(Last Updated On: )
ان رستے ہوئے چھالوں میں آگ لگا دی تھی
جب شام ہوئی خیموں میں آگ لگا دی تھی
جب جل اٹھی آنکھیں بھی دل کی حرارت سے
سورج نے بھی شاخوں میں آگ لگا دی تھی
بجلی کی چمک سے گھر بھی ہوئے خاکستر کچھ
کانٹوں نے چمن زاروں میں آگ لگا دی تھی
روتے تھے پر کچھ غم بے چارہ بھی ہوتے تھے
وحشت نے ہی سب سینوں میں آگ لگا دی تھی
پانی دیکھ کے حالت دیدنی تھی میری
پھر بجھتے ہوئے شعلوں میں آگ لگا دی تھی