فیصل ؟ رکو ؟ دائم نے تحمل سے اسے پکارا لیکن وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا ۔۔
آ ۔۔آپ ٹھیک ہیں نا؟؟؟ کچھ ہوا تو نہیں نا ؟؟؟ آپ کو چوٹ تو نہیں لگی ۔۔۔ لیں پانی پی لیں۔۔۔
اسے معلوم ہی نہیں ہوا کب اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی ہمدردانہ احساس کے تحت بیگ سے بوتل نکال کر اس عورت کے لبوں لگانے لگا ۔۔۔ زیادتی کی انتہا تھی تو یہ تھی کہ اسکے آس پاس کوئی وجود نہیں تھا ۔۔سب کان اور آنکھیں بند کیئے اپنے اپنے کاموں میں مصروف لاتعلقی برت رہے تھے ۔۔. جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
چلو ۔۔ فیصل ہمیں دیر ہورہی ہے
دائم نے سختی برتنے سے گریز کیا ۔۔۔ اس نے پانی کی بوتل نہ محسوس طریقے سے عورت کے پاس سے اٹھا لی تھی جو اب کپڑے جھاڑتی ہوئی اٹھنے کی سعی کر رہی تھی ۔۔۔
وہ اب مطلوبہ مکان کی طرف بڑھنے لگے ۔۔۔
دھاڑ کی آواز سے دروازہ مفقل کرنے کے بعد وہ اسکی طرف پلٹا
آئندہ اگر تم نے ایسی حرکت کی تو میں تمہارا سر پھاڑ دوں گا ! وہ انگلی اٹھا کر بولا ۔۔
س۔سوری ۔۔ میں روک نہیں پایا خود کو ۔۔ مجھ سے نہیں دیکھا گیا اس عورت کا چیخنا ۔۔۔ فیصل روہانسا ہوگیا ۔۔ دائم نے ضبط نے زبان دانتوں تلے دبائی ۔۔۔
یہ پانی کی بوتل تم لائے تھے اپنے ساتھ ؟؟
ہاں ۔۔ کیوں ؟؟ وہ حقیقتً ڈر گیا تھا اسکے انداز پر ۔۔
تم سے کس نے کہا تھا پانی کی بوتل ساتھ لانے کو؟؟؟ تم نے مجھ سے اجازت لی تھی؟؟؟ اگر کوئی تمہاری شکایت لگادیتا یا روسی فوج کی نظر میں تم آگئے ہوتے تو وہ تمہیں موقع پر ہی پہچان لیتے اور ہم تینوں پکڑے جاتے بیوقوف احمق ۔۔۔ دائم کا غصہ حد سے سوا تھا ۔۔
نایا نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی ۔۔
فیصل ہکا بکا رہ گیا تھا اسکی بات سن کر۔۔۔ بھلا ایسے کیسے؟؟؟
تمہارا لیڈر میں ہوں اگر تم نے آئندہ میری اجازت کے بغیر ایک بھی قدم آگے بڑھایا تو میں پہلی فرست میں تمہیں یہاں سے غائب کردوں گا ۔۔۔
وہ غصے سے کوٹ اٹھا کر باہر نکل گیا ۔۔۔
کیا ایسا بھی ممکن تھا ؟؟
اس کے ذہن نے فورا سے جواب دیا تھا ۔۔ بوتل پر لپٹے پلاسٹک ریپ پر ‘اسلام آباد پاکستان ‘ ہمیشہ اسکی نظروں سے گزرا تھا ۔۔۔ مگر اس نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا ۔۔ فیصل کو اب سہی معنوں میں معاملات کی پیچیدگی کا اندازہ ہوا۔۔ اسے پیشمانی نے آلیا
کچھ دیر بعد جب وہ لوٹا تو اسکے ہاتھ میں کھانے کے شاپرز تھے ۔۔۔ رات کے کھانے کا وقت ہورہا تھا ۔۔
نایا دمشق کا نقشہ لئے اس پر کراس مارک کر رہی تھی ۔۔ جبکے فیصل خاموشی سے کونے میں رکھی کرسی پر براجمان تھا۔۔ ۔۔ ایک کمرے اور کچن غسل خانے پر مشتمل یہ چھوٹا سا مکان تھا ۔۔
کیا کر رہی ہو؟؟ وہ کھانا نکالتا ہوا سرسری سا نایا سے پوچھنے لگا ۔۔۔
بہتر علاقہ تلاش کر رہی ہو دمشق میں ٹھہرنے کے لئے ۔۔۔
وہ مصروف سی سر اٹھا کر بولی ۔۔۔
کھانا کھا لو فیصل ۔۔ دائم اسے دیکھنے سے گریز کیا ۔۔ جانے وہ ناراض تھا یا اُسکا انداز ہی ایسا تھا ۔۔ فیصل اندازہ نہیں لگا سکا ۔۔ انکا جتنا بار بھی سامنا ہوا وہ کام سے ہٹ کر کبھی بات نہیں کر پائے ۔۔۔
یہاں ہم کچھ گھنٹے آرام کریں گے اسکے بعد دمشق کے لئے نکلیں گے ! وہ ان دونوں کو آگاہ کرنے لگا
دمشق کتنی دور ہے حلب سے ؟
360 کلو میٹر ۔۔ ہمیں کم از کم تین یا چار گھنٹے لگیں گے پہنچنے میں !
فیصل کے سوال پر نایا کی طرف سے جواب آیا ۔۔۔
میں باہر ہوں ۔۔تم لوگ آرام کرو
وہ چند لقمے لینے کے بعد آگاہ کرتا باہر نکل گیا ۔۔
تم اتنے خاموش کیوں ہو ؟
نایا نے سرسری سا پوچھا ۔۔
ایسے ہی ! فیصل نے آزردگی سے کہا ۔۔۔
نایا نے رک کر اسکی اتری صورت دیکھی ۔۔۔
دیکھو فیصل تم نے جو آج کیا وہ واقعی قابل مزمت ہے ۔۔ ہم بال بال بچے ہیں ۔۔۔یہاں ہمیں اپنے نام تک ایکسچینج کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔۔ چونکہ ہم ایک ٹیم ورک پر ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کا خیال کرنا ہے۔۔ ساتھ لے کر چلنا ہے ۔۔ایک دوسرے پر انحصار کرنا ہے۔۔سب سے بڑی بات ہمیں اپنے لیڈر کی بات ہر حال میں ماننی ہے ۔۔۔ میں مانتی ہو تم ان حالاتوں کا سامنا پہلی بار کیا ہے ۔۔لیکن اپنی پوزیشن کو سمجھو اور اپنی پروفائل کے مطابق بی ہیو کرو ۔۔۔ نہ زیادہ بہادری دکھائو نہ ہی رحم دلی ۔۔۔ مجھے امید ہے تم سمجھ گئے ہو گے ۔۔۔
شکریہ آپ نے مجھ سمجھا ۔۔ فیصل سر جھکائے بڑبڑایا ۔۔ اسے ان لوگوں کے ساتھ چلنا مشکل ہوتا نظر آرہا تھا ۔۔۔
بلا شبہ وہ دونوں منجھے ہوئے کھلاڑی تھے اس فیلڈ کے۔۔ اور وہ خود کیا تھا ۔۔ ایک سڑک چھاپ ! اس نے تلخی سے سوچتے ہوئے سر جھٹکا
مجھے تم اپنا دوست ہی سمجھو ۔۔۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ ایسے سفر میں دوست صرف چند لمحوں کے لئے ہوتے ہیں ! سمجھداری اسی میں ہے تم اپنی غلطیاں سدھار لو
تاکے تمہیں سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے
اس نے مناسب لفظوں میں بات کہہ ڈالی
سمجھ گیا ۔۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا چادر کھینچ کر لیٹ گیا ۔۔
پتا نہیں دائم کہاں گیا تھا ؟؟؟ نایا نے ایک پل سوچا اور صوفے پر کشن درست کرنے کے بعد لیٹ گئی ۔۔۔لیٹتے ہی اسے نیند نے آلیا
_______________________________________
مسز احمد آج پھر سے آدھمکی تھی اور شادی کی تاریخ فکس کرنے زور دے رہی تھی ۔۔ نصیبہ پھپو نے کچھ دن شادی کی شاپنگ کے لئے مانگے تھے۔۔ جس کے بعد انہیں دوبارہ پیش ہوکر ڈیٹ فکس کرنی تھی ۔۔ یہ طے پایا تھا ۔۔۔ تاشا کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے ۔۔۔ ہبا آپی کے بعد اس گھر میں نوال کی شادی ہورہی تھی ۔۔۔ چناچہ خوشی کیسے نہ ہوتی ۔۔۔
جبکے نوال بے تحاشا اداس تھی ۔۔۔ اس کی اداسی کا سبب کوئی نہیں جانتا تھا سوائے تاشا کے
پتا نہیں یہ لڑکی تھکتی نہیں خاموش رہ رہ کر ، ایک میں ہوں جتنا بول لوں اتنا کم ہے ! تاشا بڑبڑاتی ہوئی گم سم بیٹھی شزانہ نزدیک آئی ۔۔
پہلے نوال دکھی روح بنی یہاں پیر جھلاتی نظر آتی تھی اور اب نے تم نے اسکا کام بخوبی سنبھال لیا ہے !
