وہ اپارٹمنٹ سے سیدھی اُس پتے پر چل دی ۔ بیل پہ ہاتھ رکھا تواُٹھانا ہی بھول گئی۔
کسی کے قدموں کی آواز قریب آتی سنائی دی مگر اُس نے منہ موڑے رکھا اور بیل سے بھی ہاتھ اٹھانے کی زحمت نہیں کی۔دروازہ کھول دیا گیا تھا۔ اس نے دروازے کی طرف نظریں گھمائیں ۔ وہاں وہی لڑکی کھڑی تھی۔ پرِیا نے بے ساختہ ٹھنڈی سانس خارِج کی۔
“کہاں گم ہو گئیں تھیں تُم ۔ میں تو تمہیں ڈھونڈنے کے چکر میں نا پید ہونے والی تھی” بِنا اِجازت لئے پرِیا اندر داخل ہو گئی تھی۔ جبکہ لڑکی ابھی وہیں کھڑی تھی۔
وہ واپس مُڑی۔ اُسے وہیں کھڑے دیکھ کر آنکھیں سُکیڑیں۔
“اندر نہیں آنا چاہیے تھا کیا مجھے؟” پرِیا نے پُوچھا۔
” نہیں دراصل میں ابھی تک حیران ہوں ” وہ خفیف سا مسکرا کر آگے بڑھ گئی تو پرِیا بھی اُس کے پیچھے چل دی۔
وہ ایک چھوٹا سا اور تنگ و تاریک اپارٹمنٹ تھا۔پرِیا کو سمجھ نہ آیا کہ وہ وہاں سانس کیسے لیتی ہوگی۔
“ویسے۔۔۔”پرِیا نے ویسے پر زور دیا تھا۔
” پہچان تو لیا ہے ناں؟”
“امم۔۔ شائد نہیں” مسکراہٹ ہونٹوں کے گوشوں سے چھب دکھا رہی تھی جِسے چھپانے کو لڑکی نچلا ہونٹ بھینچے ہوئے تھی ۔
” واؤ ! مجھے اچھا لگا سُن کر” پرِیا کی آنکھوں میں شرارت تھی۔
” خیر یہ بات بھی نہیں ہے۔” لڑکی جھینپ گئی تھی۔” دراصل آپ اِس مُلک کی ایک اچھی اور معیاری فیلڈ یعنی پینٹنگ میں ایک نام رکھنے والی وہ واحد شخصیت ہیں جو مجھے واقعی کھوجتی رہی ہیں”
“باقی چھوڑو یہ بتاؤ اتنا لمبا فقرہ بول کیسے گئیں تم؟” اُسنے کہا تو وہ لڑکی ہلکا سا ہنس دی۔
وہ دونوں کمرے میں آچُکی تھیں ۔ لڑکی اس دن سے مختلف حُلیے میں تھی ۔اُسنے گلابی لمبی اور کھلی قمیض کے ساتھ کالے رنگ کا چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ جبکہ بال فرنچ ٹیل میں بندھے تھے جو اُسکی کمر تک آتے تھے۔ ایک مفلر سر پر ٹکایا ہوا تھا۔ پرِیا نے ایک آدھ حسرت بھری نظر اُسکی چوٹی پر بھی ڈالی تھی کیونکہ اُسکے اپنے بال کندھوں سے بمُشکل نیچے آتے تھے جِنہیں وہ پونی ٹیل میں جکڑے رکھتی تھی۔
پرِیا سامنے ایک بنک پر بیٹھ چُکی تھی ۔ اور لڑکی اُسکے وہاں بیٹھنے پر کنفیوز ہو رہی تھی۔
“مانتی ہو ناں پھر؟” پرِیا آنکھیں مٹکاتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔ جبکہ لڑکی اُسکی بات سمجھ نہیں پائی تھی۔ سو سوالیہ انداز میں دیکھنے لگی۔
