(Last Updated On: )
ہم اپنے خون سے اس کا بدن تراشتے ہیں
بڑے خلوص سے شکلِ وطن تراشتے ہیں
ترے خیال کی لو سے نگار خانے میں
کسی چراغ کا پھر بانکپن تراشتے ہیں
ہماری حسرتِ تعمیر پر نہ نام رکھو
کہ کم سواد بھی اپنا چمن تراشتے ہیں
کبھی یہ دشت میں مجھ کو خیال آتا ہے
کہ عشق پیشہ یہاں کیسے بن تراشتے ہیں
کبھی بناتے ہیں کس شوق سے وہ زلفِ سیہ
کبھی وفور میں چاہِ ذقن تراشتے ہیں
ہمارے اشک نہیں یہ فلک کے تارے ہیں
ہمارے لفظ نہیں ہم سخن تراشتے ہیں