نور العین نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو ایک وسیع کمرے میں پایا اس نے چاروں اطراف اپنی آنکھیں گھما کر دیکھیں اور حواس لوٹتے ہی اس کے اوپر کپکپی طاری ہوگئی۔ کیا وہ پھر کسی غلط ہاتھوں میں لگ گئی تھی اس سوچ نے اس کے جسم سے جان نکال دی تھی وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھی اس سے پہلے کہ وہ باہر بھاگتی ایشمل کی والدہ شاہدہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔
وہ حیرت سے انہیں ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔
ارے بیٹا تم اُٹھ کیوں گئی ابھی تمہیں آرام کی ضرورت ہے وہ پریشانی سے آگے آئیں اور اسے بیڈ پر دوبارہ لٹایا۔
وہ تو شکر ہے کہ تم دراب کی گاڑی سے ٹکرائی تھی اگر خدانخواستہ کوئی اور ہوتا تو پھر۔ بیٹا تم اتنی رات کو گھر سے کیوں نکلی سب خیریت تو تھی نہ انہیں فکر لاحق تھی۔
جس کے جواب میں اس نے رندھی آواز سے اپنی اوپر گزری ساری آپبیتی سنا دی۔
جسے سن کر شاہدہ بیگم کا بھی دل دکھ سے لبریز ہو گیا۔
فکر نہ کرو میری بچی اللہ نے جس راہ پر تمہیں لگایا ہے اس راہ کی مشکلیں بھی وہی آسان کرے گا۔ اور اب سے تم یہیں رہو گی یہاں سے جانے کا ذکر بھی نا کرنا۔ایشمل کو تہمارے آنے کا بھی بتاتی ہوں وہ سن کر بہت خوش ہوگی۔
انہوں نے آنکھیں پونچھتے ہوئے لگے ہاتھ فیصلہ بھی کر ڈالا.
اسنے انکے جاتے ہی سکون سے آنکھیں موندھ لیں۔اللہ نے اسکو اپنی حفاظت میں لے لیا تھا اسکے لیے یہی کافی تھا۔۔۔۔
***********
اشمل سیال سے زیادہ دیر دور نہیں رہ پائی تھی اور اسی بات کا سیال نے فائدہ اٹھایا تھا. اب وہ زیادہ تر سیال کے ساتھ ہی پائی جاتی تھی۔لیکن لگے ہاتھ وہ اسے سمجھاتی بھی رہتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ وہ زیادہ تر وقت اشمل کے ساتھ گزارنے لگا تھا وہ دل سے یہ مان چکا تھا کہ اب وہ اشمل کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جب وہ قریب ہوتی تو وہ اسے سنتا لیکن جب وہ دور ہوتی تو پہروں اس کے بارے میں سوچتا رہتا۔ اشمل نے جلد ہی اس کی زندگی میں ایک اہم جگہ حاصل کر لی تھی جہاں تک اس نے کسی کو پہنچنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اب بھی وہ یونی کی بیک یارڈ میں اس کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔
دل کا ٹوٹنا تو بہت الگ بات ہے پر روح؟آپ کے اندر چوٹ لگے تو بچتا کچھ نہیں ہے روح کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جسم میں جان ہونا کیا ہے جسم میں جان اصل میں آپ کے اندر روح کا ہونا ہے ۔۔
ایک پاک صاف روح کا ہونا۔
خاص لوگوں کو جیسے اچھی چیزیں پسند ہوتی ہیں ویسے ہی روح کے معاملات ہوتے ہیں انسان کی روح جتنی پاک صاف ہو گئی وہ خود بھی اتنا ہی پاک صاف ہوگا۔
وہ بڑے انحماق سے اشمل کی باتیں سن رہا تھا اور اسکا دل سکون محسوس کر رہا تھا۔ ساری باتیں محض سمجھنے کی ہے جو سمجھ جاتا ہے وہ پا لیتا ہے اور جو سمجھ کر بھی انجان بنتا ہے وہ کبھی کچھ حاصل کر ہی نہیں سکتا جس نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا وہ کسی اور کو کیا پہچانے گا۔
کیسے رب کو تلاش کرے گا جب اسے اصل کا مطلب ہی نہیں معلوم ہوگا جس طرح آپ کی پوری باڈی کو کنٹرول دل اور دماغ کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح ان دونوں کو کنٹرول کرنے کے لئے آپ کے اندر آپ کا ضمیر ہے اگر آپ اپنے ضمیر اپنے اندر کو ہی مار دیں گے تو کچھ محسوس نہیں کر سکیں گے پھر آہستہ آہستہ آپ کو کھڑے ہوتے جائیں گے آپ کی جڑیں کمزور ہوتی جائیں گی جو آپ کو دن بدن اندر سے ختم کرتی جائیں گی۔۔۔
اشمل خاموش ہوئی تو سیال کو اپنی طرف تکتے پایا۔
کیا ایسے کیا دیکھ رہے ہو اس نے بالوں کی لٹیں اپنے کانوں کے پیچھے اڑیستے ہوئے کہا۔۔
اشمل کے چپ ہونے پر سیال کا طلسم ٹوٹا۔” کیسے کر لیتی ہو ایسی باتیں اس نے حیرت سے پوچھا”
کیسی باتیں؟
یہی جو روح کو سکون دیں۔۔۔
او اچھا یہ یہ تو میری مولانی نے مجھے سکھائی ہیں۔ وہ جب بھی پاس ہوتی ہے کسی نہ کسی بات کا ذکر کرتی رہتی ہے جس سے دل و دماغ دونوں پرسکون ہو جاتے ہیں۔
کچھ تو بات ہے تمہاری مولانی میں ملنا پڑے گا اس سے بھی۔۔۔ سیال کی بات پر اشمل نے اس کے کندھے پر مکا رسید کیا۔۔۔۔
*********
نورالعین کے آنے سے گھر میں رونق چھا گئی تھی اشمل تو اسے اپنے گھر میں پا کر بہت خوش تھی ہر وقت اس کے ساتھ ہی پائی جاتی اور آج کل تو گھر میں نورالعین اور دراب کی شادی کا ذکر چل رہا تھا جس سے نورالعین تو شرمائی شرمائی گھومتی جبکہ دراب اکتایا پھر رہا تھا۔۔۔
نیکی کی تھی اور یہ نیکی تو اسکے گلے ہی پڑ گئی تھی۔ اماں کتنی دفعہ کہا ہے آپ سے کہ مجھے اس سے شادی نہیں کرنی تو پھر کیوں میرے پیچھے پڑی ہیں اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔
دراب اب تم جو بھی کہو میں تمہارا کوئی بہانہ نہیں سنوں گی اگلے ہفتے تمہارا نکاح ہوگا اور یہ آخری فیصلہ ہے ورنہ میرا مرا منہ دیکھو گے انہوں نے بھی لگے ہاتھوں اسے ایموشنل بلیک میل کیا جس میں وہ کامیاب بھی رہی تھیں وہ دھاڑ سے دروازہ بند کرکے باہر نکال گیا۔۔۔۔۔
**********
سیال کسی کی لاش کو ٹھکانے لگا کر اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا جب اس کا گزر ایک مزار سے ہوا جس کی سیڑھیوں پر ایک بابا کالے رنگ کا چولاپہنے بیٹھا تھا۔۔ سیال کو وہ بہت عجیب لگا وہ ابھی اسے ہی دیکھ رہا تھا جب اس بزرگ نے نظر اٹھائی اور اسے دیکھ مسکرانے لگا۔۔
اس نے سیال کو اشارہ کیا جس پر وہ اس کے تھوڑا قریب ہوا۔۔۔
بے فکر لگتے ہو۔۔
اس بزرگ کی بات پر وہ کھل کر ہنسا۔
ہاں ہوں تو پھر۔۔۔
اتنا غرور نہ کر۔۔اس بزرگ نے گہری آنکھوں سے دیکھتے کہا۔۔۔
میرے پاس دولت ہے شہرت ہے پھر کیوں نہ کروں غرور جچتا بھی تو ہے مجھ پر۔۔۔ اس نے تکبر سے کہا۔۔۔
“جو کل میرا تھا وہ آج تیرا ہے جو آج میرا ہے وہ کل تیرا ہوگا” اس بزرگ نے اتنا کہا اور ھنسنے لگا اس کی بات سیال کے اوپر سے گزر گئی اگر وہ اس بات پر غور کرتا تو پچھتاؤں سے بچ جاتا۔
**************
پاشا جلے پیر کی بلی بنا گھوم رہا تھا۔ اسے رہ رہ کر سیال پر غصہ آ رہا تھا۔ جو اس کی بنی بنائی ساکھ برباد کرنے کے چکروں میں تھا ۔ وہ دن بدن برے کاموں سے دور ہوتا جا رہا تھا۔ پاشا کا خوف لوگوں کے دلوں سے مٹنے لگاتھا اور یہی چیز اسکے غصے کا باعث بن رہی تھی۔
راجو پتا لگاو سیال آج کل کن چکروں میں ہے وجہ ڈھونڈو مجھے (گالی۔۔۔۔) وہ وجہ چاہیے چاہے اس کے لئے کسی کو زمین میں کیوں نہ گاڑنا پڑے۔۔
دادا وہ بھائی آج کل ایک ایشمل نامی لڑکی کے چکروں میں ہے جو دن بدن سے اپنے دھندے سے دور کرتی جارہی ہے اگر ہم نے زیادہ دیر کچھ نہ کیا تو وہ ہمارا دھندا ٹھپ کرا دے گی۔۔۔۔
گاڑیاں نکالو۔۔۔پاشا سرد آواز میں دھاڑا۔۔۔۔
ایک کے بعد ایک گاڑیاں جھٹکے سے نکلی انکا رخ سیال اوراشمل کی یونیورسٹی کی طرف تھا۔۔۔۔
************
پاشا نے یونیورسٹی سے سیال کو اٹھا لیا اور اسے اپنے اڈے پر لے آیا۔۔۔ برخدار آج کل کن چکروں میں ہو جو بھی چکر ہے بہتر ہے یہیں ختم کر دو اگر میں ختم کرنے پر آیا تو کچھ نہیں بچے گا اس کے انداز میں وارننگ سی تھی جسے سیال بخوبی جانتا تھا۔۔۔
پاشا یہ اب میرے بس کی بات نہیں سیال کے لہجے میں بغاوت صاف نظر آرہی تھی جس نے پاشا کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔۔۔
جہاں تک مجھے یاد ہے یہ وہی لڑکی ہے جس نے تمہیں بھرے بازار میں تھپڑ مارا تھا اور میرے مطابق غیرت مند مرد ایسی بے عزتی کا بدلہ ضرور لیتے ہیں۔۔۔۔ پاشا نے اپنی ٹھوڑی کھجا کر معصومانہ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
اس کی بات نے سیال کے تن بدن میں آگ لگا دی اسے ایشمل سے پڑنے والا پہلا تھپڑ یاد آگیا اور اس کی جلن اپنے گال پر محسوس ہوئی۔۔۔۔
یہ وہی لڑکی ہے جس نے ایک دفعہ نہیں دو بار تیری عزت کی دھجیاں اڑائی پاشا نے تمسخر سے کہا اس کی باتوں سے سیال کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا جسکی زیادتی سے اس کا منہ لال انگارہ ہو گیا۔۔۔۔
اب وقت ہے اس سے بدلہ لینے کا اگر تو مرد کا بچہ ہے تو اسے بھی ویسے ہی سب کے سامنے بیچ راہ میں بےعزت کر تاکہ سب یہ جان لیں کہ تو سیال خان زادہ ہے۔۔۔۔
اس کی باتوں سے سیال کے دل میں بدلے کی آگ پھر سے بھڑک اٹھی تھی جسے اشمل کی محبت نے سلا دیا تھا لیکن اب وہ آگ سے جلنے لگی تھی۔۔۔۔
اگر پھر بھی تو چپ رہا تو میری ایک بات یاد رکھنا اگر تو نے اس سے بدلہ نہ لیا تو میں کسی اور طریقے سے لے لوں گا اگر تو چاہتا ہے کہ اس کی نسوانیت محفوظ رہے تو اس سے بدلہ لے گا وہ بھی سب کے سامنے اور اس سے ہر رشتہ توڑ دے گا ورنہ تو مجھے بہتر جانتا ہے۔۔۔
سیال جانتا تھا کہ اگر اس نے اشمل سے بدلہ نہ لیا تو پاشا اسے اٹھوا لے گا اور اس کی عزت تار تار کر دے گا۔۔۔
اب فیصلہ سیال کے ہاتھ میں تھا کہ وہ کس طرح اشمل کو برباد کرتا ہے۔۔۔۔۔
*********
نورالعین کمرے میں چادر کو تہہ لگا رہی تھی جب دراب دندناتے ہوئے اندر داخل ہوا۔
تم شادی سے انکار کر دو دراب نے دھڑلے سے کہا۔۔۔
مگر میں ایسا کیوں کروں گی جبکہ سب بڑوں کی مرضی اسی میں ہے اس نے ہچکچاتے ہوئے دراب سے پوچھا ۔۔۔
جو اس کا مسیحا تھا اور ان کچھ دنوں میں اپنے دل کے قریب محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔
ہے کیا تم میں جو میں تم سے شادی کروں گا صرف ایک اچھی شکل۔
کیا میں نہیں جانتا کہ تم پہلے عیسائی رہ چکی ہو اور اب شادی کرنے کے لیے مسلمان بنی پھر رہی ہو تم نے میرے گھر والوں کو تو پھسا لیا مگر میں تم جیسی لڑکیوں سے اچھی طرح واقف ہوں بہتر ہو گا کہ تم خود ہی انکار کر دو کل نکاح سے۔۔۔
نورالعین اس سنگدل کے منہ سے اپنی اتنی توہین اور اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں یوں واہیات کلامات سن کر سکتے میں چلی گئی۔۔۔۔
ایک دم ہی نورالعین کو سانس لینے میں دشواری آنے لگی۔۔۔۔
اس نے بمشکل اپنے حلق میں سے آواز برآمد کی۔۔۔
جہاں تک رہی میرے اسلام قبول کرنے کی بات تو اس کے لیے میں آپ کو جوابدہ نہیں ہوں۔۔۔ اور رہی بات آپ سے شادی کی تو میرے بڑوں کا فیصلہ ہے ان کو میں انکار کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی اگر آپ مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو خود انکار کر دیں مگر میری طرف سے صاف جواب ہے۔۔۔۔۔
اتنی دیر بعد سامنے کھڑی نورالعین نے آنکھوں میں آنسو لیے اسے ضبط سے کہا۔۔۔۔
دراب اس بظاہر معصومانہ دیکھنے والی لڑکی کے منہ سے یوں سفا چٹ انکار سن کر ششدر رہ گیا اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہ آیا کہ جو لڑکی اس کے سامنے بھیگی بلی بنی رہتی تھی اب کیسے یوں اس کے منہ پر انکار کر گئی تھی۔۔۔۔
تم اس کے لیے بہت پچھتاؤ گی یاد رکھنا وہ دروازے کو ٹھوکر مارتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔
پیچھے نورالعین بیڈ پر سر پکڑ کے بیٹھ گئی نہ جانے اور کتنے امتحان اس کے منتظر تھے۔۔۔۔۔
**********
آج صبح سے ہی موسم ابرآلود تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بہت بڑا طوفان آنے والا ہے مگر سب مکین اس آنے والے طوفان سے بے خبر تھے۔۔۔ تیز ہوائیں چل رہی تھیں اور بونداباندی تیز بارش کے آثار ظاہر کر رہی تھی۔۔ ایسے میں اشمل یونیورسٹی جانے کے لیے جلدی نکل پڑی تھی کیونکہ آج دراب اس کے ساتھ نہیں تھا۔۔۔
آج اس کا دل صبح سے ہی ڈوبا جا رہا تھا وہ دل ہی دل میں خیریت کی دعا کرنے لگی اور ساتھ مولانی کا نمبر ملایا جس سے بات کرنے کے لیے دل کل سے مچل رہا تھا۔۔۔
کہتے ہیں نہ کہ مصیبت کے وقت دل سب سے زیادہ قریب تر لوگوں کو وہ یاد کرتا ہے۔۔۔
ہیلو السلام علیکم اشمل نے سلام میں پہل کی۔۔۔
وعلیکم السلام آج سورج کہاں سے نکلا ہے جو صبح صبح ہمیں یاد کیا اور ہمیں کال کی۔۔۔
دوسری طرح ہشاش بشاش لہجے میں پوچھا گیا۔۔۔
مولانی کی آواز سنتے ہیں عشق محبت کو اپنے دل میں سکون اترتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
کیا ہوا چپ کیوں ہیں مولانی نے اس کی خاموشی نوٹ کی تو پوچھا۔۔۔۔ کچھ نہیں آج صرف تمہیں سننے کا دل کر رہا ہے ۔دل کر رہا ہے صرف تم بولتی جاؤ اور میں سنتی جاؤں اس نے دکھی لہجے میں کہا آج صبح سے ہی اس کا دل ملانی سے ملنے کا کر رہا تھا پتہ نہیں کیوں دل میں عجیب سا خوف بیٹھا تھا۔۔۔۔
ایسی بھی کیا بات ہے جناب آپ ٹھیک تو ہیں نا۔۔۔۔
پتا نہیں کیا بات ہے صبح سہی دل اداس ہے دل کر رہا ہے کہ کسی طرح اڑ کر تمہارے پاس آ جاؤ اور تمہیں سینے سے لگا لوں۔۔۔ تمہیں پتا ہے ملانی میں دنیا میں سب سے زیادہ تمہیں پیار کرتی ہوں۔۔۔
اشمل نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے یہ بات کہ دی۔۔۔
کیا خانزادے سے بھی زیادہ۔۔۔ مولا نے شریر ہو کر سیال کا حوالہ دیا کیونکہ وہ سیال کے اصل نام سے واقف نہیں تھی تبھی خانزادہ کا طرز تخاطب لیا۔۔۔۔
ہاہاہاہا اس سے بھی زیادہ اس نے آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے کہا۔۔۔۔
کیا بات ہے آپکی آپ ٹھیک تو ہے نا آپ کی آواز ٹھیک نہیں لگ رہی اس نے اشمل کے بہکے بہکے لہجے پر پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں بس دل صبح سے اداس تھا اور تمہیں ملنے کو دل چاہ رہا تھا اور کچھ نہیں میں واپس آکر تم سے بات کروں گی اس نے یہ کہتے ہی فون کاٹ دیا۔۔
دوسری طرف مولانی اسکی خیریت کی دعا کرنے لگی اور یہ دعا عرش تک پہنچی بھی تھی یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
***********
ابھی اشمل یونیورسٹی سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی جب پاشا اور اس کی گینگ کے آدمیوں نے اسے گھیرا ایک دم اتنے زیادہ آدمیوں کو اپنے اردگرد دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔۔
ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بلبل تیرے مطلب کی بات کے لئے ہی آئے ہیں۔۔۔ اسے تو تو جانتی ہو گی نہ پاشا نے اپنی جیب سے فون نکال کر سیال کی تصویر دیکھاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ایشمل سیال کی تصویر دیکھ کر ڈر گئی کہ سیال کی تصویر ان خطرناک غنڈوں کے پاس کیا کر رہی تھی کیا سیال کی جان خطرے میں تھی اسی خیال نے اس کی جان نکال کر رکھ دی تھی۔۔۔۔
اس نے خوف سے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔ ہاں تو مجھے بتانا یہ تھا کہ یہ جو لڑکا ہے یہ تجھ سے بدلہ لے رہا ہے صرف اپنے بدلے کی خاطر تجھ سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے اصل میں اس کا دوسرا چہرہ تو تو نے دیکھا ہی نہیں ہے ابھی۔۔۔۔
کیابکواس ہے یہ سب جھوٹ ہے میں نہیں مانتی کسی بات کو سیال مجھے کبھی بی دھوکا نہیں دے سکتا وہ ایک دم غصے سے چٹخ اٹھی تھی آخر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس پر جان قربان کردینے والا اس سے بدلے کی خاطر محبت کی پینگیں بڑھا رہا تھا۔۔۔
بڑا پکا رنگ چڑھا ہے محبت کا اس نے اشمل کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا اور فون پر دو چار بٹن دبانے کے بعد ایک ویڈیو اس کے سامنے کردی جس میں سیال بہت سی لڑکیوں کے ساتھ نازیبا حرکات کر رہا تھا اور بہت ہی نازیبا حالت میں تھا۔۔۔۔
ایسا منظر دیکھ کر اشمل کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اور اسے ساتوں آسمان اپنے سر پر ٹوٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔ بے یقینی سے بے یقینی تھی اتنا بڑا دھوکہ وہ کیسے اتنی بڑی مات کھا گئی تھی۔۔۔۔
میں نہیں مانتی یہ سب میں ابھی جاکر سیال سے پوچھوں گی اور وہ سب کی نفی کر دے گا اشمل کی آنکھوں پر ابھی بھی محبت کی پٹی بندھی تھی۔۔۔۔
ایسی بات ہے پاشا نے اس کی محبت کو داد دی جو اتنی ثبوتوں کے بعد بھی اپنی محبت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی تھی اسے دل کے ایک کونے میں اس لڑکی سے ہمدردی ہوی مگر جلد ہی سر جھٹکا۔۔۔
اب کے اس نے اشمل کو سیال کی دوسری تصویر نکال کر دکھائی جس میں ایک لڑکی شارٹس پہننے اس کی گود میں بیٹھی تھی اور یہ یونیورسٹی کی تصویر تھی۔۔۔۔
اب بھی یقین نہیں آیا تو یہ دیکھ لو ابھی بھی وہ اسی لڑکی کے ساتھ تمہاری یونی کے گراؤنڈ میں موجود ہے یقین نہیں آتا تو جاکر خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو اور پھر حقیقت تمہارے سامنے آجائے گی یہ کہتے ہی پاشا اور اس کے بندے راستے سے ہٹ گئے ۔
اشمل بے جان ہوتے قدموں سے یونیورسٹی کی طرف بڑھی اس کا ہر ایک قدم یہ دعا کر رہا تھا کہ جو ابھی اس نے دیکھا وہ سچ نہ ہو ورنہ اس کی جان نکلتے ایک لمحہ نہ لگتا جیسے ہی وہ یونی کے گراؤنڈ میں پہنچی اس نے ادھر ادھر دیکھا آج گراونڈ میں کافی لوگوں کا ہجوم تھا لیکن وہ ان سب میں سیال کو دور سے ہی پہچان چکی تھی۔
اس نے اس لڑکی کو سیال کے انتہائی قریب بیٹھے دیکھا اس نے کرب سے آنکھیں بند کر لیں اس کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی آج اسے پتہ چلا تھا کہ سانس بند ہونا کسے کہتے ہیں وہ مرے ہوئے قدموں سے سیال کے قریب گئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا جیسے ہی سیال پلٹا اس کی نظروں میں اجنبیت دیکھ کر اشمل کا دل بند ہونے لگا۔۔۔۔۔۔۔
**********
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...