دروازے میں ماں کو کھڑا دیکھ اسکا رکا دل پھر سے دھڑکنا شروع ہوا۔اسکی ماں جلدی سے اسکے قریب آئی اور اسے کس کر گلے لگایا آخر جو بھی تھا تھی تو وہ اسکی بیٹی ہی نا۔
اٹھو جلدی کرو وقت کم ہے ۔۔۔ماں کی بات پر اس نے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
اسکی ماں اسے کھڑکی کے قریب لے آئی کھڑکی کو زرا سا دھکا دیا تو وہ کھل گئی ۔۔۔
جاؤ یہاں سے اور پھر واپس مت آنا میں اپنی بیٹی کو جیتے جی مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔
اسنے کچھ کہے بغیر شاید آخری بار اپنی ماں کو گلے لگایا اور کھڑکی کے پردوں سے لٹکتے ہوئے باہر گیراج میں گری۔۔۔
مشکل سے ہی صحی مگر وہ چوکیدار کو چکما دے کر بھاگنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔۔مگر اسکی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور گارڈ نے اسے بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔اور وہ الٹے پاؤں اپنے صاحب کو بتانے بھاگا۔۔۔
نالائیق یہ بات تم مجھے اب بتا رہے ہو کھڑے کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو دفعہ ہو اور پکڑو اسے اور اپنے ساتھیوں کو بھی لے جاؤ۔
زندہ یا مردہ مجھے وہ چاہئیے بھاگنے نا پائے میں اب اپنی عزت پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا۔۔۔
اسکے باپ نے سفاکی کی تمام حدیں پار کرتے کہے جبکہ اسکی ماں آنے والے وقت کا سوچ کر لرز اٹھی۔
**********
ایشمل خانزادہ آج اپنی بیچ میٹ کی شادی پر آئی تھی۔ہلکے نیلے رنگ کا کام والا شارٹ فراک اور کیپری پہنے۔دپٹے سلیکے سے سینے پر سجائے وہ تمام محفل میں سب سے منفرد لگ رہی تھی۔
ایشمل کو کافی دیر سے اپنے چہرے پر پرتپش نظریں محسوس ہو رہی تھیں مگر اسے کوئی نظر نا آیا۔جونہی اسکی نگاہیں سامنے سٹیج پر گئیں تو حیرت کے مارے منہ کھل گیا۔
کیونکہ سیال صاحب کالی شلوار کمیز میں شہزادوں کی سی آن بان لیے سٹیج پر دلہے کے ساتھ براجمان تھے جبکہ گہری نگاہیں ایشمل پر ٹکا رکھی تھیں۔
ایشمل کے منہ کھولے دیکھنے پر سیال کو ہنسی تو بہت آئی مگر ضبط کر گیا۔اس نے سب سے بچ کر ایشمل کو آنکھ ماری تو وہ ہوش میں آئی ساتھ ہی اسکے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔
کتنے دھڑلے سے اس ٹھرکی نے اسے آنکھ مار دی تھی اسکا چہرہ لہو چھلکانے لگا۔۔۔
اسنے نظروں نظروں میں ہی ایشمل کو اشارے کیے جسکے جواب میں وہ نفی میں سر ہلا گئی۔
سیال نے آنکھیں دکھائیں تو ایشمل نے زبان دکھا دی۔اسکی شوخ حرکت پر سیال مسکرا اٹھا اور سٹیج سے اٹھ کر اسکی طرف قدم بڑھائے۔۔
وہ اسکو اپنی طرف اتا دیکھ جھٹ دوسری طرف بھیڑ میں گم ہو گئی۔
ایشمل نے ایک پلر کے پیچھے سے جھانک کر سیال کو دیکھا جو ابھی کچھ دیر پہلے سامنے ہی تھا مگر اب اسکا وہاں نام و نشان نہیں تھا۔۔۔
کہاں گیا یہ۔۔۔۔ایشمل نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتے کہا۔
