راحب غصے سے اس کے آفس سے نکلا ۔یہ منظر وہ اپنے لیپ ٹاپ پر بخوبی دیکھ رہی تھی۔
میڈم آپ نے اسے جانے دیا؟
کچھ دیر بعد سلیمانی صاحب اندر آئے۔
میں اسکا ٹیسٹ لے رہی تھی آپ اسکی جاب ڈن کر دیں۔
پر ایک آنکھ اس پر جمی رہنی چاہئے وہ ایک ذہین آدمی ہے ہمارے بہت کام آسکتا ہے لیکن ثمرین سکندر شاہ کسی پر اتنی جلدی بھروسہ نہیں کرتی۔
جی ۔۔۔
میڈم وہ۔۔
سلیمانی صاحب بولنے لگے پر ایک دم چپ ہوئے۔
ثمرین نے نظریں چھوٹی کر کے انھیں دیکھا۔
سوچ لیا ہو تو کہہ دیں۔
وہ جو پاک آرمی آفیسرز غیر ملکی ایجنڈے میں اغواہ کئے گئے تھے
ان میں سے ایک مارا گیا۔
کیا کہا آپ نے ؟
ثمرین کی رگیں غصے سے تن گئیں۔
آفیسر شمس کو مار دیا گیا ہے اور اسکی لاش وزیرستان میں ملی ہے پاک آرمی اس تک پہنچ چکی ہے میڈم اب تک وہ لوگ جو چپ تھے اب نہیں بیٹھیں گے۔
ان لوگوں میں وئی عقل وقل ہے کہ نہیں ان پر سمانی تشدد کرتے اپاہج کر دیتے یا ذہنی مریض مارنے کی کیا ضرورت تھی۔اور مارا تو مارا پھینک بھی وزیرستان دیا۔
ثمرین ادھر ادھر ٹہلتی اپنی کنپٹیاں سہلا رہی تھی۔
میں اپنا بزنس دیکھوں یا راہیں صاف کروں۔
میڈم میں کہتا ہوں آپ اپنی راہیں الگ کر لیں۔
کیا پچگانہ بات ہے یہ سلیمانی صاحب پاکستان میں انکے پنجے میری وجہ سے گھڑے ہیں۔
میں الگ ہوئی تو وہ کھل کر سامنے آجائیں گے اور میرا بچنا بھی ناممکن ہے۔
پھر اب کیا کیا جائے۔
یہ کاغزات پاک آرمی تک پہنچا دیں۔معاملہ کچھ دن ٹھنڈا ہو جائے گا بعد میں کیا کرنا ہے میں سوچ لونگی۔
یہ کاغزات میڈم آپ ایک دفعہ سوچ لیں ان سے وہ ہمارے قریب ہو جائیں گے۔
وہ ہمارے قریب آئیں گے تو ہم ان سے آگے نکلیں گے نا۔
ثمرین کے چہرے ہر ایک مسکراہٹ در آئی۔
میں کچھ سمجھا نہیں۔
ارے سلیمانی صاحب یہ سمجھنا سمجھانا میرا کام ہے میرے لئے ہی رہنے دیں۔آپ سے جو اور جتنا کہا گیا ہے اتنا ہی کریں۔
وہ اٹھی اور اپنا پرس اٹھاتی چل پڑی۔
یہ عورت ایک چلتا پھرتا ملمع ہے۔
سلیمانی صاحب ایک گہری سانس لیکر رہ گئے۔
راحب وہاں سےتن فن کرتا ایک ہوٹل آیا پر اسکا دھیان سارا پیچھے ہی تھا جہاں اس پر گہری نظر رکھی جا رہی تھی۔
ہوٹل کا کمرہ ڈینی جھان کے نام سے ہی ریزرو تھا۔وہ چابی لیتا آیا اور کمرے میں بند ہو گیا۔
اففف اس نے گہرا سانس لیا اور سارا لبادہ اتار دیا۔
اس ثمرین سکندر شاہ کو ڈیل کرنا بھی کسی پہاڑ سر کرنے کے برابر ہے۔سمجھدار اور ذہین عورتیں بھی کسی فتنے سے کم نہیں ہوتیں۔
کھانا اس نے اپنے کمرے میں ہی منگوا لیا باہر جانے کا رسک وہ لے نہیں سکتا تھا
کھانے سے فارغ ہو کر جب وہ بستر پر آیا تو اس نے اپنا آفیشل نمبر آن کیا جہاں مسیجز اور کالز کا ایک طوفا برپا تھا ۔ثمرین کے کیبن میں جانے سے پہلے وہ اپنا ائیر پیس اور مائیکروفون بند کر چکا تھا۔چونکہ وہ شائد انہیں بھی پہچان لیتی۔
اس نے سب سے پہلے ہیڈکواڑٹر رابطہ کیا۔جہاں زایان اسی کے انتظار میں تھا۔
میجر راحب کیا سیچوایشن ہے؟
جنرل مرزا کی بھاری آواز ابھری۔
یس یسسر ایوریتھنگ انڈر کنٹرول سر۔
اور وہاں؟
یہاں سیچووایشن کچھ آوٹ آف کنٹرول ہے۔
زایان کی افسردہ سی آواز آئی۔
کیوں کیا ہوا زایان؟
وہ ہسپتال والا بلاسٹ بھی ثمرین سکندر کے زریعےہوا ہے اور ؟؟