وہ ہنس کر کہتی اس پر تنقید کرگئی ۔۔
شزانہ خجالت سے مسکرادی ۔۔
بابا بلا رہے ہیں تمہیں ! وہ کہہ کر چلی گئی ۔۔
شزانہ کو یہاں آئے آج دوسرا دن تھا ۔۔۔ کم از کم تاشا اور نوال تو اسے اپنی اپنی سی لگی تھی ۔۔۔ وہ دونوں ہی اسے جومانا کی یاد دلاتی تھی ۔۔ البتہ شاکرہ بیگم اور نصیبہ پھپھو کا رویہ کچھ لیا دیا سا ہوتا تھا ۔۔ وہ دانستہ طور پر اسے مخاطب کرنا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔۔۔
آجائو ۔۔ !!دستک کے جواب میں بولے ۔۔ شاہین صاحب اسٹڈی میں موجود تھے ۔۔۔
آپ نے بلایا ۔۔ وہ جھجک کر بولی
ہاں بھئی ۔۔ تم سے بات ہی نہیں ہو پائی اس دن کے بعد ۔۔۔ تمہیں کوئی مسلہ تو نہیں ناں یہاں ۔۔ ؟ اچھا میں نے تمہیں اسلئے بلایا تھا تاکہ تمہیں اپنے خالو کا نام پتا یا انکا بزنس مجھے بتادیتی میں معلومات شروع کروایدتا ۔۔ انکی مسز کے بارے میں بھی کچھ بتائو تاکہ میں اپنے وکیل سے تلاش کرنے کا کہوں ۔۔۔ شزانہ کو جو معلوم تھا ۔۔ اس نے سب
ایک ایک کرکے بتا دیا ۔۔
روشن نے ان کی آدھی ادھوری گفتگو سنی اور تخمینہ لگاتی چائے کا کپ شاہین صاحب کے سامنے رکھ کر کچن میں چلی آئی ۔۔۔
شاہین صاحب کرلی سے اسکی خالہ کے متعلق پوچھ رہے ہیں شاید ۔۔ لگتا ہے امیر گھرانے سے تعلق ہے اسکا ۔۔ بھئی مجھے تو شکل اور رکھ رکھائو سے ہی بڑے گھر کی لگتی ہے ۔۔ روشن نے کچن میں آتے ہی شوشہ چھوڑا ۔۔
خدا کی قسم روشن اگر تم اس کچن میں چوبیس گھنٹے روشنی نہ بکھیر رہی ہوتی تو انٹلیجنس ایجنسی کی کامیاب ترین جاسوس ہوتی ۔۔
تاشا نے نوال کے سسرالیوں کے اہتمام سے بچے ہوئے لوازمات سے انصاف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
بے شک بے شک ۔۔۔ روشن نے فخریہ کالر جھاڑا ۔۔
تم شاید میری مدد کرنے آئی تھی ۔۔
رومیشا نے تاشا کو گھورا ۔۔۔
تاشا نے جلدی سے بچا ہوا سموسہ منہ میں ٹھونسا اور کٹنگ بورڈ پر سبزیاں کاٹنے لگی ۔۔
_______________________________________
چند گھنٹوں کی نیند لینے بعد وہ لوگ رات کی تاریکی میں دمشق کے لئے نکل پڑے ۔۔۔ دمشق میں طعینات روسی فوجی صبح چھ بجے سے ڈیوٹی پر معمور ہوجاتے تھے ۔۔ اسلئے انہیں اُن سے پہلے وہاں پہنچنا تھا ۔۔۔ فیصل پچھلی سیٹ پر سر ٹکائے سوئی جاگی کیفیت میں تھا ۔۔ جبکہ نایا گابگاہے نظر دائم پر بھی ڈال لیتی تھی ۔۔
گاڑی جھٹکا کھا کر رکی تو وہ سب چونکے ۔۔۔
ہم کچھ دیر کے لئے ٹھہرنا ہوگا ۔۔۔ پانی ختم ہوگیا ہے اور گاڑی بھی گرم ہوگئی ۔۔
وہ انجن سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر بولا ۔۔۔
نایا سر ہلاتی ہوئی باہر نکل آئی ۔۔ موسم میں ہلکی سی خنکی تھی ۔۔۔رات کے اس پہر پورا عالم سناٹے کی زد میں تھا ۔۔۔ ملگجے سے اندھیرے میں آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے ۔۔۔. انتہائی پرسکون ماحول تھا ۔۔۔
اس نے بے ساختہ بانہیں پھیلا کر طویل سانس ہوائوں کے نظر کی ۔۔۔
سگریٹ سلگاتے دائم نے ٹھہر کر اسکی حرکت کا نوٹس لیا وہ خجالت سے ہلکا سا مسکرائی ۔۔تو وہ سر جھٹک کر ڈگی سے کین اٹھاتا پانی لینے نکل پڑا ۔۔۔
تم تھوڑا ریسٹ کرلو ۔۔۔ ڈرائیو میں کر لیتی ہوں
واپسی پر نایا کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے دیکھ کر وہ خاموشی سے فرنٹ سیٹ پر آبیٹھا ۔۔ کچھ دیر بعد وہ پھر سے منزل کی جانب رواں دواں ہوچکے تھے ۔۔۔ دمشق میں داخل ہونے سے پہلے احتیاطی طور پر گاڑی کہیں پیچھے چھوڑ دی تھی ۔۔۔
فیصل؟؟؟
فیصل کو خواب و خروش کے مزے لوٹتے دیکھ کر دائم نے زور سے اسکا کندھا ہلایا ۔۔
ک۔۔ کیا ہوا؟؟؟؟ وہ ایک دم ہڑبڑا کر سیدھا تھا ۔۔
اٹھ جائو بیٹا۔۔۔دائم کا چبھتا ہوا لہجہ فیصل نے صاف نوٹ کیا ۔۔۔
کہاں تو اسے خواب میں ستر حسیانائوں کے دیدار پوتے تھے اور کہا اب خواب میں روسی فوج نظر آنے لگی
وہ جی بھر کے بدمزہ ہوا تھا۔۔ کسلمندی سے آنکھیں رگڑتا ڈگی سے بیگ نکالنے لگا ۔۔۔ گلیوں اور چوراہوں میں سناٹا چھایا ہوا ۔۔۔ حتی کہ ان کے قدموں کی آہٹ بھی گونجتی ہوئی معلوم ہورہی تھی ۔۔۔ روایتی مکان۔۔ بالکونی کی چھتوں سے لٹکتی ہریالی کی بیلیں ۔۔۔خوبصورت رنگ برنگے مکانات بھرپور منظر پیش کر رہے تھے۔۔۔
لیکن عجیب سوگواریت میں ڈوبے ہوئے تھے سب منظر ۔۔
وہ پرانے طرز کی عمارتوں کو پیچھے چھوڑتے ایک مفقل مکان کے سامنے آ کھڑے ہوئے ۔۔۔
دائم نے جیب سے باریک سی پن نکال کر لاک میں گھمائی تو تالا کھل گیا ۔۔۔ اسی خاموشی سے وہ لوگ اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کرلیا۔۔ مکان شاید عرصے سے بند پڑا تھا ۔۔ تبھی گرد و غبار نے فرنیچر کو ڈھک رکھا تھا ۔۔۔
میں مکان کو دوبارہ باہر سے لاک کرکے آتا ہوں ۔۔ تاکے کسی کو انداز نہ ہو کوئی یہاں رہتا ہے !
