(Last Updated On: اکتوبر 5, 2023)
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جسے بے نام خوشبوؤں کی آوازیں
تصور کی زمینوں میں سدا آوارہ رکھتی تھیں
جسے گھر سے گلی سے مدرسے تک
تربیت نے
قاعدے کی تال پر چلنا سکھایا تھا
وہ کنج خواب کا حجلہ نشیں
خواہش کے روزن سے
سمندر کے افق پر
دیکھتا تھا خواب اڑتے بادبانوں کے
تمسخر روشنی کا دن کے چہرے پر
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جسے بے رشتہ رہنا تھا ہمیشہ
شہر اشیا کی ثقافت میں
کسے رعنائیاں اپنی دکھاتا
کس پہ کشف دلبری کرتا
کسے پہچانتا
کیسے جگاتا انگلیوں کے لمس سے
آواز کی خوشبو سے
اشیا میں
حرارت آشنائی کی
وہ لڑکا شاہزادہ سا
جبیں کی لوح پرکل کی جزائیں
لکھتا رہتا تھا
مقدم زخم کا
خفیہ پتے ممنوعہ رستوں کے
وہی ہر روز کے مضمون میں
لکنت خالی جگہوں کی
تحیر لفظ سے ٹوٹے ہوئے معنی کے رشتے کا
وہ لڑکا شاہزادہ تھا
کسی موعود و نا مولود دنیا کا
٭٭٭