کاشی کو انگلینڈ آئے چھ ماہ ھوگئے تھے۔۔۔۔۔۔اور اس چھ ماہ کے عرصہ میں کاشی نے صرف ایک بار کال کی تھی۔۔۔۔۔۔۔
جو آتے ساتھ ھی اس نے اپنی خیریت کے لی کئ تھی۔۔۔
اسکے علاوہ اسکا بھیا بھابی یا جیاء سے کوئ رابطہ نہیں ھوا تھا۔۔۔۔۔
کیونکے آتےہی کاشی کے exams شروع ھوگئے تھے۔۔۔۔۔
اور کیوں کے اس کی تیاری نہیں تھی اس لی اس کو اپنی تمام تر توجہ اپنی پڑھائ پر دینی تھی۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے اس نے اپنے امتحان کے دوران کسی سے کوئ رابطہ نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔۔
لیکن ساتھ ساتھ اسکو بھابی اور جیاء کی ناراضگی کا بھی بہت خیال تھا۔۔۔
کے وہ دونوں اس کے رابطہ نا کرنے پر سخت کفا ھوگئ۔۔۔۔ ۔۔
۔اسلیے جیسے ہی کاشی کے امتحان ختم ھوئے اور وہ hostil آیا تو اس نے بھیا کو کال کی بھیا سے اسکی بہت بات ھوئ وہ office میں تھے ۔۔۔۔۔
انوں نے کاشی کو اچھی کاسی نصیحت کر کے کال بند کر دی اب کاشی نے بھابی کو کال ملائ تو بھابی نے نا اٹھائ کاشی کو حرت ھوئ لیکن وہ جانتا تھا بھابی ناراض ھوگئ تبی کال نہیں اٹھا رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کاشی نے بھابی کی ناراضگی دور کرنے کے لیے بھابی کو اپنے ہاتھ سے خط لکھا۔۔۔۔جس میں اس نے جیاء سے محبت کا اظہار بی کیا اور بھابی کو یہ بھی بتایا کے ۔۔کاشی جیاء سے شادی کا خواہش مند ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور پاکستان واپس لوٹتے ھی وہ جیاء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لے گا۔۔۔۔۔
کاشی خط بہت خوشی خوشی لکھ رہا تھا۔۔۔
اسکو لگا تھا کے بھابی یہ خبر سن کر اسے معاف کردیں گئ۔۔۔
اور ساری ناراضگی بھول جایئں گی۔۔۔۔۔۔اور ساتھ اسنے جیاء کے لیے بی خط لکھا تھا۔۔۔۔۔پر وہ جانتا تھا جیاء جواب نہیں دے گئ اسکی امی کی وجہ سے اس کے لیے مشکل ھوگا۔۔۔۔۔
لیکن پھر بی وہ جیاء کو باتنا چاھتا تھا کے وہ اسکو کتنا یاد کرتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ایک دن گن کر گزارتا ھے۔۔۔۔۔اور اس کو ملنے کے لیے کتنا بےتاب ھے۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دونوں خط لکھ کر لفافہ میں رکھ دیے ۔۔۔۔اور سوچ سوچ کر خوش ھونے لگا کے وہ دونوں اسکا خط پڑھ کر کتنا خوش ھوگئ۔۔۔۔۔۔
کاشی بہت خوش تھا۔۔۔۔۔۔۔ک
خط لکھ نے کے بعد ایک بار پھر سے خط پر نظر دالی اور پھر کافی ختم کر کہ خوشی خوشی جا کر خط پوسٹ کر دیے۔۔۔۔۔۔
اور پھر واپس ھسٹل جا کر وضو کر کے نماز ادا کئ۔۔۔۔
۔نماز پڑھنے کے بعد کاشی نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے بہت دعائیں مانگی۔۔۔
اپنا اور جیاء کا لمبا ساتھ منگا۔۔۔۔۔۔۔
بھائ بھابی کے لیے دعایئں مانگی۔۔۔۔
وہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاھتا تھا۔۔۔
کے اللہ نے اسکو اتنے پیارے راشتے دیے۔۔۔۔۔۔کاشی اپنے اللہ سے بہت قریب تھا۔۔۔۔۔۔
شوخ کاشی اپنے اللہ کے سامنے بہت سنجیدہ تھا۔۔۔۔وہ اللہ کے سامنے روتا تھا۔۔۔جب اس کو گھر کی حد سے زیادہ یاد آتی تو وہ ان تین لوگوں کے لیے اپنے اللہ سے دعا منگتا۔۔۔۔ھر کام میں جلدی کرنے والے کاشف خان کی نماز بہت پرسکون ھوتی وہ گھنٹوں جانماز پر بیٹھ کر باتیں کرتا اور اپنا اکیلا پن دور کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج اسے خط پوسٹ کئے پورے دو ماہ گزر چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن بھابی کی طرف سے کوئ جواب نا انے پر وہ بہت حیران اور پریشان تھا۔۔کبھی ایسا نہیں ھوا تھا کے بھابی نے اس کی بات کا جواب نا دیا ھو۔۔۔
اور جیاء والی خبر سن کر تو بھابی کو فورن جواب دینا چاھیئے تھا۔۔۔۔۔اور پھر جیاء کا بھی کوئ جواب نہیں آیا تھا۔۔۔۔
کاشی کا دل بہت پریشان تھا۔۔۔۔جب کے بھیا سے اس کی بات ھوتی تو وہ کوئ خاص زکر نا کرتے۔۔۔۔۔۔کاشی کو بہت حیرت تھی کہ اس کی ماں جیسی بھابی اس کو ignore کررہی ھے۔۔۔۔اسکا خیال تھا بھابی ایک پل ضائع کیے بغیر اسکو جواب دیں گئ پر ایسا نا ھوا۔۔۔۔۔کاشی نے بہت پریشان ھو کر دوسرا خط بھابی کے نام لکھا۔۔۔۔۔۔کیوں کے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔۔۔اور اب اس سے صبر نہیں ھو رہا تھا۔۔۔اس کے دل میں برے برے خیال آرہے تھے۔۔۔۔۔
پیاری بھابی !!!!!
آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔۔۔۔نا اپ میری کالز اٹھاتی ھیں ۔۔۔۔جب کے میں نے تو اپ کو وہ خوشخبری سنائ تھی کہ جس کی اپ کو برسوں سے تمنا تھی۔۔۔۔۔اور میرا خیال تھا کہ اپ اتنی خوش ھوگی کہ فورن جواب دیں گی لیکن اب اپ کی خاموشی دیکھ کر میرا دل بہت پریشان ھو رہا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔خدارا بھابی بتائے تو سھی کہ اخر ایسی کیا بات ھے۔۔۔۔۔کے اپ نے اسقدر خاموشی اختیار کر رکھی ھے۔۔۔۔۔۔
کیا اپ مجھ سے اب تک ناراض ھیں ؟؟؟؟
کیا اپ کی ناراضگی اتنی بڑی جوشخبری سے بی ختم نہیں ھوئ کہ میں جلد سے جلد اپ کی جیاء کو اپنی جیاء باننا چھاتا ھوں۔۔۔؟؟؟
یا پھر اپ اس فیصلہ سے خوش نہیں ھے ؟؟؟اگر ایسی بات ھے تو بھابی یقین کریں میں نے اپ کو ماں کا درجہ دیا ھے۔۔اس لیے اپ کو مجبور نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔یہ ضرور ھے کہ جیاء میری زندگی میں انے والی پہلی اور آخری لڑکی ھے نہ اس سے پہلے کوئ تھی نا آئندہ کبھی یہ دل کسی لڑکی کے لیے سوچے گا۔۔۔۔۔اور اگر بھابی یہ بات نہیں ھے تو پھر کیا بات ھے اپ بیمار تو نہیں اللہ نا کرے ؟؟ پلیز بھابی مجھے بتائے۔۔۔۔۔میں بہت پریشان ھو۔۔۔۔۔خدا کے لیے جلدی سے لکھ دیں کیا بات ھے۔۔۔۔؟؟؟ اگر اپ بیمار ھیں تو قسم سے میں سب چیزوں پر لات مار کر اپ کے پاس اجاوں گا۔۔۔۔۔اور اگر اپ ناراض ھیں تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ کر اپ کو منالوں گا۔۔۔۔۔۔۔اور ائندہ کبھی وہ زکر بی زبان پر نہیں لاوں گا۔۔۔جس نے میری ماں جیسی بھابی کو مجھ سے دور کردیا ھے۔۔۔مجھے اپ سے زیادہ کچھ بی پیارا نہیں ھے بھابی!!! میری ماں کے مرنے کے بعد اپ ھی میری ماں ھے ایک ماں کو کھو چکا ھوں اپ کو کھونے سے بہت درتا ھوں بھابی۔۔۔۔۔
پلیز اپنے بیٹے جیسے کاشی کو ضرور جواب دیجے گا۔۔۔۔۔
بہت پیار کے ساتھ:-
۔۔۔ اپ کا بیٹے جیسا دیور ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ کاشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب لکتے ھوئے کاشی کی انکھیں نم ھوگئ تھی۔۔۔۔اسکا دل بہت اداس تھا۔۔۔۔۔وہ بھابی کی محبت میں اتنا ھی جزباتی تھا جتنا ایک چھوٹا سا بچہ اپنی ماں کی محبت میں ھوتا ھے۔۔۔۔اس نے وہ خط فورن جا کر پوسٹ کر دیا تھا اور ایک بار پھر بہت بے صبری سے بھابی کے جواب کا انتیظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔اور اسکو اس مرتبہ اتنا انتیظار کرنا نہیں پڑا تھا۔۔۔۔ایک دن وہ جب university سے ھوسٹل آیا تو اپنے کمرے کی table پر بھابی کا خط دیکھ کر حد سے زیادہ خوش تھا ۔۔۔اس نے اپنا بیگ ایک طرف پھنکتے ھوئے جلدی سے خط اٹھایا اور بیٹھ پر جگہ سنبھالی۔۔۔۔اس نے بےساختہ بھابی کا خط چوم لیا۔۔۔۔اور خوشی خوشی خط کھولنے لگا۔۔۔۔
وہ نہیں جنتا تھا اس کی خوشی چند پل کی تھی وہ جیسے جیسے خط پڑھتا جا رہا تھا اس کا زہن سن ھوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔خط کا ایک ایک الفاظ اس کو خنجر کی طرح لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔اس کے چھرے پر ایک کے بعد ایک رنگ اتا اور جاتا۔۔۔۔۔۔خط مکمل پڑھنے کے بعد اسنے اپنے چکراتے سر کو دونوں ہاتوں سے تھام لیا۔۔۔۔وہ بلکل ساخت ھو چکا تھا اس کو یقین نہیں تھا یہ سب اس کے ساتھ ھوا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی انکھوں کے اگے وہی الفاظ ناچ رہے تھے جس نے چند لمحہ پھلے اس کی دنیا اجاڑ دی تھی۔۔۔۔۔۔
اس کی خوشی کو غارت کر دیا تھا۔۔۔
اس کی مسکراتی انکھوں کو نمی سے بھر دیا تھا۔۔۔۔۔کاشف کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔اخر اس کے ساتھ ہی ایسا کیوں ھوا۔۔۔۔۔۔کاشف کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کا چھا رہا تھا۔۔۔۔کافی دیر ایسی گم سم بیٹھا رہا اس کو یہ تک نا پتا چلا کے کب رات ھوئ اور کب صبح۔۔۔۔اسکو صبح ھونے کا احساس جب ھوا جب اس کی گھڑی نے فجر کی نماز کا alaram بجایا۔۔۔۔۔۔وہ اپنے بھاری سر کو لے کر بیٹھ سے اٹھا اور جا کر وضو کی اس کی انکھیں لال انگارے سے زیادہ لال ھو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہ باتھ روم سے باہر نکلا پھر جانماز بچھا کر فجر کی نماز ادا کی۔۔۔۔ایک ایک رکعت میں کاشی کا صبر جواب دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔کاشی وہ شخص تھا جو کسی چییز سے ہار نہیں مانتا تھا۔۔۔وہ بہت مظبوط اساب کا مالک تھا لیکن اج اسکو لگ رہا تھا کے وہ بہت کمزور ھے وہ رہونا نہیں چھاتا تھا۔۔۔۔لیکن جب انسان کسی بہت اپنے کے پاس جاتا ھے اپنا دکھ بانٹھتا ھے تو وہ ٹوٹ جاتا ھے۔۔۔۔۔اور کاشی ھمیشہ اللہ کے سامنے ٹوٹا تھا۔۔۔۔۔وہ نماز کا سلام پھیر کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر اس وقت کچھ نہیں بولا کیوں کے جانتا تھا اللہ وہ واحد ھے جو اسکا درد سمجھ سکتا ھے۔۔۔۔اس کے بنا کچھ بولے۔۔۔وہ تو ماں سے 70 گناہ زیادہ چاھتا ھے اپنے بندے کو۔۔۔کاشی کی زبان پر شکوہ نہیں تھا۔۔۔اسکی انکھوں سے مسلسل آنسو بھ رہے تھے۔۔۔۔وہ خود کو بہت تنھاہ محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔
اے میرے اللہ تو جو کرتا ھے اچھا کرتا ھے۔۔۔تیری راضا پر میرا سب قربان میرے رب پر مجھے ھمت دے کے میں تیری راضا کو اپنی راضا مان کر سکون میں اجاوں۔۔میرے رب میری مدد فرما !!!مجھے ہمت دے اللہ پاک۔۔۔۔۔۔کاشی کافی دیر تک دعا منگتا رہا۔۔۔خود کو سمجھاتا رہا……۔۔۔۔۔
وقت تیزی سے گزار رہا تھا کاشی اب وہ کاشی نہیں رہا تھا جو وہ تھا۔۔۔کاشی بہت بدل چکا تھا۔۔۔۔۔۔—
کاشی کا اب کسی چیز میں دل نہیں لگتا تھا لیکن کاشی نے ہار نہیں مانی وہ ٹوٹا نہیں اس نے دٹ کر مقبلہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
اج کافی عرصے بعد کاشی خوش تھا۔۔۔اج اس کو acca کی دگیری ملی تھی۔۔۔اج وہ بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ھوا تھا۔۔۔۔کاشی کے امتحان ختم ھونے کے بعد کاشی نے result کا انتیظار کیا اور اب result بی اچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔کاشی کو پاکستان سے ائے پورے دو سال گزر چکے تھے۔۔۔۔اور ان چھ ماہ نے کاشی کو سر سے پیر تک بدل دالا تھا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج وہ ائرپورٹ پر پھنچا تو جہاز اڑنے والا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ جلدی بودینگ کروا کر جہاز میں اگیا تھا۔۔۔
اور اپنی جگہ سنبھال لی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج وہ پاکستان واپس جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان چھ ماہ نے کاشی کا سب کچھ چین لیا تھا۔۔۔کاشی کو اگر اس وقت وہ خط نا ملا ھوتا تو اج پاکستان واپس جاتے وقت کاشی کی خوشی ساتھوے آسمان پر ھوتی۔۔۔۔۔۔
۔۔لیکن اب کچھ بی ویسا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ابی کاشی یے سب سوچ ھی رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔کے اچانک اس کی ساتھ والی سیٹ پر ایک خاتون اکر بیٹھ گئ۔۔۔اور جہاز نے اپنی اڑان بھاری ۔کا شی نے سر سیٹ سے لگا کر انکھیں بند کر دی۔۔۔اب اس کو لوگوں سے وحشت ھونے لگی تھی۔۔۔جب کے کاشی کے ساتھ بیٹھی خاتون بار بار کاشی کو مخطب کر کے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔لیکن کاشی کو اب خاموش رہنا پسند تھا۔۔۔کاشی نے انکھیں بند کی اور سوچنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔اج میں واپس جا رہا ھو۔۔۔۔۔۔
۔کچھ ماہ پھلے تک میں اس دن کے کے بےقرار تھا اور اج نا وہ خوشی ھے نا وہ بے قراری۔۔۔۔۔۔۔اس کو وہ دن یاد آیا جس دن بھابی نے اس کو خط بھیجا تھا۔۔۔۔۔
اسکے زہن میں وہ ایک ایک بات یاد ارہی تھی جو اس دن بھابی کے خط میں تھی ۔۔۔۔۔۔
۔۔ایک بار پھر کاشی کی انکھ نم ھوئ پر اب کی بار اس نے انکھوں کو زور سے بند کر لیا کے انسو بھار نا ائے۔۔۔۔۔
۔۔اور کاشی کے زہن میں وہ خط ایا جس میں لکھا تھا کے !!!!!!
پیارے کاشی !!
ایک چراغ اور بجھا اور بڑی تاریکی ۔۔۔ سید تنویر بخاری راہی ملک عدم ہو گئے
موتِ العالِم موتِ العالَم“ ۔۔۔سید تنویر بخاری راہی ملک عدم ہو گئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ *ایک چراغ اور...