وہ کہتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔. سورج اگنے تک اس نے اور فیصل نے گھر کو اس قابل بنا لیا کہ کچھ دن گزاریں جاسکیں ۔۔۔
_________________________________________
شاپنگ پر چلیں شزا؟؟؟ تاشا اسکے کمرے میں اچانک بر آمد ہوئی تھی ۔۔۔
میں ؟؟؟میں کیسے جا سکتی ہوں ۔۔ وہ گھبرا گئی ۔۔
کیا مطلب کیسے جا سکتی ہو ۔۔ جیسے جاتے ہیں یار،چلو نا بہت مزا آئے گا نوال کی شادی کی ڈیٹ فکس ہونے والی ہے مما نے کہا ہے کہ کپڑوں اور جوتوں کی خریداری ہم دونوں کریں گے بقیا سامان وہ اور پھپھو دیکھ لیں گی ۔۔ تم بھی چلو نا یار بہت مزا آئے گا ۔۔۔نوال کی ساس بھی وہاں ہوگئی ۔۔ بلکے انہوں نے ہی ہمیں بلایا ہے ۔۔
وہ پرجوش ہوکر روداد سنانے لگی ۔۔
شزانہ کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگنے لگی ۔۔۔ ایک انجانا سا خوف اسے اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھا ۔۔۔
باہر جائے گی تو پکڑی جائے گی ۔۔۔
تم ابھی تک یہی ہو تاشا ۔۔۔؟؟؟ جائو تیار ہوجائو تصور تو پہلے ہی جا چکا ہے ڈرائیور کو ساتھ لے جانا ۔۔۔
نصیبہ پھپھو نے خشمگین نگاہوں گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔ پھپھو آپ کہیں نا شزا سے ہمارے ساتھ چلے ۔۔
تاشا بضد تھی ۔۔ شزانہ نے محسوس کرلیا تھا کہ نصیبہ پھپھو اسے کچھ خار کھاتی ہیں ۔۔۔
اگر نہیں جارہی تو رہنے دو ۔۔ اسے آرام کرنے دو ویسے بھی اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے! تم دونوں چلی جائو !
نصیبہ پھپھو نے بات ہی ختم کردی ۔۔۔
وہ برا سا منہ بنا کر لوٹ گئی ۔۔۔ شزانہ نے بھی سکھ کا سانس لیا ۔۔ وہ شدت سے دعاگو تھی کچھ برا نہ ان کے ساتھ ۔۔۔بہت ملنسار لوگ تھے ۔۔۔ خاص کر شاہین صاحب اور تاشا ۔۔۔
یار نوال شزا تو جا ہی نہیں رہی ۔۔۔ تم کچھ کہو نا ۔۔۔
تاشا افسردہ ہونے لگی ۔۔۔
کیسی باتیں کر رہی ہو تاشا ۔۔ ابھی اسے آئے دو دن نہیں ہوئے کہ تم اپنی منوانے پر اتر آئی ہو ۔۔ اگر نہیں جارہی رہنے دو ۔۔ کسی بات کو نارمل بھی لے لیا کرو ۔۔
نوال پہلے ہی افسردہ سی تھی اسکی بات پر چڑ کر بولی ۔۔۔ تاشا منہ چڑاتی کپڑے بدلنے چلی گئی ۔۔
تصور بھائی واقعی چلے گئے تھے ۔۔ اب انہیں ڈرائیور کے ساتھ جانا تھا ۔۔اور نوال کی ساس کے ساتھ شاپنگ کے مراحل طے کرنے تھے ۔۔۔ نوال بے دلی سے ان کا ساتھ دیتی رہی ۔۔ رامس کی لو دیتی نظریں اسے سخت کوفت میں مبتلا کر رہی تھی ۔۔ اسکا جی چاہا مال کے ٹاپ فلور سے اسے نیچے دھکا دے دے ۔۔ ایسی بھی کیا بے باکی ۔۔۔ وہ کلس کر رہ گئی ۔۔ اپنی اداسی کے سبب وہ رامس کی بہت اہم بات اس سے پوچھنا بھول گئی تھی۔۔ جسکی وجہ سے اسے فاتح کی بے جا سننی پڑی تھی
اللہ اللہ کرکے شام کے چھ بجے تو وہ لوگ تھکاوٹ اور بھوک کے مارے قریبی ریسٹورنٹ آگئے ۔۔۔
تاشا نے ہمیشہ کی طرح تین چار ڈشز آرڈر کی جبکے اس نے صرف کافی پر اکتفا کیا ۔۔ اسے ویسے بھی بھوک نہیں تھی ۔۔۔ آنٹی اور رامس وہیں سے وداع لے کر جا چکے تھے ۔۔۔ جیسے جیسے شام کے سائے گہرے ہورہے تھے اس کی ٹینشن میں اضافہ ہونے لگا۔۔
تاشا کو بے دریخ ٹھونستا دیکھ کر نوال کو بے حد غصہ آیا تھا۔۔ وہ اسکے اپنے ساتھ گھسیٹ کر گاڑی تک لے آئی. ۔۔
اففف یار بِل تمہارے والد صاحب دیں گے ؟؟
نوال نے ویٹر کو بھاگ کر اپنی طرف آتا دیکھ کر تاشا سے کہا ۔۔۔
شرم کرو ۔۔ میرے والد تمہارے ماموں لگتے ہیں !
