آیا۔
سالوں پرانی کڑواہٹ کا ذائقہ آج پھر زبان پر محسوس ہو رہا تھا۔
جب تک وہ روم میں شفٹ نہیں ہوا تھا ابراہیم نے انھیں کیوں اور کیسے جیسا کوئی سوال کرنے کے بجائے بس دعا کرنے کو کہا تھا۔
اب بھی ان کے بہت اصرار پر انھوں نے پوری بات بتائی تھی اور تب سے ان کا فشار خون قابو میں نہیں آرہا تھا۔ منیزے کی موجودگی اسے اور بڑھا رہی تھی۔
” وہ مر سکتا تھا، یہ گولی یہ کہیں بھی لگ سکتی تھی دل میں دماغ میں۔۔ خدا نے اسے میرے لئے زندہ رہنے دیا پر تم نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی”
رخ دوبارہ منیزے کی جانب کیا۔
ان کی آواز ممکنہ خطرات کے خوف سے کانپی۔
ہاتھ سے زید کی طرف اشارہ کرتیں وہ مزید کہہ رہی تھیں۔
” اسے سرجن بننا تھا۔۔ اس شولڈر انجری کے بعد مجھے اسکے ہینڈرد پرسنٹ ہینڈ فنکشن کی گارنٹی دو گی تم؟ تم نے اس کی جان کے ساتھ ساتھ اس کے خواب، اسکا فیوچر بھی داو پر لگا دیا ہے۔۔”
” میں ٹھیک تھی تم صحیح نہیں ہو اس کے لئے، مجھے تب ہی اسے روک لینا چاہیے تھا۔”
اب غصے میں پچھتاوا شامل تھا۔
صوفے پر دوبارہ بیٹھتے ہاتھوں میں سر دیا۔
وہ چپ انھیں سن رہی تھی جیسے ہاجرا کو سنتی تھی۔
اپنی صفائی میں ایک لفظ نہیں کہا۔
انکا کہا ہر لفظ محسوس کیا۔
” یو آر ڈینجرس فار ہم۔۔”
سر اٹھا کر ایک قہر آمیز نظر منیزے پر ڈالی۔
وہ اس الزام پر سن ہوئی۔
” مام۔۔”
زید نے احتجاج کیا۔
“میں چلتی ہوں۔۔۔اللہ حافظ”
وہ مزید نہیں سن پائی۔
بیگ اٹھاتے وہ اسپتال کے اس پر آسائش پرائیوٹ کمرے سے نکل گئی۔
” منیزے مت جائیں۔۔ منیزے۔۔”
وہ ٹھیک ہوتا تو ایسے دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ اسے کبھی جانے نہ دیتا۔
” مت روکو اسے۔۔ جانے دو ۔۔”
جاتے ہوئے زید کی بےبس سی پکار کے ساتھ ڈاکٹر سعدیہ کے جملے بھی کان میں پڑے۔
♤♤♤♤♤
” اسلام علیکم۔۔”
صبح گیارہ بجے اپنے فون پر ڈاکٹر ابراہیم کا نمبر جھلملاتا دیکھ اسنے کال اٹھائی۔
وہ دو دن سے ہسپتال نہیں گئی تھی۔
زید کا فون وہ نہیں اٹھا رہی تھی۔
داکٹر سعدیہ کے جملوں نے کہیں اندر تک ہلا دیا تھا۔
” وعلیکم اسلام۔۔بیٹا آپ گھر پر ہیں؟”
انھوں نے عجلت میں ہوچھا۔
غالباً وہ گاڑی چلا رہے تھے۔
“جی۔۔”
” میں آپ کے ایریا میں ہوں، سعدیہ کا ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ ہے، آپ کو پک کر لیتا ہوں میں، آپ زید کے ساتھ رک جائیے گا جب تک ہم ڈاکٹر کے پاس سے ہو آئیں۔”
وہ سعدیہ کی باتوں کے بعد اسے خود لینے آئے تھے۔
وہ لفاظی پر یقین رکھنے والے شخص نہیں تھے۔
زید کا اکیلا رہنا مسئلہ نہیں تھا وہ بس اسے جتانا چاہتے تھے کہ سعدیہ کے جذبات میں کہے چند الفاظ نے کچھ نہیں بدلا۔
انکی بیوی سے اس بات پر کافی بحث ہوئی تھی۔
” جی انکل۔”
اسنے ہامی بھری۔
یہ دو دن اسنے بہت مشکل گزارے تھے۔
وہ اسے ہسپتال میں اس حالت میں چھوڑ آئی تھی۔
اسکا فون اسکی ماں کے جملوں کے سبب نہیں اٹھا پائی تھی۔
” میں بس پانچ منٹ میں آپ کے گھر کے سامنے ہونگا۔۔”
“انکل۔۔”
وہ کہہ کر فون رکھنے لگے تھے جب منیزے نے پکارا۔
” ہوں؟
“شکریہ”
وہ انکے اسے الزام نہ دینے پر مشکور ہوئی، کسی پیچیدہ گفتگو کے بنا سب ٹھیک ہے کا عندیہ دینے پر بھی۔
♤♤♤♤
” آپ مام کی باتوں کی وجہ سے ناراض ہیں؟”
وہ اسے عینا کے لائے گئے پھول گلدان میں ڈالتے دیکھ رہا تھا۔
وہ لاتعلق سی تھی۔
خفا بھی۔
کل اسے ڈیڈ لے آئے تھے۔
وہ ٹھیک تھی۔ چپ چپ تھی پر اس خاموشی میں ناراضی کا عنصر شامل نہیں تھا۔
لیکن آج مزاج بدلا ہوا تھا۔
عیادت کے لئے آنے والوں سے بہت اچھے سے مل رہی تھی پر اس سے اسنے ایک لفظ نہیں کہا تھا۔
اسکا ایک عاد بار بلانا بھی نظر انداز کیا تھا۔
” آئم سوری فار دیٹ، انھیں پتا نہیں۔۔”
وہ سعدیہ کی کہی باتوں کے سبب بہت شرمندہ تھا۔
منیزے جیسے بنا کوئی صفائی دیے تاریک چہرے کے ساتھ گئی تھی دل پر بوجھ سا بڑھ گیا تھا۔
کل بھی اسنے ایسا کوئی ذکر کرنے سے روک دیا تھا۔
” وہ غلط نہیں تھیں۔۔ ٹھیک کہہ رہی تھیں وہ۔۔شاید میں انکی جگہ ہوتی تو یہی کرتی۔۔ میں تم سے تمھاری وجہ سے ناراض ہوں۔۔”
منیزے نے اسکی غلط فہمی دور کی۔
” میں نے کیا کیا ہے؟”
اسے شدید حیرت ہوئی؟ مریض سے کون ناراض ہوتا ہے؟
” کیوں آئے تھے تم وہاں؟”
اسنے آخری پھول غصے میں گلدان میں پھنسایا۔
” آپ وہاں تھیں وہاں خطرہ۔۔”
وہ وہاں کیوں گیا تھا یہ پوچھنے والی بات تو نہیں تھی۔
“میں نے کہا تھا تمھیں وہاں آنے کو؟ میں نے مانگی تھی مدد؟”
وہ بات کاٹ چکی تھی۔ انگلی سے اپنی طرف اشارہ کرتے سوال کیا۔
انداز جارہانہ تھا۔
” نہیں پر میں کیسے۔۔”
زید نے نفی میں سر ہلاتے کہنا چاہا۔
“وہ میرے کام کی جگہ تھی، مجھے ہینڈل کرنے آتی ہیں ایسی سچیوشنز، تم وہاں کیوں آئے؟”
منیزے نے پھر کہنے نہیں دیا۔