اہممم۔۔۔۔کسی نے اسکے کان کے قریب گلا کھنکارا تو تو وہ ہڑبڑا کر پیچھے مڑی جہاں وہ اپنی تمام تر وجاہت سمیت اسکے ہوش اڑا رہا تھا۔
جی تو ایشمل میڈم اپنے مجھے ملنے سے انکار کیا۔اسکے تیور دیکھ ایشمل نے تھوک نگلا۔۔۔
وہ وہ وہ۔۔۔
کیا وہ وہ اسکے گھگیانے پر سیال نے لطف اندوز ہوتے پوچھا۔۔۔۔
ویسے آج تو دل پر چھریاں چلا رہی ہو جلد ہی رخصتی کرانی پڑے گی۔
سیال نے اسے والہانہ نظروں سے دیکھتے کہا۔۔
اسکی بات پر ایشمل چھپنے کے لیے جگہ ڈھونڈنے لگی کتنا بےباک تھا وہ۔۔۔۔
آنٹی آپ اسنے حیرت سے آنکھیں بڑی کرتے سیال کے پیچھے دیکھتے کہا۔۔۔
سیال جھٹ پیچھے مڑا۔۔۔
مگر پیچھے نا تو آنٹی نا آنٹی کا نام و نشان تھا۔اسنے مڑ کر ایشمل کو گھورنا چاہا تو وہ دور کھڑی اسے زبان چڑا رہی تھی۔
اسنے ہنس کر سر جھٹکا۔اس سے پہلے کے وہ جاتا ایشمل نے اسے پکارا۔۔۔۔
سیال۔۔۔
اسکی میٹھی پکار پر سیال کا دل تھما تھا دھڑکن تیز ہوئی تھی۔دل اس پکار پر ہمیشہ تڑپنے کے لیے تیار تھا۔
اسنے دھیرے سے پلٹ کر دیکھا۔تو وہ آنکھوں میں محبت کے جگنو لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
سیال کے دیکھنے پر ایشمل نے دونوں ہاتھوں کو سر سے لگا کر پیار سے اسکی بلائیں لی۔
ایشمل کو جب سیال پر پیار آتا وہ ایسے ہی کرتی۔
اور سیال وہ تو اسکی اس ادا پر ہر بار کی طرح دل و جان سے فدا ہوا تھا اسکا دل کیا لوگوں کو بھاڑ میں بھیج کر اسے پنے سینے میں بھینچ لے۔وہ مانتا یا نا مگر اسکا دل پوری طرح ایشمل کا گرویدہ ہو چکا تھا۔
وہ سینے پر ہاتھ رکھے ادھا پیچھے کو گرا جیسے اسکی اس ادا پر بےہوش ہونے والا ہو جس پر ایشمل کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
دل نے بےاختیار اسکے کھلکھلانے کی دعا کی تھی۔
مگر دماغ اسنے اسے ہوش میں لا پٹخا تھا۔جو بھی تھا وہ اپنا مقصد بھولا نہیں تھا۔لیکن کیا اسکی انا اسکی محبت کو جلا دے گی اسنے اسکے بارے میں سوچا نا تھا۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔
ویسے بھی اسے کسی کو ٹھکانے لگانا تھا۔
******************
اظہر کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس ہو چکا تھا اور اب وہ ایک کابل پولیس آفسر بن چکا تھا ۔آج وہ اپنے کانسٹیبل کے ساتھ بازار میں راونڈ پر نکلا تھا۔
جب اسے کچھ لڑکے ایک لڑکی کو گھیرے نظر آئے ۔سامنے منظر دیکھتے ہی اسکے ماتھے پر ان گنت بل پڑے وہ جیپ سے اتر کر انکے پاس گیا جہاں وہ لڑکے ہاتھ میں لڑکی کی میڈیسن لیے اسے ایک دوسرے کی طرف اچھال رہے تھے جبکہ لڑکی اپنی میڈیسن کے لیے فریاد کر رہی تھی۔
اظہر نے ایک پل کو لڑکی کی طرف دیکھا ایک سرسری نگاہ کب گہری نظروں میں بدلی پتا ہی نا چلا۔۔۔
بڑی بڑی نیم باز آنکھیں کاجل سی لبریز ہونٹوں پر نقاب کا پہرہ آنکھوں میں شبنم کی مانند موتی چمک رہے تھے۔
اسکی سیاہ گھور آنکھیں اظہر کا دل دھڑکا گئیں تھیں۔مگر اسنے اپنے دل کو ڈپٹا جہاں صرف رامین بستی تھی۔
مگر اس پردہ پوش لڑکی کو دیکھے اظہر کے دل میں یہ خیال ضرور جاگا تھا کہ ہر لڑکی کو اس طرح ہونا چاہیئے جو اپنے اپ کو ڈھک کر تمام نامحرموں کی نظروں سے بچا کر رکھے۔
مگر ان جنگلی بھیڑیوں کا کیا جو ایک کمزور لڑکی کے پردے کا بھی خیال نہیں رکھ رہے تھے۔اظہر کی برداشت بس یہیں تک تھی۔اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ ایک بری افتاد کی طرح ان پر ٹوٹ پڑا۔اور انہیں دھنک کر رکھ دیا۔
سامنے کھڑی لڑکی اسکی جنونیت دیکھ کر ڈر کے مارے کانپنے لگی۔
اس لڑکی پر نظر پڑی تو وہ ہواسوں میں آیا اور انہیں کک رسید کرتا اپنے کانسٹيبل کو انہیں لے جانے کا کہا۔
نیچے سے تمام بکھری ادویات اکٹھی کر کے اس لڑکی کو پکڑائیں۔
اس لڑکی نے کپکپاتی آواز میں نم آنکوں سے اسکا شکریہ ادا کیا۔۔۔
آئیے میں آپ کو گھر چھوڑ دوں لڑکی کا اس پہر اکیلے جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔وہ جو انکار کرنے لگی تھی اسکی وردی دیکھ کر کچھ پل سوچا اور اسکے ساتھ چل دی دو گلیوں بعد اسکا گھر آ چکا تھا۔
جب وہ اندر جانے لگی تو اسنے پھر شکریہ کہا۔
شکریہ کی کوئی بات نہیں یہ تو ہمارا فرض ہے۔یہ کارڈ رکھیے کبھی کوئی مصیبت پیش آئے تو فوراً اطلاع کی جیے گا۔
اس لڑکی نے وہ کارڈ تھام لیا۔
وہ جانے کے لیے پلٹا مگر پھر کچھ سوچ کر پلٹا اور اسکا نام پوچھ لیا ۔۔۔جبکہ وہ ہونکوں کی طرح اسکا منہ تک رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی گھر میں پیچھے سے کوئی پکارا۔۔۔۔
“ارے مولانی کہاں رہ گئی تھی تو کب سے تیرا انتظار کر رہی تھی”جھنجلائی آواز پر اسنے فٹافٹ ہڑبڑا کر گیٹ بند کی۔۔۔۔
“مولانی”اسنے دھیرے سے اسکا لقب دھرایا اور مسکرا دیا۔۔۔۔
************
ایشمل کو واپسی پر دیر ہو چکی تھی جبکہ واپسی پر وہ اپنی مولانی سے بھی مل کر آئی تھی۔چاچا جلدی چلائیے اسنے اپنے ڈرائیور کو کہا۔
جب گاڑی کچھ آواز سے رک گئی ۔
کیا ہوا چاچا۔۔۔
اسنے پریشانی سے پوچھا۔۔
بیٹا لگتا ہے انجن گرم ہو گیا میں پانی کا پتا کر کے آتا ہوں ۔۔۔
اسنے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔اور سیال کو کال ملانے لگی جو کب سے اپنا فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
اف کیا مصیبت ہے اسنے جھنجلا کر کہا۔۔۔
وہ جھنجلائی ہوئی بولی ۔۔۔جب ایک چیخ نے اسکی توجہ اپنی طرف کھینچی۔۔۔
یہ کیسی آواز ہے اسنے ڈر کر سوچا۔۔۔
وہ گاڑی سے ڈرتے ہوئے باہر نکلی اور اس گلی میں گئی جہاں کوئی چیخ کر مدد کے لیے پکار رہا تھا۔۔۔
وہ منہ میں جلتوجلالتو کا ورد کرتے آگے بڑھی اور اس سمت آئی آگے کا منظر دیکھ کر خوف اسکی نس نس میں سرائیت کرنے لگا۔
جہاں ایک آدمی کٹی ٹانگ اور ہاتھ لیے اپنے سامنے کھڑے شخص سے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا مگر سامنے کھڑا بےحس ظالم جلاد اسکی بات پر کان دھرے بغیر اسکی دوسری ٹانگ بھی کاٹ چکا تھا۔۔۔۔
ایشمل کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے بچی۔
آنسو اور ڈر ایک ساتھ اس پر حملہ آور ہوئے۔۔۔
بہت بڑی غلطی کر دی تو نے میرے ہاتھ لگ کر slayer کبھی اپنا شکار ادھورا نہیں چھوڑتا سناٹے میں اس جلاد صفت شخص کی سفاکی بھری آواز گونجی۔۔۔۔
ایشمل کے کان slayer لفظ پر کھڑے ہو چکے تھے۔یہ تھا وہ شخص جو سب کا بےرحمی سے قتل کرتا آیا تھا۔۔۔
ایشمل کا دل کیا اس شخص کا منہ دیکھے مگر ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔۔۔۔
ایک آخری وار کے ساتھ اسنے سامنے پڑے آخری سانسیں لیتے آدمی کا کام تمام کر دیا۔
جہاں slayer نے آخری وار کیا وہیں ایشمل کے منہ سے دبی دبی سسکیوں بھری چیخ گونجی۔
اسنے فوراً اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔
جبکہ Slayer نے جھٹ گردن موڑ کر اس چشم دید گواہ کو دیکھا جو اسکا قتل دیکھ چکی تھی۔
اسکے پلٹتے ہی ایشمل کے خوفزدہ نظریں اس پر پڑیں اور اسکا دل دھک سے رہ گیا۔آسمان اور زمین گھوم گئے جبکہ ٹانگوں نے بوجھ اٹھانے سے انکار کیا اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی نیچے گری۔
یہ آخری چیز تھی جس کی ایشمل کو امید نہیں تھی۔اسکے دل میں شدید درد اٹھا۔
slayer دھیرے دھیرے چل کر اسکے پاس آنے لگا۔وہ بمشکل کھڑی ہوئی ٹانگیں ابھی بھی کانپ رہی تھیں جیسے ہی(slayer) نے اسے کندھوں سے پکڑا اسنے ایک چیخ کے ساتھ اسے دھکا دیا اور گرتے پڑتے بھاگتی ہوئی اپنی گاڑی کے پاس بھاگی اسے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز آئی۔ایشمل کے ہواس ساتھ چھوڑنے لگے تھے۔
****************
وہ بھاگتے ہوئے جنگل کے راستے پر آ پہنچی تھی۔بس دل میں دعا تھی کے کسی طرح بچ کر نکل جائے۔وہ بھاگ رہی تھی اندھا دھند بغیر کسی چیز کی پروا کیے۔چپل تو کہیں پیچھے گر گئی تھی ۔پھتریلے راستے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے اور کئی نوکیلے پھتر اس کے پیروں میں گھس کر اسکے پاؤں لہو لہان کر چکے تھے۔۔
کئی دفعہ ٹھوکروں کی وجہ سے اسکے بازوں،کوہنیاں اور ہتھلیاں چھل چکی تھیں۔
پکڑو سالی کو بھاگنے نا پائے ۔
پیچھے سے کرائے کے غنڈوں کے پیروں کی آواز اور واحیات آوازیں سن کر اسکے پیروں میں اور تیزی آ گئی۔
اس کے پاس سر ڈھکنے کے لیے نا دپٹا تھا نہ تن ڈھکنے کہ لیے چادر۔آج اسے دپٹے کی اہميت کا سہی اندازہ ہوا تھا۔
وہ خود کو جتنا کوستی اتنا کم تھا اسنے راہ بدلنے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔
آگے دیکھتے ہی اسکے اوسان خطا ہوئے کیوں کے آگے گہری ڈھلوان تھی بہت گہری۔
اب کہاں جائے گی بلبل آج تو تیرا کریا کرم ہم اپنے ہاتھوں کریں گے۔ ان سبھی کہ منہ سے حوس ٹپک رہی تھی۔
آگے کنواں تھا تو پیچھے کھائی ۔
اس نے آنسو بھری آنکھوں سے اوپر دیکھا اور دل میں پختہ ارادہ لیے ہوئے کود پڑی۔
آآآآآآ
اس نے اپنی عزت کو بچانا ضروری سمجھا تھا اب اتنی آگے جا کر وہ اپنے قدم پیچھے نہیں لے سکتی تھی۔
***************
Aftab sikender آفتاب سکندر
Aftab sikender آفتاب سکندر