اسی بات کی تو شرمندگی مجھے ہر پل ہوتی رہتی ہے ۔۔ ماموں تم جیسی بیٹی ڈیزرو نہیں کرتے تھے ۔۔
نوال جل کر بولی ۔۔۔
بکو مت کیا کمی ہے مجھ میں ۔۔
تاشا نے اسے گھور کر ویٹر کو پیمنٹ تھمائی ۔۔
کیا خوبی ہے تم میں ۔۔؟؟
نوال کہتی دروازہ کھول کر بیٹھی ۔۔
پتا نہیں نوال مجھے جلنے کی بو کیوں آرہی !
تاشا نے اسے مزید تپانا چاہا ۔۔
جلتی ہے میری جوتی۔۔ وہ چڑ کر بولی تو تاشا کا قہقہہ بلند ہوا ۔۔ گاڑی زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ کچھ نقاب پوشوں انہیں آگے سے گھیر لیا ۔۔۔ گاڑی ایک جھٹکا کھا کر رکی ۔۔ تاشا اچھل کر ڈیش بورڈ سے ٹکرائی ۔۔
اففففوہہہہ آدم بابا آپ نے میری کھوپڑی ۔۔۔
وہ سر سہلاتی ہوئی جملہ ادھوارا چھوڑ کر آنکھیں پھاڑے گاڑی کے سامنے کھڑے نقاب پوش افراد کو دیکھنے لگی ۔۔۔ یہ لوگ کون ہیں ؟؟؟؟
اسے اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔۔
نوال تو پہلے ہی ڈرپوک تھی ۔۔۔ نقاب پوش ڈرائیور کو باہر کھینچنے لگے ۔۔۔ وہ دونوں بھی خوف سے باہر نکل گئی ۔۔
ک۔۔کیا کریں نوال ۔۔۔؟؟
بھاگ جاتے ہیں ؟؟نوال ڈر کر بولی ۔۔
مگر کیوں ۔۔۔
تاشا کا ڈرائیور بابا کو چھوڑ کر بھاگنا مناسب نہ لگا ۔۔۔
کیونکے ڈرپوک یہی کرتے ہیں بے وقوف ۔۔۔
گاڑی کی اوٹ سے نکل کر وہ دنوں اندھا دھند بھاگنے لگیں
اگر ان لوگوں نے پیچھے سے فائرنگ کردی تو ؟؟؟
کیا فرق پڑتا ہے ! تاشا بھاگتے ہوئے پلٹ کر دیکھنے لگی
وہ لوگ اپنی کلیشنکوو سے ڈرائیور کو زخمی کر چکے تھے اب انکی باری تھی ۔۔ نقاب پوش بھاگتے ہوئے ان تک پہنچ ہی گئے آخرکار ۔۔۔ بندوق کنپٹی پر تان دی گئی تھی۔۔ گویا وہ سر عام اغوا ہوچکی تھی۔۔ گراجدار آواز میں چلاتے ہوئے ان دونوں کو مزاحمت کا موقع دیئے بغیر گھسیٹ کر جیپ میں ڈالا اور مخالف سمت چلے گئے ۔۔۔ سڑک کے بیچ و بیچ گاڑی اور ساز و سامان سمیت ڈرائیور بے ہوش پڑا تھا ۔۔۔
_________________________________________
یہ ھانی کے موجودہ محل کا نقشہ ہے ۔۔ ہمیں محل کی اندرونی حصوں کی تلاشی شروع کرنی ہو گی ۔۔ھانی آج کل افغانستان میں اپنے بوریا بستر سمیٹ رہا ہے اسلئے ہمارے پاس اچھا موقع ہے تلاشی کے لئے میں اور آفیسر جائیں گے ۔۔۔ میں سکیورٹی سسٹم کے سیمپلز اکھٹے کروں گا ۔۔۔ تم اسکے محل کے اندرونی نقشے کو انالائیز کرنا ۔۔۔ اس نے رک حتمی نگاہ ان دونوں پر ڈالی ۔۔۔
لیکن آپ اندر جائو گے کیسے ؟
فیصل کے احمقانہ سوال پر وہ اسے گھور کر رہ گیا ۔۔
تمہیں کام کی اسپیڈ بڑھانی ہوگا ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہوگا ۔۔۔ وہ شوزوں کے تسمے باندھنے لگا
مثلا کتنی اسپیڈ سے ؟؟
صوفے پر پیر پھیلائے وہ مزے سے بولا ۔۔۔
چند سیکنڈ ۔۔
دائم کی اگلی بات اسکا سکھ چین ہوا ہوگیا ۔۔
ک ۔۔کیا مطلب ؟؟ یہ مزاق تھا نا؟؟؟ مانا کہ میں ایکسپرٹ ہوں اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپ کچھ بھی کہیں گے ۔۔ سمجھنے کی کوشش کریں اس پروسس میں ٹائم لگتا ہے ! وہ آخر بے بسی سے بولا ۔۔ اسکا حتمی انداز فیصل کے چھکے چھڑا گیا۔۔
میں کچھ نہیں جانتا۔۔ تمہارا کام ہے یہ ۔۔ اور تمہیں ہر حال میں کرنا ہوگا ۔۔ مجھے جواز پیش کرنے والے سخت برے لگتے ہیں ۔۔ وہ سخت لہجے میں بولا ۔۔
فیصل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ۔۔۔
پتا نہیں کیا کھاتے ہیں ہر وقت اینگری ینگ مین بنے رہتے ہیں ۔۔ وہ زیر لب بڑبڑایا ۔۔۔
نایا نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر مسکراہٹ لبوں پر روکی ۔۔۔ ہاتھوں پر دستانے چڑھا کر سیفٹی کے لئے گن بھی اٹھا لی ۔۔۔ بالوں کو اونچی پونی میں مقید کیا ۔۔ اور شوز کی لیس باندھتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ فیصل کو بغور اپنی طرف دیکھتا پاکر جوابا مسکرائی ۔۔
ویسے بجا فرمایا ہے کیپٹن نے۔۔ ہمارے لئے ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے ۔۔ تم اپنے کام پر فوکسڈ رہنا ہے ۔۔۔ اینڈ کیپ اِن ٹچ پارٹنر ۔۔
فیصل نے بھرپور انداز میں مٹھی اسکے ہاتھ سے ٹکرائی ۔۔۔ اسکے انداز پر وہ ہلکا پھلکا ہوگیا تھا ۔۔
ورنہ تو دائم نے سخت ٹینش میں ڈال دیا تھا ۔۔۔