اور؟؟
راحب متجسس ہوا۔
آور آفیسر شمس شہید ہو گئے ہیں۔انکی لاش وزیرستان میں ملی ہے اور ثمرین سنکدر کے بلاسٹ پلین والا نقشہ بھی ہمارے ہاتھ لگا ہے۔پر اتنی پیچیدہ معلومات آرمی تک اتنی آسانی سے پہنچنے کا مطلب تم سمجھ گئے ہوگے۔
زایان اب چپ ہو گیا۔
سمجھتا ہوں ایک سوچی سمجھی سازش ہے یہ ثمرین سکندر ایک عورت نے پورے ملک کو پاگل بنا کے رکھا ہے اسکا انجام بہت الم ناک ہوگا۔
راحب سخت غصے میں تھا۔
کول ڈاون میجر سوچنے والا نقطہ یہ ہے کہ معلوماتی ایجنڈے میں قتل نہیں کیا جاتا وہ آفیسر شمس کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنا سکتے تھے مگر انھوں نے غصے میں مار دیا۔
جنرل مرزا کی بات میں دم تھا۔
یس سر پروفیشنل لوگ جوش سے نہیں ہوش سے کام لیتے ہیں۔
اور یہ کوئی بہت ہی ان پروفیشنل گروپ ہے جس نے اپنی بہت سی کمزوریاں ہمارے ہاتھ لگا دی ہیں۔
راحب کی بات زایان کو کچھ خاص سمجھ نہ آئی۔
کمزوریاں ملیں گی کیسے راحب؟
تم فکر نہ کرو بہت جلد میں ثمرین سکندر شاہ کے خاص آدمیوں میں شامل ہو جاوں گا۔
اور پھر اسکی ہر کمزوری میرے ہاتھ میں ہوگی۔
ثمرین سکندر اتنی جلدی اعتبار کرنے والوں میں سے نہیں ہے۔جنرل مرزا نے اسکی یاد دہانی کروائی۔
جانتا ہوں سر بس تھوڑی محنت اور پھر شکار خود جال میں آئے گا۔
مجھے کیپٹن شمس کی شہادت پر فخر ہے خدا ہر فوجی پر ایسا دن لائے کہ اسکی جان وطن کی راہ میں چلی جائے
جس پر سب نے آمین کہا۔
راحب نے زور سے آنکھیں بند کیں اسکا سر اب درد سے پھٹ رہا تھا پر اس نے پھر بھی سلویٰ کے نمبر پر کال ملائی اس نے ایڈشمن والے دن ہی اسے فون دلایا تھا مگر سلویٰ نے نہ فون اٹھایا اور نہ ہی کسی میسج کا جواب دیا۔
راحب زیادہ دیر یہ نمبر آن نہیں رکھ سکتا تھا اسلئے پھر اسنے یہ نمبر بند کر دیا۔اسکا دل تھا کہ ایک بار سلویٰ سے بات کر لیتا پر خیر وہ گہری سانس لیکر رہ گیا۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﺎﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ
ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ
ﮐﮧ ﻓﮑﺮ ﻓﺮﺩﺍ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﯽ ﮔﺰﺭﯼ__؟
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﺁﯾﺎ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﻞ ﮐﻮ؟
ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﮩﮑﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ؟
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﺩﺭ ﭘﮧ ﺟﺎﮔﯽ ﺻﺪﺍئے ﺩﺳﺘﮏ
ﮐﺒﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﮔﻤﺎﻥ ﮔﺰﺭﺍ؟
ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺻﺤﻦ ﺩﻋﺂ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮔﺰﺭﺍ ؟
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻝ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﮨﻮﮞ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﯾﮧ ﺟﻮ ﺩﺭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺍﺟﻨﺒﯿﺖ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ توقیر ﺣﺮﻑ ﻭ ﻟﺐ ﮨﮯ
ﯾﮩﯿﮟ ﭘﮧ ﺗﺮﮎ ﻃﻠﺐ ﮐﯽ ﺣﺪ ﮨﮯ…!!
نگہت جہاں آنکھیں موندھے ایک بازو اپنے سر پر رکھے لیٹی تھیں جب کوئی دبے پاوں انکے کمرے میں آیا۔
وہ جان گئی تھیں کہ کون ہے مگر انھوں نے آنکھیں نہ کھولیں۔
خالہ؟؟؟
سلویٰ نے انکے کان کے پاس جا کر آرام سے پکارا۔
خالہ مجھے پتا ہے آپ نے کھانا نہیں کھایا اٹھیں مل کر کھانا کھاتے ہیں۔
مجھے بھوک نہیں ہے بیٹا تم کھا لو۔
وہ ویسے ہی بند آنکھوں سے بولیں۔
میں اکیلے کیسے کھاوں؟
سلویٰ نے منھ بسورا۔
چندہ کے ساتھ کھا لو۔
انھوں نے ایک اور مشورہ دیا۔
چندہ تو چلی گئی۔
مطلب میں بھی بھوکی رہ جاوں کل سے میرے کالج بھی ہیں مطلب مجھے سب اکیلے کرنا پڑے گا اور آپ بھی مجھ سے ناراض ہیں۔
نگہت جہاں نے آنھیں کھولیں اور اٹھ بیٹھی۔
بیٹا میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔
پھر آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی؟
میں بس تھوڑی ایپسٹ تھی ۔
چلو بتاو مجھے یہ بچے والا کیا معاملہ ہے۔
نگہت جہاں کی تفتیش شروع ہو چکی تھی۔
وہ خالہ ہمیں ایک بچہ بلاسٹ کے دوران بےآسرا ملا تو ہم نے اس گود لے لیا راحب کہہ رہے تھے کہ وہ اسکے لیگل اڈاپٹیشن پیپرز بنوا لیں گے۔
یہ کس کا مشورہ تھا بچہ گود لینے کا؟
نگہت جہاں کے سوال پر سلویٰ کے ہاتھ پسینے سے بھیگنے لگے۔
وہ وہ خالہ راحب کا۔
سلویٰ نے صفائی سے جھوٹ بولا۔
بہت غلط ہے یہ راحب کو ایسا بلکل نہیں کرنا چاہیئے تھا تم اسے منع کر دیتی بھلا تم اتنی زمہ داریاں سمبھال سکتی ہوکیا۔
سلویٰ تو دل ہی دل میں اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر خود کو لعن طعن کر رہی تھی۔
جانے دیں نا خالہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اب آپ بھی مان جائیں بہت پیارا بچہ ہے پلیززز خالہ۔
بیٹا جب تم دونوں کو کوئی مشکل نہیں تو میں کیا کہہ سکتی ہوں اور ویسے بھی رشتے احساس اور محبت کے ہوتے ہیں خون خاندان تو نام پہچان کی حد تک رہ جاتا ہے۔
تو ویلکم کریں پھر جونئیر راحب کو۔
تبھی چندہ بچہ لئے اندر آئی۔
تم چلی نہیں گئی تھی۔نگہت جہاں نے سلویٰ کو گھورا۔
سلویٰ نے دانتوں تلے زبان دبائی۔
آپ مان جو نہیں رہی تھی اسلئے میں نے بھابھی کو یہ مشورہ دیا۔چندہ پرجوش بولی۔
ہاں تم سکھا دو میری سیدھی سادی بہو کو جھوٹ۔
اب انہیں کون بتاتا کہ یہ سیدھی سادی بہو ان سے کتنا بڑا جھوٹ بول چکی ہے۔
نگہت جہاں نے بچے کو گود میں لیا اور پیار کیا۔
چلیں بھابھی اب اسکا اچھا سا نام رکھیں۔
چندہ نے یاد دلایا تو سلویٰ کو بھی نام کی ہوش آئی۔
نام تو میں نے سوچا نہیں خالہ آپ رکھ دیں۔
سلویٰ نے نگہت جہاں پر پھینک دیا۔
میں بھئی مجھے تو ایک ہی نام پسند ہے وہ راحب!۔
خالہ اب بیٹے کا نام ایک جیسا تو نہیں ہو سکتا نا۔چندہ نے ماتھا پیٹا۔
ہاں تو تم رکھ دو تم بھی پھپو ہی ہو۔
تم سے بھی ہمارا خون کا نا سہی محبت اور اعتبار کا رشتہ تو ہے نا۔
نگہت جہاں نم آنکھوں سے بولیں
ہیں میں رکھ دوں سچی؟؟؟
چندہ خوشی سے اچھلی۔
سلویٰ نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔
مجھے وہاج نام بہت اچھا لگتا ہے۔
تو وہاج رکھ دیتے ہیں کیوں سلویٰ۔
ہاں جی خالہ بلکل بہت اچھا نام ہے۔
تو پھرڈن آج سے یہ وہاج ہے۔چندہ نے اسے زور کا پیار کیا تو وہ رونے لگی۔
وہاج راحب احمد۔۔
سلویٰ نے اسکا نام مکمل کیا۔وہاں سب کو خوش اور راضی دیکھ کر سلویٰ کو یوں لگا گویا اس نے کوئی جنگ جیت لی۔
اور اب اسے یہ خبر سب سے پہلے راحب کو دینی تھی۔
دل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا زیاں
عشق کو عشق سمجھ مشغلہ دل نہ بنا۔۔۔۔۔۔
سلویٰ کمرے میں آئی تو اپنا فون دیکھا جہاں راحب کے بہت سے میسج اور کالز آئی تھیں۔
اس نے دو دن سے فون دیکھا تک نہیں تھا۔اس نے واپس راحب کو کال کی تونمبر بند تھا۔
سلویٰ نے وہاج کی ایک پکچر بنائی اور اس کے نیچے وہاج راحب احمد لکھ کر اسے بھیج دی۔اور خود وہاج کے ساتھ کھیلنے لگی۔
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سلویٰ کا فون بجنے لگا۔
کہاں تھی سلویٰ میں نے اتنی کالز کیں میں پریشان ہو گیا تھا۔
راحب کال آنسر ہوتے ہی فورا بولا۔
خالہ کے پاس تھیں وہ راضی نہیں تھی بےبی کیلئے پر میں نے کرلیا۔
سلویٰ خوشی سے بولی۔
وہ کیسے؟
میں نے کہا آپکی ضد تھی۔سلویٰ نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
واٹ؟؟؟؟؟
راحب اتنی زور سے بولا کہ اسے فون کانوں سے ہٹانا پڑا۔
شاباش سلویٰ بیگم شاباش۔
پر اب سب بہت خوش ہیں آپ یہ بتائیں آپکو نام کیسا لگا؟
میرے بیٹے کا نام ہے پیارا ہی ہوگا نا۔
اور تم بات ٹالنے کی کوشش نہ کرو تمہیں میں آکر سیدھا کرونگا۔
اپنی مرضیاں میرے متھے لگا دیتی ہو۔
ہاہاہا یہ تو ہر بیوی کرتی ہے۔
سلویٰ نے بھرپور قہقہ لگایا۔
کیا بات ہے آج تو روتی بسورتی سلویٰ راحب احمد بھی خوش ہیں۔
راحب بھی مسکرایا۔
ہاں میرا بےبی بہت اچھا ہے اور مجھے اس کے ساتھ بہت اچھا لگتا ہے۔
سلویٰ نے وہاج کو پیار کیا۔
میرے بغیر بھی۔راحب نے منھ بنایا۔
ہاں۔۔سلویٰ ہنسی دباتی بولی۔
مطلب میں نہ آوں۔راحب کو صدمہ ہوا۔
جیسا آپکو ٹھیک لگے۔سلویٰ پھر ہنسی۔
آنے دو مجھے زرا تم سلویٰ ۔
ویسے اگر یاد ہو تو اس بےبی کی ماما نے کل کالج بھی جانا ہے چلو سو جاو شاباش اور وہاج کو میری طرف سے پیار دینا میں جلد آوں گا اپنے بیٹے کے پاس۔
اور میں۔۔
سلویٰ نے میں پر زور دیا۔
سوچوں گا تمہارے بارے میں بھی۔
راحببببببب!!!!!۔
ہاہاہا۔۔۔
دور بیٹھے وقت نے قسمت سے پوچھا کیا یہ خوشیاں دائمی ہیں۔
جس پر قسمت نے اک ادا سے کہا
“کسے معلوم”؟؟؟؟”
قرار من
میں تمہیں سِکھا نہیں سکتا
محبت کیسے کی جاتی ہے
مچھلیاں معلم کی محتاج نہیں
جو انہیں تیرنا سِکھائے
اور چِڑیوں کو استاد نہیں چاہیے
جو پرواز کے اسباق پڑھائے
تمہیں خود تیرنا ہے
تمہیں خود اُڑنا ہے
محبت درسی کتابوں میں نہیں پڑھی جاتی
تاریخ کے سارے عظیم عُشّاق اَن پڑھ تھے