ایشمل کی آنکھ کھلی تو اپنے اپ کو کمرے میں پایا ۔بیٹا کیا ہوا تھا ڈرائیور نے بتایا تم گاڑی کے پاس بےہوش ملی تھی۔
ایشمل کی ماں نے بےچینی سے پوچھا۔۔۔
اور وہ وہ تو گم سم تھی جیسے بولنا ہو بھول گئی ہو ۔الفاظ تو جیسے کہیں کھو گئے تھے۔
اسکی ماں نے اسکی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تنہا چھوڑ دیا اور سوالات کل پر چھوڑ دیے۔ایشمل یکٹک چھت کو دیکھے جا رہی تھی۔اسنے شدت سے دعا کی کہ اسکی یادداشت کھو جائے یا وہ سب جھوٹ ہو جو کچھ دیر پہلے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکی تھی۔
اسکے کانوں میں مولانی کی آواز گونجی۔۔۔
“ایشمل نامحرم کی محبت کڑے امتحان لیتی ہے یہ وہ آگ ہے جس میں بندہ جھلس جاتا ہے”
ایشمل کو آج اسکی باتیں ہزار فیصد درست لگی تھیں۔۔۔
*************
نورالعین اللّٰہ کا نام لیتے اونچی ڈھلوان سے کود چکی تھی۔پیچھے کرائے کے غنڈے بھاگے آئے مگر اتنی گہری ڈھلوان میں اسکی چیخوں اور پھٹے ہوئے کپڑے کے علاوہ کچھ نا ملا۔۔۔
لگتا ہے مر گئی۔۔۔ایک نے گوہرافشانی کی۔۔۔
ظاہر ہے جہاں گری ہے وہاں سے کوئی زندہ نہیں بچ سکتا۔دوسرے نے اسکی بات کی تصدیق کی۔
سالی چیز مست تھی ۔تیسرے نے خباثت سے کہا تو سارے ہنس پڑے اور اپنے مالک کو انکی بیٹی کے مرنے کی اطلاع دینے کے لیے نکل پڑے۔۔۔۔
************
سیال کی نظریں یونی کے مین گیٹ پر ہی ٹکیں تھیں جب اسے ایشمل اندر آتی دکھی۔سرخ آنکھیں مترنم چہرہ سرخ ہونٹ وہ کسی حال سے بھی اچھی حالت میں نہیں لگ رہی تھی۔
اس سے پہلے کے وہ سیال کے پاس سے آگے گزرتی وہ اسکے راستے میں آیا ۔ایشمل نے نظر اٹھانا بھی گوارا نا کیا۔وہ دوسری طرف سے گزرنے لگی تو سیال نے اسکے ہاتھ پر گرفت سخت کی اور گھسیٹتے ہوئے یونی کی بیکیارڈ میں لے آیا۔۔۔۔
تم تو مجھ سے محبت کی دعویدار تھی نا تو پھر یہ گریز کیوں۔۔۔سیال نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
جبکہ وہ پھپک پھپک کر رو دی۔۔۔۔
مجھے کہاں خبر تھی کے میری محبت ایک قاتل ہے ایک خونی ہے۔اسنے کرب سے آنکھیں میچتے کہا۔۔۔۔
Very well said….