وہ اس گھر میں اکیلا تھا ۔۔۔ وہ لوگ صبح سے شام تک اندھیرے میں ہی رہے تھے ۔۔ فیصل کو تو یہاں سانس لیتے سے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا تھا ۔۔۔ وہ دونوں باہر نکلے تو فیصل نے دروازہ بند کرکے اپنی نشست سنبھال لی ۔۔۔
ٹھیک پندرہ منٹ بعد یہیں ملیں گے ۔۔۔
محل کی پچھلی دیوار تک پہنچ کر اس نے تاکید کی ۔۔
نایا نے اثبات میں سر ہلایا اور ماسک گردن تک کھینچ لیا ۔۔ محل کے باہر پہرے دار چکر کاٹ رہے تھے ۔۔گرائونڈ کے بیچ و بیچ جدید طرز کے فوارے سے نکلتا پانی تقریبا پندرہ سیکنڈ کے لئے دس فٹ کی بلندی طے کرکے نیچے آرہا تھا ۔۔۔۔ اس نے گردن جھٹکی اور محتاط ہوکر نیچے بیٹھ گئی ۔۔۔ جیسے ہی پانی کا بہائو اوپر کی طرف گیا ۔۔ وہ برقی رفتار سے بھاگتی ہوئی راہداری کے ستون کے پیچھے چھپ گئی ۔۔۔ اگلے پندرہ سیکنڈ پھر سے پانی اوپر کی جانب گیا تو وہ رہاداریوں سے بھاگتی ہوئی عقب میں سیڑھیاں اتر گئی ۔۔ تاریکی کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ انہیں سکون سے اپنا کام کرنے کی چھوٹ مل چکی تھی ۔۔۔ وہ پہرے داروں سے چھپتی چھپاتی بیسمنٹ میں اتر گئی ۔۔۔ اسی لمحے اسے کسی وجود کی سانس لینے کی سنسناہٹ سنائی دی ۔۔ وہ سرعت سے دیوار کی اوٹ میں ہوگئی ۔۔ جھانک کر دیکھا تو کوئی شخص ابتر حالت میں کرسی سے بندھا تھا ۔۔۔ کیپٹن؟؟ اس نے دبی دبی سرگوشی کی ۔۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے ؟؟ دوسری طرف وہ چونکا ۔۔
کوئی یہاں بندھا ہوا ہے ۔۔۔
یعنی قیدی ۔۔ ! فیصو تمہیں نظر آرہا ہے ۔۔
اس نے فیصل کو مخاطب کیا ۔۔
نہیں بہت اندھیرا ہے ۔۔۔ فیصل نے سیاہ اسکرین کو دیکھ کر کہا ۔۔۔ جہاں کیمرے کی آنکھ سیاہی کے سوا کچھ کیپچر نہیں کر پارہی تھی
تم ایک کام کرو ۔۔۔ اس کا بغور جائزہ لے لو ۔۔ ہم اسکیچ بنوا لیں گے ہمارے کام آسکتا ۔۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی آگے بڑھ گئی ۔۔۔ دائم نے سر جھٹک کر دستانے چڑھائے اور ربڑ کے ٹکڑے جتنی ڈیوائس سے کمرے کے سکیورٹی اور لاکرز کو اسکین کرنے لگا ۔۔۔
فیصل تم لائن پر ہونا ؟؟؟
جی جی میں یہیں ہوں ۔۔۔
آپ ڈیوائس کو تجوری کے ساتھ اٹیچ کر دیں ۔۔۔ مجھے جب سگنل ملے گا ۔۔۔ میں تب ہی ڈیوائس انسٹال کرنے کے بعد ہی کسی قسم کے لاکر کو ڈیکوڈ کر پائوں گا ۔۔۔ فیصل کی انگلیاں برق رفتاری سے پیڈ پر چلنے لگیں ۔۔
کوئی اوپر کی طرف جارہا ہے ۔۔۔
نایا نے کمرے سے نکلتے ہوئے شخص کو دیکھ کر کہا ۔۔
میری طرف؟؟ دائم چونکا ۔۔۔
تم کہاں ہوں یہ میں نہیں جانتی لیکن اگر اوپر ہو تو وہ وہیں آرہا ہے ۔۔
فیصل جلدی کرو ۔۔
بس پندرہ سیکنڈ ! ہاتھوں کی حرکت میں تیزی آنے لگی ۔۔ اتنا وقت نہیں ہے کوئی کسی بھی وقت اندر داخل ہوسکتا ہے۔۔۔ وہ اضطراب میں گھر گیا۔۔ چونکہ سیڑھیاں کسی کی آہٹ کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔
بس پانچ سیکنڈ اور۔۔۔
دائم نے مقاطیسی انداز نے چپ واپس کھینچی اور دبے قدموں چلتا ہوا الماری کی اوٹ میں ہوگیا ۔۔ وہ شخص لاکر میں کچھ رکھنے کے بعد دروازہ باہر سے لاک کرکے واپس چلا گیا ۔۔
نایا ؟؟؟؟ بس آج کے لئے اتنا بہت ہے ۔۔ نکلو وہاں سے ! نایا کا دل کسی اور ہی لئے پر دھڑکا۔۔
آج پہلی بار اس نے ‘آفیسر’ کی جگہ اسے ‘نایا’ کہا تھا ۔۔۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نقشہ لپیٹ کر اس نے لونگ شوز میں دبایا ۔۔اور دبے قدموں جیسے آئی تھی ویسے ہی باہر نکلی گئی ۔۔۔
_________________________________________
چھ سے سات بجے کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔ مغرب کے بعد اندھیرا پھیلنے لگا تھا ۔۔ مگر نوال اور تاشا ابھی تک نہیں آئی تھی ۔۔ شاہیں صاحب اور تصور ابھی تک شہر سے نہیں لوٹے تھے جبکے فاتح کا ہمیشہ کی طرح کچھ اتا پتا نہیں تھا ۔۔۔ نصیبہ پھپھو کا اب ٹینشن کے مارے بی پی ہائی ہورہا تھا ۔۔ نوال کی ساس فون نہیں اٹھا رہی تھی ۔۔۔
نہ نوال اور تاشاسے کوئی رابطہ ہو پارہا تھا ۔۔ حتی کہ ڈرائیور تک کا فون بند تھا ۔۔
اللہ اللہ کرکے ڈرائیور گھر آیا مگر اسکی حالت کسی بری خبر کا سندیشہ دے رہی تھی ۔۔۔
ڈرائیور نے الف سے لیکر ی تک ساری کہانی مالکوں کے گوش گزار کردی ۔۔۔ اللہ اکبر !
شاکرہ بیگم دہل گئیں ۔۔۔ نصیبہ پھپھو تو شاک سے کچھ بول ہی پائی ۔۔۔ روشن اور رومیشا کی سانسیں بھی گلے میں اٹک گئیں تھی ۔۔۔ روشن نے فٹ سے فون کرکے یوسف کو آگاہ کردیا تھا ۔۔۔
یوسف کا دل کیا اس لڑکی کو آگ میں پھونک ڈالے ۔۔ جس کا ڈر تھا وہی ہوا ۔۔۔ ہو نا ہو یہ اسی خدمت خلق کی سزا تھی ۔۔۔ وہ پہلی فلائٹ سے واپس آگیا تھا ۔۔۔ اور آکر رکا نہیں تھا بلکے سیدھا اسکے کمرے کا رخ کیا ۔۔۔ عین ممکن تھا وہ اسکا سر پھاڑ دیتا ۔۔۔ شاہین صاحب اور تصور نے بچ بچائو کروادیا ورنہ وہ سچ میں مار ہی دیتا اس لڑکی کو ۔۔۔ کہا تھا نا میں نے بابا ۔۔۔ کہ اگلی باری ہم میں سے کسی کی ہے ۔۔۔ آپ نہیں مانے میری بات۔۔
یوسف کا خوف زبان پر آگیا ۔۔ شاہین صاحب خاموش رہے ۔۔ اللہ جانے ۔۔ کس حال میں ہوں گی میری بچیاں یوسف ۔۔۔ پھپھو ہلکان ہورہی تھی ۔۔۔
یوسف نے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ لیا ۔۔
کیا کروں اب میں ؟؟؟ کہاں جائو؟ کس طرف جائوں ۔۔ کہاں سے شروع کروں بتائو ۔۔
وہ کنپٹیاں سہلاتا ہوا ضبط سے چکر کاٹنے لگا ۔۔۔
ایک بات سن لو ۔۔ اگر دونوں کو کھروچ بھی آئی ۔۔ قسم خدا کی تمہاری قبر میں اپنے ہاتھوں سے تیار کروں گا ۔۔
وہ انگلی اٹھا کر سر محفل است دھمکی دیتا باہر نکل گیا ۔۔ شزانہ کچھ اور لڑکھڑا کر دیوار سے لگ گئی ۔۔
اب بیٹیوں کا معاملہ تھا ۔۔ نہ تو وہ رپوٹ کروا سکتے تھے ۔۔ نہ فروسز کی مدد لے سکتے تھے ۔۔۔
یوسف سوچ سوچ کر پاگل ہورہا تھا ۔۔ انکا نہ تو کوئی تو خاندانی دشمن تھا ۔۔ نہ ہی کاروباری ۔۔ جس پر اسے شک ہوتا ۔۔۔ اسکا شک رہ رہ کر شزانہ پر جا رہا تھا ۔۔ وہ کسی فیصلے پر پہنچ کر گاڑی گھما کر گھر کے راستے پر ڈالتا فاتح کو فون کرنے لگا ۔۔۔
_________________________________________
ہاں ہاں نہیں اتنی چھوٹی نہیں مناسب تھیں ۔۔۔ برائون کلر تھا آنکھوں کا ۔۔۔ بال بڑھے ہوئے ۔۔۔ پتلے۔۔۔ ہونٹ ۔۔۔ رنگ صاف تھا ۔۔۔ وہ رک رک کر کہتی اب اطمینان سے چیئر پر بیٹھ گئی ۔۔ اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگا لیا ۔۔۔وہ اسکائپ پر ایجنٹ (اسکیچ آرٹسٹ) کو اس قیدی کا حلیہ بتا رہی تھی جسے اس نے ھانی کے محل میں دیکھا تھا ۔۔۔
دائم اور فیصل محل کے سیکورٹی سسٹم کا جائزہ لے رہے تھے ۔۔۔
یسسسسس ہاہاہاہا ۔۔دیکھا میں نے کہا تھا نا۔۔یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔ میرے کیا چیز ہوں انہیں ابھی معلوم نہیں ہے ۔۔ یوں یوں ۔۔۔ چٹکیوں برباد کر سکتا ہوں اسکے سو کالڈ سسٹم کو ۔۔دیکھا آپ نے میں نے کیسے ان کو مزا چھکایا پھر مانتے ہو نا مجھے ۔۔۔۔؟؟؟
دائم کو سنجیدگی سے اپنی طرف دیکھتا پاکر اسکا جوش ماند پڑا ۔۔ خاموشی سے کمپیوٹر پر دوبارہ جھک گیا ۔۔۔ ایجنٹ نے رابطہ منقطع کرنے کے بعد اسکیچ اسے سینڈ کردیا تھا ۔۔ جو ہو بہو وہی شخص تھا ۔۔
اسکیچ مل گیا ہے مجھے ۔۔ اس نے لیپ ٹاپ اسکرین ان دونوں کی جانب گھمائی ۔۔
لیث؟؟؟ دائم بری طرح سے چونکا ۔۔
آپ جانتے ہیں اسے ؟؟ سوال فیصل کی طرف سے آیا ۔۔ ہاں ۔۔۔ یہ مشن کے دوران افغانستان میں تھا ۔۔ لیکن اب تک ھانی کے پاس کیوں ہے ؟؟؟ مجھے لگا تھا یہ اپنی بہن کے ساتھ کہیں محفوظ مقام پر منتقل ہوچکا ہوگا !
دائم کو تشویش لاحق ہونے لگی ۔۔
یہ محض قید نہیں ہے ۔۔ اس پر تشدد بھی کیا جا رہا ہے ۔۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ ھانی کچھ چاہتا ہے ! لیکن لیث کو آمادہ نہیں کر پارہا ۔۔ ؟؟؟
لیکن کیا ؟؟؟ اس تخمینے پر سوال نکلا ۔۔۔
ہم پتا لگالیں لے گے ۔۔۔ اور مجھے وہاں ایک اور کمرہ بھہ ملا تھا ۔۔ شاید اس میں بھی کوئی کام کی شے نکل آئے ہوسکتا ہے ۔۔ وہاں بہت مقدار میں ادویات اور نہ جانے کس چیز کی ملی جلی سی بدبو آرہی تھی ۔۔ اور مزید اسکے برابر والے کمرے سے مجھے محل کا نقشہ ملا ہے ۔۔۔ یہ ہمارے کام آ سکتا ہے ۔۔۔ وہ بوسیدہ نقشہ پھیلائے بتانے لگی ۔۔
یہ ایسے سمجھ نہیں آئے گا نہ تمہیں نہ مجھے ۔۔۔
اس معاملے میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں !
فیصل ان کی بات کاٹ کر کہتا پلٹ کر اسکرین پر اسکیننگ کرنے لگا ۔۔
میں جنرل کو رپورٹ کرکے آتا ہوں ۔۔
دائم کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔ جنرل نے لیث سے متعلق سارا معاملہ ان پر چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ اور شاباشی دے کر فون بند کردیا ۔۔ آج ان کے کام کا پہلا دن تھا ۔۔ اور اختتام تک ان لوگوں نے محل اور سکیورٹی سسٹم تک رسائی حاصل کرلی تھی ۔۔۔ جنرل کو اسکی قابلیت پر سو گنا یقین تھا اسکی قیادت میں مہینوں کا کام ہفتوں میں ہوجائے گا ۔۔۔ وہ بہت شارپ اور پھرتیلا تھا ان کاموں میں ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں نقشہ اسکیچ کی صورت ان کے سامنے تھا ۔۔۔ دائم اور نایا نے تو پہلی نظر میں ازبر کرلیا تھا ۔۔
جہاں سے میں نیچے گئی تھی ۔۔ بلکل اسی راستے سے آگے جاکر سیڑھیاں اوپر کو جاتی ہیں۔۔۔ جسکے چوتھے کمرے میں تم گئے ۔۔اس سے آگے کیا تھا ۔۔۔ ؟
کیونکہ یہ تو طے ہے کہ ھانی کہ رہائش اوپر والے فلور پر ہے ۔۔ یہاں اسی قسم کی چیزیں رکھی ہوئی ۔۔ یا پر بیسمنٹ میں ! نایا اندازً بولی ۔۔
ٹھیک ہے ہم کل رات پھر جائیں گے ۔۔۔ اور کل صبح کے وقت جو ہم نے کیمرے اسکے محل کے اطراف اور اندر لگائے ان کے ڈریعے ہم آنے جانے والے ہر شخص پر نظر رکھیں گے ۔۔۔ تاکہ ہمیں ھانی کے تعلقات واضع ہو ۔۔۔ اس حساب سے ہم اپنا اگلا قدم اٹھائیں ۔۔ وہ کہتا ہوا اٹھا ۔۔۔
گھڑی رات کے دو بجا رہی تھی ۔۔ وہ لوگ صبح سے نہ جانے کتنی بار چائے ، اور کافی پی پی کر اپنی انرجی بحال کر رہی تھے ۔۔۔. اب تو آنکھیں اور دماغ تھکن سے بے حال تھا۔۔ چائے پیو گے تم لوگ؟؟؟
نایا نے کچن میں جاتے جاتے رک کر پوچھا ۔۔ دائم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے ۔۔۔کشن برابر کیا اور صوفے پر لیٹ گیا ۔۔ وہ بیت تھک گیا تھا اسے اب نیند کی ضرورت تھی
وہ چائے بنا کر لوٹی تو دائم سو چکا تھا ۔۔
اس نے کسی احساس کے تحت کبڈ میں کمفرٹر تلاش کیا ۔۔اور اسکے اوپر اوڑھا دیا ۔۔
شششش۔۔۔؟؟؟ اوپر آجائو فیصو ۔۔
وہ دبی دبی سرگوشی کرتی کپ اٹھا کر ٹیرس پر آ گئی ۔۔ تمہیں بھی نیند نہیں آرہی ۔۔ ؟؟
نہیں ۔۔ لیکن میں بہت تھک گیا ہوں ۔۔ بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ گئی ہے اسکرین پر نظریں جما جما کر آنکھیں دکھنے لگیں ہیں ۔۔۔ وہ اس سے کپ لیکر کر ٹیرس سے قدرے ہٹ کر کھڑا ہوگیا ۔۔ چونکہ فوجی پہرےدار رات کے وقت پہرے دے رہے تھے ۔۔۔
دیکھو ہمیں گپ شپ لگانے کی اجازت تو نہیں ہے لیکن اب اس سفر میں تنہا ہیں تو کسی چیز سے تو من بہلانا ہوگا ۔۔۔ کچھ بتائو اپنے بارے میں ۔۔۔ تم مزے دار انسان ہو ۔۔۔
وہ کپ لبوں سے لگاتی ہوئی بولی
ایک منٹ ؟؟ اسکی جازت نہیں ہے مطلب آپ سے باتیں نہیں کر سکتا ۔۔ معاملات شیئر نہیں کرستا ۔۔۔؟ فیصل ٹھٹکا ۔۔ بلکل ۔۔ نجی معلملات ۔۔ نجی زندگی کے متعلق !
مگر کیوں ؟؟
کیوں کہ دور اندیشی نے اس بات کو جنم دیا ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی بغاوت پر اتر آئے تو ۔۔ہمیں آسانی سے برباد کر سکتا ہے ۔۔ یعنی ہمارا سودا کرسکتا ہے دوسری ایجنسیز کے ساتھ ۔۔ ہمیں بیچ سکتا ۔۔ اسی لیئے !
اللہ نہ کرے ۔۔ میری دماغ میں آپ لوگوں کے متعلق ایسا خیال بھی آئے ! فیصل نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔۔۔
نایا اسکے انداز پر ہنس دی ۔۔۔
جب میں بہت چھوٹا تھا نا تب ابا فوج میں تھے ۔۔۔ آپریشن کے دوران انکا ہاتھ ضایع ہوگیا ۔۔انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا ۔۔۔ اور وہی افسوس ابا کی جان لے گیا ۔۔ ایک فوجی کے لئے ان کیفیات کو جھیلنا کتنا مشکلل ہوتا ہے جب اسے پتا چلے کہ وہ کبھی بندوق نہیں چلا پائے گا ۔۔۔
اماں بھی کچھ سال بعد چل بسیں ۔۔۔ چاچوں بھی شہید ہوگئے ۔۔۔ اکیلا میں بچ گیا ۔۔ دادی ۔۔ چچی ۔۔ آیت ۔۔تینوں کا عورتوں کا میں اکیلا سرپرست ۔۔۔دادی نے ہمیشہ میرے ناز اٹھائے ہیں ۔۔۔وہیں چیچی نے میری اچھی بری عادت پر بس طعنے ہی دیئے ہیں ۔۔۔ انکی اسی عادت نے مجھے ضد دلادی ۔۔۔۔ میں نے سوچ لیا کہ اب جو بھی کروں گا اپنے بل بوتے پر کروں گا ۔۔ چچا نے جانے سے پہلے آیت کو اور مجھے ایک رشتے سے باندھ دیا تھا ۔۔۔ وہ مجھے اچھی لگتی تھی ۔۔۔ لیکن وہ پسندیدگی بھی شاید بچپن کے ساتھ ہی کہیں ختم ہوگئی چچی کے طعنے سن سن کر اب مجھے آیت سے بھی چڑ ہونے لگی ہے ۔۔۔ اٹھارہ سال کی عمر میں آرمی میں اپلائی کیا تو نتیجہ زیرو نکلا ۔۔۔ اگلے سال پھر اپلائی کیا تو پتا چلا میری دائیں آنکھ میں بلائنڈ اسپاٹ ہے ۔۔۔ پھر علاج کروانے کے چند سال بعد اپلائی کیا تو کمانڈر نے کہا ۔۔ پتر تیری عمر نکل گئی ہے ۔۔۔
مجھے بہت غصہ آیا ۔۔۔ اتنا کہ میں فوجی کمانڈر کا ہاتھ جھٹک کر آگیا ۔۔ ہھر کبھی وہاں کا رخ نہیں کیا ۔۔ دل میں بہت بار خیال آیا جو میں نے خود ہی مسترد کردیا. ۔۔ چچی کو چچا کی ۔۔اور ہمیں ابا کی پینشن ملتی رہتی ہے انکا ہمارا گزارہ آرام سے ہوجاتا ہے ۔۔۔ لیکن اسکے باوجود وہ مجھے طعنے دینے سے باز نہیں آتی ۔۔۔ بھلا میرا کیا قصور ہے اگر میری نوکری نہیں لگ رہی تو ۔۔۔ کوشش تو کرتا ہوں ۔۔۔ اب سرکاری افسران کے جوتے میں نہیں گھس سکتا مجھ میں بھی انا اور وقار ہے ۔۔۔ اسے مجروع نہیں ہونے دے سکتا میں ۔۔۔ آیت کا نام لے لے کر خود کو موٹیویٹ کرتا رہتا ہوں ۔۔ اگر آیت سے شادی کرنی ہے تو کچھ بن کے دکھانا ہے ۔۔۔ لیکن سچ بات پوچھو نا ۔۔ آیت میرے دل سے اتر گئی ۔۔۔ اس نے ایک بار نہیں آکر مجھ سے پوچھا ۔۔۔ یا اپنی اماں کو سمجھایا ۔۔ وہ تو مجھے بچپن سے جانتی ہے ۔۔۔ اسکا لہجہ غمگین ہوگیا ۔۔۔
خوبیاں اور خامیاں ہم سب میں ہوتی ہیں فیصو ۔۔۔ بس انہیں اجاگر کرنے کا طریقہ آنا چاہیئے ۔۔
نایا نے دکھ بھری نگاہوں سے دیکھا ۔۔
جو بھی ہو میں کیپٹن جتنا پرفیکٹ نہیں بن سکتا کبھی ۔۔۔ جو کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل ہوتا ہے
وہ نا امید ہوا ۔۔۔
تمہیں کس نے کہا کہ وہ پرفیکٹ ہے اس میں بھی خامیاں ہوں گی ۔۔ لیکن اس نے خود کو اتنا مضبوط بنالیا ہے کہ خامیان کہیں دب کر رہ گئیں ہیں ۔۔۔ تمہیں پتا ہے جس رات ہم حلب میں رکے تھے ۔۔۔اس نے پوری رات جاگ کر ہم پر پہرہ دیا ۔۔۔ جب اس نے راستے میں سگریٹ سلگائی تو مجھے اندازہ ہوا ۔۔۔ وہ باہر سے جتنا بھی سخت نظر آئے سے بہت نرم دل ہے ۔۔۔ اسی طرح تم بہت حساس ہو ۔۔ اسی لئے تم ہر بات دل پر لے لیتے ہو ۔۔۔ دوسروں کی نظروں میں خود کو ثابت مت کرو۔۔ کیونکہ لوگوں کا نظریہ تو بدلتا رہتا ہے ۔۔ اپنے لئے کچھ کرو ! سمجھ گئے نا ؟؟؟
وہ جوابا مسکراتے ہوئے سر ہلانے لگا ۔۔ اندر سے وہ ابھی تک حیران تھا دائم کی حرکت پر ۔۔جسکا ظاہر باطن سے کتنا مختلف تھا
چلو۔۔تین بج چکے ہیں صبح اٹھنا بھی ہے ! وہ خالی کپ لئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
آپ چلیں میں آتا ہوں ۔۔وہ کہہ کر آسمان پر چمکتے تاروں کو گھورنے لگا ۔۔۔
____________________________________
تاشا تمہیں نہیں لگتا کہ ہم کڈنیپ ہوچکے ہیں !
انہیں بوسیدہ سے کمرے میں باندھ کر نقاب پوش جا چکے تھے ۔۔ کھڑکیوں سے آتی دن کی روشنی مدھم پڑ رہی تھی ۔۔ اور نوال کی ہمت بھی ۔۔۔ تاشا آنکھیں بند کیئے نہ جانے کس حساب کتاب میں مگن تھی ۔۔
یو مِین اغوا ؟؟؟ جوابًا فورا بولی ۔۔
تو اور اغوا کا مطلب پکنک ہوتا ہے بیوقوف !
نوال کو غصہ آیا ۔۔۔۔۔
جسٹ امیجن نوال۔۔۔ جیسے ہم نے فلموں اور ڈراموں میں دیکھا ہے ۔۔۔ کہ ایک بہت ہی ہینڈسم۔۔۔ خوبصورت۔۔۔حسین لڑکے کو جب کوئی لڑکی پسند آجاتی ہے تو وہ اسے کڈنیپ کر لیتا ہے ۔۔ اسکے ساتھ زبردستی شادی کرلیتا ہے !
اسکا تشویش ناک انداز نوال کی دھڑکنیں منتشر کرگیا ۔۔ ل ۔۔ل۔یکن رامس مجھے اغوا کیوں کرے گا یار ۔۔۔میں نے شادی کے لئے ہاں کر تو دی ہے !
نوال بے چارگی سے بولی ۔۔
بیوقوف میں اپنی بات کر رہی ہو ۔۔
تاشا بھڑکی ۔۔
کیا ؟؟ کہیں یہ تمہاری کارستانی تو نہیں ۔۔۔ مطلب کبھی خیالوں میں۔۔۔ تم نے ایسا سوچا ہو
نوال کو شک ہونے لگا ۔۔
ہاں ایک بار ۔۔ میں نے خواہش کی تھی کہ کوئی حسین سا بندہ مجھے بھی اغوا کرلے ۔۔۔ باقی سب نے تو مجھے فرینڈ زون کردیا ہے !
تاشا پر نہ جانے کونسا بھوت سوار تھا ۔۔۔۔
لعنت ہو تم پر تاشا ۔۔ اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی پھنسوا دیا ۔۔ اگر ایسے چِیپ قسم کے خواب دیکھنے ہوں تو مجھے ان میں نا ہی دیکھا کرو ۔۔ نوال نے اسے جھاڑا ۔۔۔
ایسے کیسے! تم میری دوست ہو تمہیں ساتھ لے کر ڈوبوں گی ! تاشا نے بے دھڑک کہا ۔۔
یار ایسی باتیں مت کرو تاشا ۔۔ مجھے خوف آرہا ہے ۔۔۔ میں پہلے ہی بے ہوش ہونے کے قریب ہوں ! نوال رودی ۔۔۔
چپ کرو یار ۔۔ مزاق کر رہی تھی ۔۔۔
اسی لمحے دروازہ کھلا اور دونوں نقاب پوش پھر سے نمودار ہوئے ۔۔۔
دیکھو ہمیں مارنا مت ۔۔ ہم تو نھنھی منی سی بچیاں ہیں بھلا ہمارا کیا قصور ! نوال گھبرا کر بولی ۔۔۔
ہا ۔۔ہاں سہی کہہ رہی ہے۔۔۔ کچھ لے دے کے معاملہ نپٹا لیتے ہیں ۔۔ مجھے پتا ہے تم کیا چاہتے ہو ۔۔۔
تاشا شرمیلی سی مسکان کے ساتھ بولی ۔۔
کیا؟؟ نواجوان چونکے ۔۔۔
تم نے مجھے یونیورسٹی میں دیکھا ہوگا ۔۔ ہے نا؟ پھر تمہیں میں پسند آگئی ۔۔ تم مجھے کڈنیپ کرلیا ۔۔ دیکھو تمہارے ارادے بلکل غلط نہیں ہیں لیکن یہ معاملات ایسے طے ہونے کے نہیں ہیں ۔۔تمہیں اپنے والدین کو میرے گھر ۔۔۔اےےےےے چپپپپ ایک دم چپپپپ ! کیا فالتو بکواس کر رہی ہو تم ۔۔ ہیں ؟؟؟ بند کر ۔۔۔ فورا سے پہلے منہ بند کر اسکا ! نوجوان کا صبر جواب دے گیا ۔۔۔ وہ اپنے ساتھی پر چلایا ۔۔۔
تاشا یہ کیا کردیا تم نے ۔۔ انہیں غصہ دلادیا
نوال بے بسی سے بڑبڑائی ۔۔
تُو چپپپپپ ۔۔ میں بھی کوئی ڈرتی ورتی نہیں ہوں سمجھے ۔۔؟؟؟ بارڈر کے پاس گھر ہے ہمارا تم جانتے نہیں ہو ابھی میرے بھائی کو ۔۔۔ تم جیسے چلغوزے کو تو روز یوسف بھائی چٹکیوں میں مسل دیتے ہیں ۔۔۔ یاد رکھنا تاشا نام ہے میرا ۔۔۔ تمہیں تمہاری نانی نہ یاد دلا دی تو کہنا!
بہت ہوگیا اس تاشا کا تماشہ ۔۔۔ اسکا منہ بند کر فورا سے پہلے ۔۔۔ وہ ساتھی جوان پر چیخا ۔۔ جو ہڑبڑا کر کپڑا اسکے لبوں پر جمانے لگا ۔۔۔
تاشا ستیاناس ہو تمہارا ۔۔۔ نوال دانت پیسنے لگی
وہ ہاتھ پیر مارتی غوں غوں کرتی رہ گئی مگر دونوں شخص دروازہ بند کرکے باہر نکل گئے ۔۔ ان دونوں نے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔۔
زاہد سرفراز زاہد ۔۔۔ فن نعت گوئی کا خوبصورت نگینہ
محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت...