آخر کیسے ؟؟؟؟ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی تمہاری ناک کے نیچے سے کیسے بھاگ گئی ! کہاں مرے ہوئے تھے تم سب کے سب !!
اسکے دھاڑنے کی آواز کمرے کے در و دیوار میں گونجنے لگی ھانی نے قہر برساتی نظروں سے انہیں دیکھا اور پہرےدار کو اشارہ کیا ۔۔۔
سردار ہمیں معاف کردو ہم سے غلطی ہوگئی ۔۔
ہمیں ایک موقع دو ۔۔۔ سردار ۔۔۔ سردار ہمیں معاف کردو
وہ التجائیں کرتے رہ گئے مگر انہیں مخصوص جگہ لے جا کر انتہائی سفاکی سے انجام تک پہنچا دیا گیا ۔۔۔
جو ضروری بن پائے کرو ، شام جانے سے پہلے پہلے وہ لڑکی مل جانی چاہیئے ۔۔۔ وہ بہت کچھ جانتی ہے ہمارے بارے میں اگر کسی اثر و سوراغ والے شخص کے ہتھے چڑھ گئی تو ہم برباد ہوجائیں ڈھونڈو اسے اور ختم کردو ۔۔۔
قطعی میں اپنے سامنے کھڑے وجود کو حکم دیا تھا ۔۔
______________________________________
درباس ۔۔۔درباس ۔۔۔۔درباس
کمانڈر کا بس نہیں چل رہا تھا درباس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کو کھلا دیتا ۔۔۔ انتہائی طیش میں چکر کاٹ رہا تھا ۔۔۔
کیا کروگے اب اسکا ؟ اچار ڈالوگے ؟ یا یہ لڑکی تمہاری نیا پار لگوادے گی ۔۔۔ بیوقوف انسان تم نے اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارلی ۔۔ملٹری کے جوان قبر تک تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے ، جب سب کو چھوڑ دیا تھا تو اسے بھی جانے دیتے ! مگر نہیں تم پر تو جیسے عاشقی کا بھوت سوار تھا ! کمانڈر کی آواز بلند ترین ہوتی گئی ۔۔۔
عمارا کے اعصاب پر چھائی غنودگی زائل ہونے لگی ۔۔۔
اسے میں یہاں لایا ہوں ۔۔۔ اپنی زمہ داری پر ….
یہ صرف میری ہے کمانڈر ۔۔۔۔. میں اسے جانے نہیں دوں گا
وہ اپنے ازلی نڈر انداز میں کمانڈر کو آنکھیں دکھاتا ہوا بولا ۔۔۔
مجھے مجبور مت کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ساری گولیاں تمہارے حلق میں اتار دوں !
کمانڈر کی آنکھیں خون ٹپکانے لگی ۔۔۔ اس نے باقاعدہ ریوالور نکال لی ۔۔۔
تو انتظار کس بات کا ہے ، چلائو گولی ۔۔۔ چلائووووووو ! اسکے بے باک انداز پر کمانڈر بیک وقت عش عش کر اٹھا اور غصے سے سینے پر ہاتھ رکھ کر پرے دھکیل دیا ۔۔۔
ایک بات سن لو کمانڈر…..ڈاکٹرز کو اغوا کرکے قاسم اور حاکم کو چھڑانا تمہارا منصوبہ تھا ۔۔۔ جس میں تم ناکام ٹھہرے ، پھر بھی میں نے تمہارا ساتھ دیا ۔۔۔
وہ کہتے ہوئے فاصلہ سمیٹ کر نزدیک آیا ۔۔۔
مگر اب اگر ضرورت پڑی تو تھر کی ریت بھی پھانک لوں گا ، مگر اس لڑکی سے دستبردار نہیں ہوں گا! دماغ میں بٹھا لو ! اسے تمہاری طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے ! وہ لفظ بہ لفظ جتا کر کہتا اپنے اٹل ارادے کمانڈر پر واضع کر گیا ۔۔۔
تم بھی کان کھول کر سن لو درباس ، جب تک تم میرے سپاہی ہو ۔۔۔ قاسم اور حاکم کو رہا کروائے بغیر تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا ، اسکے بعد تم شام دفع ہوجانا جہاں سے تم آئے ہو ! اور اس لڑکی کو بھی لے جانا ساتھ
زہر خند لہجے میں کہتا واک آئوٹ کر گیا ۔۔۔
عمارا کاٹو تو بدن میں لہو نہیں جیسی حالت ہوگئی تھی ۔۔۔ پلیزززز ۔۔۔ مجھے گھر واپس جانا ہے
عمارا کے لبوں سے دبی دبی سسکیاں برآمد ہونے لگیں ۔۔۔ ششششش۔۔۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میں تمہیں جانے دوں …..اگر ایسا ہوا نا ۔۔۔ تو میں پہلے تمہیں گولی ماروں گا ، اور پھر خود کو …..
انتہائی نرمی سے براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اپنے ارادوں میں اٹل تھا ۔۔۔۔
وہ بے بسی اور لاچاری سے سر درخت کی پشت سے ٹکاگئی ۔۔
ہم شام جائیں گے ۔۔۔ وہاں پر جا کر شادی کریں !
وہ محبت پاش نظروں دیکھتا ہوا مسکرایا ۔۔۔
عمارا پر گویا کسی نے کھولتا ہوا پانی انڈیل دیا ہو ۔۔۔
میں ۔۔۔ شادی شدہ ہوں ! اسے اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔۔۔
چپپپپپپ! ایک دم چپپپپ !
درباس کے چہرے کا رنگ یک دم بدلا ۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکے سینے پر جھولتا لاکٹ بے دردی نے نوچ لیا۔۔۔۔ ابراہیمممممم ! وہ بے ساختہ چلائی ۔۔۔
وہ مر گیا جان چھوٹی ۔۔۔ اب تمہارے منہ سے کسی ابراہیم کا نام نہ سنوں میں ۔۔۔
اسے “شہید” ہونا کہتے ہیں جاہل انسان !
وہ دوبدو چلائی تھی
درباس نے بہت تحمل سے اسکی اونچی آواز برداشت کی تھی۔۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا منظر سے غائب ہوگیا
وہاں کھڑا رہتا تو شاید ضبط کھو دیتا
______________________________________
ڈیوٹی آف ہونے کے بعد وہ گھر آتے ہی سو گئی تھی ۔۔۔
اسلئے صبح آنکھ بھی جلدی کھل گئی ۔۔ بابا کے کمرے میں جھانکا تو وہ سو رہے تھے ۔۔۔ اس نے حکیم کو مطلوبہ ہدایت دیں اور آفس کے لئے نکل گئی ۔۔۔
اسی لمحے اسکا فون بجا ۔۔۔ اس نے رسیو کرکے کان سے لگالیا ۔۔اور گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔ دائم اسے متعلقہ ایڈریس کے بارے میں بتا رہا تھا ۔۔۔ وہ سر ہلاتے ہوئے گاڑی گھمانے لگی ۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ وہاں موجود تھی ۔۔ مگر اسکی توقع کے بر عکس وہاں اور کئی لوگ موجود تھے ۔۔۔
یہ سب لوگ کون اور کیوں ہیں یہاں ؟؟؟ وہ الجھ کر دائم سے سوال کرنے لگی ۔۔۔
کمپیوٹر ایکسپرٹس ۔۔۔ ہیکر ،
وہ مایوسی سے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے مگر اتنے سارے ایک ساتھ وہ بھی یہاں ؟؟؟ وہ نا سمجھی سے پوچھنے لگی ۔۔
مجھے ایک اعلی درجے کے ایکسپرٹ پلس ہیکر چاہیئے ، اور یہ لوگ کوئی ایک منٹ چوک جاتا کوئی دو ، اور کوئی دس دس ۔۔۔
وہ تاسف سے سر جھٹکتا ہوا کا غذ پر سطریں کھینچنے لگا
تو ؟؟؟
تو ہم ان کے بھروسے جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں ، جہاں ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے ۔۔ اور میں اس معاملے میں رسک نہیں لینا چاہتا ۔۔۔تم بھی اس تلاش میں اپنا حصہ ڈالو
ڈھونڈو اس شخص کو ان چیزوں سے کھیلنا جانتا ہو!
اسکے سوالوں سے چڑ کر ایک ہی جملے میں جواب دے کر کام میں طرف متوجہ ہوا ۔۔۔
میں ۔۔۔۔ ؟؟ کہاں سے ڈھونڈوں ؟؟؟
نایا کی انگلی الجھن بھرے انداز میں اپنے سینے تک گئی ۔۔۔ بلاشبہ دائم کا روز مرہ کا کام تھا وہ بہتر جانتا ہوگا۔۔۔
اور وہ تو متعدد مشن کی بنا پر بلائی جاتی تھی ۔۔۔ سو بھنویں اچکا کر خاموشی سے دماغ کے گھوڑے دوڑانے لگی ۔۔۔ اخبارات کھنگالے ۔۔۔ ویب سائیٹس چیک کی ۔۔۔ سوشل میڈیا چھان مارا ۔۔۔ مگر کچھ ہاتھ نہ لگا ۔۔
اچانک اسکے پیڈ پر چلتے ہاتھ تھمے ۔۔۔
دماغ میں جھماکا سا ہوا ۔۔ کسی سوچ کے تحت
وہ تیزی سے اخبارات کے صفحے الٹ پلٹ کرتی مطولبہ رقعہ نکال کر کچھ نوٹ کیا ۔۔اور کرسی دھکیل کر دانش کی ڈیسک پر آئی
اس خبر سے متعلق سارا ریکارڈ نکال کر دو مجھے ! فاسٹ ! وہ عجلت سے چٹ اسکے ٹیبل پر رکھ دوبارہ اپنے نشست پر آ بیٹھی ۔۔۔
تقریبا آدھے گھنٹہ گزرا تھا ۔۔۔ کہ وہ کئی کاغذ ہاتھ میں لئیے ماتھے سے پسینہ پونچھتا ہوا اسکے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔۔ ہففففف یہ تو ایک دن کا کام نہیں ہے ! وہ ہراساں سی ہوکر ریکارڈ کے انبار کو دیکھنے لگی ۔۔۔
میں اس ڈیٹا کو کمپیوٹر کر ذریعے چیک کرتا ہوں ! وہ آدھے کاغذات اسکے سامنے رکھتا ہوا اپنے ڈیکس پر واپس پلٹا۔۔۔ تھینک یو دانش ! وہ تشکر بھرے میں کہتی رقعوں سے نظریں گزارنے لگی ۔۔۔ مزید گھنٹہ گزر گیا ۔۔ لیکن کوئی سوراغ ہاتھ نہیں لگا ۔۔وہ گردن کو جھٹکتی اپنے لیئے کافی بنانے لگی ۔۔۔
اٹس ڈن آفیسر!
ڈیکس سے سر بلند کرکے دانش نے اسے آواز لگائی ۔۔
۔ نایا کی ساری تھکان پلوں میں اتر گئی ۔۔۔ وہ تیزی سے کپ لئے اسکے سامنے حاضر ہوئی ۔۔۔
تم نے اتنے وقت میں صرف دو لوگوں کا ڈیٹا ہیک کیا؟؟
وہ صدمے اور بے یقینی سے بولی ۔۔۔
آئی ایم ون این ہنڈرڈ پرسنٹ شیور ! کہ وہ شخص یہی ہے ! دانش نے ایک اور کاغز اسکے ہاتھ سے لے لیا ۔۔۔
ایک انیس سال کا لڑکا ۔۔۔!
وہ بے پناہ حیرت سے بولی
یس ایک انیس سال کا لڑکا ۔۔۔
دانش اپنی ریسرچ پر بلا کا مطمئن تھا ۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ ساری انفارمیشن میرے پاس ٹرانسفر کردو ! وہ اسکے اطمینان پر اعتماد کرکے اثبات میں سر ہلانے لگی ۔۔ابھی کرتا ہو ! وہ تیار تھا ۔۔۔ہمیشہ کی طرح ۔۔
اسی لمحے اسے ناٹیفکیشن موصول ہوگیا تھا۔۔۔
شکریہ ۔۔۔یہ کافی تمہارے لئے ! وہ کہتی اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر دائم کے کمرے میں آ گئی ۔۔۔
May i???
اس نے دروازہ ناک کیا ۔۔
پلیز ! وہ اثبات میں سر ہلاتا بولا ۔۔
میں تمہاری ڈیمانڈ کے مطابق اعلی درجے کا ہیکر ڈھونڈ لیا ہے ! اس نے لیپ ٹاپ اسکرین اسکے سامنے کی ۔۔۔
وہ اسکرین پر انگلیاں گھماتا اسرائیل کے نقشے کے ساتھ نہ جائے کیا کر رہا تھا پلٹ کر لیپ ٹاپ اسکرین کو گھورنے لگا ۔۔۔
آر۔۔۔ یو شیور ؟؟؟ وہ الجھ کر پوچھنے لگا ۔۔۔
آفکورس ۔۔ نایا نے نے کندھے اچکائے۔۔۔
ٹھیک ہے ، اسکی صلاحیتیں بھی جانچ لیتے ہیں ! تم اسے یہاں لے آئو ! وہ سرسری کہہ کر واپس مڑا ۔۔۔
اور جنرل ؟
آ ۔۔ہاں جنرل کے آرڈرز بھی ضروری ہیں ۔۔۔ وہ اس وقت مصروف ہوں گے ۔۔ میں پیغام چھوڑ دیتا ہوں ان کے لئے ! میرا کام بھی مکمل ہونے والا ہے مشن پر بریفنگ ہیڈ کوارٹر میں ہی دینی ہے اس سے بھی وہیں نپٹ لیں گے
تم اسے وہیں لے آنا
جیسے تم کہو ! وہ اپنا لیپٹاپ اور چیزیں سمیٹ کر باہر نکل گئی ۔۔۔
_______________________________
ملٹری آفس میں اپنے پیاروں کے لئے آئے ہوئے لواحقین کے بیچ احسان صاحب اپنی بیٹی کو نا پاکر سخت مایوسی اور بے چین نگاہوں سے بھیڑ میں عمارا کو تلاش کر رہے تھے ۔۔۔ چالیس ڈاکٹرز میں سے صرف دو لوگ مسنگ تھے ۔۔۔
ماہین اور عمارا ۔۔۔
ماہین کی فیملی یہاں موجود نہیں تھی ۔۔احسان صاحب کے دل میں عجیب وسوسے اور خدشات سر اٹھا رہے تھے ۔۔۔
خدا جانے ان کی بیٹی کہاں رہ گئی ۔۔۔
میجر نے آپ کو اپنے آفس میں بلایا ہے !
اتنے میں ایک فوجی جوان نے آکر انہیں اطلاع دی ۔۔
میری بیٹی۔۔میری عمارا نہیں آئی ۔۔۔؟؟؟
میری بیٹی کہاں ہے آفیسر ؟؟؟
وہ بے چینی کے عالم میں پوچھتے ہوئے بھیڑ میں راستہ بناتے فوجی جوان کے پیچھے چل دیئے ۔۔۔ جو انہیں آفس کے سامنے چھوڑ کر چلا گیا ۔۔۔
آئیے احسان صاحب ! تشریف رکھئیے !
احسان صاحب کا دل اس وقت شدت سے عمارا کے لئے دعا گو تھا ۔۔۔
میری بیٹی کہاں ہے ؟؟؟ وہ کیوں نہیں آئی ؟؟؟
احسان صاحب نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔۔۔
جنرل نے ایک بوجھل سانس لی اور ٹیبل پر ہاتھ جماتے ہوئے آگے ہو بیٹھے ۔۔۔ اس کے بعد جو انہیں نے بتایا گیا احسان صاحب کو لگا آسمان ان کے سر پر آگرا ہو۔۔۔ کان سائیں سائیں کرنے لگے ۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
وہ شاکی نظروں سے آفیسر کو دیکھنے لگے ۔۔۔
______________________________________
اک گرم چائے کی پیالی ہو ۔۔۔ اور اُس کو پلانے والی ہو ۔۔۔گوری ہو یا کالی ہو ۔۔۔سینے سے لگانے والی ہو ۔۔۔
وہ مخصوص انداز میں گنگناتا انگلی میں چابی گھماتے ہوئے بائیک کھڑی کرکے گھر جانے لگا ۔۔۔
اوئے فیصو ۔۔۔؟؟؟ پیسے تو دیتا جا یار !
تو نے آج کا دن دیا تھا ۔۔۔
دکاندر اسے آواز لگاتا ہوا التجا کرنے لگا ۔۔
چونکے رعب ڈالنا اسکے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔ فیصو ڈھیٹوں یا ماہراجہ ثابت ہوا تھا ۔۔۔
دے دوں گا نا ، بھائی پہ بھروسہ نہیں ہے کیا ؟؟
فیصو نے امید کا دامن تھمایا ۔۔۔
فیصو یہ ٹوپی تو مجھے پچھلے پانچ ماہ سے کروا رہا ہے یار ، آخر کب دے گا ؟؟ دکاندار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکی گردن مروڑ دیتا ۔۔۔
دے دوں گا نا یار !! انٹرویو دینے گیا تھا ۔۔۔نہیں ملی نوکری اب بتا تیرے بھائی کا کیا قصور ہے اس میں !
فیصو نے اسے جذباتی ہوکر کہا ۔۔۔
اپنے رنگ ڈھنگ بدل لے بھائی نوکری بھی مل جائے گی ! دکاندرا نے بے بسی سے کہا ۔۔
تو سمجھا نہیں جگر اپنے بھائی کو ابھی تک ! دیکھ سیدھی سی بات ہے اپنے سے کسی کی جی حضوری نہیں ہوتی اور ان افسروں کے پیچھے تو سر جی سر جی کرتے کتوں کی سی جون ہوجاتی ہے پر پروموشن نہیں ملتا !!! کیسا سمجھا ؟؟؟
وہ ہمیشہ کی طرح اسے گولی فٹ کرنے کے بعد بائیک پر کک لگاتا رفو چکر ہوگیا تھا۔۔۔
گلی سے گزرتے ہوئے اسے کونے پر چمچماتی کالے رنگ کی گاڑی نظر آئی ۔۔۔
یہ کیا ہے بے ؟؟؟ محلے والے بھکاری اتنے امیر کب سے ہوگئے ؟؟ وہ تمخسرانہ انداز میں سوچتا ہوا ہنسا ۔۔ بائیک اسی راستے پر ڈال دی ۔۔
نایا اسی کے انتظار میں تھی ۔۔۔ گاگلز آنکھوں پر سجا کر ماسک لگالیا ۔۔۔
excuse me ??? Can we talk ???
وہ گاڑی کا شیشہ سرکا کر انتہائی خوش کن انداز میں بولی تھی ۔۔۔
ہیں میں ؟؟؟ وہ حیران پریشان سا ہوکر بڑبڑایا
لمبے بالوں کو ٹیل پونی میں مقید کئے ۔۔ خوبصورت سے نقش نین والی لڑکی خاصی امیر معلوم ہوتی تھی ۔۔۔
مگر پھر اسے یاد آیا ۔۔۔
اس نے سوشل میڈیا اکائونٹ کے bio میں
‘ سخت لونڈا’ لکھ رکھا تھا ۔۔یقینا یہ لڑکی اسکی خوبصورت تصویریں دیکھ کر ہی آئی ہوگی ۔۔۔ آخرکار اسکے دو ہزار سے زائد فالوور تھے ۔۔۔
ہیلو؟؟؟؟
نایا کی آواز اسے خوابوں کی دنیا سے باہر لے آئی ۔۔۔
دیکھو ایسا ہے میڈم ۔۔ کہ میں وہ لڑکا نہیں ہوں جو آپ جیسی امیر لڑکیوں کا چارہ بن جائوں سمجھ رہی ہیں ۔۔۔ اب نکل لیں ادھر سے ، شاباش ۔۔
وہ مخصوص انداز میں بولتا گریبان جھٹکنے لگا ۔۔۔ پتا نہیں لوگ اسے اتنا انڈریسٹیمیٹ کیوں کردیتے تھے !
نایا نے سوچتے ہوئے اپنی ریوالور کی جھلک دکھائی ۔۔۔
گاڑی میں بیٹھو۔۔
ب ۔۔۔ بباجی ۔۔ مزاق کر رہا تھا میں تو ۔۔۔ کیوں زبردستی کر رہی ہیں اپنی اور میری عمر کا ہی لحاظ کرلیں !
فیصو کی ہیروگیری پل میں ہوا ہوئی تھی۔۔۔
نایا اس خوش فہمی پر عش عش کر اٹھی ۔۔
خاموشی سے گاڑی میں بیٹھو ، ورنہ ۔۔۔
اس سے پہلے وہ بائیک چھوڑ کر بھاگ جاتا ۔۔ پچھلی سیٹ پر براجمان وجود نے اسے اندر کھینچ لیا ۔۔۔ چند ہی سیکنڈ بعد اسکی بائیک بھی وہاں سے غائب ہوچکی تھی ۔۔
_____________________________________
| ISI HEAD QUARTER |
| AB-PARA | ISLAMABAD |
یہ آپ کہاں لے آئی ہو مجھے ؟ قسم سے باجی ۔۔میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا مطلب ۔۔۔
میں ایسا لڑکا نہیں ہوں پلیز مجھے جانے دیں ۔۔
اسے اب سہی معنوں میں یہ لڑکی خطرناک معلوم ہورہی تھی ۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا اسے کیا کہے ؟
نایا نے لفٹ کا بٹن دبا کر اسکی آنکھوں سے بلائنڈ فولڈ ہٹادیا تھا۔۔۔
یہ میں کہاں ہوں ؟؟؟
وہ انتہائی حیرت سے اسکے ساتھ چلتا ہوا راہداریوں سے گزرتے ہوئے نیچے گرائونڈ فلور پر جھانک رہا تھا ۔۔۔اسے لگا جیسے وہ کسی اور ہی دنیا میں آ گیا تھا ۔۔۔ اس شاندار عمارت کا سفید انٹیریئرر اسکے کپڑوں سے زیادہ سفید اور ستھرا تھا ۔۔۔ مختلف لوگ اپنے اپنے کیبن میں سر دیئے مگن تھے ۔۔۔وہ انکے چہرے نہیں دیکھ پایا ۔۔۔ گلاس وال کا شیشہ دھندلایا ہوا تھا یا اسے ایسا لگا ۔۔
اندر چلو ۔۔
دروازے پاس پہنچ کر اسے حکم دیا ۔۔۔
آپ کا فرش گندا ہوجائے گا میں چپل باہر اتار کر آتا ہو
اس نے گھبرا کر بے تکا سا جواز پیش کیا تھا
نایا نے اسے گھور کر اندر دھکیلا
مخصوس کرسی پر جھولتا ہوا گرے بالوں والا درمیانی عمر کا جاذب نظر سا شخص اسکی جانب متوجہ ہوا ۔۔۔
یہ آپ کے والد ہیں ؟؟؟
اس نے سوالیہ نظروں سے نایا کو دیکھا ۔۔
یہ سب کے والد ہیں ۔۔۔
نایا نے لب دبائے جبکے جنرل بخشی اسکا معائنہ کرنے مصروف تھے ۔۔۔
Meet our Lt. General Zaeem Bakhshi
اس نے گویا فیصو کی سماعتوں پر بم پھوڑا ۔۔۔
ل۔۔یف ٹ۔۔۔ننٹ جنرل؟؟؟
لفظ اتنا معتبر اور قابل احترام تھا کہ اسکے لبوں پر آتے آتے رہ گیا ۔۔۔ اس کی نظر پھسلتی ہوئی دیوار پر لگے بیگج پر ٹھہر گئی ۔۔
ما۔۔۔ر خور ۔۔۔؟؟؟ فیصل کو اے سی کی ٹھنڈک میں پیسنے آنے لگے ۔۔۔ اسے اپنا آپ بہت ہلکا محسوس ہوا۔۔
تم سہی وقت پر آئی ہو ۔۔ لیکن میری میٹنگ کا وقت ہوگیا ہے ، میں تمہیں آدھے گھنٹے بعد ملتا ہوں ۔۔
جنرل کہتے ہوئے کرسی کی پشت سے کوٹ لے کر باہر نکل گئے ۔۔۔
نایا اسے اپنے ساتھ کامن روم میں لے آئی ۔۔۔ وہ خاموشی سے صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔
فیصل کو ابھی تک یقین نہیں آرہا تھا ۔۔ “سڑک چھاپ ” اور “آوارہ گرد” کہلانے والا انسان یہاں کیوں کر لایا گیا تھا
وہ اندر سے بہت گھبرایا ہوا تھا
نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے جرم یاد کرنے لگا اور
سوچنے لگا کہ اسے اب کس قسم کہ سزا دی جائے گی ؟؟؟ نایا نے اسکی کیفیات جان کر پانی کا گلاس اسکی طرف سرکایا ۔۔ جو اس نے خاموشی حلق میں انڈیل کر گلاس واپس رکھ دیا ۔۔۔
میری بات سنیں آفیسر اس بات کو دو سال گزر گئے ہیں میں نے متعلق ادارے کے افسران سے معافی بھی مانگ لی تھی آپ لوگوں سے بھی معافی مانگتا ہوں ۔۔ میرا گورنمنٹ کی آفیشل ویب سائیٹ کو ہیک کرنے کوئی غلط ارادہ نہیں تھا ۔۔۔ میں تو بس گورنمنٹ کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ ان کے ایکسپرٹس اور سکیورٹی سسٹم بہت ویک ہے۔۔۔ میں نے ویب سے کوئی ڈیٹا نہیں چرایا نہ ہی کسی سے شیئر کیا ۔۔.
اسے پتا نہیں کیوں لگ رہا تھا کہ ایجنسی اسے دو سال پہلے کی گئی حرکت کے لئے سزا دینے والی ہے ۔۔۔ اس نے دو سال پہلے
IMF
(INTERNATIONAL MONETRY FUND)
میں سکیورٹی ایجنٹ کی حیثیت سے اپلائے کیا تھا ۔۔۔مگر وہ باصلاحیت ہونے کےباوجود رجیکٹ کر دیا گیا ۔۔۔ اس نے اپنی قابلیت ثابت کرنے کے لئے ویب سائیٹ ہیک کرکے اپنے قبضے میں لے لی ۔۔۔ دو دن بعد اس نے باحفاظت ویب سائیٹ لوٹا دی ۔۔۔ اور معذرت بھی کرلی تھی ۔۔۔ مگر خدا جانتا اسکی نیت غلط نہیں تھی اسکا مقصد حکومت کو احساس دلانا تھا کہ انکا سکیورٹی سسٹم کس قدر ویک اور بوسیدہ تھا ۔۔ جسے اب جدید طریقوں سے ہینڈل کرنے کی ضرورت تھی ۔۔۔اس نے کروڑوں روپے کے فنڈ کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا ۔۔۔۔
تمہیں پتا ہے تم نے جرم کیا ہے ؟؟؟
نایا کا لہجہ جتاتا ہوا تھا ۔۔
فیصل نے خاموشی سے سر جھکا لیا ۔۔۔
اور اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟؟؟ نایا نے رقعہ اسکی جانب بڑھایا ۔۔۔ فیصو سناٹے میں رہ گیا ۔۔۔
یہ کچھ 2017 کی بات تھی ۔۔۔نیوز چینل پر چلتی روزبروز ریپ سے متعلق خبر نے اسے اندر تک ہلا دیا تھا ۔۔۔ اس نے ایسے ہی بیٹھے بیٹھے چائلڈپ****گرافی کی ویب سائیٹ کھولی ۔۔۔اور 10,000 (20%) وڈیوز کو رات و رات وہاں سے ریمیوو کردیا ۔۔۔ وہ خود نہیں جانتا تھا ۔۔۔اس نے یہ سب کیسے کیا بس اس سے سب کچھ ہوتا چلا گیا ۔۔۔
(سچے واقعے سے ماخوز )
تمہاری اس کارکردگی پر سلیوٹ ہے تمہیں ! اسی وجہ سے ہم نے تمہیں ایک مقصد کے تحت اپروچ کیا ہے
فیصل کے کانوں نے نایا کو کہتے سنا ۔۔۔
میں سمجھا نہیں ؟؟؟؟
ایجنسی کو تمہاری ضرورت ہے ۔۔۔ ہمارے مقصد میں ہمارا ساتھ دو بدلے میں تمہیں منہ مانگی قیمت دی جائے گی ۔۔.
کیا کہتے ہو؟؟؟
نایا نے رسان نے اپنا مقصد اسکے گوش گزار کردیا ۔۔۔
شاید یہ لوگ سوچتے ہوں گے کہ میں پیسوں کے لئے یہ کام کرتا رہا ہو۔۔۔ اسکی غیر معمولی صلاحیتوں کی اسے خود بھی خبر نہیں تھی ۔۔۔ لیکن دنیا جانتی تھی ۔۔۔ وہ اپنی پر آئے تو کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔۔۔
فیصل سوچتے ہوئے ہنس پڑا ۔۔
اسکی بھلا اتنی اوقات کہاں؟؟؟ کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے یا اسکی خدمات حاصل کرنے کے لئے التجائیں کی جائیں ۔۔ اگر اسکے کام کی اتنی ہی قیمت ہوتی تو وہ دکاندار کے پندرہ سو روپے کا قرضہ نہ چکا دیتا کب کا ۔۔۔ سوچ لو ۔۔ کوئی زبردستی نہیں ہے ۔۔ مگر یاد رکھنا ۔۔ ہم سب پر وطن کا قرض ہے جو ہمیں جلد یا بدیر چکانا ہے ۔۔
تمہارے دادا ،چچا اور بابا کا شاندار ریکارڈ دیکھتے ہوئے تمہیں طلب کیا گیا ہے ۔۔۔ امید ہے تم بھی اسی حب الوطنی کا مظاہرہ کرو گے۔۔۔
وہ اسکا کندھا تھپک کر کمرے سے نکل گئی ۔۔
فیصل مشکل میں پڑ گیا تھا ۔۔ یہ زمہ داری بہت بڑی تھی ۔۔ وہ نبھا پائے گا کہ نہیں؟؟
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...