خط میں لکا تھا۔۔۔۔
پیارے کاشی !!!!
امید ھے تم خیریت سے ھوگے۔۔۔۔۔
بیٹا نا تمھاری بھابی تم سے خفا ھے۔۔۔….
نا میں بییمار ھوں۔۔ …
تمھیں خط نا لکھنے کی یا تم سے کال پر بات نا کرنے کی صرف ایک وجہ تھی۔۔۔۔۔۔
میں اپنے اندر ہمت پیدا نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔لیکن تمھارا دوسرا خط ملنے کے بعد میں نے اپنے اندر بہت ہمت پیدا کئ اور اب تمھیں خط کے زریعہ جواب دے رہی ھوں۔۔۔میں کال اسلے نہیں کر رہی بیٹا کے میں اس کی ہمت پیدا نہیں کر سکی۔۔۔میں تمھیں دکھ میں نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔کاشی بات یہ ھے کے تمھارا پہلا خط ملتے ھی میں بہت جوش ھوئ اور فورن ہی جیاء کے گھر جا کر جیا کا ہاتھ مانگنے ہی والی تھی کے اچانک ان کے گھر سے مٹھائ اگئ۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ جیاء کی منگنی کی مٹھائ تھی کاشی۔۔۔۔یہ خبر سن کر میں تڑپ کر رہے گئ اور تم سے میں یہ سب اسلیے چھپانا چھاتی تھی کیوں نکہ میں ڈرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
کے تم سب کچھ چھوڑ کر دکھ اور غم سے واطن واپس نا آجاوں یا ایسا نا ھو کے تم وطن آنے کا ارادہ ہی طرک کردو۔۔۔۔۔
۔لیکن تمھارا دوسرا محبت بھرا خط ملا تو میں خود کو مزید روک نا سکی۔۔۔
۔۔۔اور میں اب یہ اچھی طرح جانتی ھوں کے چاھے کچھ بی ھو جائے تم اپنی بھابی کا دل نہیں توڑ سکتے۔۔اور تم میری خاطر اپنے وقت پر ھی پاکستان واپس لوٹو گے۔۔۔۔۔
تمھاری بھابی کو تمھارا انتیظار رہے گا ۔۔۔۔کاشی۔۔۔۔۔
ایسا نا ھو کے تمھاری بھابی تمھارا انتیظار کرتے کرتے تم سے ہمیشہ کے لیے روٹھ جائیں۔۔۔بھابی نے اگے خط میں اور بی بہت تسلیاں دی تھی۔۔۔۔
اور لکھا تھا کے تم بہت باہمت لڑکے ھو کاشی اور مجھے تم پر پورا بھروسہ ھے۔۔۔
کے تم جزبات میں آکر کوئ غلط قدم نہیں اٹھاو گے ۔۔۔۔۔
اور اپنی آئندہ انے والی زندگی کا حق تم صرف مجھے دو گے۔۔۔۔۔
اور جیاء اس منگنی سے بہت خوش ھے کاشی وہ بہت مگن ھے۔۔۔۔
۔تو میں چاھتی ھوں کے تم بی اس کو اپنی کمزوری نا بناو۔۔۔۔
اور ہمشہ کی طرح وطن واپس او جاوں۔۔۔اور تم نے اپنے ساتھ کچھ بی غلط کیا یا کوئ غلط قدم اٹھایا تو تمھاری بھابی تمھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ منجانب :-
تمھاری بھابی۔۔۔۔
کاشی نے انکھیں کھولی تو ایک دم اسکی انکھوں سے ایک کے بعد ایک انسو گر رہے تھے۔۔۔۔۔ جہاز کی کھڑکی سے بھار دیکھتے ھوئے کاشی کے دماغ میں سوالوں کی ایک جنگ چل رہی تھی۔۔۔۔ااس کو بار بار جیاء کا سراپا یاد آرہا تھا۔۔۔۔۔
اج پھر اس کے غم تازہ ھوئے تھے۔۔۔۔
جیاء یہ تم نے کیوں کیا ؟؟؟
وہ اپنے خیالو میں جیاء سے سوال کر رہا تھا۔۔۔۔۔
اتنی جلدی ہار مان گئ تم ؟؟؟
بس یہ پیار تھا تمھارا ؟؟؟
تم تو زندگئ بھر میرا انتیظار کرنے کو تیار تھی!!!