جب سے ڈاکٹر نے اسکے بلکل ٹھیک ہونے اور جلد صحت یاب ہونے کی نوید دی تھی اسکا دبا ہوا غصہ عود آیا تھا جو پہلے فکر پریشانی کے سبب ظاہر نہیں ہو پایا تھا۔
“میں ڈر گیا تھا منیزے۔”
اسکے پاس کوئی وضاحت نہیں تھی۔ منیزے کو خطرے میں تصور کر کے اسکی سوچنے سمجھنے کی ہر قوت سلب ہو گئی تھی۔
” تم مجھے کال کر سکتے تھے اگر اتنے فکر مند تھے۔۔ تمھاری ضرورت ہوتی مجھے تمھیں بلا لیتی میں، تمھیں وہاں آنے کی کوئی ضرورت قطعاً نہیں تھی۔۔”
گلدستے کی تھیلی کو ہاتھوں میں گولا سا بنا کر ٹوکری میں اچھالا۔
” اگر کبھی تمھاری جاب میں کوئی ہیلتھ ہیزارڈ health hazard آیا، کوئی وباء کچھ بھی۔۔ تو کیا میں آکر تمھاری فکر میں تمھارے سر پر کھڑی ہوجاوں گی؟ نہیں! کیونکہ میں کچھ نہیں جانتی طب کے شعبے کے بارے میں، میرا وہاں ہونا صرف تمھیں پریشان کریگا۔ یہ یہ بھی ظاہر کرے گا کہ مجھے تم پر ایز آ پروفیشنل بھروسہ نہیں ہے کہ تم اپنا کام ٹھیک سے کر سکتے ہو جیسے کہ تم نےظاہر کیا۔”
وہ سوال کر رہی تھی۔ ہمیشہ کا ٹھنڈا مزاج آج شعلہ بنا ہوا تھا۔
“میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا، میں کچھ سوچ ہی نہیں پایا مجھے بس آپ کو وہاں سے نکالنا تھا۔”
منیزے کے نظریے سے دیکھا جاتا تو اسنے غلط کیا تھا۔ اسے اب احساس ہوا۔
” تم میرے سیوئیر saviour نہیں ہو زید اور نہ مجھے ضرورت ہے کسی سیوئیر کی”
وہ اکتائی، سر جھٹکا۔
” تم پارٹنر ہو، ساتھی ہو۔۔ اور ہمارے رشتے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت کریں۔۔ عزت صرف زبانی کلامی نہیں کی جاتی عزت کا مطلب ہے دوسرے کی خواہش کا احترام چاہے آپ اس سے کتنا اختلاف رکھیں۔۔ عزت کا مطلب ہے ایک دوسرے کی پروفیشنل باونڈریز کا لحاظ۔۔ عزت کا مطلب ہے دوسرے پر کم از کم اتنا بھروسہ کہ وہ اپنی جاب پوری ذمہ داری سے کرسکتا ہے بنا آپ کی مدد کے۔۔”
لہجہ دھیما پڑا، پر دلیل سا۔
“تم مجھے بتاو مجھے گولی لگی تھی میں کس کے پاس آئی تھی مدد کے لیے؟”
سوال کرتے وہ اچانک پھر بپھری۔
“منیزے۔۔”
“مجھے بتاو زید ساری دنیا کو چھوڑ کر کس کے پاس آئی تھی میں؟”
اسے بس جواب چاہیے تھا۔
“میرے پاس۔۔”
اسنے دے دیا۔
کیا کوئی اپنے ہی الفاظ سے لاجواب ہو سکتا ہے؟
” اب بھی آتی میں، تمھارے پاس ہی آتی، تمھیں ہی بلاتی اگر ضرورت ہوتی تو۔۔ تم نے وہاں آکر اچھا نہیں کیا۔۔ نہ صرف خود کو نقصان پہنچایا بلکہ مجھے بھی ہرٹ کیا ہے کہ تم مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ میں کام کے دوران ایسا کوئی کرائسز ہینڈل کر سکوں۔۔”
اکتاہٹ، غصہ، مایوسی میں بدلا۔
” آئی آیم سوری۔۔۔”
اسکے لہجے کے دکھ کا اپنے سبب ہونا اسکی ہر وضاحت مار گیا۔
وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔
اسے شرمندگی ہوئی۔
” ایسا کیسے چلے گا، میری تو یہی فیلڈ ہے، تم یہی کرو گے ہمیشہ۔۔”
وہ واقعی اس نہج پر پریشان تھی۔
” ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔۔”
“منیزے۔۔”
اسنے اسے بلایا ٹھیک ہاتھ اسکی طرف بڑھا کر۔
” یہاں آئیں۔۔”
وہ یوں ہی اسے دیکھتی رہی تو مدعا الفاظ میں ڈھالا۔
وہ اٹھ کر اسکی پلنگ کے پاس آکر کھڑی ہوئی۔
اس سے زیادہ وہ اسے نظر انداز نہیں کر پائی۔
خون بہہ جانے سے اسکا چہرہ کتنا سفید پڑ گیا تھا۔
اسکے بڑھے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔
“آئی پرامس۔۔”
زید نے اسکا ہاتھ دباتے اسے وعدہ دیا۔
اور ذرا کھینچ کر پاس پڑے اسٹول پر بٹھایا۔
” ہمیں کچھ گراونڈ رولز کی ضرورت ہے”
وہ اب اسے کہہ رہا تھا۔
“کیا؟”
” جیسا کہ آپ نے کہا پروفیشنل باونڈریز کی رسپیکٹ۔۔”
منیزے اسے دیکھتے مسکرائی۔ وہ اسے سنتا تھا، سمجھتا تھا، خود سے نہ سمجھ پائے تو اسکے سمجھانے پر انا کا مسئلہ نہیں بناتا تھا۔ محبت کرتا تھا۔ آخر کار یہ تسلیم کیا۔
“ہاں”
اسنے اثبات میں سر ہلایا۔
اب وہ مزید اصول گنوا رہا تھا۔
♤♤♤♤♤♤
اسنے کمرے میں داخل ہوتے بیگ ٹیبل پر رکھا۔
زید کھڑکی پر کھڑا روڈ پر موجود ٹریفک دیکھتا بائیں ہاتھ پر سلنگ چڑھائے، دائیں سے جوس کا گلاس گھونٹ گھونٹ حلق میں اتار رہا تھا۔
وہ گھر سے آفس آتے جاتے دن میں دو بار یہاں ہسپتال چکر لگا جایا کرتی تھی۔
زید اب بہت بہتر تھا پر اسکے والدین نے اسے زبردستی ہسپتال میں رکھا ہوا تھا کیونکہ انکے مطابق کام کے سبب انکا زیادہ وقت گھر کے بجائے یہاں ہسپتال میں گزرتا تھا۔ زید یہاں ہوگا تو انھیں تسلی رہے گی۔
اس نے بہت منہ بنائے تھے۔
بڑا احتجاج کیا پر ڈاکٹر سعدیہ کی ضد اور ڈاکٹر ابراہیم کے فیصلے کے آگے اسکی نہیں چلی تھی۔
” نئی سلنگ تھی یہ، حشر کردیا تمھارے دوستوں نے ”
دور سے ہی اسکے ہاتھ پر چڑھے پٹے پر اسکی دوستوں کی کارستانی واضح تھی۔
” اب زیادہ اچھی لگ رہی ہے۔”
اسنے مسکراتے ہوئے سلنگ کو دیکھا۔
” یہ اتنا بڑا بڑا کیا لکھا ہے اس پر؟”
قریب آتے اسے کہنی کے پاس لکھا بڑا سا ایم نظر آیا۔
ساتھ کھڑے ہونے پر لفظ واضح ہوا۔
سرخ مارکر سے بڑا بڑا باقی گیٹ ویل سون کے بہت سے پیغامات کے درمیان Muneezay’s لکھا تھا۔
منیزے کی آنکھیں پھیلیں اس عجیب برانڈ لیبل پر۔
” سمیر لکھ کر گیا ہے زبردستی۔۔”
وہ جانتا تھا اسے یہ خاص پسند نہیں آنا۔
اسنے منع بھی کرنا چاہا تھا پر ایک ٹھیک ہاتھ سے دو ہاتھوں والے سمیر کو قابو نہیں کر پایا۔
” بہت ہی کوئی فضول حرکت ہے ویسے یہ”
منیزے حسب توقع بدمزہ ہوئی۔
” سچ ہی ہے”
اسے تو اچھا ہی لگ رہا تھا۔
” سچ ہے تو اسکے پوسٹر چھپواو گے۔۔ چیپ”
اسنے مسلسل کڑوی گولی چبائی ہوئی تھی جیسے۔
” میں تو یہ اپنے ماتھے پر لکھوا کر بھی گھوم سکتا ہوں۔۔ چیپ کیا ہے اس میں”
اسنے اپنا ٹھیک کندھا اچکایا۔
” تم تو خیر انسان ہی چیپ ہو، تمھیں کیوں برا لگے گا۔۔”
منیزے نے سر جھٹکا۔
“منیزے۔۔ واللہ۔۔ بالکل روبوٹ ہیں آپ۔۔”
زید نے بھی افسوس سے سر دائیں بائیں ہلایا۔
پتا نہیں اسکا کیا بننا تھا منیزے کی خشک مزاجی کے ہاتھوں۔
“پر اب جیسا بھی ہوں گزارا کریں، ہمارے ہاں ایکسچینج یا ریٹرن پالیسی نہیں ہے۔۔”
آخر میں لب و لہجہ بالکل سیلز پرسن کا اپنایا۔
” مجھے ریٹرن نہیں کرانا اور ایکسچینج اللہ۔۔کتنا فضول بولتے ہو تم۔۔”
منیزے کا قہقہہ کھڑکی سے پار ہوتا ہوا میں امر ہوا۔
♤♤♤♤♤♤
حال
” مت جائیے منیزے، پھر سے نہیں، اب نہیں۔۔”
وہ خود سے کیا، اس سے کیا ہر وعدہ بھلا کر اسکے پیچھے لپکا۔
اسے آواز دی۔
التجا کی۔
وہ ان آوازوں پر کان لپیٹ کر آگے بڑھ جاتی اگر اسکا ہاتھ زید عقب سے پکڑ کر اسے مزید دور جانے سے روک نہ لیتا تو۔
وہ اسے روکتا اسکے عین سامنے آکر کھڑا ہوا۔
ہاتھ اب بھی پکڑ رکھا تھا۔
منیزے نے ضبط کرتے آنکھیں بند کیں۔
ضبط لازم تھا، ضبط مشکل تھا۔
ناک کی سیدھ میں چلنے والوں کے سامنے ماضی آجائے تو وہ مجسمہ ضرور ہوجاتے ہیں پر وہ پتھر کے ہوں یہ لازم نہیں۔ وہ موم بھی ہو جایا کرتے ہیں۔۔ لو دیتے جملے یا آنچ دیتی نگاہ سے پگھل جانے والے۔
” پھر سے تو تم شروع کر رہے ہو سب۔۔ یہ تکلیف کے سوا تمھیں کچھ نہیں دے گا”
” عجیب ہے ناں۔۔”
وہ کہتے ہنس دیا۔
اسنے اپنے اتنے تکلیف دہ جملوں پر زید کے یوں ہنس دینے پر اسے آنکھوں میں حیرت سموئے دیکھا۔
