پتا نہیں آرمی چیف نے ان کے پیغام پر کان دھرے ہوں گے یا نہیں ! کوئی ہمیں بچانے آئے گا بھی کہ نہیں
کسی کی روتی بلکتی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔ ملیحہ سمٹ کر عمارا کے کندھے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔
میل ڈاکٹرز بھی شکست خوردہ حالت میں گردن جھکائے بیٹھے تھے ۔۔۔ کوئی چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا
تم اپنی رونی صورت دکھا کر سب کو مایوس مت کرو ، سب پہلے ہی بہت ڈرے ہوئے ہیں میرے انکل آرمی میں ہائی رینک پر ہیں تم دیکھنا وہ یہ سنیں گے تو ضرور ہمیں بچا لیں گے !
ماہین کا کڑوا سا جواب آیا ۔۔۔۔
تم تو اپنی بکواس بند ہی رکھو ! تم نے جیسے عمارا کے ساتھ خود غرضی کا مظاہرہ کیا ہم سب نے دیکھا تم کتنے پانی میں ہو
وہ لڑکی بپھر کر بولی ۔۔۔
اپنی حد میں رہو تم !
ماہین کا رنگ سرخ پڑنے لگا ۔۔۔
تمہیں آئینہ دکھایا ہے نا تبھی اتنی تکلیف ہو رہی ہے !
لڑکی نے ٹکا سا جواب دیا ۔۔۔
ماہین کا سرخ چہرہ دیکھنے لائق تھا وہ اٹھی اور ایک زور دار چانٹا لڑکی کی گال پر دے مارا ۔۔۔
وہ رونا بھول بھال کر خونخوار ارادوں سے اسکی جانب بڑھی ۔۔۔ سب حواس باختہ ہوکر انہیں چھڑانے لگے ۔۔۔
اتنے میں کمانڈر غصے سے بھرا باہر نکلا اسکے ہاتھ میں بندوق بھی تھی ۔۔۔
کمانڈر نے آئو دیکھا نہ تائو اور فائر کھول دیا ۔۔۔ نتیجا گولی ماہین کو لگ گئی ۔۔۔وہ سب چیختے چلاتے ماہین کے وجود سے دور ہٹنے لگے ۔۔۔
لڑکی خود صدمے بھری کیفیت میں اسکے وجود سے بھل بھل نکلتے خون کو دیکھنے لگی ۔۔۔
ماہیںنننن !!! علی چیخا تھا ۔۔۔
عمارا خود پر خون کی بوندیں گرنے کے بعث ہوش میں آئی ۔۔۔ مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اسکے ہوش اڑ گئے ۔۔۔ لڑکی بے ہوش گری پڑی تھی ۔۔۔
ماہین کا رنگ زرد پڑا ہوا تھا ۔۔۔
ماہین ؟؟؟؟ علییی؟؟؟؟ کیا ہوا اسے ؟؟؟
وہ ہوش میں آتے ہوئے آگے بڑھی ۔۔۔۔
لرزتے ہاتھوں سے گلے کا دوپٹہ کا نکال اسکے سینے پر جمایا ۔۔۔۔
ہیییلپپپپ ؟؟؟ پلیززززز کچھ تو انسانیت دکھائو وہ مر جائے گی۔۔ کم از اسکا ٹریٹمنٹ کرنے دو
سینے میں حساس دل پنچھی کی طرح پھڑپھڑانے لگا ۔۔۔ ہاں تو مر جانے دو ،، اگلے گھنٹے تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو تم سب ایک ایک کرکے مارے جائو گے !
کمانڈر انتہائی سفاکی سے چیخا ۔۔۔
عمارا کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی !
پلیزززز ایسے مت کرو ۔۔۔۔۔ ہمارا بھلا کیا قصور ہے !
اس نے گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیئے ۔۔۔
درباس ؟؟؟؟؟؟او درباس؟؟؟؟
کمانڈر نے سنی ان سنی کرکے غصے میں اسے دبوچ کر ان سب کے قریب دھکیلا دیا ۔۔۔
علی بے خودی کے عالم میں بے سدھ پڑی ماہین پر جھکا نہ جانے کیا کیا واسطے دے رہا تھا ۔۔۔
وہ بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔ یا پھر شاید !
عمارا نے دکھ آنکھیں میچ لیں ۔۔۔
اونچی لمبی قدوقامت والا وہی نوجوان کمرے سے برآمد ہوا ۔۔۔
عمارا خوفزدہ سی ہو کر خود میں سمٹ گئی ۔۔۔
کیا ہے ؟؟؟ درباس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا ۔۔۔
اسکی لاش کو اٹھائو ! اور ٹھکانے لگا دو
کمانڈر ہانپتا ہوا حکم صادر کرکے اندر چلا گیا ۔۔
تم نے اگر ماہین کو ہاتھ لگایا تو تمہارے ہاتھ توڑ دوں گا میں! علی کی آنکھیں غم و غصے کی کیفیت میں خطرناک حد تک سرخ پڑ گئیں تھی ۔۔۔
اچھاااا ! درباس کا لہجہ انتہائی ذومعنی اور طیش دلانے والا تھا ۔۔۔
خاموشی سے اپنی جگہ پر واپس بیٹھ جائو ، ورنہ تمہاری محوبہ کے سنگ تمہیں بھی رخصت کروا دوں گا
انتہائی سفاکی سے کہتے ہوئے علی کو دور دھکیلا دیا۔۔۔ لاش ” کہے جانے پر علی غیظ و غضب کے عالم میں اس شخص پر جھپٹ پڑتا لیکن عمارا اسکی راہ میں حائل ہوگئی ۔۔۔
علی پلیززز ۔۔۔بس کردو اب تمہارا لڑنے جھگڑنے کا کوئی فائدہ نہیں الٹا نقصان اٹھائو گے ، جانے دو اسے !
ہم سب کے بارے میں سوچو ! وہ التجا کرنے لگی ۔۔۔
درباس کو اس لڑکی کا بیچ میں آنا بلکل پسند نہیں آیا تھا ۔۔۔ وہ ضبط کرتا آگے بڑھا اور خاموشی سے بے جان وجود کو اٹھا کر کندھے پر ڈالتا جیپ کی جانب بڑھا ۔۔۔
علی انتہائی دل گیری سے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا ۔۔ دو ماہ بعد انکی شادی ہونے والی تھی ۔۔۔ ماہین ایڈونچرس کی بہت شوقین تھی ۔۔۔اسی لئے وہ دونوں یہاں آئے تھے ۔۔۔ مگر تھر ان کے لئے انتہائی منحوس ثابت ہوا ۔۔۔ وہ ہاتھوں میں چھپا کر بے بسی سے رونے لگا۔۔
وہ سب خاموش تماشائی بنے اسکے دکھ میں شریک تھے ۔۔۔ اندر سے خوفزدہ بھی تھے ۔۔۔اگلی باری کس کی ہوگی ۔۔۔؟ کیونکہ ہر گزرتا لمحہ انہیں موت کے منہ میں دھکیلا رہا تھا ۔۔۔
_____________________________________
اپنے کام سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ غیر متوقع طور پر دائم کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔
چائے کا خالی کپ ٹیبل پر پڑا تھا ۔۔۔ وہ سینے پر بازو لپیٹے سو گیا تھا شاید ۔۔۔ چہرے پر بے چینی کے آثار واضع تھے ۔۔۔جو بخار کے سپٹیمنٹ کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۔۔۔
اسے یقینا بخار ہوگا ۔۔۔ گھڑی دیکھی تو رات کے دس بجنے کے قریب تھے ۔۔۔ وہ بس جانے ہی والی تھی کہ دائم فون چھنگھاڑنے لگا ۔۔۔
نایا تذبذب کا شکار تھی اٹھائے یا نہ اٹھائے ۔۔۔
اسکی نیند ٹوٹ جانے کے اندیشے سے اس نے کال ڈسکنیکٹ کردی ۔۔۔ مگر دوسرے ہی پل فون پھر سے بجنے لگا ۔۔۔
اس نے اٹھا کر کان سے لگایا ۔۔۔
شکر ہے شفق کو ہوش آگیا دائم … وہ بار بار تمہارا پوچھ رہی ہے۔۔ تم جلدی سے ہاسپٹل آجائو !
منصور چھوٹتے ہی بولا پڑا ۔۔۔
آئی ایم سوری ۔۔ وہ آفس میں سو گیا ہے !
اس مڑ کر ایک نظر دائم پر ڈالی ۔۔۔
اوکے !!! دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا ۔۔۔
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے فون رکھنے لگی ۔۔۔
میرا فون تھا ؟؟؟
وہ سبز رنگی آنکھوں میں نیند کی خماری لئے سراپا سوال تھا…شاید اسکی آواز سن کر جاگ گیا تھا ۔۔۔
ہاں ۔۔ شفق کو ہوش آگیا ہے ۔۔ایسا کہنا تھا کسی کا !
وہ کچھ توقف کے بعد بولی ۔۔۔
تھینک گاڈ۔۔ اس نے بے ساختہ شکر کا کلمہ پڑھا ۔۔
شفق کون ہے؟؟ بہن ۔۔۔بیوی یا پھر !
اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔۔
وہ فورا اٹھا ۔۔والٹ اورچابیاں اٹھانے لگا ۔۔۔
اسکا مطمئن انداز اور خوشی دیدنی تھی ۔۔۔
نایا نے خاموشی سے اسکا فون بڑھایا ۔۔ جو وہ تھام کر دروازے کی جانب بڑھا ۔۔۔ پھر پلٹ کر بولا ۔۔۔
تھینک یو ! انتہائی فارمل انداز تھا ۔۔۔
وہ جوابا ہلکا سا مسکرائی ۔۔۔ دائم باہر نکل گیا ۔۔۔
کیا ہوگیا ہے مجھے ؟؟؟
وہ اپنے سر چپت رسید کرتی ہوئی بیگ کندھے پر ڈالنے لگی ۔۔۔
لفٹ کا رخ کیا تو جنرل بخشی اچانک سے نمودار ہوئے ۔۔
جنرل آپ ؟ خیریت ہو سب ۔۔!
وہ حیرانگی سے کہتے ہوئے بند ہوتی لفٹ کی راہ میں ہتھیلی حائل کرکے بند ہونے سے روکنے لگی ۔۔
ایک ایمرجنسی ہے !
جنرل لفٹ میں سوار ہوتے ہوئے مطلوبہ فلور کا بٹن دبانے لگے ۔۔۔
از اینی تنھگ آئی کین ڈو ؟؟؟
اس نے پوچھنا فرض سمجھا۔۔ اسکی فطرت میں حب الواطنی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔۔ بیشک وہ مشن پر گامزن تھے ۔۔ مگر چند منٹ بھی اگر اسے دیئے جاتے تو وہ کوشش ضرور کرتی ، مگر مایوس نہ ہونے دیتی ۔۔۔
نہیں تم رہنے دو !
تمہیں ڈسٹریکٹ کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔
پلیزززززز ! اس نے آواز پیدا کئے بغیر لب کشائی کی ۔۔۔
اسکے اسرار پر جنرل بخشی سر جھٹک کر ہار مانتے بنے ۔۔۔ وہ انکی خاموشی کو رضا مندی گردان کر پیچھے پیچھے چلی آئی ۔۔
وڈیو پلے کرو ! وہ ہیڈ کوارٹر کے کنٹرول روم میں پہنچے ۔۔۔ اسکرین پر نظریں جماتے ہوئے حکم صادر کیا ۔۔۔اور ہیڈ فون نایا کی جانب بڑھایا ۔۔۔
دہشت گردوں کی جانب سے بھیجا گیا وڈیو پیغام نایا نے بغور سنا اور ہر چیز کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ پہلے وڈیو اور پھر سائونڈ کی ایک ایک آہٹ کو جانچا ۔۔۔ عام انسان کے لئے صرف ایک وڈیو پیغام تھا۔۔چونکے وہ انالسٹ تھی ۔۔۔جن صلاحیتوں کے زیر کار وہ سن اور دیکھ سکتی تھی ۔۔۔ کوئی دوسرا شاید ہی کر پاتا ۔۔۔
اسٹاپ !
وہ زرا سا رخ موڑ کر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے وجود کو بولی ۔۔۔ اس نے لمحہ ضایع کیئے بغیر وڈیو پاز کردی ۔۔۔ زوم کرو یہاں پر !۔۔۔اور ۔۔۔اور ۔۔ بس
وہ اسکرین کی جانب انگلی کا اشارہ کرنے لگی۔۔۔
آپ نے نوٹ کیا.. پیچھے جو درخت اور جھاڑیاں نظر آرہی ہیں… وہ سب نقلی ہیں… ان پر مقابل کھڑے شخص کا سایہ ابھر رہا ہے… ویسے بھی تھر جیسے بنجر علاقے میں ہری بھری گاس اور درخت غیر معمولی بات ہے
اس نے مخصوص گلیٹر اٹھایا اور اسکرین پر ابھرتے سائے کو انڈرلائن کردیا ۔۔۔
جنرل بخشی نے اپنا مخصوص چشمہ آنکھوں پر سجا کر بغور جائزہ لیا ۔۔۔
سہی کہہ رہی ہو تم … یہ کوئی ڈیجیٹل اسکرین یا کوئی پوسٹر ہو سکتا ہے …وہ اسکی بات سے متفق نظر آئے ۔۔ ممکن ہے ! ایک اور بات ۔۔۔
زرا اس وڈیو کے ایچوئیل سائونڈ کو آف کرکے بیک گرائونڈ کو ہائی لائٹ کرنا ! پلٹ کر مخاطب ہوئی
اس کے حکم پر کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے وجود نے بجلی کی سی تیزی سے کی بورڈ پر انگلیاں چلا کر پلے کا بٹن دبایا ۔۔۔
اذان کی آوازیں آرہی ہیں ، اور تیز ہوائیں بھی چل رہی ہیں ! یعنی کوئی کھلے علاقے والی جگہ ہے جس کے آس پاس مسجد بھی لیکن تیز ہوائوں کے بعث آواز گونجتی ہوئی محسوس رہی ہے ۔۔
۔ تمہیں کہنا چاہتی ہو یہ تھر کا کوئی علاقہ ہوگا؟؟؟
ایسا ممکن ہے وہ فورا سے بولی ۔۔
ایک بار اور سوچ لو ، چالیس زندگیاں تمہاری پیشن گوئی پر منحصر ہیں ، اور پھر تھر ہی کیوں ، ڈاکٹرز تھر کے علاقے جھرک میں کیمپ لگانے والے تھے ! ہمارا پہلا شک تھر پر ہی جائے گا ! وہ وہاں نہیں رکیں گے !
جنرل بخشی نے تردید کردی ۔۔۔
آپ کی بات درست ہے ، لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں! اور پھر ان کے کسی اور جگہ پر ہونے کے شواہد جھوٹے نکلے آپ کے سامنے ! آپ جاسوسی طیارے سے علاقے کی چھان بین کرائیے مجھے یقین ہے وہ لوگ آس پاس ہی کہیں ہوں گے
جنرل اسکی بات پر خاموشی اختیار کر گئے ۔۔۔
چونکہ تم بہترین ثابت ہوئی ہو پچھلے وقتوں میں اسلئے میں تمہاری بات پر عمل پیرا ہورہا ہوں۔۔۔ ہمارے پاس چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت ہے اور بد قسمتی ہم ایک ڈاکٹر کھو چکے ہیں ! Anyways Bravo
میری اس وقت آرمی چیف سے میٹنگ ہے ،
جاسوسی طیارے کے ذریعے جھرک اور اسکے آس پاس کے علاقوں کا باریکی سے جائزہ لیا گیا تھا ۔۔۔خوش قسمتی سے اسکی بات سچ نکلی ۔۔۔ڈاکٹرز کی بس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد ملے تھے ۔۔۔ حتمی رپورٹ میٹنگ میں آرمی چیف کو پیش کردی گئی اب اگلے اقدامات ان کی جانب سے اٹھائے جانے تھے
________________________________
ان لوگوں کے چلے جانے کا یقین ہوگیا تو وہ جھاڑیوں سے باہر نکل آئی ۔۔۔ مگر وہ اسی کی تاک میں تھے ۔۔۔
پائوں ایک انچ بھی وزن سہارنے سے انکاری تھا ۔۔۔ تھکن سے بدن ٹوٹ رہا تھا ۔۔۔ بھوکی پیاسی وہ بس ہوش کھونے کے در پے تھی ۔۔۔ جھاڑیوں سے نکلی تو راستہ اسے پکی سڑک تک لے گیا ۔۔۔ جہاں آتی جاتی گاڑیوں کی روشنیاں نظر آرہی تھی ۔۔۔ اسکے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔۔۔ مگر یہ خوشی صرف دو پل کی تھی۔۔۔ اس نے جیسے ہی سامنے آتی گاڑی کے سے مدد مانگنا چاہی ۔۔۔ وہ لوگ نہ جانے کہاں سے آدھمکے اور سختی سے اسکا منہ دبوچ کر اسے جھاڑیوں کی اوٹ میں لے گئے ۔۔۔ وہ پھر سے خود کو جیسے تیسے چھڑا کر بھاگی لیکن وہ ابھی روڈ تک ہی پہنچی تھی ان لوگوں نے پھر اسے دبوچ لیا ۔۔۔ وہ مزاحمت کرتی چیخنے چلانے لگی ۔۔۔ یہاں تک آکر اب وہ واپس نہیں جانا چاہتی تھی ۔۔۔ اسے اپنے سے کچھ دوری پر اایک گاڑی رکتی دکھائی دی ۔۔۔ مگر نقاب پوشوں نے گھبرا کر اسکے مزاحمت کرنے پر گولی چلادی ۔۔۔ وہ اس چیز کی توقع نہیں کر رہی تھی ۔۔۔ اسلئے اپنا بچائو نہیں کرپائی ۔۔۔ گولی اسکے بازو کو چیرتی ہوئی نکل گئی ۔۔۔ وہ تیورا کر گر پڑی ۔۔۔
اسے لگا اسکی جدوجہد کا سفر تمام ہوگیا ہے۔۔۔ خانہ بدوشوں کی سی گمنام زندگی گزارنے سے بہتر تھا وہ یہیں دم توڑ دیتی ۔۔۔ لیث کا مسکراتا اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔۔۔ کاش وہ اپنے بھائی مل پاتی ۔۔۔ بس ایک بار
دو نفوس آپس میں بعث کر رہے تھے ۔۔۔ !!
وہ سن سکتی تھی ۔۔۔ دھیرے دھیرے غنودگی اس پر غالب آگئی ۔۔۔ اور آس پاس کے منظر تاریکی میں ڈوب گئے ۔۔۔
________________________________________
دائم ہاسپٹل پہنچا تو شفق کی ماں راہداری میں انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ پچھلے دو دنوں سے اس نے کیسے جھوٹ کے سہارے انہیں سنبھالا تھا وہی جانتا تھا ۔۔۔ اب وہ شفق کے لئے پریشان تھی ۔۔ دائم نے انہیں بہلا پھسلا کر گھر واپس بھیج دیا ۔۔۔اور شفق کے کمرے کا رخ کیا ۔۔۔
اسے دیکھ کو وہ آہستگی سے مسکرائی ۔۔
جبکہ وہ مسکرا بھی نہ سکا ۔۔۔
میں بہت ناراض ہوں تم سے شفق ! بہت زیادہ ۔۔۔
تمہیں ایٹ لیسٹ مجھے تو بتانا چاہیئے تھا ۔۔۔کوئی تمہیں گھٹیا طریقے سے بلیک میل کررہا تھا ، تم نے مجھے تک بتانا گوارہ نہیں کیا ! جبکے اس مسلے کی جڑ ہی میں خود تھا ۔۔۔ وہ دل گیری سے گویا ہوا ۔۔۔ اور ضبط سے اپنی نشست چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
میں ۔۔بہت ڈر گئی دائم ۔۔۔۔ ایزی کی وجہ سے بہت ڈر تھی ! وہ روپڑی ۔۔۔ منصور جو ایک کونے کھڑا تھا خاموشی سے باہر نکل گیا ۔۔۔ وہ ان چوبیس گھنٹوں میں اتنا اس لڑکی کو دیکھ چکا تھا کہ اسکا ایک ایک نقش ازبر ہو چکا تھا ۔۔۔
اب اسکے آنسو عجیب طرح سے اسکے دل پر وار کر رہے تھے ۔۔۔
میری بیٹی کی زندگی کا سوال تھا ۔۔۔ تمہاری اپنی جان کو بھی خطرہ تھا ۔۔ مجھے تم سے اس قدر احمقانہ رویے کی امید نہیں تھی شفق ۔۔۔
وہ غصے سے بولا ۔۔
میں نے کچھ بھی نہیں چرایا ۔۔۔تمہارے لیپ ٹاپ سے۔۔۔ اور نہ ہی کسی کو کچھ بتایا ۔۔۔ میں بہت ڈر گئی تھی دائم ۔۔۔ اور ۔۔۔وہ وڈیو دیکھنے کے بعد تو ۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔آئی ایم سو سوری ۔۔۔
اسکے سخت گیر لہجے پر وہ صفائی دیتی ہوئی سسکنے لگی۔۔۔
بات کسی انفارمیشن کی نہیں ہے شفق ، بات تمہاری زندگی کی ہے تمہیں پتا بھی ہے ایجنسی کو مجھ پر شک کرنے کا موقع سات سال پہلے ملا تھا جس دن میری بیوی مجھے چھوڑ کر گئی تھی ۔۔۔ اس دن کا درد اور آج کا درد مجھے زندگی بھر ازیت دیتا رہے گا ! تم دونوں عورتوں نے اس جگہ پر وار کیا جہاں سے مقام حاصل کرنے کے لئے میں نے زندگی کے اتنے ان تھک سال لگادیئے ۔۔۔
لہجے شکست خوردہ تھا ۔۔۔ اسکی آنکھیں خون ٹپکانے لگی ۔۔۔ شفق تو کچھ لمحے بول ہی نہ سکی ۔۔۔
آئی ایم سو سوری ۔۔۔ مجھے لگا ۔۔۔ شفق نے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا ۔۔۔
کیا لگا تمہیں ۔۔۔ کوئی میری ناک کے نیچے تمہارے نازیبا وڈیو اور تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرتا رہا ۔۔۔اور مجھے بھنک بھی نہیں ہوئی ۔۔۔ لعنت ہے مجھ پر ! اور میری تام تر صلاحیتوں پر !
اسکا غصہ ساتویں آسمان پر تھا ۔۔۔
شفق کی سسکیاں پھر سے کمرے کے درو دیوار سے ٹکرانے لگیں ۔۔۔
اب رونا بند کرو یار ..جو ہونا تھا ہوچکا !
دائم نہ چاہتے ہوئے بھی نرم پڑا ۔۔۔
آئی ایم سو سوری ! وہ سسکتی ہوئی اسکے ساتھ لگ گئی ۔۔۔ دائم نے طویل سانس لے کر اسکا کندھا تھپتھپایا ۔۔۔
وہ اس فیض سے نکل آئی تھی اس کے لئے یہی بہت بڑی بات تھی۔۔ وہ بہت سا رو لینے کے بعد ناک رگڑتی ہوئی
اس سے الگ ہو کر پوچھنے لگی
تمہیں تمہارے جنرل نے کچھ کہا نہیں؟
کچھ خاص نہیں !
اس نے صفائی سے جھوٹ بولا ۔۔ اسے اور پچھتاوے اور ندامت میں نہیں دھکیلنا چاہتا تھا ۔۔۔ اسکے ساتھ جو ناحق ہوچکا ۔۔ امید تھی کہ وہ جلد ہی ریکور کر پائے ۔۔.
دائم اپنے آپ کو اسکا مجرم سمجھنے لگا تھا ۔۔ جانے کیوں!
حیرت ہے ! وہ سراسیمگی سے بولی ۔۔۔
واقعی ۔۔۔حیرت کے شدید جھٹکے تو مجھے بھی لگے تھے خیر ! ایجنسی والے بہت سخی ہیں …یہ سخاوت یاد رہے گی ہمیشہ !
وہ ہلکے سے تنز میں اصل بات گول کرگیا ۔۔
اینی ویز! تم آرام کرو …کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتو منصور یہیں ہے تمہارے پاس!
وہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
منصور سے کہو دو باتیں ہی کرلیا کرے مجھ سے بور ہوجاتی ہوں ! سادہ سا لہجہ تھا ۔۔۔
منصور بے چارہ گڑبڑا گیا ۔۔۔
جلدی سے ریکور کرو اور گھر جائو بی بی ۔۔۔ سب کو خوار کر رکھا ہے تم نے !
وہ ہلکے پھلکے انداز میں منصور کو دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔ منصور جانے کیوں ان دونوں کی گفتگو میں خود کو غیر ضروری سا محسوس کرنے لگا ۔۔۔
خیال رکھنا یار! وہ منصور سے کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔ منصور نے سر ہلاتے ہوئے اسکے پیچھے دروازہ بند کردیا ۔۔۔ بیٹھ بھی جائو یار !
شفق زچ ہوکر بولی ۔۔۔ وہ فورا سے بیٹھ گیا ۔۔۔
بیٹھو ۔۔۔کہو تو بیٹھ جاتے ہو ۔۔اٹھو کہو تو اٹھ جاتے ہو ۔۔۔! تم اتنے روبوٹک آدمی کیوں ہو ڈیئر منصور !
بلا کا تنقیدی انداز تھا ۔۔۔ منصور بے چارا سر جھکا گیا ۔۔۔ اب تم کوئی بات کروگے یا میں سو جائوں ؟؟؟
وہ اسے لڑکیوں کی طرح شرماتا دیکھ کر منہ بناتے ہوئے بولی ۔۔۔
جو آپ کو بہتر لگے ! اب وہ بے چارہ اور کیا کہتا ۔۔۔
شفق تاسف سے نفی میں سر ہلاتی کمفرٹر کھینچ کر سوتی بنی ۔۔۔ منصور نے لب دباتے ہوئے رخ موڑ لیا ۔۔۔
________________________________________
چوبیس گھنٹے گزرنے میں کچھ ہی وقت باقی رہ گیا تھا آرمی چیف کی جانب سے مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔ کسی قسم کا کوئی رد عمل کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا اب تک ۔۔۔
کمانڈر کو اب طیش آنے لگا تھا ۔۔۔
اسی اثنا میں درباس چلا آیا ۔۔۔ جسکی شرٹ خون کے دھبوں سے آلودہ ہوچکی تھی ۔۔۔ کمانڈر یقینا نظر انداز کردیتا اگر تکلیف زدہ چہرے پر نظر نہ پڑی ہوتی تو ۔۔۔
اب تمہارے ساتھ کیا مسلا ہے ؟؟؟؟
کمانڈر نے انہی تیوروں سے پوچھا ۔۔۔
تمہارے بیوقوف سپاہی نے بلاوجہ مجھ پر گولی چلا دی کمانڈر !
وہ درد سے کراہ کر دیوار کا سہارا لیتے ہوئے دبہ دبہ غرایا ۔۔۔ درباس۔۔۔۔درباس ۔۔۔۔ !!
تمہیں پتا بھی ہے اس وقت ہمیں اسکی کتنی ضرورت تھی پھر بھی تم خونی کھیل کھیلنے باز نہیں آئے ۔۔۔
کمانڈر غصے سے چلا اٹھا ۔۔
عمارا سمیت سب ہی کے دل کی دھڑکنیں بڑھیں کہیں وہ اس درندے کے غصے کا شکار نہ ہوجائیں ۔۔۔
تو یہ سب تمہیں اسے سمجھانا چاہیئے تھا کمانڈر مجھے نہیں ! وہ بلند آواز دھاڑا ۔۔۔ قہر آلود نظروں سے گھورتا کمرے کی جانب بڑھا ۔۔۔ چال میں واضع لڑکھڑاہٹ تھی ۔۔۔ اس نے یہ نظر اپنا خون آلود ہاتھ دیکھا۔۔۔ اور شرٹ زرا سی اوپر کھینچ کر زخم دیکھا ۔۔۔ بددلی سے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔۔۔ کمانڈر اسکے پیچھے چلا آیا ۔۔۔
ہمیں اپنے حالات بہتر بنانے ہوں گے درباس ، اگر ہم ان حالاتوں میں ھانی کے سامنے گئے تو وہ ہمیں زندہ دفن کردے گا ، اسے ہارے ہوئی لوگ پسند نہیں ہیں ، اگر ہمیں اس سے اسلحہ اورفوج چاہیئے تو ہمیں اپنے حالات سدھارنے ہوں گے ! سمجھ رہے ہو نا میری بات؟؟؟
کمانڈر نے عادت کے برخلاف نرمی سے کہا ۔۔۔
درباس نے سپاٹ تاثراتوں سے ایک نظر کمانڈر کو دیکھا اور سنی ان سنی کرکے سرکرسی کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔ اسے بہت تکلیف محسوس ہورہی تھی
کمانڈر کو اسکے تیوروں نے سخت طائو دلایا مگر کڑوہ گھونٹ پی گیا ۔۔۔ ان بیوقوف سپاہیوں پر اسے بلکل بھروسہ نہیں تھا ۔۔ اسے درباس جیسے جیسے جوان کی ضرورت تھی ۔۔ سو اسکے نخرے سہنے میں عافیت سمجھی ۔۔۔
میں ڈاکٹر کو بھیجتا ہو !
کمانڈر اسکے صبیح چہرے پر ایک نظر ڈال کر باہر نکلا ۔۔۔ غاسق؟؟؟ اس انچارج کو اٹھا کر لائو؟؟؟
غاسق حکم کی تحمیل کرتا عمارا کی جانب بڑھا ۔۔۔
چل !!!! انتہائی بد لحاظی سے بولا ۔۔۔
ملیحہ نے خوفزدہ ہوکر اسکے ہاتھ تھام لئیے ۔۔
عمارا خود کچھ سمجھنے سے قاصر تھی ۔۔۔
چل ۔۔۔سنا نہیں تو نے !!! وہ پھر سے دھاڑ ا ۔۔۔
ملیحہ ہوش کرو ورنہ ہم دونوں مارے جائیں گے ! پلیز میرا ہاتھ چھوڑا دو ! وہ روہانسی ہو کر التجا کرنے لگی
ملیحہ نے انتہائی بے بسی سے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔.
ںقاب پوش پہرے دار اسکے اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا لایا اور عین درباس کے سامنے لا کھڑا کیا ۔۔۔
اسکی سسکیوں کی آواز پر چونک کر سیدھا ہونا چاہا ۔۔۔ مگر نہیں ہوپایا ۔۔۔ایک نظر عمارا کے بازو میں گڑھے اس شخص کے ہاتھ کو دیکھا ۔۔۔ اسکے اعصاب تن گئے
کیا ہے ؟؟؟ انتہائی بد لحاظی سے پوچھا ۔۔۔
کمانڈر نے اسے تمہارے علاج کے لئے بھیجا ہے !
ہاتھ چھوڑ اسکا ۔۔۔ دانت پیستے ہوئے غرایا تھا ۔۔۔
دل کیا بندوق کی ساری گولیاں اس شخص کے حلق میں اتار دے ۔۔۔ جو شخص خاموشی باہر نکل گیا ۔۔۔
انتہائی تحمل سے کرسی کو پیر مار کر گویا اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ وہ شش و پنچ میں مبتلا تھی ۔۔۔
بیٹھے ؟ یا بلانے کا سبب دریافت کرے ؟
دل تو چاہ رہا تھا یہاں سے بھاگ جائے ۔۔اس جگہ سے وہشت ہونے لگی تھی… خاموشی سے کرسی پر ٹک گئی۔۔۔
پوچھنے زحمت بھی نہیں کی …اسکا دل ہی نہ چاہا ان درندوں صفت لوگوں کے منہ لگنے کو ۔۔۔
چند لمحے یونہی گزر گئے ۔۔ اچانک وہ سیدھا ہوا اور کرسی اسکے مقابل کھینچ لی ۔۔۔
عمارا کی خوف سے جان نکلنے لگی ۔۔۔
غاسق ؟؟؟؟؟ میڈیکل باکس لے کر آ جو بس سے برآمد ہوا تھا ۔۔۔
نقاب پوش بوتل کے جن کی طرح میڈیکل باکس انکے سامنے ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا ۔۔۔
میرا منہ دیکھتی رہو گی یا کچھ کروگی بھی ؟؟؟
انتہائی انداز تھا ۔۔۔ وہ کب سے درد برداشت کیئے بیٹھا تھا
عمارا نا سمجھی سے دیکھنے لگی ۔۔۔
انتہائی بیزاری سے اس نے ایک سائیڈ سے شرٹ اوپر سرکائی ۔۔۔ جہاں اس نے کپڑا باندھ رکھا تھا ۔۔ جو اب خون سے لبریز ہوچکا تھا ۔۔۔ وہ ایک نظر سے زیادہ دیکھ ہی نہ پائی اور رخ موڑ لیا ۔۔۔
کاش یہ شخص موقع پر ہی مر گیا ہوتا !
اس نے دل ہی دل سوچا ۔۔۔.
دعوت نامہ جاری کروں اب ؟؟؟؟ وہ تنک کر بولا ۔۔۔
عمارا ناگواری چھپاتی خاموشی سے ہاتھوں کو حرکت دینے لگی ۔۔ جیسے ہی اس نے زخم سے کپڑا کھینچا وہ درد سے بلبلا اٹھا ۔۔۔
بیوقوف ! قہر بھری نظروں سے گھورنے لگا ۔۔۔
عمارا نہ چاہتے ہوئی بھی شرمسار سی ہوگئی ۔۔اسے احساس نہیں تھا کہ خون جمنے کے بعث کپڑا زخم سے چپکا ہوگا ۔۔۔ وہ لب بھینچ کر دوبارہ اس پر جھکی ۔۔۔
اسکی آنکھوں میں چھلکتی ناگواری درباس نے واضع طور پر نوٹ کی تھی۔۔۔
زلفیں بدستور اسکے چہرے کا طواف کر رہیں تھی ۔۔۔ مٹی سے اٹا چہرہ اسکے حسین چہرے کو اور پرکشش بنا رہا تھا ۔۔۔یا درباس کو ایسا لگا ۔۔۔
آنکھوں میں ابھرتے سرخ ڈورے عجیب طرح سے اسکے دل میں اترنے لگے ۔۔۔وہ بے قرار سا ہوکر سیدھا ہو بیٹھا ۔۔۔
نظر اسے لاکٹ پر پڑی تو رگیں تن گئیں ۔۔۔
اس نے چین انگلی میں لپیٹ کر اس کا چہرہ قریب ترین کرلیا ۔۔۔۔ عمارا بے خبری میں اسکی طرف کھنچی چلی آئی ۔۔
کون ہے یہ ابراہیم ؟؟؟؟ جسے تم سینے سے لگائے گھومتی ہو؟؟؟؟ اکھڑے پن سے پوچھنے لگا ۔۔۔
عمارا کا دل کیا اسکا منہ نوچ لے ۔۔ وہ ہوتا کون ہے اس سے یہ سوال کرنے والا ؟؟؟
میرا شوہر ۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئی بھی بولی تھی ۔۔۔
ناگواری سے کہہ کر رخ موڑ لیا ۔۔۔
غلط بیانی مت کرو ؟ وہ غصیلی نظروں نے دیکھنے لگا ۔۔ اسے جیسے عمارا کی بات پر یقین نہہیں تھا ۔۔
عمارا کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ ضبط کر گئی ۔۔۔
ابھی تک آیا کیوں نہیں تمہیں بچانے ؟؟؟ وہ پھر سے بولا
اب کی بار بے خبری میں اسکی دکھتی رگ دبا گیا ۔۔۔
عمارا کی آنکھیں دھواں دھواں ہونے لگیں ۔۔۔
اگر یہاں ہوتا تو ضرور تو آتا !
اس نے فاصلہ برقرار رکھنے کہ بھرپور کوشش کی ۔۔۔
مر گیا مطلب ؟؟؟؟ وہ خوش ہوا تھا
اسکی بھیگی آواز کا سحر درباس کو بہکنے پر آمادہ کرنے لگا ۔۔۔ وہ بے ساختہ آنکھیں بند کرگیا ۔۔
اسکے الفاظ عمارا کو چابک کی طرح لگے تھے ۔۔۔
میرا لاکٹ چھوڑ دو پلیز !
وہ بے بسی سے بولی ۔۔ چاہتے ہوئے بھی آنسو گالوں پر بہنے سے روک نہیں پائی ۔۔۔
درباس نے ایک طویل نگاہ اس پر ڈالی …اس کے دل میں کم از کم اس لڑکی کے لئے تو بلکل بھی رحم نہیں تھا پھر بھی وہ تمسخرانہ مسکراہٹ کے سجائے اس نے لاکٹ چھوڑ دیا ۔۔۔ عمارا غیر متوقع طور پر اسے دیکھے گئی ۔۔۔
اسکے اندر بری طرح سے کچھ کھٹکا ۔۔۔ یہ وہی شخص تھا جو اس دن اسے ہاسپٹل میں ملا تھا ۔۔۔
البتہ شیو تھوڑی بڑھ چکی تھی ۔۔۔اور سر پر کیپ بھی نہیں تھی..یہی وجہ تھی کہ وہ پہلی نظر میں پہچان نہیں پائی!اور اب تو وہ ماسک کے بغیر اسکے سامنے تھا
عمارا کو لگا کمرے کی چھت اس پر آگری ہو۔۔۔
اس کا زہن مائوف ہونے لگا ۔۔ یہ دوسری بار تھا وہ اس شخص کا علاج کر رہی تھی اگر باہر موجود ڈاکٹر کو پتا چل جاتا تو اسکا کھیل یہیں ختم کردیتے ۔۔۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟؟؟؟
اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر درباس کے اندر شوخی سی بھر گئی ۔۔۔
تم ۔۔۔۔ وہی ہونا۔۔۔ ہاسپٹل والے ؟؟؟؟
وہ ہنوز بے یقین تھی ۔۔۔
ہوسکتا میں کوئی اور ہوں ! اور تم پہچاننے میں غلطی کر رہی ہو۔۔
وہ اس بار سنجیدگی سے کہتا اسے بری طرح سے چونکنے پر مجبور کرگیا ۔۔۔
درباس نے شرٹ نیچے کھینچی اور اٹھ کر باہر نکلنے لگا۔۔۔ وہ بھی باہر جانے کو مچلی ۔۔۔اندر اسے عجیب سا خوف اور گٹھن محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
یہیں بیٹھی رہو ! سختی سے تاکید کرتا باہر نکل گیا ۔۔۔ عمارا پچھلا سب کچھ بھول بھال کر پھر سے ان حالاتوں کے پیش نظر پریشانی سے انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔۔
___________________________________
شاہین صاحب گھر کے پچھلے دروازے سے گزر کر کمرے میں گئے اور لباس تبدیل کرنے بعد ہی تقریب میں شرکت کی ۔۔۔ سب لوگ انہی کے انتظار میں تھے ۔۔۔ان کے پہنچتے ہی منگنی کی رسم ادا کردی گئی ۔۔۔ سب کے چہروں سے خوشی عیاں تھی سوائے ایک غصیلے نواجوان کے ۔۔۔
جو اس وقت اپنی کیفیات سے لڑ رہا تھا ۔۔۔
یہاں کیوں کھڑے ہیں ؟؟؟ آپ نے کوئی گفٹ کیوں نہیں لیا خالہ کے لئے ؟؟؟ اسے سب سے آخر میں کھڑا دیکھ کر ایان الجھن بھرے انداز میں پوچھنے لگا ۔۔۔
گفٹ ؟؟؟؟ فاتح چونک کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔اس نے کبھی کسی تقریب میں دلچسپی لی ہوتی تو معلوم پڑتا کہ گفٹ دینا بھی لازم ہوتا ہے ۔۔۔
آپ میرا گفٹ دے دو لیکن بدلے میں مجھے بھی کچھ چاہیئے ؟؟؟ ایان نے آفر کی اور لگے ہاتھ شرط بھی رکھ ڈالی ۔۔
وہ کیا ؟؟؟ فاتح نے پہلی بار اسکی گفتگو میں دلچسپی لی ۔۔۔
آپ کو اپنی فٹبال مجھے دینا ہوگی ! وہ گردن اکڑا کر بولا ۔۔ اور اس گفٹ میں ایسا کیا ہے جو میں تمہیں اپنی فٹبال دے دوں؟ اس نے اچھنبے سے پوچھا ۔۔
جو بھی ہے خالہ خوش ہوجائیں گی !
فخریہ انداز میں جتایا ۔۔
تمہاری خالہ کو خوش کرنے کے چکروں میں ہرگز اپنی فٹبال تمہیں نہیں دوں گا بیٹا ! چلو راستہ ناپو ،
فاتح نے دو ٹوک کہہ کر اسے راہ دکھائی ۔۔
غصیل ۔۔۔اکڑو ! وہ ناک بھوں چڑھا کر کہتا رکا نہیں بلکے بھاگ گیا ۔۔۔
سامنے نگاہ اٹھائی تو نوال کا نازک مرمریں ہاتھ رامس کی گرفت میں تھا ۔۔۔ اسکے اندر غصے کی شدید لہر دوڑنے لگی ۔۔۔ دل کیا رامس کو منظر سے ہی غائب کردے ۔۔۔
رامس کا بات بے بات مسکرانا ! شوخ نگاہوں کا تبادلہ ، اور نوال کا گریز اسکے دل پر چھریاں چلا رہا تھا ۔۔۔ کہیں تاشا کی بات سچ تو نہیں ہورہی تھی ۔۔۔ واقعی اسے نوال نے محبت ہوگئی تھی ۔۔. یا صرف وقتی کھنچائو تھا ۔۔۔
مگر یہ بس اب ہی کیوں ہورہا تھا اسکے ساتھ ، جب اس نے کسی اور کے نام کی انگوٹھی پہن لی تھی ۔۔۔
اسکا دل اب ضد پر اتر آیا تھا اور دماغ جذبات کی ڈویوں میں الجھا ہوا تھا ۔۔۔
اسے لگا ایک پل بھی یہاں رکا تو دماغ کی شریانیں پھٹ جائیں گی ۔۔ وہ گاڑی لے کر باہر نکل گیا۔۔
یہ فاتح کو بیٹھے بٹھائے پتا نہیں کیا ہوجاتا ہے ابھی تو اچھا بھلا تھا ۔۔۔میں مسز احمد کو سی آف کرکے واپس آئی تو بڑے غصے سے گاڑی بھگا لے گیا ۔۔۔ دو گھڑی نوال کے ساتھ ہی بیٹھ جاتا ، یوسف بھی نہیں آیا ! وہ اداس ہورہی تھی ! نصیبہ پھپھو نے شکوہ کیا ۔۔۔
آپا آپ فاتح کے رویوں کا غم نہ کیا کریں آپ جانتی ہیں وہ کیی طبیعت کا مالک ہے ، اور پھر یوسف مجبوری کی مجبوری سمجھیں ! شاکرہ بیگم نے بہت اپنائیت سے کہا ۔۔۔ تقریب اختتام کو پہنچی تو تاشا نے بال لپیٹ کر کلپ گھسایا اور گفٹس پر دھاوا بول دیا ۔۔۔ نوال چینج کرنے چلی گئی تھی ۔۔ روشن اور رومیشا چائے بنا رہی تھی ۔۔۔ ہبا آپی اپنے بچوں اور شوہر سمیت وہاں موجود تھیں جبکے شاکرہ بیگم شاہین صاحب اور نصیبہ پھپھو بھی اپنی گفتگو چھوڑ چھاڑ کر اس کی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔
تاشا اپنی ‘اونچی ناک’ کے مطابق ہر گفٹ پر ناک بگھارنے لگی ۔۔۔جسے بڑے حسن سلوک سے اس نے ‘رائے ‘ کا نام دے دیا ۔۔۔ نوال بھی فریش ہونے کے بعد چائے کا کپ لئے صحن کی سیڑھیوں پر آ بیٹھی ۔۔۔
اور یہ ۔۔۔ ایسا سوٹ میں پچھلے ہفتے ہی ‘زارا’ سے خرید کر پہن کر ۔۔۔پرانا بھی کردیا ۔۔۔ نوال برا مت ماننا یار !
تبصرہ کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر گویا معزرت بھی کرلی گئی ۔۔۔
کسی کی خلوص سے دی گئی چیز پر انگلی نہیں اٹھاتے تاشا ! بہت غلط بات ہے۔۔
کب سے ضبط کیئے بیٹھے تھے شاہین سہگل آخر کار بول پڑے ۔۔۔
پاپا میں انگلی کب اٹھا رہی ہوں بس بتا رہی ہو کہ میں پہن چکی ہو ایسا ڈریس ! وہ فورا بولی ۔۔
تو انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ تم کیا پہن چکی ہو کیا نہیں ! شاہین صاحب اس بار تھوڑے برہم ہونے لگی ۔۔۔
وہی توووووو ۔۔۔ ہمیں بھی تو معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی ہمیں کیا گفٹ دینے والا ہے ورنہ ہم اس حساب سے خریداری کرتے ! وہ باپ سے جراح کرنے لگی ۔۔۔
شاکرہ بیگم کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔۔ مگر وہ کیا کہتی ۔۔۔ اپنے باپ پر گئیں تھی سب اولادیں ۔۔۔ ضدی فطرت کی مالک ۔۔۔
تمہاری بات میں کوئی لاجک نہیں اس لئے میں بحث نہیں کروں گا ! شاہین صاحب چائے کا خالی کپ رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔۔
یہ تو میدان چھوڑ کر بھاگنے والی بات ہوئی ، آپ نے میری بات سے اختلاف کیا تھا پہلے ۔۔میں نے جواب دیا تو آپ کو پسند نہیں آیا ،اب اچانک سے سارے لاجک ختم ہوگئے ۔۔۔ آپ کہتے کیوں نہیں کہ میں اپنی جگہ سہی ہوں ۔۔۔ بابا ؟اپنی شکست تو قبول کرتے جائیں؟
وہ بھی تاشا تھی اپنے نام کی ایک ۔۔۔ہار ماننا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔۔ طویل سانس لے کر ان سب کی طرف متوجہ ہوئی تو سب اماں کو دیکھ رہے تھے جو کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہی تھی ۔۔۔
لڑکیوں کو اتنا بولنا زیب نہیں دیتا ،، اپنی گز بھر لمبی زبان کو لگام ڈال کر رکھو ! اماں کا پارہ ہائی ہونے لگا ۔۔۔
یہ لو ؟؟؟ یہ نیا شوشہ چھوڑ دیا آپ نے ۔۔۔ کس نے کہا آپ سے لڑکیوں زیادہ بولنا زیب نہیں دیتا ! زیب نے ایسا کہا؟؟؟؟؟ اسکی زبان پھر سے چلنے لگی ۔۔۔
اس سے پہلے اماں کا ہاتھ اپنی نئی نویلی سینڈل پر جاتا وہ گفٹ کا انبار پھلانگ کر صحن کی پلر کی اوٹ میں چھپی ۔۔۔
زبان دراز نہ ہوتو !
یہ غلط ہے اماں ، پہلے آپ دونوں میاں بیوی خود مجھ سے بحث مول لیتے ہیں جب میں کچھ کہہ دیتی ہوں تو برا لگ جاتا ہے ، پتا نہیں آج کل کے دانشوروں کو کیا ہوگیا ہے
وہ آناً فانا کرتی وہاں سے چلی گئی ۔۔
اللہ پناہ دے اس لڑکی سے تو !
شاکرہ بیگم نے ماتھا پیٹ لیا۔۔۔ اس کے انداز پر صحن میں موجود نفوس قہقہے لگا کر ہنس پڑے
ممتاز نعت گو شاعر اور دانشور پروفیسر ریاض احمد قادری
خاندانی پس منظر میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا...