(Last Updated On: )
یہ بات سارے قبیلے میں پھیل گئی تھی کہ کل کوچ کا نقارہ بجے گا۔
امروئی نے اپنا سارا سازوسامان باندھنا شروع کر دیا تھا ۔ اس کے قریبی ہمسائے نردوئی نے اس سے کہا۔
بھائی ! اگلے پڑاؤ کے بارے میں کچھ خبر ہے۔
ہاں سردار کہہ رہا تھا کہ شہر اچھا ہے اور لوگ مالدار…
کیا ایسا ہی ہو گا؟
میرا خیال ہے کہ ہاں ۔ ایسا ہی ہو گا ۔ ہمارا سردار خاصا جہاں دیدہ ہے ۔ اس کا تجربہ اور بات کرنے کا انداز تیقن کا حامل تھا ۔
میرا خیال ہے کہ اس بار سردار کا تجربہ دھوکا کھا جائے گا اور ہمارااتنا طویل سفر بے مقصد ٹھہرے گا۔
نہیں نہیں …… تمھاری بات مرے دل کو نہیں لگی ۔ برسوں کا تجربہ۔
تم کچھ بھول رہے ہو نردوئی۔ سمور کی کھال میں سانپ نہیں چھپ سکتا۔ اور برف میں آم کاپیڑ نہیں اگتا ہے سمجھے۔
امروئی … گھوڑے کے پاؤں پر اگر نال نہ لگی ہو تو گھوڑے زخمی ہو جاتے ہیں۔
نردوئی … بہت ہی زیادہ دوراندیش ہوتے جا رہے ۔
امروئی… بات یہ ہے کہ میں گیارہ سال سے قبیلے کے اسی سردار کے زیر کمان اپنے کرتب دکھا رہا ہوں مگر رنگ چوکھا نہیں آ رہا ۔
نردوئی … میں تمھاری ذہانت کے قربان جاؤں … کرتب کا استعمال کن معنوں میںکیا ہے ۔
امروئی… یار ہمارا تو پیشہ ہی کاریگری ہے ۔ اسی حوالے سے کرتب استعمال کیا ہے۔
واہ نردوئی واہ… واہ… بازی گری کو کاریگری کہہ کر تم نے کمال کر دیا ہے ۔ اب کرتب سمجھ میں آیا ہے۔
نہ نہ … کاریگری کو سمجھ! کاریگری کی … رمز کو جانو!
نردوئی … بس میرا تم سے یہی اختلاف ہے ۔ تم بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہو۔
امروئی… تم میرے قریبی پڑوسی ہو کر بھی مجھے نہیں جان پائے۔
نردوئی… ازل سے ہی ہوتا آیا ہے کبھی بھی دو پڑوسیوں نے ایک ’’ راہ‘‘ نہیں اپنائی۔
ہر ایک اپنی راہ پر چلتا آتا ہے اور چلتا رہتا ہے اورچلتا رہے گا۔
امروئی… تم خاصے عقل مند ہو ۔ کس خوبی سے قبیلے کے قوانین مجھے ازبر کرا رہے ہو ۔ کمال ہے بھئی۔
نہ نہ … میں تمھیں قبیلے کے قوانین کیا پڑھاؤں گا ۔ تم تو پہلے ہی ان قوانین میں جکڑے پڑے ہو…
کیسے …
تم اچھی طرح جانتے ہو کہ حاکم اعلی سردار اس کی منشاء یہی ہے کہ تمام قبیلے والے اپنے قوانین کااحترام کریں ۔ قوانین کی خلاف ورزی اسے پسند نہیں ہے ۔
ہونا یہی چاہیے اور ہوتا بھی یہی آیا ہے ۔
تو پھر تمھیں کس چیز کی فکر نے پریشان کر رکھا ہے۔
میں یہ فرسودہ ضابطے ماننے کو اب تیار نہیں ہوں ۔ گیارہ سال بہت لمبی مدت ہے جب اس مدت میں بھی ہم کچھ نہ کر سکے تو اب اور کیا کرلیں گے۔
تو اب تمھارے کیا ارادے ہیں۔
میں ان فرسودہ روایات سے بغاوت کر لوں گا
تم پورا نقشہ تو نکالو… میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ شہر کہاں واقع ہے ۔
یہ شہر دو پہاڑوں کے درمیان ہے اور اس کی شکل پیالے کی طرح ہے ۔ یہاں کے لوگ بڑے چالاک مگر تو ہم پسند ہیں…
اچھا ۔ تو ہم پرست ہیں … تو یہ بات ہے ہمارے لیے یہ بات ٹھیک ہے
کیوں … یہ بعد میں بتلائیں گے ۔ سنو… نردوئی … گلشن کا حال تو معلوم کریں۔
کیسی ہے۔امروئی تمھیں اچانک گلشن کا خیال کیسے آ گیا۔
میںنے سوچا کہ جب تم بغاوت پر آمادہ ہو تو میں بھی ’’ بغاوت‘‘ کیوں نہ کردوں ۔ سردار کی منظور نظر پر ہاتھ صرف کرلوں۔
امروئی گلشن کیوں ایسا چاہے گی۔
نردوئی۔ گلشن تو سدا یہ یہی چاہ رہی ہے۔ بس ذرا سی بزدلی ہماری ہی جانب سے ہے۔
اچھا۔ چوری چھپے کایہ کھیل کب سے جاری ہے ۔ امروئی۔
یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ چلو ۔ گلشن سے ملتے ہیں۔
سردار برا نہ مان جائے ؟
نہیں سردار کا دل بہت بڑا ہے ۔ اور بھرا ہوا بھی ۔ سنا ہے کہ اب وہ گلشن کی بجائے چمن آراء کے ساتھ ہے۔
اچھا … چلو موقع غنیمت ہے۔ چلو چلو… کہ منزل ابھی نہیں آئی۔
نردوئی اور امروئی بڑے بڑے قدم اٹھاتے ہوئے گلشن کے یہاں جا پہنچے۔
’’ کلو ا او کلوا… گلشن سے کہو امروئی نر دوئی آئے ہیں۔
’’ اندر آجاؤ… آپ سے کیا پردہ … میں ابھی گلشن کو بتلادیتا ہوں۔
’’ ٹھیک ہے… دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ۔
’’ خوش آمدید… گلشن نے ادب بجالاتے ہوئے کہا ۔ زہے نصیب آج کتنے دنوں کے بعد آپ آ ئے ہیں۔
گلشن… سفر کی صعوبتیں چین کہاں لینے دیتی ہیں اور پھر کچھ مصروفیات بھی تھیں لیکن اس کے باوجود ’’ تیری یاد‘‘ … ہمیں روز ستاتی رہتی ہے۔
جھوٹ مت بولیے … آپ کے تروتازہ مکھڑے کو دیکھ کر کون کافر یہ یقین کرے گا کہ تم کسی چاند کے شاروں کے مارے ہوئے ہو۔
نہیں آپ ایسا نہ کہیں … ہمارا دل آپ کا ہے … اس مندر میں صرف تمھاری مورتی ہے ۔ گلشن جس کے لشکاروں نے ہمیں بے حال کر رکھا ہے۔
امروئی… سب مرد یہی کہتے ہیں کہ میں ان کے من مندر کی داسی ہوں… لیکن تو شاہد ہے کہ یہ جھوٹ مردوں کے لیے ہی بنا ہے ۔ اگر میںتمھارے اور اپنے سردار سے یہ کہہ دوں کہ میرے من مندر میں ’’ امروئی‘‘ بستا ہے تو وہ میرا دل جسم سے علیحدہ کر دے گا۔ سردارجو ٹھہرا۔ بات قانونی روایات کی ہے۔
گلشن ظالم یہی کرتا ہے اور مظلوم چپ چاپ ظلم سہتا ہے … اب وہ دن دور نہیں جب ہم درد کی اس زنجیر کو توڑدیں گے …
امروئی … میرا اب مردوں پہ اعتبار اٹھ گیا ہے اور ’’ مردوں‘‘ پر عقیدہ پکا ہو گیا ہے
گلشن! مردے کبھی قبروں کی کھدائی نہیں دیتے۔
امروئی ! قبر کھودنے والے بغیر کھدائی کے قبریں نہیں کھودتے۔
تو کیا تم اب قبریں کھودو گی؟
ہاں… سب سے پہلے دار کی… جس نے امرت کے نام پر میرے پورے جسم میں زہر گھول دیا ہے ۔ اس کا مداوا کون کرے گا۔ اور پھر اس کی جو مجھے بیگانہ کر رہا ہے۔
میں… میں کروں گا گلشن ! میںوہ دن دور نہیں کہ جب ہم دونوں چنداکی چاندنی میں پہروں باتیں کیا کریں گے … تاروں سے کریں باتیں چاندنی راتیں۔
جھوٹا … جھوٹا … جھوٹا … سن امروئی۔ شرابی شراب کی بوتل کو اس وقت تک سنیے سے لگائے رکھتا ہے جس تک اس میں شراب ہوتی ہے۔ جیسے ہی شراب ختم ہوتی ہے غصہ بوتل پر نکالتا ہے اور زور سے دور پھینک دیتا ہے۔
ہم سب اس قبیلے میں جو ہیں کون سا پارسا ہیں ۔ بردہ فروش اٹھائی گیرے۔ جیب کترے ۔ قاتل ، ٹھگ ، فقیر، فقیر نیاں، دلال، عورتوں کو بیچنے والے ، حرام کا مال کھانے والے ، کیا گن میں ہم میں ۔ کیا لچھن ہیں ہمارے؟
ارے پگلی… کیسی باتیں کرنے لگی ہیں۔ اسی لیے تو ہم اس قبیلے کو چھوڑنے لگے ہیں ۔ پاپ سے اپنا من بھر گیا ہے ۔ دیکھ ۔ نردوئی ۔ میں اور تم سب اگلے پڑاؤ پر یہ قبیلہ چھوڑ کر چلے جائیں گے… سمجھی۔ ہم اس لیے تیرے پاس آئے ہیں ۔ کیا ہمارے جذبوں کی خوشبو تمھیں محسوس نہیں ہو رہی ہے۔
نردوئی اور امروئی… میں نے اک دنیا دیکھی ہے ۔ تم کو کیا پتہ کہ ’’ چتر لیکھا‘‘ کیا چیز ہے ۔ جان جاؤ گے تو مارے جاؤ گے اور پھر تمھیں ہوش تب آیا ہے کہ جب کن پٹیوں کے بال بھی ’’ سفید‘‘ ہونے لگے ہیں اس عمر میں یہ بہادری، نوٹنکی کا کھیل ہے یا بالک ہٹ۔
سنو گلشن… اگلے پڑاؤ پر جو شہر آئے گا… وہ پیالہ نما ہے سنا ہے وہاں ’’ ہن‘‘ برستا ہے ۔ ہم نے وہاں دھنوانوں سے ’’ دھن‘‘ اگلوانا ہے ۔
ارے مورکھو… ساری عمر ہمارے قبیلہ نے یہی کام تو کیا ہے ۔ لیکن اس’’ دھن‘‘ نے ہمیں سکون کب بخشا ہے ۔ سارے قبیلے والے ’’ نیند‘‘ جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ سارا دن ’’ چھل کپٹ‘‘ میں گزارنے کے بعد راتوں کو نشے میں مست رہتے ہیں ۔ حرام دھن کمانا بھی پاپ ہے … گلشن سب بکواس ہم نے سن لی ۔ سنو۔ اس پیالہ نما شہر میں امروئی … بنگال کے جادو کا توڑ کرے گا اور نردوئی… ہمالیہ کی جڑی بوٹیوں سے مردانہ علاج کرے گا… اورمیں… کوکھ جلی کیا کروں گی… تم میرے ساتھ رہنا ۔ گلشن… دھن کی فراوانی … ہمیں بہت سی باتوں سے بے نیاز کر دے گی۔
مورکھ! پاپ کرتے رہنا ۔ پن نہ کرنا … وہ قوم عذاب میںمبتلاء ہوتی ہے جس سے نیند چھین لی جائے… سکون چھین لیا جائے…
ہمارے پرکھے یہی کہتے کہتے مر گئے … اب تم کیا کہتے ہو…
’’ گلشن ہم اک نئی زندگی شروع کریں گے جس میںد ھن ، دولت ہمارے پاس ہو گی …
مورکھو! پھر وہی بات ۔ دھن دولت کبھی کسی کے پاس رہی ہے ۔یہ رنڈی تو روز بستر بدل لیتی ہے ۔ تمھارا ساتھ کب دے گی۔
گلشن ہم نے بڑوں بڑوں کو سیدھا کر دیا ہے ۔ دھن کو سنبھالنے کے طریقے ہمیں آتے ہیں ۔ تم فکر نہ کرو…ہمالیہ کی جڑی بوٹیاں اور بنگال کا جاود ہمیں رنگ دے گا۔
اے مردود! کیا زندوں کی سی باتیں کرتے ہو ۔ بے ضمیروں ۔ ہمیں دیکھو ساری عمر پاؤں میں گھنگھرو باندھ کے بھی خوشحالی ہمارا مقدر نہ بنی ۔ عشوہ و غمزہ۔ ناز و نخرا بھی ناری کو ’’ نار‘‘ میں جلنے سے نہ روک سکا تم … مردود! تم کس کھیت کی مولی ہو۔ سنو ۔ ہم خانہ بدوش تو اپنے کاندھوں پر ہی اپنا خانہ اور وہ بھی خراب لیے پھرتے ہیں۔ سنا ہے کہ اگلے پڑاؤ پر جو شہر آنے والا ہے وہاں لوگ’’ تھانہ ‘‘ اپنے کاندھوں پر لییے پھرتے ہیں ۔ تو پیارے دوستو! تم کیسے بچوں گے… ٹھگ کہیں کے۔
’’ امروئی میں نے کہا تھا ناں کہ گلشن تمھارا ساتھ نہیں دے گی۔
نردوئی: گلشن ہر جائی نہیں ہے ۔ بس ذرا سی غم دنیا کی ماری ہے ۔ سنبھل جائے گی۔
ہاں ہاں میرے پیارو! ذرا سی شراب پی کے سنبھل جاؤں گی … ہے نا یہی بات ۔
ارے پاپیو! جہاں دریا ہو ۔ کھیت کھلیان بنجر ہوں ۔ لوگ پاپ میں سنے ہوئے ہوں … دھن دولت کی چوہا دوڑ ہو … وہاں… تم دوخانہ بدوش کیا انقلاب لاؤ گے۔ اپنی موت خود مر جاؤ گے۔ درد کی زنجیر ہلانے والے خود’’ شراب‘‘ پی کے سوتے ہوں وہاں راتوں کو ’’ جشن‘‘ منانے پر کیسی پابندی… ہاں مجھے نہیں پتہ کہ اگلے پڑاؤ پر تم پہنچو گے کہ نہیں … لو گلشن کی طرف سے شراب پیو… اور جیو… یہ مت کہنا کہ سالی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں … لو میں تمھارا جام صحت تجویز کرتی ہوں… آؤ … میکش پیو… امروئی ۔ نردوئی … آؤ… ہم سب ملک کر کہتے ہیں۔ میرے گھنگھروں کی جھنکار میں تمھیں سرمستی ملے گی ۔ آج کی رات تمھارے نام … میکشو پیو تم پر ساقی کا کرم ہے آؤ۔ پیو وہ شراب کہنہ کہ جو برسوں سے مٹکوں میں اسی مقصد کے لیے رکھی جاتی ہے اور جسے مے کش زندگی میں صرف ایک بار ہی پیتا ہے۔
گلشن، امروئی اور نردوئی نے بھرے ہوئے گلاس آپس میں ٹکرائے اور پھر دل بھرکر پیتے ہی رہے ۔ ؎
دوستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستان کی بات رنگین ہے نہ مے خانے کا نام
_____________