جذبات کیا ہیں؟ ان کی تعریف مشکل ہے۔ بہت عرصے تک ان کو بے وقوفی اور حیوانی حصہ سمجھا جاتا رہا۔ (یہاں تک کہ مشہور سیریز سٹار ٹریک میں جذبات سے عاری مسٹر سپوک کو “عقلمند” دکھایا گیا تھا)۔ لیکن سائنسدان 1980 کی دہائی میں یہ سمجھنا شروع ہوئے کہ یہ ہمارا سمجھدار حصہ ہے۔ مثلاً، رات کے وقت سنسان جگہ پر جاتے وقت سنائی دینے والی سرسراہٹ سے امڈ آنے والا خوف کا جذبہ، جو ہمیں خطرے سے نپٹنے کی مشین بنا دیتا ہے۔
جذبات انفارمیشن پراسسنگ ہیں۔ ہمیں ان سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھ دو قسم کی ہے۔ بدیہی اور عقلی۔ اور یہ بڑے باریک طریقے سے کام کرتی ہے۔ جب آپ اخبار پڑھیں یا گاڑی چلائیں تو آپ کو کئی ایسے لمحات کا واسطہ پڑے گا جب آپ کسی چیز کو اخلاقی لحاظ سے ناپسند کریں گے۔ ایسے ہر احساس کے پیچھے عقلی وجہ تلاش کی طویل لڑی نہیں ہو گی۔ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں درجنوں یا سینکڑوں فیصلے لیتے ہیں جن کے پیچھے کوئی گہری سوچ یا توجیہہ نہیں ہوتی اور نہ ہی جذبات ہوتے ہیں۔ یہ ہماری intuition ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی ذہن اور زندگی کا بہت بڑا حصہ خودکار پراسس چلاتے ہیں۔ اور یہ اپنے کام میں بہت اچھے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف، ہمارے شعوری پراسس کئی مفید کام کر سکتے ہیں۔ یہ مستقبل میں زیادہ دور دیکھ سکتے ہیں۔ ہم مستقبل کے کئی منظرنامے ذہن میں بناتے رہتے ہیں اور اس کے مطابق فیصلے لیتے ہیں۔ اسی لئے صحتمند خوراک کھاتے ہیں، ورزش کرتے ہیں، تعلیم پر توجہ دیتے ہیں۔ نئی صلاحیت سیکھتے ہیں، نئی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرتے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اپنے خودکار حصے کے لئے گئے فیصلوں کی توجیہہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا شعوری حصہ یہ کام کرنے میں لاجواب مہارت رکھتا ہے۔ اس کے لئے زبان کا استعمال کرتے ہیں، دوسروں سے گپ شپ کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہماری یہ گپ شپ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اور اس میں ہم سب سے زیادہ اہمیت اخلاقی معاملات کو دیتے ہیں۔ اپنی شہرت اور نیک نامی کی حفاظت کرتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں۔ کسی تنازعے میں اجنبیوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور ہماری یہ گپ شپ اخلاقیات پر مبنی آراء پر ہوتی ہے۔ صحیح اور غلط کی آراء اس پر حاوی ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھریلو تنازعات ہوں، سیاسی تجزیہ نگاروں کی گفتگو، سوشل میڈیا کے مباحث، سماجی مکالمے یا اخباری کالم نگار۔ دوسروں کی اخلاقی حالتِ زار پر اظہارِ افسوس، ان کی ہٹ دھرمی پر نکتہ چینی، اپنوں کا دفاع، اپنے اخلاقی نکتہ نظر پر دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش، “صحیح و غلط” کے پیمانے۔۔ ہماری گپ شپ میں اخلاقیات کا کردار مرکزی ہے۔ اور ہماری اپنی سب سے زیادہ توجہ ایسی ہی گفتگو کھینچتی ہے۔
علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے پروفیسر عبد الحق
علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے: پروفیسر عبد الحق مؤسسۂ مطالعات فارسی درھند...