تو محبت ختم ۔یہاں تک ہی تھی تمہاری سو کالڈ محبت اسنے سرد آنکھوں سے اسے گھورتے کہا۔
تو ایشمل نے اپنی سرخ آنکھیں اٹھا کر مقابل کی آنکھوں میں گاڑیں۔۔۔۔۔
محبت تو کب کی ختم ہو گئی۔۔۔۔ایشمل نے سرسراتے لہجے میں کہا تو سیال کے دل کی دھڑکن سست ہوئی اسکی نگاہیں پل میں سرد ہوئیں۔۔۔
اب تو فقت عقش باقی ہے جو میری رگ رگ میں سرائیت کر چکا ہے۔۔۔۔۔ایشمل کی پوری بات پر سیال کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔۔۔
کیا اسے کوئی اس حد تک بھی چاہ سکتا تھا۔۔۔
تو کیا کر سکتی ہو تم میرے لیے۔۔۔۔اسنے پتھریلے لہجے میں کہا۔۔۔
ایشمل نے اس بےمہر کو دیکھا جو سفاک لہجے میں اسکی جان نکانے کے در پر تھا۔۔۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئے سیال کے پاس آئی اور اسکے ہاتھ پکڑ کر گویا ہوئی۔۔۔۔
سیال پلیز تم یہ سب چھوڑ دو ہم کہیں دور چلیں گے جہاں یہ سب نا ہو۔۔۔
اسنے سیال کو قائل کرنے کی ناکام سی کوشش کی۔۔۔
صاف کہو تم مجھے چاہتی ہی نہیں اگر چاہتی تو مجھے میری خامیوں سمیت اپناتی۔اسنے اسے جھٹکا دیا تو وہ زمین پر گری۔۔۔
آئندہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
وہ سفاکی کی حد پار کرتے ہوئے اسکے جسم سے جان کھینچ گیا۔۔۔۔
وہ مسکرایا وہ جانتا تھا ایشمل اس سے دور نہیں جا پائے گی وہ اسکے پاس ہی آئے گی کیوں کہ وہ اسے پوری طرح گھیر چکا تھا۔۔۔۔
پیچھے وہ خالی نظروں سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔۔۔
*****************
ایشمل اس وقت مولانی کے سامنے تھی اور سیال کی ساری حقیقت جان کر وہ سخت صدمے میں تھی۔
آپی اپ اب بھیاس سے پیار کرتی ہیں اپ ایسا کیسے کر سکیتی ہیں وہ قاتل ہے ایک اور آپ اسی سے دل گا بیٹھی ہیں۔اف خدایا !
میرے اختیار میں کچھ نہیں تم نہیں سمجھ سکتی میں کن خاردار کی مسافر بن چکی ہوں تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔۔۔۔
اسے ایشمل کا بکھرا ہلیہ دیکھ کر اس سیال عرف Slayer سے نفرت ہوئی۔
کیسا شخص تھا وہ جو گناہ کر کے بھی دھڑلے سے بھی کھلے عام گھوم رہا تھا اور حد تو یہ تھی کہ آنکھیں بھی اپنی نام کی محبت کو دکھا رہا تھا۔
اگر ایشمل اسکے لیے احم نا ہوتی تو وہ اس شخص کی عقل ٹھکانے لگا دیتی جس شخص نے اسکی عزیز جان آپی کو یوں رول کر رکھ دیا تھا۔۔۔
اور ستم تو یہ تھا کہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
*******************
وہ ڈھلوان سے گرتی ہوئی سڑک پر آن پہنچی تھی۔وہ لہولہان ہوتے وجود کے ساتھ بمشکل اٹھی اور خدا کا شکر ادا کرنے لگی جسنے اسے ان بھیڑیوں سے بچا لیا تھا۔
ابھی وہ سمبھلی بھی نا تھی کہ ایک تیز رفتار گاڑی آ کر اس سے ٹکرائی اور وہ جھٹکے سے دور جا گری۔
اسنے بند ہوتی آنکھوں سے ایک نوجوان کو اپنے پر جھکتے پایا ۔اسکے دل نے شدت سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا کی۔۔۔۔
***************
اگلے دن جب ایشمل یونی پہنچی تو سیال کے ساتھ ایک لڑکی کو چپکے دیکھا جو واہیات لباس میں اسکے بےحد نزدیک جھکے کان میں کچھ کہ رہی تھی۔
ایشمل کے دل میں ایک دم درد اٹھا۔۔۔کیا وہ کسی کو یوں اسکے ساتھ دیکھ سکتی تھی دل نے بےساختہ نفی کی تھی اور وہ تیزی سے سیال کی طرف بڑھی تھی اسنے سوچ لیا تھا کہ سیال کو نہیں چھوڑے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے۔مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ برائی کا ساتھ دینا بھی ایک گناہ ہے جسکی سزا لازم ہے۔۔۔۔
دوسری طرف سیال اسے اپنی طرف دیکھ مسکرایا تھا شاطر مسکراہٹ ۔اب کیا ہونے والا تھا۔۔۔۔
کاوشیں فرہاد احمد فگار کیں
فرہاداحمد فگار کے بارے میں کیا کہوں کہ میں اسے کب سے جانتی ہوں کیوں کہ جاننے کا دعوا مشکل...