” آپ کو اپنا کوئی الزام، میرا کوئی قصور یاد نہیں۔۔ ایک دفعہ بھی ذکر نہیں کیا آپ نے”
یہ عجیب تھا۔
وہ ہنستی آنکھوں سے اسے استہزاء لیے دیکھ رہا تھا کہ میں تو مجرم تھا ناں تمھارا؟
” آپ تو غصہ بھی نہیں ہیں اب۔۔”
غصہ تھا ہی کب۔
” جھوٹ کا یہی مسئلہ ہوتا ہے۔۔ گھڑنے والے کو کچھ عرصہ بعد خود ہی بھول جاتا ہے”
وہ اسے لاجواب دیکھ کہے جا رہا تھا۔
اسنے نظریں چرانے کے بجائے خود چھپ جانا چاہا۔
ہاتھ پر اسکی مضبوط گرفت نے یہ نہیں کرنے دیا۔
” بھول جاتے ہیں منیزے، پچھلے پانچ سال، ساری تلخیاں،جو بھی تھا۔۔ پھر سے شروع کرتے ہیں۔۔”
اسکے لہجے کی استہزاء یکدم ہی التجا میں بدلی۔
آنکھیں کاسہ ہوئیں اور آواز صدا۔
دل نے ضد کی کہ اس صدا پر اسے ہی دان کیا جائے۔ پیر رگڑے کے ان دو کاسوں میں دان کرنے کو صرف ایک ہی موزوں شئے ہے، اپنا آپ۔
” پھر سے شروع کرنا ہوتا تو ختم ہی کیوں ہوتا سب۔۔ منطق کہتی ہے جو تعلق ایک دفعہ چل نہ سکے، ٹوٹ جائے، اسے بار بار جوڑنے کی بے سود کوشش میں اپنے ہاتھ اور دل لہو لہان نہیں کرنے چاہیے، یہ پریکٹکل نہیں ہے”
کانوں پر منطق نے ہاتھ رکھے اور دل پر حقیقت پسندی نے پیر۔
” محبت میں منطق نہیں ہوتی منیزے۔ آپ نے جو میرے ساتھ کیا وہ تو اسکے سامنے کچھ بھی نہیں جو آپ اپنے ساتھ کرتی آئی ہیں۔ آپ ظلم کی حد تک پریکٹکل ہیں۔ آپ کو خود پر ترس نہیں آتا؟ میں آپکا دل ہوتا تو احتجاجاً کب کا دھڑکنا بند ہو چکا ہوتا۔”
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ دل ہوتا تو احتجاجاً دھڑکنا بند ہو چکا ہوتا؟ تو کیا اسکا دل احتجاجاً۔۔؟
کرلاتے زخمی دل نے اس جملے پر داد دی۔
کوئی تو اسکی آواز بنا۔
زخمی لہجے میں احسان جتایا کہ دیکھو میں احتجاجاً اب تک بند نہیں ہوا۔
بند ہو سکتا تھا۔ بند ہو سکتا ہوں۔ بند ہو رہا ہوں۔۔
منیزے کی آنکھوں نے ان آنکھوں میں جھانکا جہاں طغیانی کے آثار تھے اور اپنے اندر پنہاں سیلاب کو پلکوں کی باڑ چھونے سے بمشکل روکا۔
وہ اسکا دل ہی تو تھا۔
” میں فیصلہ کر چکی ہوں، ایک تب کیا تھا ایک اب کر رہی ہوں۔۔ تمھیں جلد پیپرز مل جائیں گے۔۔”
ان الفاظ پر اسنے اپنے ہاتھ پر زید کی گرفت ڈھیلی پڑتی محسوس کی۔
چہرے پر غم اور بے یقینی کی دراڑیں پڑیں۔
اسنے اسکا چہرہ دیکھا۔
پاکستان آنے پر پھر پچھتائی۔ زید کے روکنے پر یہاں رک جانے پر پچھتائی۔
یہ ایک منظر قسمت کو ہر چیز کے بعد اسکے حصے میں نہیں لکھنا چاہئے تھا۔
یاداشت کی سلیٹ پر یہ چہرہ اس تاثر کے ساتھ درج ہوگا تو وہ کیسے جیے گی؟ کیسے مرے گی؟
” آپ نے مام کو کہا تھا کہ آپ ڈائیورس نہیں چاہتیں”
وہ جھٹلانا چاہتا تھا۔
” میں نے کہا تھا میں انکے کہنے پر کچھ نہیں کروں گی۔۔ میں کسی کے کہنے پر کبھی کچھ نہیں کرتی اتنا تو تم مجھے جانتے ہو۔۔”
یہ اس قدر مشکل مکالمہ انکے درمیان نہیں آنا چاہیے تھا۔
ہر مشکل کے بعد اب نہیں۔
” اس ایک تجربے کے بعد دوبارہ کوئی نیا رشتہ بنانے کا سوچا ہی نہیں۔ نیا تعلق نہیں جوڑا تو پرانا توڑنے کا خیال بھی نہیں آیا پر اب تم سے مل کر لگتا ہے کہ غلط کیا۔۔”
غلط تو کیا، اب بھی کر رہی تھی۔ اس ایک شخص کے ساتھ وہ صحیح کرتے کرتے ہمیشہ غلط کر جاتی تھی۔
” نہیں کرنا چاہیے تھا۔”
سر نفی میں دائیں بائیں ہلایا دراصل نظر چرائی۔
پھر رخ موڑا، قدم بڑھائے۔
اب کے کسی نے عقب سے نہیں روکا۔
ہاتھ نہیں تھاما۔
آواز نہیں دی۔
اسکے چند الفاظ نے استحاق چھین لیا تھا۔
چند مزید قدم پر سماعتوں سے وہ الفاظ ٹکرائے۔
” مجھے لگتا تھا آپ واپس آجائیں گی۔۔ آج آپ نے میرا یقین توڑ دیا۔۔ دل کا ٹوٹنا تو اب قصہ پارینہ ہوا۔۔”
وہ خود کلامی تھی۔
اسے قصوروار ٹھہرانے سے زیادہ خود کو یقین دلاتا انداز۔
” میں اب آپکا انتظار نہیں کروں گا۔۔ نہ آپکا نہ آپ کی طرف سے بھیجے گئے کسی کاغذ کا”
کب تک یہ ایک منظر خود کو دہرائے گا؟
” یہ ایک چیز میں اب نہیں کروں گا”
انکے درمیان پھر منیزے کے گھر کا بیرونی دروازہ آن ٹھہرا تھا۔ جس کے ایک پار زید مایوسی میں لتھڑے دکھ کو زبان دے رہا تھا اور دوسری طرف منیزے ہونٹوں پر ہاتھ رکھے اپنی آہ دبا رہی تھی۔
وقت آگے بڑھ کر بھی وہیں کھڑا تھا۔
اسے شکوہ ہوا۔
یہ ملاقات اگر لکھی ہی تھی تو چند دن قبل بھی ہو سکتی تھی۔ آج کیوں؟ اب کیوں؟
یہ ایک شخص جو اس کے لیے تمام عالم سے زیادہ قیمتی تھا کیا اسکا دل ہر بار اسی کے ہاتھوں ٹوٹنا تھا؟
اسنے اسے اس کے لئے چھوڑا تھا، آج اپنے لئے کیسے اپنا لیتی؟ تب انکے درمیان بے غرضی آئی تھی اور آج خودداری۔۔
وہ مڑ گیا۔
مام نے اسکے ساتھ ظلم کیا تھا۔
♤♤♤♤♤
ممتاز نعت گو شاعر اور دانشور پروفیسر ریاض احمد قادری
خاندانی پس منظر میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا...