وہ میٹنگ میں مصروف تھا جب اُسکے سیل فون کی بتی جلنے بجھے لگی۔ اُس نے اپنی پریزنٹیشن جاری رکھی۔
میٹنگ کے اِختتام پر ہمیشہ کی طرح اُسنے داد و تحسین اکٹھی کی ۔ مگر اُسکا دھیان مکمل طور پر آنے والی فون کال کی طرف ہو چُکا تھا۔فون اُسکے گھر سےآرہا تھا۔ اور فون کرنے والے اُسکے دِل وجان سے عزیز بابا تھے۔ حیران تھا کہ اُسکے دِل دُکھانے کے عمل کےبعد بھی وہ اُسے یاد رکھتے تھے۔ بھول جاتا تھا کہ وہ ان کا خون تھا۔ خون دور ہو سکتا ہے۔بھول نہیں سکتا۔
ہماری چشم کی حیرانیوں میں
اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اُس نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئےاپنے کیبن کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر وہ کرسی پر بیٹھا اور لیپ ٹاپ آن کر کے لائن (ویڈیو کالنگ ایپ ) آن کیا اور۔ ۔ ۔ ۔
یہاں پہنچ کر اُسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ مما یا بابا سے وہ کیا بات کرے گا۔بابا آن لائن تھے۔ کچھ سوچتے ہوئےاُس نے بابا کے اکاؤنٹ پر کلِک کیا۔ کال جانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد بابا نے کال ریسیو کر لی تھی۔ اُس نے بابا کی آواز سُنی تو دِل بھر آیا تھا۔ مگر اُس نے اُن پر کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔
وہ مگن سے انداز میں بات کر رہا تھا۔ مما اس سے بات کرتے ہوئے رو پڑی تھیں۔ بابا اُن کو دلاسے دے رہے تھے۔وہ دل ہی دل میں شرمندہ تھا مگر کیا کرتا وہ جانے کیوں مجبور سا تھا ــ شائد انا کے ہاتھوں۔۔ وہ گھر جانا چاہتا تھا لیکن جا نہیں پاتا تھا۔
یونہی باتوں کا سلسلہ منقطع ہوا تو وہ پھر سے کام میں مصروف ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دروازے پر کھڑی کب سے ناک کر رہی تھی مگر دروازہ تھا کہ کُھل کے نہیں دے رہا تھا۔ جب وہ مایوس ہو کر جانے لگی تو ساتھ والے اپارٹمنٹ سے ایک خاتُون برآمد ہوئیں۔ وہ آنکھیں سُکیڑ ےاُسے دیکھ رہی تھیں۔ اُس نے موقع غنیمت جانا اور اُن سے اس اپارٹمنٹ کے متعلق پوچھا۔ جس پر انہوں نے بتایا کہ اس وقت سب اپنے اپنے کاموں کی غرض سے باہر ہوتی ہیں۔ اس نے اس لڑکی کا حلیہ بتا کر اسے سے متعلق پو چھا۔وہ مسکرا دیں۔وہ ایک چھوٹے سے قد کی خا تون تھیں اور چہرے پر نرمی کے آثار تھ’ یعنی اچھی خاتون ہیں ۔’اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔
“تُم کہیں ایشین بیوٹی کی بات تونہیں کر رہی؟” اُنکی آواز نے اُسے متوجہ کیا۔ وہ تذبذب میں انہیں دیکھنے لگی۔ تو وہ گویا ہوئیں
“یہاں سب ایشین لڑکیاں رہتی ہیں مگرایک ہی اسکارف لیتی ہےاور باقی کے مُقابلے میں بہت پیاری اور اچھی بچی ہے۔ اسی لیے بس میں نے نام رکھ دیا۔ اکثر ملنے آتی ہے مجھے۔تمہیں اس سے کیا کام ہے؟”اُسے تفصیل بتاتے ہوئے آخر میں تھوڑی مشکوک ہوئیں۔
“مجھے ملنا تھا اُس سے۔ مگر لاسٹ ٹائم بھی وہ نہیں ملی۔” پرِیا مایوسی سے بولی۔
“وہ کم ہی گھر پر ملتی ہے۔ وہ یا تو یونیورسٹی میں ہوتی ہے یا پھر جاب پر۔ تمہیں اُس سے کیا کام ہے؟ کیا تم اسکی دوست ہو؟ یا کزن ہو؟ تُم بھی پاکستانی ہو کیا؟” خاتون کافی باتونی تھیں پرِیا کو اس بات کا اندازہ تو ہو ہی چُکا تھا۔
“امم۔۔۔ کیا آپ مجھے اسکی یونیورسٹی یا جاب کی جگہ کا ایڈریس دےسکتی ہیں؟” اسنے کسی بھی بات کا جواب دینے کی بجائے اپنے مطلب کی بات پُوچھی۔
“تمہیں معلوم نہیں ہے کیا؟” وہ حیران ہوئیں۔
“جی” بُری پھنسی تھی فقط مُسکرا کے نہ ہاں میں جواب دیا نہ ناں میں اور واپسی کے لیے مُڑ گئی۔
“ویسے میں مسز جوزف ہوں” اُن کی آواز آئی تو وہ بھی پلٹ کر مسکرائی اور واپس مڑ گئی۔
خاتُون بھی کندھے اچکا کر آگے بڑھ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کیا گند پھیلا ئے رکھتی ہو اپنا۔” کاتفہ نے اُسکا گاؤن اور اسکارف اُٹھایا اور گول مول کر کے اُسکے بنک پر پھینک دیا۔
‘کاتفہ میں اُٹھانے ہی والی تھی ابھی تھکی ہوئی۔۔۔”
“کیا تھکی ہوئی؟ ہر وقت تھکی رہتی ہو زندگی عذاب کر رکھی ہے تم نے۔ اپنی چیزیں اپنی الماری اور بنک تک محدود رکھا کرو۔” ابھی وہ بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی جب کاتفہ نے اُسکی بات کاٹی اور پھر اُسکے سینڈلز کو پاؤں مارا جِس سے وہ لڑھکتے ہوئے دروازے کے پاس جا پہنچے۔اس نے بحث کرنا مُناسب نہ سمجھا اور اپنی سینڈلز اُٹھانے آگے بڑھ گئی۔
کاتفہ ایک افغانی لڑکی تھی جس کے ساتھ رہنے پر اُسےاِن باتوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ اس اپارٹمنٹ میں تین ہی کمرے تھےجن میں سے باقی کے دو کمرے دوسری دولڑکیوں کے تھے جبکہ یہ ایک کمرہ اُسے کاتفہ کے ساتھ شئیر کرنا تھا کیونکہ وہ اکیلی اُس کمرے کے ڈیوز دینے کی متحمل نہیں تھی۔ کچن بہر حال مُشترکہ تھا۔کاتفہ اپنے نام کی طرح ہی تھی ،دوسروں کو نفرت کی حد تک نا پسند کرنے والی۔ وہ اُسے اپنے کمرے میں رکھنا نہیں چاہتی تھی مگر وہ بھی مجبور تھی کہ مکمل ڈیوز تو وہ بھی ادا نہیں کر سکتی تھی۔
مگر وہ اپنے ارد گرد کی ہر چیز سے اُکتائی رہتی تھی ۔اِنسانوں تک سے اُسے وحشت ہوتی تھی۔ لیکن چونکہ کھانا بنانا اسکی ذمےداری تھی تو کاتفہ کو آخر خاموش ہونا ہی پڑتا تھا ۔ وہ لڑنے بھڑنے کے باوجود اُسکو ساتھ رکھ رہی تھی کیونکہ اُسےوہ جتنی بھی بری لگتی ہو بہر حال بہت معصوم اور بے ضرر تھی۔
دوسری طرف اُسکا کاتفہ کے ساتھ رہنا ناگزیر تھا کیونکہ وہ نہ تو اکیلی رہ سکتی تھی نہ ہی اکیلی ایک کمرے کے ڈیوز دے سکتی تھی ۔ اُس میں اکیلی اپنے کھانے پینے کا خرچ اُٹھانے کی بھی ہمت نہیں تھی۔
وہ اٹھی اور کھانا بنانے چل دی کہ جتنی بھی تھکاوٹ ہوتی ڈیوٹی تو آخر ڈیوٹی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ واپس آئی تو سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اُسے خود پہ شدید غصہ تھا ۔ نینی اُسے آوازیں دیتی رہیں مگر اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔اسے خود پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا۔ ایک تو اُس دن لڑکی سے نام نہیں پُوچھ پائی اوپر سے اب وہ مل کے نہیں دے رہی تھی۔ پہلی دفعہ کسی کو دوست بنانا چاہا تھا اور پہلی ہی دفعہ میں دل خراب ہو کے رہ گیا تھا۔
“اب کیا کروں” منہ بسورتی ہوئی وہ لگاتار یہی سوچے جا رہی تھی۔
وہ اُٹھی اور اپنا ٹیب نکال کر بیٹھ گئی۔ اُس نے دیکھا ڈیڈ کی کئی مسڈ کالز تھیں ۔ اُس نے اُنہیں کال بیک کی مگر مایوسی ہوئی کیونکہ ڈیڈ آن لائن نہیں تھے۔ مزید غصہ آیا۔ ٹیب کو بیڈ پر پھینک کر وہ نینی کو بتائے اور بُلائے بِنا باہر نکل گئی جبکہ نینی آوازیں دیتی رہ گئیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج بھی وہ معمول کی طرح بیٹھا جھیل سے پرے گھاس کو گھور رہا تھا۔ اُسے آج سورج کی سُرخی سے کچھ عجیب سی وحشت ہو رہی تھی۔ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ خاموش تھا۔مگر آج وہ کسی کی نظریں خود پہ محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے چونک کے اِردگِرد دیکھا مگر سب اپنے آپ میں مگن تھے۔ وہ دوبارہ سے جھیل کے پانی کو دیکھنے لگا۔
لوگ اُس کے پاس سے گُزر جاتے کیونکہ کسی کو اُس سے غرض نہیں تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسے کسی سے کوئی غرض نہ تھی۔
لیکن پھر بھی کچھ تو عجیب تھا آج۔۔
وہ کافی دیر سے اپنی جگہ پر بیٹھی اُسے نوٹ کر رہی تھی۔ مگر دوسری طرف کوئی تبدیلی نہیں تھی۔ وہ جیسے پہلے دن بیٹھا دیکھا گیا تھا آج بھی ویسے ہی تھا ۔ اُس کے لگاتار دیکھنے پر وہ کچھ چونکا تھا اور آنکھیں چھوٹی کر کے اُسے غور سے دیکھا پھر سر جھٹک کے دوبارہ اپنے مشغلے میں مصروف گیا۔
وہ غصے سے اُٹھی اور اُسکی طرف چل دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال صاحب آج کل پُرسکون تھے کہ بیٹے کی آوازسُن کے دل کو ڈھارس بندھی تھی۔ اب کئی دن آرام سے گزرنے والے تھے۔ دوسری طرف عائشہ بیگم بھی اڑی اڑی پھرتی تھیں۔ ابھی بھی جب وہ آفس سے واپس آئے تو عائشہ اُنکے پاس آگئیں ۔
“جمال آج سعدیہ کی کال آئی تھی ۔ میں نے اسے بتایا کہ عُنید سے بات ہوئی تھی۔” وہ مُسکراتے ہوئے بتا رہی تھیں۔ جمال صاحب مطمئن ہوئے۔
“اچھا! تو کیا کہتی وہ؟” مسکراتے ہوئے استفسار کیا ۔
“کچھ نہیں پہلے تو چُپ سی ہو گئی پھر اپنے معمولات بتانے لگی۔ جمال مجھے وہ کچھ پریشان سی لگتی ہے۔”
“بیٹی کی ماں ہے پریشان تو ہو گی ناں بیگم!” وہ سنجیدہ سے ہو کر بولے۔
“ہاں مگر میں نے تسلی دی تھی اُسے۔ عُنید کا موڈ اچھا تو تھا جمال صاحب” عائشہ پرعجیب ہی کیفیت طاری تھی۔ ایک طرف بہن کا دکھ تو دوسری جانب اولاد کی بے رخی کا غم۔
“ہم پانچ سال سے تسلیاں ہی دے رہے ہیں عائشہ!”
“میں کیا کروں جمال ! اِتنے عرصے بعد تو میرے بیٹے نے کال کی تھی اُسے ذرا سا بھی کہتی تو اکھڑ جاتا۔ میں تو چکی میں پِس رہی ہوں ” وہ روہانسی ہوئی تھیں۔
“ارے ارے آپ تو رونے لگیں ۔ حوصلہ رکھیں بیگم ہم مل کر کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے ” جمال صاحب نے اُن کو تسلی دی۔
” انشاء اللہ ! چلیں آپ فریش ہو کر آجائیں میں کھانا لگاتی ہوں۔” عائشہ بیگم یہ کہہ کر باہر نکل گئیں جبکہ جمال صاحب پریشان بیٹھے رہ گئے۔بھلا یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اپنی بیگم کو حوصلہ دینے کے بعد خود نارمل رہ جاتے۔۔۔
لیکن رب ہے ناں دلاسے دینے والا۔
“اور بھروسہ کر اس ذات پر۔ جسے موت نہیں آئے گی”
(الفرقان:58)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چاند کی مٹی سے ہوا؟
چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن...