آپ کی پیشنٹ کو انشااللہ کچھ دیر تک ہوش آجائے گا ۔۔۔یوسف کی آنکھ ابھی ٹھیک سے لگی بھی نہیں تھی کہ نرس کی آواز پر اسکا غنودگی میں جاتا دماغ جاگا ۔۔۔
وہ جی بھر کر بد مزہ ہوا ۔۔۔
بھلا وہ تو جیسے مرا جا رہا تھا ، اسکے ہوش میں آنے کے انتظار میں ! نیند ٹوٹنے کے بعث اسکے اعصاب پر بیزاری سے چھانے لگی ۔۔۔
وہ اٹھا اور کمرے کا اندرونی دروازہ دھکیل کر اندر چلا گیا ۔۔۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا ۔۔۔
دوائوں کی غنودگی کا اثر دھیرے دھیرے زائل ہونے لگا ۔۔۔
ل۔۔یییییی ۔۔۔۔ثثث !!! لیث ۔۔۔لیثثث !!
دماغ آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگا ۔۔۔
اسکی بڑبڑاہٹ سن کر یوسف نے چونک کر نل بند کردی ۔۔۔ اور آدھ کھلے کے دروازے سے باہر جھانکنے لگا ۔۔۔
کسی احساس کے تحت وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔ گہرے گہرے سانس لیتی الجھن بھری نگاہوں سے اجنبی کمرے کا معائنہ کرنے لگی ۔۔۔
ڈرپ اتار کر ہاتھ جھٹکتے ہوئے راہداری میں جھانکا تو کوئی بھی نہیں تھا ۔۔۔
اضطراری کیفیت میں بھاگ کر کھڑکی کے باہر کا منظر کا دیکھنے لگی ۔۔۔ آسمان پر تارے جھلملا رہے تھے ۔۔۔
مطلب ابھی رات تھی ۔۔۔
اس حادثے کو چند گھٹنے ہی بیتے تھے ۔۔۔
یااللہ ۔۔۔ کہاں ہوں میں ؟؟؟
وہ بری طرح سے پریشانی میں گھر گئی ۔۔۔
لاشعوری طور پر اسکی نظر واشروم کے ادھ کھلے دروازے پر پڑی تو اجنبی شخص اسے ہی گھور رہا تھا ۔۔۔
شزانہ ساکت رہ گئی ۔۔۔
بال ماتھے پر پڑتے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا ۔۔۔
آنکھوں میں سرخی اور صبیح پیشانی پر ناگواری کی سلوٹیں اسے دیکھ کر ابھرنے لگیں ۔۔۔
اس نے گھبرا کر بھاگنا چاہا ۔۔۔۔
کہاں بھاگ رہی ہو؟؟؟؟ یوسف نے لپک کر اسے دبوچ لیا ۔۔۔ وہ مزاحمت کرتی اسکے فولادی بازئوں کے گھیرے میں مچلنے لگی ۔۔۔
میری بات سنو ۔۔۔!!
یوسف نے ناگواری سے اسے دیوار سے لگا کر دونوں بازو ٹکائے اور فرار کی ساری راہیں مسدود کردیں ۔۔۔
وہ غصے اور بے بسی سے پوری شدت سے حلق کے بل چلائی ۔۔۔۔ رات کے سناٹے میں اسکی آواز راہداریوں میں بہت دور تک گونجی ۔۔۔
خاموش رہو بے وقوف لڑکی !
یوسف نے گھبرا کر اسکے منہ پر سختی سے ہاتھ جمایا ۔۔۔ سب ٹھیک ہے یوسف صاحب ؟؟؟ کیا ہوا اندر ؟؟؟
میں ڈاکٹر کو بلوائوں ؟؟؟
نرس مسلسل دروزہ ناک کرتے ہوئے تفکر سے بولی ۔۔۔
اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے سب ٹھیک ہے !
یوسف نے قہر برساتی نظروں سے اسے گھور کر کہا ۔۔۔
اگر تم نے شور مچایا تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا !وہ سختی سے وارن کرتا اپنے ہاتھ ہٹانے لگا ۔۔۔۔
شزانہ کو شدید گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔۔۔ گھڑی پر نظر ڈالی تو وقت کا احساس ہوا ۔۔ رات کے تین بج رہے تھے
تم ہمیں سڑک کے کنارے زخمی حالت میں ملی تھی ۔۔۔
ہم نے تمہیں ہاسپٹل پہنچایا ۔۔۔ تمہاری مدد کی ۔۔۔ اب سچ سچ بتائو تمہارا کیا چکر ہے ان لوگوں کے ساتھ کیوں مارا انہوں نے تمہیں ؟؟؟
یوسف کا دل چاہ رہا تھا سارا غبار اسی لمحے نکال دے ۔۔۔ مگر تحمل سے گویا ہوا ۔۔۔
شزانہ نے سن کر سکون کا سانس لیا ۔۔۔
ویسے بھی یہ شخص اسے بھروسے کے قابل لگا۔۔
تم سے بات کر رہا ہوں میں ؟؟؟ دیواروں سے نہیں ؟؟؟
وہ اس بار براہراست اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔۔۔ شزانہ بری پھنسی تھی ۔۔۔ اب کیا جواب دیتی ؟؟؟ اس سے کوئی جواز نہیں بن پا رہا تھا ۔۔۔
اس نے گھر سے باہر کی دنیا ہی کہاں تھی ۔۔۔ اسے لوگوں سے ڈیل کرنا کہاں آتا تھا ۔۔۔
بولو بھی؟؟؟
یوسف منتظر سا اسکا چہرہ دیکھنے لگا ۔۔
وہ خاموشی سے لب کاٹتی ۔۔ بستر کے کنارے ٹک گئی ۔۔۔ یوسف نے انتہائی ضبط سے لب بھینچے ۔۔۔
صبح ہوتے ہی تم یہاں سے چلی جانا ۔۔۔ ہم تمہاری صورت میں کوئی مصیبت اپنے گلے نہیں ڈالنا چاہتے سمجھی ؟؟؟؟ وہ رکھائی سے بولا ۔۔۔ وہ حسب عادت خاموش ہی رہی ۔۔۔ ابھی تو اس نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا ۔۔۔
ایسی بے رخی ۔۔۔!! اتنا کڑوا پن ۔۔اسکا گلا رندھا
اس شخص کا رویہ اسکی توقع کے بر عکس تھا ۔۔۔
اب خالہ کو کہاں ڈھونڈے گی ؟؟؟؟ چند منٹ کی گفتگو اور ٹیلیفونک رابطے پر کبھی ایڈریس کی ضرورت ہی نہیں پڑی اسے ۔۔۔
یا اللہ کوئی تو راہ دکھا ۔۔۔
انتہائی بے بسی اور لاچاری سے ناخن چبانے لگی ۔۔۔ آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔
اکیلی یہاں کیا کرے گی ؟؟؟ نہ راستوں کی خبر نہ منزلوں کا پتا !
تم گونگی ہو کیا ؟؟؟ یوسف کا بس نہیں چل رہا تھا ۔۔۔جاسوس لگا دیتا اسکے پیچھے اور سب معلوم کروا لیتا ۔۔۔ وہ پھر سے ایک سرسری نگاہ اس پر ڈال کر اپنی پریشانی کے متعلق سوچنے لگی ۔۔۔
یوسف نے ‘بھاڑ میں جائو’ والی نظروں سے اسے گھور کر کوٹ چہرے پر پھیلا لیا ۔۔۔ اور آرام دہ انداز میں لیٹ گیا ۔۔۔
____________________________________
باورچی (گونگا) لڑکا جو کچھ دنوں سے ان کے ساتھ قیام پذیر تھا۔۔ وہ تشویش ناک تاثرات لئے کمانڈر کو کچھ بتانے کی کوشش کی کر رہا تھا ۔۔۔
اللہ غارت کرے ان سب کو ۔۔۔
کمانڈر حواس باختہ سا ہوکر کمرے میں بھاگا ۔۔۔
غضب ہوگیا درباس ! ملٹری والے یہاں آپریشن کے لئے اترے ہیں ، مجھے ابھی ابھی پتا چلا ہے جلدی اپنا سامان سمیٹو اور یہاں سے نکلو ۔۔۔
کمانڈر عجلت میں کہتا یوالور اور لیپ ٹاپ اٹھا کر بیگ میں ڈالنے ۔۔۔
عمارا کا دل بلیوں کی طرح اچھلنے لگا ۔۔۔ اسے یقین تھا فوجی جوان کوئی درمیانہ راستہ نکال کر انہیں بچانے ضرور آئیں گے ۔۔۔
ہو سکتا ہے بات چیت کرنے آرہے ہو؟؟؟؟ تم خوامخواہ ڈر رہے ہو کمانڈر !
درباس ازلی مطمئن انداز میں کہتا ہوا سر کے پیچھے ہاتھ جمانے لگا ۔۔۔
بات چیت کرنے کے لئے پوری فوج کیوں لائیں گے وہ ۔۔۔اب تم اٹھو گے یاں یہیں شہادت وصول کرنے کا ارادہ ہے !
کمانڈر اسکے بدستور مطمئن انداز سے خائف ہوکر کہتا بیگ کندھوں پر ڈالنے لگا ۔۔۔
وہ اٹھا اور گن میں گولیاں چیک کرنے کے بعد پشت میں اڑسی ۔۔۔ موبائل فون ۔۔۔ اور ضروری اشیاء اٹھانے لگا ۔۔۔ عمارا کا دل کیا خوشی سے چھلانگیں لگائے ۔۔
باہر بیٹھے اسکے ساتھیوں کو شاید اس بات کا علم نہیں تھا ۔۔۔
(باورچی)لڑکا پرامید نگاہوں سے کبھی درباس تو کبھی کمانڈر کو دیکھتا ۔۔۔شاید اسے بھی ساتھ لے جائیں ۔۔۔ مگر ۔۔۔ !!! اسکی قسمت میں فوجی جوانوں کی گولیاں لکھی تھی شاید بے حد مایوسی اور بے بسی سے ایک کونے میں لگ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
چلو جلدی نکلو ۔۔۔
کمانڈر نے کہتے ہوئے کمرے کی کنڈی چڑھا دی ۔۔۔
تاکے باہر والوں کو اسکا علم نہ ہو ۔۔۔
درباس فارغ ہوکر اسکی جانب مڑا ۔۔۔
عمارا کنڈی کی آواز پر چونکی ۔۔
اور پھر اسکے متوجہ ہونے پر ۔۔۔ اسکے اندر کچھ بری طرح سے کھٹکا ۔۔۔
جلدی نکلو درباس ! کمانڈر کھڑکی سے باہر کود گیا ۔۔
چلو ۔۔۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے اسکی کہنی تھامی ۔۔
ن۔۔نہیں ۔۔۔۔نہیں ۔۔نہیں نہیں ۔۔۔ وہ روانی میں بولتی ہوئی پیچھے ہٹنے لگے ۔۔۔ قدموں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے ۔۔
چلووو ۔۔۔ وہ زور دے کر بولا ۔۔۔
نہ۔۔ نہیں ۔۔نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔ تمہارے ساتھ !! مجھے گھر جانا ہے ! وہ دروازے کی طرف دوڑی ۔۔۔
درباس نے لپک کر اسے دبوچ لیا ۔۔۔
علی۔۔ملییحہ ۔۔۔۔ بچائوووو مجھے پلیزززز
وہ چیخنے چلانے لگی ۔۔۔
ششش۔۔شششش ! آرام سے۔۔۔ چلائو مت ورنہ سب سن لیں گے ! وہ انتہائی نرمی سے اسکے لبوں پر ہاتھ جمائے رسان سے سمجھانے لگا ۔۔۔
عمارا بھرپور مزاحمت کرتی خود کو چھڑانے لگی ۔۔
تم میری ہو ۔۔ اور تمہیں میرے ساتھ جانا ہے ہر حال میں ! وہ لفظ بہ لفظ سنجیدگی اور اطمینان سے اپنے ارادے گوش گزار کرکے آخر میں مسکرایا تھا ۔۔
مجھے اپنے گھر جانا ہے پلیزز تمہیں خدا کا واسطہ ہے ۔۔ سب چلے جائیں گے ۔۔۔مجھے بھی جانے دو ۔۔۔ میرے بابا پریشان ہورہے ہوں گے
وہ روتی ہوئی التجائو پر اتر آئی ۔۔۔ اس کے پاس آخری موقع تھا ۔۔ اب کوشش نہ کرتی تو شاید عمر بھر پچھتانا پڑتا ۔۔۔ چاہے مجھے کافر کہہ لو ۔۔۔ پر تمہارے واسطوں کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔۔ تمہیں نہیں چھوڑ سکتا میں!
بوجھل آواز میں کہتا براہراست اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا ۔۔۔ عمارا ساکت رہ گئی ۔۔ اسے اس وقت وہ کوئی اور ہی معلوم ہورہا تھا۔۔
درباس نے نامحسوس طریقے سے ہاتھ بڑھا کر گردن کی مخصوص رگ پر انگلیاں دبائیں ۔۔۔
غضب خدا کا یہاں موت سر پر منڈلا رہی ہے اور اس شخص کو عشق معشوقی سے فرست نہیں ہے ۔۔درباسسسسس؟؟ میں کہتا ہوں چلو یہاں سے۔۔
کمانڈر غصے سے چلایا ۔۔۔
درباس نے ضبط سے کمانڈر کو نظر انداز کیا اور بے ہوش وجود کو کندھے ڈال کر کھڑکی سے باہر کود گیا ۔۔۔ جاتے جاتے اس نے بے بسی کی تصویر بنے لڑکے کے ہاتھ میں کچھ تھمایا تھا۔۔۔
____________________________________
اگلے چند منٹوں میں دائم کی قیادت میں بارہ فوجی جوانوں کا دستہ ریسکیو آپریشن پر سرگرم تھا ۔۔۔
ملیحہ نے مڑ کر کئی دیر سے بند دروازے کو بے چینی سے دیکھا ۔۔۔ جہاں بہت دیر سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی ۔۔۔عمارا کو اندر گئے دو گھنٹے ہوچکے تھے۔۔۔اب اسے پریشانی ہونے لگی تھی.۔۔ مگر پہرے دار نقاب پوشوں سے ٹکرانے کی ہمت نہیں ہو پارہی تھی ۔۔۔ اچانک اسکی نظر جھاڑیوں حرکت کرتے وجود پر پڑی ۔۔ جس نے فوجی وردی زیب تن کر رکھی تھی ۔۔۔ اسکی آنکھیں خوشی اور حیرت سے پھیل گئیں ۔۔۔ فوجی جوان نے انگلی کے اشارے اسے خاموشی رہنے کو کہا ۔۔ متعدد اشارے اور بھی کیئے ۔۔۔
مگر خوش اتنا تھی ۔۔ علاوہ اسکے کچھ سمجھ نہیں پائی ۔۔کہ اسے نقاب پوش پہرے داروں کا دھیان ہٹا کر دوسری طرف لگانا ہے ۔۔۔ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔۔ انہیں دیکھ کر خوشی اور تحفظ کی کو لہر اسکے گردش کر رہی تھی ۔۔۔وہ جذبات بیان سے باہر تھے گائیزز ہمارے سولجرززززز آآاگئے !!!
وہ پلٹ کر خوشی سے چلائی ۔۔
پہرے داروں کا دھیان بھٹک گیا اور وہ جوانوں کی شکنجے میں پھنس گئے۔۔۔
سب نیچے جھک جائو ۔۔۔ !!
فوج کے جوان ریسکیو عمل میں لانے لگے ۔۔۔ جبکے دائم نے مکان کا رخ کیا ۔۔۔ اسکی فولادی ضربوں سے بوسیدہ سا دروازہ لمحوں میں زیر ہوگیا ۔۔۔
نیچے بیٹھ جائو۔۔۔ہاتھ اوپر ۔۔
کمرے میں کوئی نہیں تھا ماسوائے ایک ڈرے سہمے چودہ سالہ لڑکے کے ۔۔۔ جسکی مٹھی میں کچھ دبا ہوا تھا ۔۔
کیا ہے تمہارے ہاتھ میں ؟؟؟
اس بچے نے گھبرا کر مٹھی اسکے سامنے کردی ۔۔۔ ممکن تھا وہ اسے یہیں گولیوں چھلنی کردیتے ۔۔ لیکن دائم نے اپنا ارادہ ترک کر دیا ۔۔۔
اسے حراست میں لے لو ! وہ اسے فوجی جوانوں کے حوالے کرتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔۔ ہیلی کاپٹر کے پروں کے اڑتی دھول مٹی آنکھوں کو بری طرح متاثر کرنے لگی ۔۔۔ اس نے گن دوسرے ہاتھ میں لے کر جوان سے بارودی مواد لیا اور کچے مکان میں پھینک کر ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگیا ۔۔۔ ہیلی کاپٹر ہوا میں بلند ہونے لگا تو بندوق کے فائر سے مکان دھماکے کی نظر ہوگیا ۔۔۔اور ۔۔۔ کمانڈر کے مکرو ارادے خاک میں مل گئے ۔۔۔
___________________________________
شفق ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوکر گھر چلی گئی تھی ۔۔۔ منصور اپنی ڈیوٹی پر طعینات تھا ۔۔۔ دائم نے کچھ دنوں کے لئے شفق اور اسکی ماں کو اپنے گھر رہنے کی ہدایت دی تھی ۔۔ جسے شفق نے اپنے حق میں بہتر سمجھ کر قبول کرلیا تھا ۔۔ویسے بھی وہ اسکا دوست تھا
یہاں رہنے میں کوئی قباحت نہیں تھی اسے ۔۔۔
دائم مطمئن ہوکر اپنے کوارٹر (جہاں وہ خفیہ سرگرمیاں سرانجام دیتے تھے) پہنچا۔۔ تو جنرل بخشی پہلے سے موجود تھے ۔۔۔ وہ حیران نہیں ہوا تھا مگر چونکا ضرور تھا ۔۔۔ کیونکہ اس کی لاک کی گئی چیزیں آج تک کوئی کھول نہیں پایا تھا۔۔۔
جیسے اسکے کام کرنے کا طریقہ دوسروں سے الگ تھا
ویسے ہی اسکے لاکڈ اور پاسورڈ بھی مختلف اور منفرد تھا ۔۔۔ جن سے صرف وہ کھیل سکتا تھا ۔۔۔
مگر جنرل بخشی نے یہ ثابت کردیا تھا کہ باس ‘باس ‘ ہوتا ہے ۔۔ ہمیشہ چار قدم آگے چلنے والا ۔۔۔
کل تمہیں مبارکباد دینے کا وقت ہی نہیں ملا ۔۔۔ ویل ڈن ! ہمارے ڈاکٹرز سہی سلامت واپس پہنچ گئے
جنرل بخشی چائے کا کپ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے ہلکا سا مسکرائے ۔۔۔
شکریہ سر ! ہلکا سا سر خم دے کر کپ تھام لیا ۔۔۔
آج یوم عاشورہ ہے ، تمہارے ٹیم میٹس اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں تم لیٹ ہو غالباً؟؟؟
جنرل نے دریافت کیا ۔۔۔
نہیں ۔۔ میں ساری رپورٹ لے کر آرہا ہوں ۔۔یہاں کچھ کام تھا سو چلا آیا ! اس نے جواز پیش کیا ۔۔
مشن سرانجام دینے کا وقت آگیا ہے ، شروع تم نے کیا تھا ۔۔۔ ختم بھی تم ہی کروگے ! خیر سے افغانستان پر طالبان کی حکمرانی ہے۔۔۔اسلئے ھانی کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا ہے ۔۔۔ طالبان نے معافی کا اعلان کیا ہے ، تم بہتر جانتے ہو ھانی جیسے مکروہ انسان کی فطرت !
وہ شام بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے !
جنرل بخشی اسے ملنے والی اطلاعات سے آگاہ کرنے لگے ۔۔۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے ۔۔ ہماری دسترس سے آگے نہیں نکل سکتا۔۔ وہ ہمارا مجرم ہے، ہمارے شہیدوں کا خون اسکے سر ہے ، وہ سزا پائے گا انشااللہ !
خیر۔۔ مجھے اجازت دیں سر !
اس نے ٹیبل سے منی مائیکرو چِپ اٹھائی اور ریوالور لیتا ہوا مڑا ۔۔۔۔
میں یہاں کچھ دیر اور ٹھہروں گا ، تمہارے کام کو ایکسپلور کروگا !
جنرل بخشی ہلکے پھلکے انداز میں بولے ۔۔۔
جیسے آپ کو ٹھیک لگے ! وہ کہہ کر جانے لگا ۔۔۔ مائکرو فون کان میں لگا کر ٹیم سے روابط قائم کرتا کنٹرول روم کا رخ کرنے لگا ۔۔۔ پولیس کی نفری ، پاک فوج کے جوان اپنی ڈیوٹیوں پر طعینات تھے ۔۔۔ وہ ان سب کو باریکیوں سے مانیٹر کر رہے تھے ۔۔۔ ہوائی راستوں سے بھی اور زمینی سے بھی ۔۔۔ نایا بھی سویلین کے لباس میں مخصوص سیاہ دوپٹہ سر پر اوڑھے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھی ۔۔۔ وہ فجر پڑھ کر دعا مانگ کر آئی تھی آج کا دن خیر خیریت سے گزر جائے۔۔۔
سوری ۔۔سوری غلطی سے ٹچ ہوا ! کسی اجنبی شخص کی آواز پر وہ چونک کر مڑی اور جواب دیئے بغیر اس رو سے زرا ہٹ کر کھڑی ہوگئی ۔۔۔ وہ لوگ اس وقت بڑی شاہراہ پر تھے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں جمع تھے ۔۔۔ لیکن کچھ لوگوں کو کوئی سروکار تھا نہ ہی محرم جیسے مہینے کا احترام ۔۔۔ اس کے اندر کی لڑکی جانتی تھی کہ وہ شخص یہ حرکت دوبارہ کبھی بھی کرے گا ۔۔۔ ماسک نے اسکے چہرے کو کور کردیا تھا۔۔۔ اگر نہ بھی کیا ہوتا تو وہ موقع پر ہی اس شخص کی درگت بنا دیتی ۔۔۔ وہ شخص پھر سے اسے ہراس کرنے لگا ۔۔۔ اب کی بار نہ تو اس میں برداشت تھی ۔۔۔ نہ ہی تحمل
I told you ! don’t touch me …
اسکی غصے سے بھرپور آواز پر مجمع چھٹ گیا ۔۔۔ لوگ مڑ مڑ کر نوجوان کو دیکھنے لگے ۔۔۔ اتنا کہنا تھا کہ لوگ اندھا دھند اس نوجوان کو پیٹنے لگے ۔۔۔ اس نے سویلین کپڑوں میں آرمی کے جوان کو دور رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ جب لوگ اچھی طرح درگت بنا چکے ۔۔۔ تو اسکے اشارے پر جوانوں نے لوگوں کو ہٹاتے ہوئے بچ بچاو کراوایا ۔۔۔ پورا دن وہ اس چھوٹے سے انسیڈنٹ کو لے کر ڈسٹرب رہی ۔۔جانے آج کی نواجوان نسل کن راہوں پر چل پڑی تھی ۔۔۔ شام کے سائے گہرے ہونے لگے ۔۔۔ مجمع چھٹ گئے ۔۔ تو انکا کام ختم ہوا ۔۔ جبکہ پولیس ، اور آرمی کے افسر اب بھی موجود تھے ۔۔۔ وہ کنٹرول روم میں حتمی رپورٹ جمع کروانے کے بعد گھر آگئی ۔۔۔
___________________________________
آج گھر میں قرآن خوانی کا انعقاد کیا گیا تھا ۔۔۔ نصیبہ پھپھو اور شاکرہ بیگم خواتین کے ساتھ قرآن پڑھنے میں مصروف تھی ۔۔۔ جبکے نوال اور تاشا سپارہ پڑھنے کے بعد کچن میں روشن اور رومیشا کا ہاتھ بٹا رہی تھی ۔۔۔
پتا ہے میں کیا سن کر آرہی ہوں !
روشن ڈش رکھتے ہوئے سنسنی خیز انداز میں بولی ۔۔۔
لو چلتی پھرتی ‘نیوز پیپر’ سے نئی خبر سن لو بھئی !
پیاز کاٹتی تاشا نے تنز کیا ۔۔۔
کیا سن کر آرہی ہو تم ۔۔۔ روشنی ڈالنا پسند کروگی روشن ! نوال نے خاصے موڈ میں پوچھا ۔۔
تمہارے بھلے کی ہی بات مزاق اڑانا ہے تو اڑا لو !!!
وہ اترا کر بولی ۔۔
بتا بھی دو فوٹیج کیوں کھا رہی ہو !
تاشا نے ناک رگڑا ۔۔۔
پتا ہے نوال کی ساس نصیبہ آپا کو بتا رہی تھی کہ رامس تو پاگل دیوانہ ہوگیا ہے نوال کے پیچھے ۔۔۔ ہمارا بس نہیں چل رہا ہم ابھی نوال کو بیاہ کر لے جائیں !
وہ پرجوش انداز میں ہاتھ پر ہاتھ مار کر فخریہ انداز میں بولی ۔۔۔ نوال اور تاشا کے سنجیدہ چہروں پر نظر پڑی تو اسکی مسکراہٹ تھمی ۔۔۔
اس میں ‘بھلے والی بات’ کہاں تھی روشن ؟؟؟ چپیڑ مار کر تیری روشنی گل کردوں دل کرتا ہے ! تاشا نے اسے جھاڑا ۔۔ نوال کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا ایک جا رہا ۔۔۔
اسکا دل کیا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور بھاگ جائے ۔۔۔ اسے چڑ سی ہونے لگی تھی اب شادی کے نام سے ۔۔۔ وہ سب رومیشا کے حوالے کرکے کمرے میں آگئی ۔۔۔
عجیب ویرانی اور اداسی چھائی ہوئی تھی طبیعت پر ۔۔۔ دفاتح جو راہداری سے گزر رہا تھا ۔۔۔
لاشعوری طور پر کمرے کے آدھ کھلے دروازے سے اس پر نظر پڑی تو دل مچل پڑا ۔۔۔ وہ خود کو روک نہیں پایا ۔۔
قدم خود بخود اسکی جانب کھنچے چلے گئے ۔۔۔
نوال نے چونک کر سر اٹھایا تو فاتح کو دیکھ حیران رہ گئی ۔۔
کوئی کام تھا ؟؟؟ لہجے میں تنائو برقرار تھا ۔۔
شاید شادی کے موزوں کے سبب
نہیں ! وہ براہراست اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔ تم ۔۔۔۔ رو رہی تھی ؟؟؟؟
اسکے آنسو فاتح کو دل پر گرتے ہوئے محسوس ہونے لگے ۔۔۔ اتنا نرم اور شائستہ لہجہ ۔۔۔!! نوال غش کھا کر گرتے گرتے بچی ۔۔۔
یہ فاتح ہی تھا نا ؟؟؟ وہ بول ہی نہیں پائی ۔۔۔
اسکی جادوئی نگاہیں عجب سحر سا طاری کرنے لگیں فاتح کے اعصاب پر ۔۔ وہ حواس سے بیگانہ ہونے لگا ۔۔۔
نوال کو اسکی بولتی نگاہیں بری طرح سے چونکا گئیں ۔۔۔ بے شک وہ اس سے محبت کرتی تھی ۔۔۔مگر فاتح کے اندرونی جذبات سے بے خبر تھی۔۔
اسکے اندر کی لڑکی ڈسٹرب ہوگئی تھی فاتح کی نگاہوں سے ۔۔۔ اس نے نگاہیں پھیر لیں ۔۔۔
فاتح کو یہ منظر انتہائی ناگوار گزرا ۔۔۔
میری طرف دیکھو ۔۔۔!
اسکی بوجھل آواز پر نوال کا زوروں سے دھڑکنے لگے ۔۔۔ تمہیں کوئی کام ہے تو پلیز تاشا سے کہہ دو فاتح میں بزی ہوں ۔۔۔ اس نے کنفیوژ ہوکر فرار کی راہ تلاشنی چاہی ۔۔۔ میں تم سے بات کر رہا ہو ۔۔۔ !
وہ اپنے ازلی دھونس جمانے والے انداز میں نہ صرف بولا بلکہ اسکا بازو دبوچ کر روکا ۔۔۔
فا۔۔تح ! اسکے لبوں سے سر گوشی نکلی ۔۔۔
تم سچ میں رامس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟؟؟؟
وہ جبڑے بھیچ کر پوچھنے لگا ۔۔
نوال الجھی کر رہ گئی ۔۔ فاتح کیوں پوچھ رہا تھا ۔۔۔
ظاہر سی بات ہے ۔۔۔ ماموں اور اماں نے اسے میرے لئے پسند کیا ہے ! اعتراض کا سوال ہی نہیں اٹھتا !
اسکے لہجے میں بے بسی در آئی ۔۔
میں تم سے تمہاری مرضی پوچھ رہا ہوں بیوقوف؟؟؟
دانت پیس کر کہتے ہوئے اس نے گرفت تنگ کردی ۔۔۔
تمہیں کیا فرق پڑتا ہے ، تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟؟؟ ہیں ؟؟؟ نوال تنک کر پوچھنے لگی ۔۔۔
فاتح ایک دم جیسے ہوش میں آیا ۔۔۔ اور آہستگی سے اسکا بازو چھوڑ دیا ۔۔
نوال نے الجھن بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھا ۔۔۔
دوبارہ میرے کمرے میں مت آنا !!
اسے جاتا دیکھ کر وہ بولی ۔۔ جانے اسے غصہ کس بات پر آیا تھا ۔۔ حالانکہ جو وہ سننا چاہتی تھی اسے منہ سے اپنے لئے ۔۔۔وہ کبھی ممکن نہیں تھا ۔۔۔
فاتح کینہ توز نظر اس پر ڈال کر باہر نکل گیا ۔۔۔ حیرت کی بات تھی جواباً ایک لفظ نہیں نکلا تھا اسکے منہ سے ۔۔۔
یہ فاتح کیوں آیا تھا تمہارے کمرے میں ؟؟ خیریت تو ہے نا ؟؟ کچھ کہا تو نہیں اس نے تم سے ؟؟
نصیبہ پھپھو فاتح کو نکلتے دیکھ کر تعجب سے پوچھنے لگی ۔۔۔
بس کردیں اماں ۔۔آپ کو پتا نہیں کیوں ہر وقت لگتا جیسے وہ مجھے اٹھا کر دیوار میں ماردے گا ، میری ہڈیاں توڑ دے گا ، سر پھاڑ دے گا ! وہ بس غصے کا تیز ہے اسکی عادتیں بگڑی ہوئی ہیں ! لیکن بد لحاظ اور بے حیا نہیں ہے ایسی حرکت کبھی نہیں کرے گا ! فرق کو سمجھیں یار اماں !
وہ پھٹ پڑی ۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس شخص کی سائیڈ لے لی ۔۔۔
اچھا اچھا بس لڑکی ۔۔۔تم تو بھری بیٹھی ہو ! کیا بات ہے ؟؟؟
نصیبہ پھپھو متیحر سی ہوکر پوچھنے لگی ۔۔۔
کچھ نہیں اماں ! وہ جلے کٹے انداز میں بولی ۔۔
اچھا چلو ۔۔زرا باہر آجائو تمہارے ساس پوچھ رہی ہیں بار بار تمہارا !
نصیبہ پھپھو پیار سے بولی ۔۔۔
ساس کا بس چلے تو مجھے شیشے میں سجا کر گھر میں رکھ لیں ۔۔ اسکا بیٹا اور وہ دونوں صبح شام تاڑتے رہیں حد ہوگئی ۔۔۔کہہ دیں ان سے مجھے اور بھی بہت کام ہے فارغ نہیں ہوں میں !
وہ پہلے ہی تپی بیٹھی تھی ۔۔۔سارا غبار نکال کر دوپٹہ کندھے پر ڈالتی یہ جا وہ جا ۔۔۔
نصیبہ پھپھو اسکے تیور دیکھتی رہ گئی ۔۔
___________________________________
کب رات گزری ؟؟؟ کب صبح ہوئی ۔۔۔اسے علم نہیں ہوا ۔۔۔ اسکی آنکھ کسی کے جھنجھوڑنے پر کھلی ۔۔۔
محترمہ صبح ہوچکی ہے !
اس نے بازو آنکھوں کے آگے سے ہٹایا اور اٹھ بیٹھی ۔۔۔ گزرے ایام کسی خواب کی مانند محسوس ہونے لگے تھے اب تو ۔۔۔ محل کا عیش و آرام ۔۔۔ مخملی بستر ۔۔۔ باپ کا شفیق لمس ۔۔ بھائی کا محبت بھرا انداز ۔۔۔ سب کہیں غائب ہوگیا ۔۔۔ اب تو در در کی ٹھوکریں ۔۔لوگوں کی کڑوی کسیلی باتیں۔۔ اور خانہ بدوشی کی زندگی ہی اسکا مقدر تھی
کن سوچوں میں گم ہو؟؟؟؟ جانے کی تیاری پکڑ لو ۔۔
میں نہیں چاہتا بابا تمہیں یہاں دوبارہ دیکھیں ۔۔۔
یوسف کا انداز حتمی تھا ۔۔۔
شزانہ نے بمشکل حواسوں کو برقرار رکھ کر اسکی بات سنی تھی ۔۔ کمزوری اور نقاہت کے بعث سر بری طرح چکرا رہا تھا ۔۔۔ وہ نئی مشکلوں سے لڑنے کے لئے حوصلہ جٹاتی خاموشی سے اٹھی اور پانی کے چھینٹے منہ پر مار کر باہر نکل آئی ۔۔۔عبایا تو ہاسپٹل کے عملے کے پاس تھا شاید ۔۔۔ سیاہ اسکارف گرد آلود ہوچکا تھا ۔۔۔پھر بھی اسنے سر پر اوڑھ لیا ۔۔۔ بیگ پر نظر پڑی تو اسے احساس ہوا بوڑھے ضعیف نے اسے کھانا دیا تھا ۔۔۔ جو اس نے ابھی تک چھوا بھی نہیں تھا ۔۔۔ اسے شدید بھوک لگی تھی ۔۔۔
انتہائی مایوسی سے بیگ اٹھا کر کندھوں پر ڈال کر کندھوں پر ڈال لیا ۔۔۔
جائووووو ۔۔۔
وہ جیسے اسے ایک پل یہاں دیکھنے کو آمادہ نہیں تھا ۔۔۔ شزانہ دروازے کی جانب بڑھی ۔۔۔ پھر رک کر مڑی ۔۔۔ اسکا نفس و وقار بری طرح مجروح ہوئے ۔۔۔ دل چاہا رہا تھا خود کشی کرلے ۔۔۔ پھر ضبط کرکے پوچھ ہی لیا آخر ۔۔۔
تممہارے پاس ۔۔۔پیسے ہیں ؟؟؟؟؟ اسکی آواز بھرا گئی ۔۔ دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے ۔۔۔ کیا ؟؟؟ یوسف بے یقینی سے پوچھنے لگا ۔۔۔
وہ اپنی فریاد دہرا نہیں سکی تھی۔۔۔اسکی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہنے لگے ۔۔۔ کہاں وہ محلوں میں شہزادیوں کی سی شان سے رہنے والی ۔۔آج کسی اجنبی شخص سے پیسے مانگ رہی تھی ۔۔۔اپنی بھوک مٹانے کی خاطر ۔۔۔اسکی انا چیخ چیخ کر کہہ رہی کسی کے سامنے ہاتھ مت پھیلائو مگر حالات غالب آگئے ۔۔۔ وہ بری طرح سے ہار گئی تھی۔۔۔
یوسف نے والٹ سے چند نوٹ نکال کر اسکی ہتھیلی پر رکھے ۔۔۔ وہ پرمردہ قدموں سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئی ۔۔۔ اپنی سوچوں میں غرق سامنے آتے شخص سے بری طرح ٹکرا کر گر پڑی ۔۔۔نوٹ اسکے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر بکھر گئے ۔۔اسکے زخمی بازو سے درد کی ٹھیسیں اٹھنے لگیں ۔۔۔۔ وہ نھنھی جان حالاتوں سے لڑتے لڑتے تھک گئی تھی ۔۔۔ اس نے آہستگی سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔
ٹکرانے والا شخص گھبرا گیا ۔۔۔ اور چیختا ہوا ڈاکٹرز اور نرسز کو بلانے لگا ۔۔۔چوکھٹ پر کھڑے یوسف نے انتہائی مایوسی سے یہ منظر دیکھا ۔۔۔
شاہین صاحب جو ابھی ابھی ہاسپٹل آئے تھے اسکے متعلق دریافت کرنے کاریڈرور میں تماشہ ہوتے دیکھ کر حیران پریشان رہ گئے ۔۔
ڈاکٹر کہاں ہے ؟؟؟ اس نے میری پیشنٹ کا خیال نہیں رکھا ؟؟؟ وہ بھڑک اٹھے ۔۔۔
آپ کی پیشنٹ فزیکلی بہت ویک ہیں !ہمیں کچھ دن انہیں اور ابزرویشن میں رکھنا ہوگا !
ڈاکٹر نے کھڑے کھڑے کہا ۔۔۔
اسے بے ہوشی کی حالت میں ہاسپٹل کے کمرے میں شفٹ کردیا گیا تھا۔۔۔
کیا مطلب آپ نے اسے ڈسچارج کردیا تھا؟؟؟ میرے علم میں لائے بغیر ؟؟؟ وہ برہم ہوئے ۔۔۔
آپ کے بیٹے نے خود ڈسچارج پیپر سائن کیئے ہیں یوسف صاحب آپکا شکوہ کرنا بنتا نہیں ہے ! میں پیشنٹ کو دیکھ لوں ۔۔۔ ڈاکٹر کہہ کر چلے گئے ۔۔۔
شاہین صاحب کو یوسف پر غصہ آنے لگا۔۔۔
شرم آنی چاہیئے یوسف تمہیں ! تمہارا مسلہ صرف اتنا ہے کہ تم جیسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک کی رکھوالی کرنا صرف پولیس کا یا فوجی جوانوں کا کام ہے ۔۔۔ہم بھی اس ملک میں رہتے ہیں ۔۔ ہماری بھی کچھ زمہ داریاں ہیں ۔۔۔لیکن ہر کوئی اس نکتہ نظریئے سے سوچنے لگے تو سارے مسلے ہی ختم ہوجائیں۔۔۔
یوسف جو
‘رینجرز کو انفارم کرکے انکے حوالے کردیتے ہیں ۔۔۔وہ خود دیکھ لے گی ‘
کہنے پر اب اس قدر پچھتا رہا تھا جسکی کوئی حد نہیں ۔۔۔ شاہین صاحب پچھلے پندرہ منٹ سے مسلسل لیکچر دیئے جا رہے تھے جس پر وہ سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا ۔۔
اسے ہتک آمیز رویہ نہیں اپنانا چاہیئے تھا لڑکی کے ساتھ ۔۔۔ ضمیر بار بار کچوکے لگا رہا تھا ۔۔۔ وہ سخت ملال میں گھر گیا تھا ۔۔۔ لیکن شاہین صاحب نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی آج ۔۔۔وہ مزید کچھ سننا نہیں چاہتا تھا
میں گھر جارہا ہوں ! کوٹ لیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
میری بلا سے جہاں مرضی جائو !
شاہین صاحب مضطرب انداز میں راہداری میں چکر کاٹ رہے تھے ۔۔۔ ڈاکٹرز کو شزانہ کے لئے بلڈ ارینج کرکے دیا تھا جس کے ختم ہونے تک کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔۔
شاہین صاحب کا بیگانہ انداز یوسف کا دل دکھا گیا ۔۔
اس نے رات بھر جاگ کر اس لڑکی پر پہرہ دیا تھا ۔۔۔
کس کے لئے ؟؟؟ صرف اِن کے لئے ! وہ تو لڑکی کو لانے کے حق میں بھی نہیں تھا ۔۔۔ بس بہت ہوگیا
غصے سے چابیاں اٹھا کر راہداری عبور کرگیا ۔۔۔
انتہائی غصے میں وہ گھر پہنچا ۔۔۔ اور سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا ۔۔
یوسف ؟؟؟ کہاں تھے تم بیٹا ؟ کتنے دنوں سے غائب تھے آج گھر آئے ہو تو کیا سارے آداب بھی بھول گئے ہو ؟؟
شاکرہ بیگم نے شکوہ کیا ۔۔ جو سلام دعا کے بغیر آتے ہی کمرے میں چلا آیا تھا
اماں اس وقت میرا دماغ بہت گرم ہے ، بہتر ہوگا آپ بھی اخلاقیات کا لیکچر کسی اور وقت کے لئے بچا رکھیں !
وہ بلند آواز میں رکھائی سے کہتا اندر چلا گیا ۔۔
اللّٰهم یا ربیھم !! اسے تو پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا ؟؟؟ نصیبہ پھپھو کا سینے پر ہاتھ پڑا ۔۔۔
وہ دونوں کمرے میں اسکے پیچھے چلی آئیں ۔۔۔
یوسف؟؟ کیا ہوا بیٹا ۔۔۔ ؟؟؟
آپ کے بھائی نے دماغ خراب کر رکھا ہے ۔۔ میں اس شخص کی سب باتیں برداشت کرلیتا ہوں کیونکہ وہ میرا باپ ہے اسکا یہ مطلب نہیں کہ میری کوئی سیلف ریسپیکٹ نہیں ہے اماں !
نصیبہ پھپھو کے سوال پر وہ غصے سے پھٹ پڑا ۔۔
شاکرہ بیگم ہکا بکا رہ گئیں ۔۔
ہوا کیا ہے کچھ بتائو گے بھی ؟؟؟
شاکرہ بیگم کو اب گھبراہٹ ہونے لگی تھی ۔۔
ان باپ بیٹوں کا جھگڑا کوئی نئی بات نہیں تھی ۔۔لیکن یوسف نے ہمیشہ ٹھنڈے سینے سے انہی کی بات سنی اور درگزر کی تھی ۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اسکا باپ کوئی چیز ٹھان لے تو کرکے ہی دم لیتا ہے ۔۔۔
نوال کی منگنی والی رات کو گھر آتے ہوئے کچھ لوگ ایک لڑکی سے زبردستی کررہے تھے اماں ، ہمیں دیکھتے ہیں ان لوگوں نے اس لڑکی کو گولی ماردی ۔۔ ہم اسے ہاسپٹل لے گئے ۔۔دوا دارو کے بعد اسے گھر کا راستہ دکھادیا ۔۔۔تو کیا غلط کیا ؟؟؟ اس ملک میں ہزاروں لڑکیاں کوئی اپنی مرضی سے تو کوئی زبردستی نکلنے پر مجبور ہیں ۔۔۔ وہ سب ہماری زمہ داری ہیں کیا؟؟؟؟ یا میں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے ان سب کا ۔۔۔
وہ بلند آواز دھاڑا ۔۔ اسکا غصہ کسی صورت کم ہونے میں آرہا تھا ۔۔۔
ہائے ۔۔۔بیچاری بچی ۔۔یوسف تم نے اچھا کیا کہ اسے ہاسپٹل پہنچا دیا ۔۔ اللہ تمہیں اس نیکی کا اجر دے گا بیٹا !
نصیبہ پھپھو اسے رسان سے سمجھانا چاہا ۔۔
جو بھی ہے اس شخص کی من مانی اب نہیں چلے گی ۔۔۔بس بہت ہوگیا ! وہ لڑکی اس گھر میں نہیں آئے ! ان لوگوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا ۔۔۔ کسے معلوم وہ لڑکی کن چکروں میں پڑی ہوئی ہے !! اس گھر میں دو چھوٹے بچے بھی ہیں ۔۔ میری بھی بہنیں ہیں اماں ۔۔۔جنکی حفاظت میرے زمہ ہے ایسے لوگوں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں ۔۔ اگر ان لوگوں کو خبر ہوگئی کہ ہم انکی لڑکی اپنے گھر لے آئیں تو نقصان سراسر ہمارا ہوگا ۔۔۔اور رینجرز بھی چھان بین کے لئے سب سے پہلے یہیں آئے گی کیونکہ انہیں معلوم ہے حب الوطنی کا بھوت بابا کے سر پر ہر وقت سوار ہے اور خدمت خلق کا زیادہ شوق بھی انہی کو چڑھا ہوا ! میں بہت مشکلوں سے ابراہیم کے بعد اس گھر میں رہنے پر مجبور ہوں ! اگر یہاں رہونگا تو میری موجودگی میں یہ سب نہیں چلے گا ! ورنہ میں چلا جائونگا یہاں ہے ! اماں سمجھا دیں بابا کو!
وہ انگلی اٹھا کر سختی سے گویا ہوا ۔۔
شاکرہ بیگم بے حال سی ہوکر صوفے پر گر گئیں ۔۔ان باپ بیٹوں کا ہر دو مہینے بعد کوئی نہ کوئی جھگڑا سر اٹھانے لگتا تھا ۔۔۔وہ دونوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی تھی
حد ہوتی ہے ہر بات کی !
وہ بڑبڑاتا ہوا شوز اتار کر کبڈ سے کپڑے لیتا واشروم میں گھس گیا ۔۔
فکر مت کریں بھابھی شاہین بھائی ضرور کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے! نصیبہ پھپھو نے انکا شانہ تھپکا ۔۔۔ شاکرہ بیگم سر پکڑنے پر مجبور ہوگئیں ۔۔
سہی تو کہہ رہا ہے بچہ ! کل کلاں کوئی مسلہ ہوگیا تو کون بھگتے گا !
میں سنا ہے یوسف بھااا۔۔۔۔۔ااااائی ۔۔۔۔۔۔۔ آئے ہیں ؟؟؟ وہ چہکتی ہوئی دروازے کی چوکھٹ پر پہنچی مگر ان کے چہروں کو دیکھ بات منہ میں ہی رہ گئی ۔۔۔
اماں ؟؟؟ نصیبہ پھپھو؟؟؟ کیا ہوا ؟؟ انکو روتے دیکھ کر تاشا کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔
بتائیں بھی ؟؟؟ اس نے بے چینی سے پوچھا ۔۔
کچھ نہیں ہوا ! نصیبہ پھپھو اسکا گال تھپتھپا کر کہتی دونوں باہر نکل گئی ۔۔۔ وہ اضطراری کیفیت میں کمرے میں چکر کاٹنے لگی ۔۔۔ اسے ڈھونڈتی نوال بھی وہاں آ گئی ۔۔ سب خیریت ؟؟ تاشا ؟
اسے گھن چکر بنی دیکھ الجھ کر پوچھنے لگی ۔۔۔
اسی اثنا میں یوسف واشروم سے نکل آیا ۔۔۔
اب تم دونوں کو کیا چاہیئے ؟؟؟ وہ روکھے لہجے میں دونوں سے مخاطب ہوتا آئینے کے سامنے آکھڑا ہوا ۔۔۔
یہ کیا طریقہ ہوا بھلا ؟ ہم ایک ہفتے سے آپ کی فکر میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں ، آپ کو یاد کر رہے تھے ۔۔ اور آپ جناب ہیں کے مزاج ہی نہیں مل رہے ۔۔بھئی واہ!
تاشا مخصوص انداز میں بولی ۔۔
نوال نے بھی ‘بلکل’ والے انداز میں سر جھٹکا ۔۔
سوری ۔۔۔ میرا موڈ تھوڑا خراب ہے آج ، وہ نرم پڑا ۔۔۔
بہت غلط بات ہے یوسف بھائی ، اب آپ ہم دونوں کو بھی اپنے موڈ کے حساب سے ٹریٹ کریں گے !
نوال نے شکوہ کیا ۔۔۔
سوری بولا تو ہے یار ، معاف کردو کیا جان لوگی ۔۔۔
اسکا موڈ اچھا خاصا خراب تھا ۔۔
وہ دونوں خاموشی سے صوفے پر اسکے دائیں بائیں آدھمکیں ۔۔۔
فرمائو ؟؟؟ کیا خدمت کر سکتا ہوں میں تم دونوں کی؟؟؟ یوسف نے طویل سانس لے کر خود کو پرسکون کیا ۔۔ البتہ لہجے میں تنائو برقرار تھا ۔۔۔
خواتین کیوں رو رہی تھی؟؟؟
تاشا کا اشارہ اماں اور پھپھو کی جانب تھا ۔۔۔
جبکے نوال کو کچھ سمجھ نہیں آئی ۔۔۔
ایک حادثہ ہوگیا تھا کل رات ہمارے سامنے ، ہم نے وکٹم کو ہاسپٹل پہنچا دیا بروقت وہ بچ گئی ۔۔۔اب بابا کا کوئی بعید نہیں وہ اسے اٹھا کر گھر بھی لے آئیں گے ۔۔۔
یوسف نے تحمل سے بتایا۔۔
اگر بچ گئی ہے تو اپنے گھر جائے ۔۔یہاں کیوں آئے گی ، بابا بھی نا ! تاشا کو بھی یہ بات پسند نہیں آئی ۔۔۔
خیر چھوڑو تم جائو اب مجھے آرام کرنا ہے ۔۔میں رات بھر کا جاگا ہوا ہوں !
اس نے تکان سے بھرپور انداز میں آنکھیں مسلی ۔۔
کیا کیا آپ نے پوری رات جاگ کر ؟؟؟
وہ شرارت پر آمادہ ہونے لگی ۔۔۔
پہرے داری اور کیا ! وہ زہر خند لہجے میں بولا ۔۔ اوہہہہہہ ۔۔ اسکا اوہ انتہائی معنی خیز تھا ۔۔۔
یوسف نے اسے نظروں سے گھورا ۔۔۔
وہ لڑکیییی۔۔۔۔ خیر مجھے کیا ہے نا؟؟؟ ویسے ہی کہہ رہی تھی میں تو ۔۔۔چلیں نوال !
وہ اسکی گھوری سے گھبرا کر بات بدلتی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ نوال بھی ہنسی دباتی باہر نکل گئی ۔۔
ایسے کیسے ہوگی آپ کی شادی بھائی؟؟؟
وہ جاتے جاتے بھی باز نہ آئی ۔۔۔
‘ ایسے ‘ شادی کرنی بھی نہیں ہے ۔۔۔جس میں اسلحہ اور بارود تحفے میں ملے !
وہ جلے کٹے انداز میں بولا ۔۔
ان دونوں کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔۔۔
کاوشیں فرہاد احمد فگار کیں
فرہاداحمد فگار کے بارے میں کیا کہوں کہ میں اسے کب سے جانتی ہوں کیوں کہ جاننے کا دعوا مشکل...