“ارے بھئی مانتی ہو ناں کہ میں نے تمہیں ملکوں ملکوں ڈھونڈا ہے؟” وہ لڑکی ہلکا سا مسکرا ہی پائی تھی۔
“میں تمہاری وہ مسز جوزف سے ملی تھی۔ بہت بولتی ہیں بھئی وہ تو۔ میں بھی اِتنا نہیں بولتی ۔ شکی بھی بہت ہیں ۔” پرِیا مسلسل بول رہی تھی جبکہ لڑکی خاموشی سے بس اُسے دیکھ رہی تھی۔”کیا ہوا؟”پریا نے ابرو اچکا کر پوچھا۔
“کچھ نہیں۔ آپ یہاں اِس بنک پر آجائیں ۔ میں کچھ لاتی ہوں آپ کے لئے” کہہ کر لڑکی باہر نکلنے کو تھی جب پرِیا نے ہاتھ پکڑ کے بِٹھا لیا تھا۔”سُنو ! میں بس ملنے آئی ہوں تم سے۔ تم نے نام نہیں بتایا اپنا۔”
“عُنیزہ” وہ جلدی میں بولی تھی ۔
“کیا؟” پرِیا ابرُو اُچکا کر بولی تھی۔ جبکہ لڑکی کنفیوزسی دکھائی دیتی تھی۔
“عُنیزہ”
“یہ تم ہمیشہ بس اتنی سی ہی بات کرتی ہو؟” وہ خاموشی سے بس ہلکا سا مسکرا دی تھی۔
“بہت مشکل نام ہے تمہارا یار۔ میں مسز جوزف کی طرح نِک نیم ہی لونگی تمہارا۔”
“اِتنا بھی مُشکل نہیں ہے اب۔” وہ خفت سے لال ہوئی۔
“ارے بہت مُشکل ہے میں نہیں لے سکتی۔میں تمہیں ‘نیمو’ کہہ کر بُلاؤں گی۔”پرِیا نے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے جیسے فیصلہ دیا تھا ۔
“میں کچھ لے آؤں اب کھانے کو؟ بہت باتیں ہوگئیں اب تو” اِس سے پہلے کہ پرِیا اگلی بات شروع کرتی وہ اُٹھی اور جلدی سے باہر نکل گئی۔
اور پرِیا کمرے کا جائزہ لینے لگی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسکی عادت تھی صُبح سویرے جاگ کر نماز ادا کرنے کی۔ اس کے بعد جاگنگ کے لئے جانا بھی اُسکی عادتوں میں شامل تھا۔ مگر جب سے وہ یہاں آیا تھا تب سے جاگنگ والی عادت بس نام کو رہ گئی تھی۔ وہ جاتا ضرور تھا مگر وہاں ویسا کچھ نہ تھا جیسا اُس کے پاکستان میں تھا۔ وہ خاموشی سے بس اپنی روٹین پوری کرتا تھا ۔ جاتا اور بس آجاتا تھا۔
کچھ دن سے ایک لڑکی اُس کو لگاتار نوٹ کر رہی تھی۔ یہ بات اُسکے علم میں تھی مگرکل جیسے اکر اُسنے اُسے مُخاطب کیا تھا وہ حیران تھا۔ اُسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ آکر بات کرے گی اور وہ بھی اتنی بے تکلفی سے ۔ اُسے شدید تاؤ آیا تھا ۔
اُسے یاد تھا کہ جب وہ جھیل کے پاس بیٹھا تھا وہ لڑکی اُسکے پاس آئی تھی ۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب وہ اچانک سے آئی تھی اُس کا منہ غصے سے سُرخ تھا۔
“ہیلو!”
وہ ابھی بھی اپنی سوچوں میں گم تھا ۔ لڑکی نے اپنا ہاتھ اُسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا تو وہ چونکا اور سر اوپر کو اُٹھا یا تھا جِس سے لڑکی کے چہرے پر حیرت نے جگہ بنا لی تھی ۔
“اپالُو” وہ بے ساختگی سے بولی تھی۔
“واٹ؟” وہ اُلجھا تھا ۔ اُسکومخل کیا جانا بُرا لگا تھا۔
“آآ۔۔۔آئی مین ہاؤ آر یو؟(میرا مطلب ہے کیسے ہوتُم؟)” وہ فوراً سے بولی تھی ۔مگر اُسنے سر جھٹک کے خود کو جواب دینے سے باز رکھا تھا ۔
“میں کافی دن سے تمہیں آبزرو کر رہی تھی تُم یہیں بیٹھتے ہو۔ کیا یہ جگہ بہت خاص ہے؟” وہ انگلش میں اُس سے باز پُرس کر رہی تھی۔ اُسے شدید قسم کا تاؤ آیا ۔ کیا مصیبت تھی یہ بھی کہ کوئی اسے نوٹ کر رہا تھا ۔
“نام کیا ہے تمہارا؟” جب اُسنے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ مزید گویا ہوئی تھی۔ جبکہ وہ جھٹکے سے اُٹھ آیا تھا۔بے شک یہ ایک قطعاً غیر اِخلاقی حرکت تھی مگر اسکے اپنے حق میں بہت بہتر تھی۔ آج بھی وہ اُس لڑکی کی وجہ سے جانا ہی نہیں چاہتا تھا مگر مرتا کیا نہ کرتا عادت سے مجبور ہو کر چلا گیا تھا ۔اور آج اس لڑکی کو وہاں نہ پا کر سکون کا سانس لیا تھا۔سوچیں کہاں سے کہاں لیے جا رہی تھیں۔
وہ اچانک خیالوں سے چونکا تو یاد آیا کہ آج اسے پروجیکٹ کو فائنلی جمع کروانا تھا۔ وہ کام میں مگن ہوگیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“سعدیہ! تم نے بتایا نہیں پھر کب تک آنے کا پروگرام بناؤ گی بھئی؟” عائشہ اپنی بہن سعدیہ کو اپنی طرف بُلا رہی تھیں ۔
“ابھی نور کے بابا سے بات ہی نہیں کی آپا! ” سعدیہ کی کمزور سی آواز سُنائی دی تھی۔
“آجاؤ سعدیہ کب آؤ گی اب؟ جب میں نہیں رہونگی تبھی کیا میرے گھر کا رُخ کرو گی؟” عائشہ سرسراتے لہجے میں گویا ہوئی تھیں اور سعدیہ کی سمجھ نہ آتا تھا کہاں منہ چھپا لیں کہ ایک طرف بہن تھی تو ایک طرف بیٹی۔
“میں آج بات کروں گی نور کے بابا سے اور پھر آپ کو معلوم ہے کہ نور نے کالج آنا جانا ہوتا ہے۔ اگر میں اور کبیر صاحب آتے ہیں تو نور کو کس کے سہارے چھوڑ کر آئیں گے” سعدیہ نے آنسو چھپانے کو لہجہ ہموارر کھا کہ بہن لہجے سے ہی دل کی بات جان لیا کرتی تھی۔
“تو اُسے بھی لے آؤ سعدیہ۔ کیا اُسکا دل نہیں کرتا خالہ سے ملنے کو؟”
“آپکو سبھی کچھ تو معلوم ہے آپا” سعدیہ نے ڈھکے چھپےالفاظ میں بات کی تھی اور عائشہ چُپ رہ گئی تھیں۔ پھر آہستہ سے گویا ہوئیں۔
“اکیلی ہی آجانا چلو۔ فہمیدہ کی طرف میں نے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے ۔ کوشش کرنا جلدی آجاؤ۔اور پریشان نہ ہوا کرو سعدیہ! میں نے تمہارے بھائی سے بات کی تھی ۔ اللہ سے اچھی اُمید رکھو” “اللہ سے ہی تو امید رکھے ہوئے ہیں آپا” وہ بس سوچ کے رہ گئیں ۔ اور آہستہ سے فون رکھ دیا تھا۔
دوسری طرف عائشہ اُمید و بیم کے درمیان ڈولتی ہوئی عُنید کو کال ملانے لگی تھیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ واپس آئی تو ہاتھ میں کافی کے دو مگ تھے۔
“سوری دیر ہو گئی مجھے۔” وہ اپنے بنک کی طرف بڑھ گئی تھی اور پرِیا کو بھی اُسی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
” یہ بنک کس کا ہے جو تم اتنی کانشس ہو کر بار بار وہاں سے اٹھنے کا کہتی ہو؟” پرِیا نے پوچھا۔
“لڑکی کا ہی ہے بے فکر رہو” وہ مسکراہٹ بھینچ کر بولی تھی۔
” ہاں یہی ایک فکر تھی بس۔ تھینک گاڈ تم نے کلئیر کر دیا ورنہ میں تو جانے ا بھی بھاگ ہی جاتی ناں” پرِیا طنزیہ انداز میں بولی تو عُنیزہ جھینپ گئی۔
“بائے دا وے مجھ سے تمہارا اِتنا مُشکل نام نہیں لیا جا رہا” پرِیا کافی کا مگ پکڑ کر مزید گویا ہوئی۔
“اِتنا بھی مُشکل نہیں ہے” وہ خفگی سے بولی۔
“تمہیں ‘نیمو’ میں کیوں کہہ رہی تھی بھلا؟ معلوم ہے؟” پرِیا نے سوالیہ انداز میں ابرُو اُچکائے تھے ۔وہ صرف نفی میں سر ہلا سکی تھی۔
“فائنڈنگ نیمو ایک اینمیٹڈ مووی ہے ۔ اُس میں ایک مچھلی کا نام نیمو ہوتا ہے۔ گم ہو جاتی ہے وہ اور یوں کہانی آگے چلتی ہے تو اصل مقصد میرا یہ تھا کہ تم اُسی مچھلی کی طرح گم رہتی ہو۔ یہ نام تمہیں سُوٹ کرے گا” پرِیا بڑے مزے سے بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب اچانک سے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور کاتفہ اندر چلی آئی تھی ۔
“اب یہ کونسی نئی مصیبت ہے جسے اپنے ساتھ میرے سر پے سوار کرو گی تم؟” وہ غصے سے سیدھی عُنیزہ کے پاس جا کھڑی ہوئی تھی ۔
“کاتفہ یہ میری مہمان ہیں بس” وہ منمنائی تھی ۔
“واٹ ایور ! لاؤنج میں بٹھاؤ اپنی مہمان کو۔ اور بہتر یہ ہے کہ اِسے چلتا کرو” وہ بدتمیزی سے کہتی اپنے بنک کی طرف مُڑ گئی تھی ۔ جبکہ شرمندہ سی عُنیزہ اُٹھی اور پرِیا کا ہا تھ پکڑ کر باہر نکل آئی۔
” اُسکی عادت ایسی ہی ہے دل پہ مت لینا ” اُسے لئے وہ ایک صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
“تُم ایک چُڑیل کے ساتھ گزارہ کیسے کرتی ہو ؟” رازدارانہ انداز میں پُوچھا گیا تھا۔” وہ اچھی ہے۔ یہ تو بس کبھی کبھی ہو جایا کرتا ہے”
“یہ میں کیسے مان جاؤں کہ تُم کبھی کسی کی بِلا وجہ بھی تعریف کرتی ہو؟”
“میں نے بِلا وجہ تعریف نہیں کی”
“میری تو کسی وجہ کی بِناء پر بھی نہیں کی تھی” اُس نے منہ بنایا ۔
” تمہیں ضرورت نہیں ہے ”
“اور یہ کس فلاسفر کا قول ہے”
“میں کسی فلاسفر سے کم ہوں کیا؟”
“میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہیے کہیں میں بھی تمہارے طبقے میں سے نہ ہو جاؤں ۔ بات کرتی ہو تو حیران کرتی ہو اور نہیں کرتی تو بس منہ دیکھنے پہ مجبور کرتی ہو گھنی کہیں کی”
“ہو ہی نہ جانا”مسکرا کر طنز کیا گیا تو پرِیا حیرانگی سے مُڑی۔”تُم بھی نیمو؟”
“سوری!” عُنیزہ خفت اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ بولی۔” نہ نہ ۔۔۔ اچھا لگا مجھے۔ اور میں تو کہہ رہی تھی کہ تم بھی طعنے مار لیتی ہو؟” پرِیا ہنسنے لگی تھی ۔
“میں نے مذاق کیا تھا بس ”
“اوہ گَرل ٹیک اِٹ ایزی ۔ نیور مائنڈ ” پرِیا نے اُسکا ہاتھ تھپکتے ہوئے خجالت دور کرنے کو کہا تو وہ ہلکے سے مسکرا دی۔
“اب میں چلتی ہوں نینی ویٹ کرتی ہونگی ۔ اور تم پلیز اب کی بار غائب مت ہونا رابطے میں رہنا”
عُنیزہ اُسے چھوڑنے دروازے تک آئی تھی۔ اب کی بار وہ اُس سے نمبر لینا نہیں بُھولی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اردو کی معروف شاعرہ اور ادیبہ منصورہ احمد کا یوم ولادت
عجیب وجہ ملاقات تھی مری اس سے کہ وہ بھی میری طرح شہر میں اکیلا تھا منصورہ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یکم...