کتنی قسمیں وعدے کئے تھے ہم نے۔۔۔۔
تم تو آٹھ ماہ میں ہی اپنھ سارے وعدے بھلا بھیٹی۔۔۔۔
اپنے کاشی کو بھلا بیٹھی ۔۔۔۔
آخر کیوں جیاء کیوں مجھ سے میری ھر خوشی چھین لی تم نے اخر کیوں؟؟؟۔۔۔
اس کی انکھیں لال سے لال ھوئ جا رہی تھی۔۔۔جیاء میں نے تو صرف اور صرف تمھاری خاطر خود کو ھر رنگینی سے دور کر لیا تھا۔۔۔
میں تو دن رات صرف تمھارے ساتھ کے بارے میں سوچتا تھا۔۔۔۔۔
میں نے تو اپنے دل کے دروازے صرف تمھارے لیے کھولے تھے۔۔۔
اور پھر تم پر بند خر دیے میں نے تو اپنے دل میں کسی کو انے کی جگہ نا دی تو پھر تم کیوں؟؟جیاء مشرقی لڑکیاں تو بےوفا نہیں ھوتی نا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
جیاء پھر تم نے بے وفائ کیوں کی۔۔۔۔؟؟؟؟
کیا کمی تھی میرے پیار میں ؟؟
تمھارے لیے تو بس وہ چند دن کا کھیل تھا۔۔۔۔لیکن میرے !!!! اور اب تم اپنی منگنی پر اتنا خوش ھو مگر میں جیاء میں؟؟؟
کاشی نے دکھ اور حقارت سے جیاء کے بارے میں سوچا !!!
پھر اس کی انکھوں مین ایک نیا عزم اور حوصلہ پیدا ھوا۔۔۔
۔میں ایک بےوفا لڑکی کیلئے اپنے اپ کو کمزور نہیں کروں گا اپنی زندگی برباد نہیں کروں گا..میں بھیا بھابی کے کیے خود کو مظبوط بناو گا۔۔۔۔۔میں اپنے بھیا بھابی کو مثال بن کر دیکھاو گا۔۔۔۔۔۔
جیاء علی !!! میں تمھیں بتاو گا کے کاشف خان کو ہارانا اسان نہیں ھے۔۔۔۔
میں زندہ ھوں تمھارئ جیسی بےوفا لڑکیاں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔۔۔
مجھے نفرت ھے جیاء تم سے بہت نفرت ھے۔۔۔۔۔۔
کیاں میں اپنے فیصلے پر قائم رہ سکوں گا۔۔؟؟؟؟۔کاشی نے خود سے سوال کیا۔۔؟؟؟۔
کیا واپس جاکر میں اس کا سامنا کر سکوں گا۔۔۔۔؟؟؟؟
میں کبھی پاکستان واپس نا آتا اگر مجھے میرے بھابی بھائ کا خیال نا ھوتا تو۔۔۔۔۔
یاد رکھنا جیاء خان میں صرف اپنی بھابی کی وجہ سے واپس ارہا ھوں۔۔۔۔۔
کاشی بے باسی سے یہ سب سوچ رہا تھا۔۔….۔کاشی ہی جانتا تھا کے یہ چھ ماہ اس نے کیسے گزارے ھیں۔۔۔۔۔۔
۔کاشی نے خود کو بلکل تنھا کر کے اپنا ساراا دیھان کتابوں پر دے دیا تھا۔۔۔۔۔
وہ اس بارے میں نہیں سوچتا تھا۔۔۔
لیکن اج وہ پاکستان واپس جا رہا تھا اور اب اس کو ہی سب face کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاز کا سارا راستہ وہ اپنے خیالوں میں جیاء سے لڑتا رہا۔۔۔۔۔
پھر تننگ اکر اس نے head phone کانوں سے لگا لیے اور جہاز میں لگے music player پر گانے بدلنے لگا ۔۔۔۔۔۔
اتفاق سے صرف ایک ھی channel ki recording ارہی تھی۔۔۔۔
جس میں گلوکار کاشی کے دل کا حال بیان کر رہا تھا۔۔۔۔۔
سوچتا ھوں کے وہ کتنے مصوم تھے ۔۔۔۔
سوچتا ھوں کے وہ کتنے معصوم تھے۔۔۔
کیا سے کیا ھوگئے دیکھتے دیکھتے۔۔۔
میں نے پتھر سے جن کو بنایا سنم وہ خدا ھو گئے دیکھتے دیکھتے۔۔۔۔
ہم سے یہ سوچ کر کوئ وعدہ کرو ایک وعدے پر عمریں گزر جایئں گی۔۔۔۔
جو پتا پوچھتے تھے کسی کا کبھی
جو پتاہ پوچھتے تھے کسی کا کبھی
لاپتہ ھوگئے دیکھتے دیکھتے۔۔۔
سوچتا ھوں کے وہ کتنے معصوم تھے کیا سے کیا ھوگئے دیکھتے دیکھتے!!!!!
کاشی کی انکھوں میں اج مسلسل جیاء کا وجود گھم رہا تھا۔۔۔۔۔
ہر ایک چیز میں جیاء کی یاد آرہی تھی۔۔۔۔۔۔
وہ لاکھ چاہ کر بی جیاء کو اپنے دل سے نہیں نکال سکتا تھا وہ یہ بات جنتا تھا۔۔۔۔۔
لیکن وہ ہارنا نہیں چھاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو خاتون اس کے ساتھ والی سیٹ پر موجود تھی وہ کاشی سے دوستی کی خواہش مند تھی۔۔۔۔جب کے کاشی نے پورے راستے ان سے ایک لفظ بات تو دور نطر تک نہیں ڈالی تھی۔۔۔1۔
کاشی کی سخصیت ہی ایسی تھی کے کوئ بھی اس پر دل ہار سکتا تھا۔۔۔۔
لمبا قد۔۔روشن ماتھا گندمی رنگت ، وجھیہ چھرہ اور اس پر ہلکی سی شیف۔۔۔کاشی کو بہت پرکاشش بناتے تھے۔۔۔اور اج تو کاشی نے فون اور سفید شرٹ کے اوپر بیلو کوٹ لیا تھا ۔۔۔۔۔۔بلاشبہ کاشی ایک وجیہ شخص تھا۔۔۔
جو اداس چہرے کے ساتھ بی سب سے الگ دیکھائ دے رہا تھا۔۔۔
جب جہاز لینڈ ھونے میں تھوڑی دیر تھی۔۔۔۔۔۔۔ تو اس خاتون نے کاشی سے دوستی کی پیشکش کی جس کو کاشی نے فورن منا کردیا۔۔۔۔۔
کاشی کو اب اس سب سے نفرت ھو چکی تھی۔۔۔۔۔
اس کو سب بے وفا لگتے تھے۔۔۔۔۔۔۔
بس وہ جلدی سے جلدی بھابی بھیا کے پاس جانا چھاتا تھا۔۔۔۔۔۔
خوش بی تھا اور کوئ انجانے سے خوف سے پریشان بی تھا۔۔۔۔
اس مرتبہ کاشی ہمیشہ کی طرح نہیں آرہا تھا۔۔۔اس بار وہ بھیا بھابی کو پھلے سے بتا کر آرہا تھا۔۔۔۔۔
جب اس نے اپنی کامیابی کی خوشخبری سنانے کے لیے کال کی تھی۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ بی بتا دیا تھا کے وہ دو دن بعد واپس آرہا ھے۔۔۔۔
اور بل آخر جہاز پاکستان کی سر زمین پر لینڈ ھو ہی گیا۔۔۔۔۔
کراچی ائرپورٹ پر پہنچ کر بھی کاشی کو بے ساختہ وہ دن یاد ایا جس دن جیاء اس کو سی آف کرنے ائ تھی۔۔۔۔۔۔
دیڑھ سال پہلے جب وہ لندن رخصت ھو رہا تھا۔۔۔تو اس وقت جیاء کتنی اداس تھی وہ اور آج ؟؟؟؟
کاشی نے بے باسی سے کہہ !!! کاش اج تم ساتھ ھوتی جیاء کاش۔۔۔!!!!
آج تو صرف بھابی بھیا ھوں گے وہ کیون ائے گی۔۔۔۔۔۔
اس نے خود کو سمجھاتے ھوئے سوچا۔۔۔۔۔۔کاشف بودینگ وغیرہ کروا کر جب باہر نکلا تو بھابی بھائ نے اسکا بہت اچھا welcome کیا۔۔۔۔۔
اسکے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور بھابی نے تو خوشی سے اس کی پیشانی چوم لی۔۔۔–۔
بھیا بھی بہت دیر تک اسے گلے لگائے اپنی خوشی سے نم ھوتی انکھوں سے مسکراتے رہے اور کاشی اتنی محبت پا کر نا جانے کیوں رو پڑا۔۔۔۔
اس کو جیاء کی بےوفائ اور جدائ نے بے حد حساس بنا دیا تھا۔۔۔۔
پھر اس نے بھابی کے خیال سے جلدی سے بے ساختہ ھنستے ھوئے اپنے انسو پونچھ ڈالے۔۔۔۔
یہ خوشی بی کیا چیز ھے نا بھابی۔۔۔؟؟
سخت سے سخت بندے کو بھی رلا دیتی ھے۔۔۔
ھے نا ؟؟؟؟؟
اور بھانی اس کے اس طرح ھنسنے اور بھی خفا ھوگئیں۔۔۔۔۔
میں نے کہا تھا نا کاشی تم نے ہمت نہیں ہارنی ہمیشہ ایک مظبوط انسان بنکر رہنا ھے پھر یہ انسو اور یہ ھنسی کس کو دھوکا دے رہے ھو ؟؟؟کیا ثابت کرنا چھاتے ھو تم کہ پھلے ہی کی طرح سخت اور مظبوط انسان ھو مگر تمھاری ھنسی کا یہ انداز تو کبھی نہیں تھا !!
ٹوٹا ٹوٹا سا–
کیا تم اتنے کمزور ھو کاشی ؟
بھابی کی آواز میں دکھ محسوس کرکے کاشی نے بڑی ہوشیاری سے خود کو سنبھالا اور بڑے تمسخر سے ھنس کر بولا بھابی !!!
آپ کا خیال جان کر بڑا افسوس ھوا مگر میں اتنا کمزور انسان ہرگز نہیں ھوں کہ ایک نازک سی لڑکی سے ہار جاوں !!!!
اگر اپ ایسا سمجھتی ہیں تو یہ سراسر اپ کی گلط فھمی ھے۔۔۔۔۔۔۔
مجھے خود پر فخر ھے کہ میں نے اپنے اپ کو اتنا بےبس کبھی نہیں پایا کہ اپنے اپ کو سنبھال نا سکوں ۔۔۔۔
اپ کا دیور بہت بہادر ھے اور بہت سخت جان بھی اپ فکر نا کریں !!!!
کسی کا دکھ ، کسی کی بےوفائ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی پر شرط یہ ہے کے اپ میرے ساتھ ھو۔۔۔۔۔۔اس نے بھیا کی غیرموجودگی سے فائدہ اٹھاتے ھوئے انکا ہاتھ تھا لیا اور شرارت سے ایک انکھ دبا کر کہا !!!
تو بھابی اس کے عزم اور حوصلے کو دیکھ کر خوشی سے سرشار ھوگئ۔۔۔۔۔۔
بھیا سامان گاڑی میں رکھوا چکے تھے۔۔۔۔۔
یہ دونوں بی جلدی جلدی ان کے قریب چلے گئے۔۔۔
اب تو خدا خدا کر کے شکر ھے کے پردیس سے تمھاری جان چھوٹ گئی۔۔۔۔۔
کاشی بس تم اب اکسی اچھے سے بینک میں apply کر دو ۔۔۔۔۔۔
بھابی کی خوشی قابلے دید تھی۔۔۔۔۔۔۔
جی کیوں نہیں بھابی ۔۔۔۔
بس اب تو عیش ہی عیش ھیں ۔۔۔۔۔اب تو اپنا گھر ھوگا۔۔۔۔۔۔
اپ کے ہاتھ کے کھانے ھوگے ۔۔۔۔۔
بھیا اور اپ کی پیاری پیاری باتیں ھوگئ۔۔۔۔۔کاشی نے سچی خوشی محسوس کرتے پیار سے کہا !!!
ہاں یہ سب تو خیر ھوگا ھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عدد تمھاری پیاری سی دلہن بھی ھوگئ۔۔۔۔۔۔
اسے کیوں بھول گئے
۔۔۔یاد نہیں تم نے کہا تھا کے جب واپس اجاوں گا تو شادی کر لوں گا۔۔۔
بھابی کے لہجے میں محبت کے ساتھ ساتھ اشتیاق بھی تھا کاشف کا چہرہ ایک دم سے اداس ھوگیا۔۔۔۔مگر وہ خاموش رہا۔۔۔۔بھابی کتنے ارام سے کہہ رہی تھی جیسے ان کو کچھ پتا ھی نا ھو۔۔۔۔کاشف کو دکھ ساھوا۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشف نے گاڑی کی کھڑکی سے باھر دیکھا اور شیشہ کھول دیا ۔۔۔۔۔۔
کراچی کا موسم کافی ٹھندا تھا۔۔۔
دسمبر چل رہا تھا اور سردی کے ساتھ ساتھ تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔
کاشی کے اندر گھوٹن سی ھو رہی تھی۔۔۔۔۔کاشف کو اس وقت وہ ٹھندی ٹھندی ہوا بہت اچھی لگی۔۔۔۔۔۔
بے ساختہ اس وقت کاشی کے دل نے اللہ سے دعا کی۔۔۔۔۔۔
کہ اے میرے اللہ میری زندگی میں بھی سکون کی ایسی ٹھندی ھوا چلا دے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ گھر کی راہ تکنے لگا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد شان الحق حقی دہلوی پر پہلا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ڈاکٹر عرفان شاہ کا اعزاز
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری ممتاز ماہر تعلیم، محقق، مصنف، صحافی، مدیر، مولف اور اردو زبان و ادب...