(Last Updated On: اکتوبر 5, 2023)
ماں ! آ دیکھ نا آنگن میں
کرنوں کی پیلی چنبیلی بکھری ہے
منڈیروں پہ کیا کیا نقش پرندوں کے
چڑھتے دن نے کاڑھے ہیں
پودے۔۔ ۔۔ کومل تانیں سی
ہریالی کے گیتوں کی
گلیوں کے میلے میں شور ہے بچوں کا
آس کا بابا
رنگارنگ غبارے لے کر آیا ہے
اٹھ نا! کیا تو رحل کے آگے
ہاتھوں کا کشکول اٹھائے
دن کے خاکستر ہونے تک بیٹھے گی؟
آخر کب تک مانگے گی
دکھ سے گدلائی ظلمت کے آقا سے
جھاڑو سے اڑتی مٹی کے مولا سے
دن کے موتی جن کو اس آنگن میں تو کھو بیٹھی ہے
جن کے بدلے
اس نے اپنی بخشش سے بھر ڈالا ہے
تیری رات کی جھولی کو
اگلے روز کے سپنے سے
٭٭٭