(Last Updated On: اکتوبر 5, 2023)
زانیہ ہے کھڑی
اس کے گلدے، ابلتے ہوئے جسم میں
کتنے برسوں سے غرا رہی ہے ہوس لذتِ سنگ کی
بلیاں بین کرتی ہیں دیوار پر، سو رہو
اپنی نا فعلیوں کی گھنی یاس میں
وہ کھڑی ہے کہ آئے کہیں سے اسے روندنے کے لیے
جاگنے کی صدا
سوچتی ہے کہ کب، جانے کب فروری ختم ہو
خشک پتے کو
بنجر بگولے کے ہسٹیریا سے رہائی ملے
جسم کے در پہ دستک ہو ، اٹھے ہوئے ہاتھ کی
وائلن کے سلگتے ہوئے تار بجنے لگیں
وہ نہیں جانتی
کون آئے گا کب
مرد ذات اس کی تحویل میں
کون آئے گا کب
شب کی دیوار کو پھاند کر
اور پھر دن چڑھے اس پہ فتووں کے پتھر گرانے کی تقریب میں
جشن ہو گا پرانی رسومات کا
٭٭٭