پتا نہیں کیوں تاشا اپنی جگہ لیکن وہ نوال کے لئے الگ سے پریشان تھا ۔۔۔ اضطرابی کیفیت میں کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا جب رامس کو اپنی ماں کے ہمراہ آتا دیکھ کر ناگواری کے کئی بل اسکے ماتھے پر ابھرے ۔۔۔ دونوں خواتین رو رو کر ہلکان ہوئے جارہی تھی ۔۔ روشن ہر گزرتے پانچ منٹ کے بعد نصیبہ پھپھو کا بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی ۔۔۔ اس پر اب نوال کی ساس کے عجیب سوال ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترداف تھے ۔۔۔نصیبہ پھپھو کا جھکا سر مزید جھک گیا تھا ان کے سوالات سن کر
لائونج میں براجمان یہ تماشا دیکھتے یوسف کا صبر جواب دے گیا ۔۔۔ وہ انتہائی طیش کے عالم میں اٹھا اور شزانہ کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اسے گاڑی میں ڈال کر لے جانے لگا۔۔۔۔
یوسف۔۔۔رکو ۔۔۔!!
تصور بھائی بوکھلا گئے ۔۔۔
شاہین صاحب بھی یوسف ۔۔۔۔ یوسف ۔۔۔۔ کرتے رہ گئے ۔۔
مگر یوسف نے ایک نہ سنی ۔۔ وہ پہلے ان کی مان کر خاموش تھا کہ اغوا کار انہیں کال ضرور کریں گے ۔۔۔
مگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔۔۔
مارے گھبراہٹ کے اس کی ہتھیلیاں بھیگنے لگیں
پتا نہیں یوسف اس کے ساتھ کیا کرنے والا تھا ۔۔۔!! ہاتھوں کو مضبوطی سے آپس میں پیوست کیئے ۔۔ وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
پندرہ منٹ کی دوری پر آئوٹ آئوس تھا ۔۔۔جو اکثر ان کے خاص مہمانوں ، یا کبھی ایک آدھ دن فیملی ایونٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔۔۔ وہ اسے ویرانی آئوٹ ہائوس میں لے آیا تھا ۔۔جہاں ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔۔۔
شزانہ ہولے ہولے لرز رہی تھی ۔۔۔
وہ اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا اندر لے آیا ۔۔۔ زور سے اسے صوفے پر دھکیل کر دروازہ بند کردیا ۔۔۔
بیٹھ جائو یہاں سے ہلنا مت جب تک میں نہ کہوں
تحکم بھرا لہجہ تھا ۔۔۔
وہ کھڑی رہی ۔۔۔ اس ہتک آنسو گالوں پر لڑھک گئے ۔۔
میں نے کہا بیٹھ جائو ۔۔۔ وہ دھاڑا ۔۔۔
وہ خوفزدہ سی ہوکر بیٹھ گئی ۔۔۔
یوسف انتہائی غصے سے درمیان میں حائل میز کو ٹھوکر مار کر ہٹاتا ہوا اسکے مقابل بیٹھ گیا ۔۔۔
اب تم شروع سے لیکر آخر تک مجھے سب بتائو گی جھوٹ کی ملاوٹ کیئے بغیر ۔۔؟؟؟ انگلی اٹھا کر بولا
شزانہ نے ساری درد ناک کہانی لفظ بہ لفظ اسکے سامنے بیان کردی ۔۔
سب سننے کے بعد وہ بس بولا تو اتنا ہی کہ
تم پاکستان آئی ہی کیوں ؟؟؟ آنکھوں میں دنیا بھر کی ناپسندیدگی لیئے ایسے پوچھنے لگا جیسے پاکستان اسکی ملکیت ہو ۔۔ اتنی ناپسندیدگی ۔۔۔۔؟؟
اسے سبکی محسوس ہوئی تھی وہ شرمندگی سے سر نہیں اٹھا سکی تھی ۔۔اسکا دل کیا زمین میں گڑھ جائے ۔۔یا اس شخص کی نظروں سے کہیں دور چلی جائے ۔۔۔
مجھے میرا انِہیلر چاہیئے ۔۔ بند جگہوں پر دم گھٹتا ہے
یوسف کو اٹھتا دیکھ کر اس نے کمزور سی التجا کی ۔۔۔
دیکھو یہ ڈرامے بازیاں میرے ساتھ نہیں چلیں گی ۔۔ اب تم یہیں رہو گی جب تک۔۔۔
اسکی بات لبوں پر ہی دم توڑ گئی ۔۔ وہ بدحواس ہوکر ایک طرف لڑھک گئی ۔۔۔
شز۔۔۔ شزانہ؟؟؟؟
یوسف کو اب جاکر کہیں معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔۔
دل تو چاہ رہا ہے ۔۔۔تمہارے سب مرض کا علاج یہیں کردوں ۔۔۔ وہ سختی سے کہہ کر اسکا بازو کھینچتا ہوا باہر لے آیا ۔۔ اب وہ کیا کرتا بھی تو کیا ۔۔
کہاں سے لاتا انہیلر ؟؟؟ بند جگہ پڑے رہنے کے بعث ناگزیر سی بُو اسکی طبیعت خرابی کا باعث بن رہی تھی۔۔۔
پانی چاہیئے ؟؟؟؟ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نرم پڑا ۔۔
اسکا بازو ابھی بھی یوسف کی گرفت میں تھا ۔۔۔
اس نے نفی میں سرہلایا ۔۔ یوسف نے آہستگی سے اسکا بازو چھوڑا اور خاموشی سے اندر چلا گیا ۔۔۔
وہ فاتح کو کال ملانے لگا ۔۔ مگر اسکا نمبر مسلسل بند جا رہا ۔۔۔یوسف کی جھنجھلاہٹ اور پریشانی میں اضافہ ہونے لگا ۔۔۔ وہ ناحق اس پر لڑکی برہم ہو رہا تھا جبکہ اسکا رتی برابر قصور نہیں تھا ۔۔۔ بلکے وہ تو خود اس ظلم کا شکار ہوکر آرہی تھی ۔۔ اب اسکا ضمیر اسے ملامت کرنے لگا تھا
اندر چلو ۔۔
وہ پلٹ آکر اس سے مخاطب ہوا ۔۔
وہاں میرا دم گھٹ ہے ۔۔پلیزز
اس نے کمزور سا احتجاج کیا ۔۔۔ یوسف خفگی سے بھرپور نظر اس پر ڈالی۔۔تبھی اسکا فون رنگ ہوا ۔۔۔
غیر شناسا نمبر سے کال تھی ۔۔۔ زہن میں آنے والے پہلے خیال کے تحت اس نے فورا کال رسیو کرلی ۔۔۔وہ فون کان سے لگاتا وہاں سے ہٹا ۔۔۔
شزانہ درخت سے پشت ٹکا کر آنکھیں موند گئیں ۔۔
ہیلو ۔۔۔ ؟؟؟
وہ سب چھوڑو برخوردار ۔۔۔ اطلاع دینی تھی کہ تمہاری بہنہیں دراصل آج رات کے لئے ہماری مہمان ہیں ۔۔۔
بکواس بند کر ۔۔ وہ یک دم بھڑک اٹھا ۔۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ کھال ادھیڑ دیتا اس شخص کی ۔۔۔
کیا تکیلف ہے تم لوگوں ؟؟؟ کیا چاہیئے ۔۔؟؟؟
اس نے بہت تحمل سے پوچھا تھا ۔۔۔
ہماری لڑکی لوٹا دو ۔۔ اور اپنی لڑکیوں کو لے جائو صاف اور سیدھی بات ہے۔۔ورنہ ھانی کو ابھی تم جانتے نہیں ہو ۔۔۔ یوسف نے بے ساختہ درخت سے لگہ شزانہ کو دیکھا ۔۔
کیا اسے ان درندوں کے حوالے کرنا سہی فیصلہ ہوگا؟؟؟
فالتو دماغ مت چلائو ۔۔ سودا برا نہیں ہے شرافت سے ہماری لڑکی لوٹا دو ۔۔۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے ۔۔۔ اگلی کال تک فیصلہ کرلو ۔۔۔ وقت اور پتہ مل جائے گا۔۔۔۔
ساتھ ہی کال منقطع ہوگئی ۔۔
ھانی کون ہے ؟؟؟
وہ سیدھا اسکے پاس آیا تھا
اس سوال پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی ۔۔
یوسف نے اسکی آنکھوں میں بے پناہ خوف دیکھا ۔۔ ۔
مبارک ہو ۔۔۔ وہ شخص جان لینے اور دینے کی حد تک تم پر عاشق ہے ۔۔۔
کئی دیر بعد بھی جواب نہ پاکر وہ رکھائی اور زہر خند لہجے میں بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔
شزانہ ابھی تک شاک کی کیفیت میں تھی ۔۔
اس سارے مسلے کی جڑ اسکی زات تھی۔۔۔ بے چاری تاشا اور نوال ۔۔ جانے کس حال میں ہوں گی ۔۔ ؟
سوچ کر رہی وہ ملال اور شرمندگی کی اتھاء گہرائیوں میں گھِر گئی ۔۔۔ کسی نہج پر پہنچ کر وہ باہر کی جانب بڑھی مگر اسے یوسف کی گاڑی جاتی دکھائی دی ۔۔ وہ خارجی دروازہ باہر سے مفقل کر گیا تھا ۔۔۔ کوئی اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے؟؟؟ سب کچھ جاننے کے بعد بھی ؟ اس نے انتہائی بے بسی سے درخت کے تنے سے ٹیک لگالی ۔۔ نہ اندر جا سکتی تھی نہ باہر ۔۔!!
___________________________________
کتے ۔۔۔کمینے ۔۔۔۔حرامخور۔۔۔ تیری ایسی کی تیسی۔۔۔۔
دیکھا اسی لئے منہ بند کیا تھا اسکا ۔۔۔
اس سے پہلے وہ مزید القابات سے نوازتی نقاب پوش ساتھی سے مخاطب ہوکر بولا اور اسکا منہ دوبارہ باندھ دیا ۔۔۔
تاشا خونخوار نظروں سے گھورتی ہاتھ پیر چلانے لگی ۔۔۔ رک ابھی تیرے گھر والوں کو تیری خبر دیتا ہوں ۔۔۔
دیکھیں تو سہی تم جیسی مصیبت کے بغیر کیسے ہیں گھر والے کیسے عیش کررہے ہیں
وہ شخص خباست سے کہتا ہوا فون ملانے لگا ۔۔۔
ہیلو ۔۔؟؟؟۔ فون اسپکیر پر تھا اور یوسف کی آواز سن کر وہ دونوں جی اٹھیں ۔۔
وہ سب چھوڑو برخوردار ۔۔۔اطلاع دینی تھی کہ تمہاری بہنیں دراصل آج رات کے لئے ہماری مہان ہیں ۔۔۔
بکواس بند کر ۔۔۔
یوسف کی غصیلی آواز سن کر وہ شخص خباست سے مسکراتا ہوا ان دونوں کو دیکھنے لگا ۔۔۔
ہماری لڑکی لوٹا دو ۔۔۔ اور اپنی لڑکی لے جائو ۔۔۔ صاف اور سیدھی بات ہے ورنہ ھانی کو تم جانتے نہیں ہو ۔۔
وہ شخص اسپیکر آف کرکے فون کان سے لگاتا ہوا پلٹ گیا۔۔۔ تاشا اور نوال نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔۔۔
کیا ان لوگوں کا اشارہ شزانہ کی طرف تھا ۔۔۔؟؟؟
وہ دونوں بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں ۔۔ یوسف کی غصیلی طبیعت سے بخوبی واقف تھی
شزانہ بہت معصوم تھی ۔۔ان لوگوں سے سامنا ہونے کے بعد تو وہ بلکل نہیں چاہتی تھی کہ شزانہ کو ان لوگوں کے حوالے کیا جائے ۔۔۔ مگر یوسف کیا قدم اٹھانے والا تھا وہ دونوں ہی بے خبر تھیں ۔۔ تاشا کو اب غصہ آنے لگا۔۔۔
وہ مزاحمت کرنے لگی ۔۔۔
کیا تکلیف ہے لڑکی ؟؟ نقاب پوش نا پسندیدگی سے گھورنے لگا ۔۔۔ اور اسکا منہ کھول دیا ۔۔
کم از کم ہمارا منہ تو کھول دو بیوقوفو ۔۔ اب کیا بات بھی نہیں کر سکتا انسان حد ہوگئی ۔۔بور کردیا ۔۔۔
نقاب پوش اسکے تیور دیکھ کر خوشمگین نگاہوں سے اسے گھورنے لگا جیسے وہ پکنک منانے آئی ہو یہاں ۔۔ ؟؟
کچھ کھانے کو ہی دے دو ۔۔۔سخت بھوک لگی ہے ۔۔۔
اسے اب سخت گھبراہٹ ہونے لگی تھی ۔۔ اور نوال کا اترا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا ۔۔وہ کسی بھی وقت دھاڑیں مار مار کر رو دے گی ۔۔۔
وہ اس وقت اسے رونے نہیں دے سکتی تھی ۔۔۔
جبکے اسکا خود حوصلہ کمزور پر رہا تھا ۔۔ ابھی پوری رات پڑی تھی ۔۔۔
منہ بند کرکے بیٹھ ۔۔۔یہاں ایڈونچر کروانے نہیں لائے تمہیں ۔۔۔
اس شخص نے سختی سے اسے جھڑک دیا ۔۔۔
تھوڑا سا ہی دے دو۔۔۔
نوال کی گھوری کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈھٹائی سے بولی ۔۔ سنا نہیں تو نے خاموش رہ ۔۔ ہم خود دو دن سے بھوکے ہیں یہاں پر ۔۔
جھوٹ بول رہے ہو بھوکے ہوتے تو زندہ ہی ہوتے اور ایسے چپڑ چپڑ زبان چلا رہے ہوتے میرے ساتھ !
وہ بھی تاشا تھی ۔۔ اسکے پاس ہر سوال کا جواب تھا ۔۔۔ بکواس بند کر ورنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منہ بند کردوں گا !
کرکے دکھائو ۔۔ میرا نام بھی تاشا ہے ۔۔۔ اتنی آسانی سے ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں ! آیا بڑا ہلاکو خان ۔۔۔
اس شخص کے ضبط کا پیمانہ چھلک پڑا ۔۔
ارے اےےے بہت سن لی اسکی چخ چخ اسکا منہ بند کر ورنہ میں کچھ کر ڈالوں گا !
وہ اپنے ساتھی پر چلا اٹھا ۔۔۔
ننہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔بس اب نہیں بولو گی ۔۔ پکا ۔۔تمہاری قسم ۔۔۔ تم مر جائو اگر جھوٹ بولوں تو ۔۔۔ پلیز ۔۔۔پلیز
وہ روانی جانے کیا کیا بول گئی ۔۔۔ بھوکی رہ سکتی تھی مگر منہ چلائے بغیر قطعی اسکا گزارہ نہیں تھا
آخری بار کہہ رہا ہوں زبان بند رکھنا اپنی ! آخری وارننگ پر فرمانبردای کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے اس نے سر ہاں میں ہلایا ۔۔۔ اور سکون کا سانس لیا ۔۔
دونوں شخص دروازہ بند کرکے باہر نکل گئے ۔۔ اس نے کرسی گھسیٹ کر نوال کر سر سے سر جوڑ لیا ۔۔۔وہ جانتی تھی ۔۔۔نوال ضبط کیئے بیٹھی تھی کہاں تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو پڑتی تھی اور کہاں آج اتنی بڑا حادثہ پر بھی نہیں روئی ۔۔
یوسف بھائی کب آئیں گے تاشا ! نوال کی آواز میں نمی گھلنے لگی ۔۔۔
جلد ہی آئیں گے ۔۔۔ پتا نہیں بے چاری شزا کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہوگا گھر میں ۔۔۔ تاشا نے خدشے کو زبان دی ۔۔ جوابا نوال خاموش رہی ۔۔اس نے آنکھیں موند لیں تھی ۔۔۔
یہ دن بہت بھیانک اثرات چھوڑ کر جانے والا تھا انکی زندگی میں۔۔
___________________________________
فیصل نیند سے اونگھ رہا تھا ۔۔ جب دائم کی چپت نے اسے ہڑبڑا کر سیدھا ہونے پر مجبور کردیا ۔۔
تمہیں ان لوگوں پر نظر رکھنے کے لئے کہا تھا
وہ اسکی توجہ اسکرین کی جانب دلانے لگا ۔۔۔جہاں محل کی فوٹیج چل رہی تھی۔۔۔
اتنی گہری نظر تو میں نے کبھی اپنی محبوبہ پر بھی رکھی جتنی ان لوگوں پر رکھی ہے پھر آپ کو مجھ ہی گلہ ہے
وہ زیر لب بڑبڑتا ہوا سیدھا ہوا ۔۔۔
ذرا زور سے چونچ ہلائو میں بھی سنو تم کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے ! دائم کرسی کی پشت پر ہاتھ جما اسکی طرف جھکا ۔۔۔
ک ۔۔۔کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔ اس نے دانت دکھاتے ہوئے
دائم کے فولادی بازوئوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا
کہیں غصے میں اسے دو دھر ہی نہ دے ۔۔۔
کوئی ابھی ابھی بلیک سوٹ بوٹ میں اندر گیا ہے ۔۔۔
نایا کی آواز نے دونوں کو چونکے۔۔۔جو چائے کا کپ لئے ان کی گفتگو سن رہی جبکہ اسکا پورا دھیان اسکرین پر تھا ۔۔ یہ کس قسم کا بیگ ہے اسکے ہاتھ میں ؟؟؟
عام طور پر دستاویزات رکھنے کے کام آتا ہے ۔۔ ہو سکتا ضروری ڈاکومنٹس ہوں ۔۔
دائم کے چہرے سوچ کا سایہ لہراہا ۔۔
کیا پتہ پیسے ہوں ؟ فیصل روانی میں بولا ۔۔ جبکے وہ دونوں ٹھٹھکے ۔۔
ا۔یسے ہی بول دیا میں نے ۔۔ ٹھیک ہے اب نہیں بولوں گا میں ۔۔ وہ گڑبڑا گیا ۔۔
ہی از رائٹ ؟؟؟ ہو سکتا ہے یہی وہ شخص ہو ۔۔مینجر یا پارٹنر میں سے ایک؟؟
نایا کی پیشن گوئی پر دائم نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
ہم اسی وقت اسکا پیچھا کریں گے ۔۔ فیصل تم ہیہیں رہو اور ہمیں اپڈیٹ کرتے رہنا !
وہ دونوں عجلت میں ضروری اشیاء اٹھا کر باہر نکل گئے ۔۔ بینک کے پارکنگ لاٹ سے کار لی اور مین شاہراہ پر انتظار کرنے لگے ۔۔۔
ہم اندر کیوں نہیں جارہے ؟؟ وہ الجھ کر سوال کرنے لگی ۔۔ اگر میں غلط نہیں ہو تو اسکے پاس ایسا کچھ ہے جو یا تو کہیں منتقل کرنا چاہتا ہے ۔۔ جیسے کہ بینک وغیرہ میں۔۔۔ یا پھر کسی تک پہنچانے والا ہے۔۔ وہ یہاں سے گزرے گا ! طمانیت سے بولا ۔۔
فیصل کہاں ہے وہ شخص ؟؟؟
وہ گاڑی میں بیٹھ رہا ہے ۔۔۔ لیکن اسکے پاس وہ بیگ نہیں ہے جو وہ اندر لے کر گیا تھا ۔۔ اسکے پاس ایک لارج سائز کا
سوٹ کیس ہے ! فیصل کی بات پر وہ دونوں چونکے ۔۔
تم سارے انٹرینس ایگزٹ پر کڑی نگاہ رکھو ۔۔ اگر آئے تو ہمیں بتانا ۔۔۔ دائم نے اسے حکم دیا ۔۔
میرے مطابق وہ اب ایئرپورٹ جائے گا !
نایا کی بات پر اس نے بھی استفادہ کیا ۔۔ چند ہی پلوں میں گاڑی ان کے پاس سے گزری تو وہ اسکا پیچھے کرنے لگے ۔۔ انکا شک بلکل درست تھا ۔۔ وہ شخص پہلے انٹرنیشنل بینک گیا اور اسکے بعد ایئرپورٹ سے فلائٹ لے کر نکل گیا ۔۔۔
اب وہ دونوں ایئرپورٹ کے باہر تخمینہ لگانے میں جتے ہوئے تھے ۔۔۔
تم کہاں جا رہی ہو اب ؟؟ اسے نکلتے دیکھ کر پوچھا ۔۔
پتا لگانے کہ وہ کہاں گیا ہے ؟؟؟
خیال کرنا ۔۔ وہ سرسری سا بولا ۔۔ مگر نایا نے ٹھہر کر چند پل اسے گھورا ۔۔ اسے آج تک کام کے دورانیے میں کسی نے سرسری سا بھی ‘خیال کرنا’ نہیں کہا تھا ۔۔
کس کا؟؟؟ وہ پوچھ بیٹھی
دائم نے بغور اسکی نیم مسکراتی آنکھوں میں دیکھا اور سر جھٹک کر باہر دیکھنے لگا
ایز یو کمانڈ کیپٹن۔۔
جواب نا پاکر وہ خود ہی جواب اخذ کرتی زیر بڑبڑاتی ہوئی بغور ایئرپورٹ کا جائزہ لیتی اندر چلی گئی ۔۔
عجیب لڑکی ہے ۔۔ وہ سوچ کر رہ گیا
ھانی تو آیا ہی نہیں کیپٹن۔۔ مجھے لگتا ہے وہ یہاں نہیں ہے !
ایک بات بتائوں فیصل ، پہلی بار تم نے صحیح اندازہ لگایا ہے ۔۔ مجھے بھی لگتا ہے وہ یہاں نہیں ہے!
دائم کی بات سن کر فیصل مسکرا اٹھا ۔۔۔
اب دیکھو آفیسر کیا پتا لگاتی ہیں ۔۔
نایا کو آتے دیکھ کر وہ سیدھا ہوا ۔۔
وہ اسرائیل کی فلائٹ سے واپس گیا ہے ۔۔۔ اس مہینے یہ اسکی چوتھی فلائٹ تھی یہاں پر! جس کا مطلب ہے وہ صرف پیسہ ٹرانسفر کرنے کے لئے یہاں آتا ہے ۔۔
دائم نے پرسوچ انداز میں اگنیشن میں چابی گھمائی اور گاڑی واپسی کے راستے پر ڈال دی ۔۔۔
______________________________________________
یوسف اضطراب کی حالت میں کمرے کے چکر کاٹ رہا تھا ۔۔ سارے وجود چپ سادھے ہوئے تھے اس کی بات سن کر ۔۔۔ البتہ شاہین صاحب اس بات پر اٹل تھے کہ وہ کسی صورت شزانہ کا سودا نہیں کریں گے ۔۔۔ آخر کو وہ معصوم بھی کسی کی بیٹی تھی ۔۔ اور سب کچھ جاننے کے بعد تو اب یوسف کا دل بھی کسی ایک کونے سے کہہ رہا تھا کہ درمیانہ راستہ نکالا جائے ۔۔ اُسے دوبارہ اس جہنم میں نہیں دھکیلنا چاہیئے ۔۔۔
یہ لڑکی ہی اس گھر میں منہوس ثابت ہوئی ہے ۔۔ پہلے یوسف اور بھائی کے بیچ کی لڑائی ۔۔۔اور پھر میری بچیاں ۔۔ نصیبہ پھپھو شزانہ کوسنے لگیں ۔۔
نصیبہ ۔۔ عقل سے کام لو ۔۔ پہلے یوسف اور اب تم پیچھے ہی پڑ گئی معصوم کے ۔۔
شاہین صاحب سے سختی سے ٹوکا ۔۔۔
آپ جو بھی کہہ لیں اس سب کے زمہ دار آپ ہی ہیں ۔۔یوسف سہی کہتا تھا ۔۔۔
نصیبہ پھپھو غم و غصے سے نڈھال ہونے لگیں ۔۔۔
شاہین صاحب غصے سے باہر نکل گئے ۔۔۔
یوسف کو کوئی درمیانہ راستہ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔ اغوا کاروں کی کال کسی بھی وقت آسکتی تھی ۔۔۔
اچانک اسے شزانہ کا خیال آیا ۔۔ صبح سے شام سے ہوچکی تھی اپنی ٹینشن میں بھول گیا تھا اسے جہاں چھوڑ آیا ہے
وہ کس حال میں ہوگی ۔۔۔یا ۔۔شاید بھاگ گئی ہو ۔۔؟
وہ عجلت میں گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکل گیا
ّوہاں پہنچا تو وہ شزانہ جوں کی توں درخت کے تنے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔ تیز ہوا نے اسکے گھنگریالے بالوں کو درہم برہم کردیا تھا ۔۔۔ اسکی چہرے کی معصومیت نے یوسف کو نظریں چرانے پر مجبور کردیا ۔۔
اسکی جانب بڑھا ہوا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔۔۔
وہ کشمکش میں مبتلا تھا اسے بتائے یا نہ بتائے ۔۔ اسکے پاس سوائے اسے واپس بھیجنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔۔۔
اسکا دماغ پر غنودگی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔ اچانک کسی احساس کے تحت وہ بری طرح سے ڈر کر بیدار ہوئی ۔۔ اور آنکھوں میں بے تحاشا حیرانی لئے یوسف کو دیکھنے لگی ۔۔ وہ کب آیا ؟؟
اندر چلو ۔۔ کہتا ہوا آگے بڑھا ۔۔
شزانہ نے آنکھیں مسلیں اور کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ یوسف عجیب سی بے چینی اور اضطراب میں گھرا ہوا تھا ۔۔
میں کہنا چاہتی تھی ۔۔۔کہ میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں ۔۔ اس نے بہت ہمت کرکے کہہ دیا ۔۔۔
یوسف نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔
کیوں ؟؟ جب تک نوال اور تاشا نہیں مل جاتیں تم کہیں نہیں جائو گی ۔۔ اسکے بعد جہاں دل چاہے چلی جانا
اسکے لہنے میں تلخی در آئی ۔۔
شزانہ کو اب شدید تشویش لاحق ہو نے لگی تھی ۔۔
آخر وہ کرے بھی تو کیا ؟
دونوں اپنی جگہ اضطراب میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔ اور مشکل سے نکلنے کا حل تلاش کر رہے تھے ۔۔
اس بات سے بے خبر کہ یوسف کو پتا چل چکا ہے۔۔ اور وہ بدلے میں اسکا سودا بھی کر چکا ہے ۔۔۔ شزانہ دل ہی دل میں ان کے لئے دعاگو تھی ۔۔۔ رات گہری ہورہی تھی ۔۔
سوچ سوچ کر اسکی شریانیں پھٹنے کو تھیں ۔۔
اسے بھوک پیاس کی بھی پرواہ نہیں تھی
سو جائو اگر تمہیں سونا ہے تو ۔۔
وہ چاہنے کے باوجود کھانے کا نہیں پوچھ پایا اس سے ۔۔۔ آپ بھی آرام کرلیں ۔۔۔ نہیں بھاگوں گی بے فکر رہیں ۔۔ کم از کم تاشا نوال کی خبر مل جانے تک ۔۔
وہ اسکے خدشات کو زبان دینے لگی ۔۔۔ اور اٹھ کر کھڑکیوں کے پٹ وا کر دیئے اسکا دم گھٹ رہا تھا ۔۔۔ بند کمرے میں عجیب سی بو اسکے حواسوں پر بھاری پڑ رہی تھی ۔۔ خاموشی سے کشن برابر کیا ۔۔ اور لیٹ گئی ۔۔ لائونج میں ملگجہ سا اندھیرا تھا ۔۔ یوسف نے روشنی جلانے کی زحمت نہیں کی ۔۔ جبکہ اسے بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔۔ ویسے بھی اسکی زندگی میں اب اندھیروں کے علاوہ اور کیا رہ گیا تھا ۔۔
______________________________________________
درباس کو کمانڈر کے ارادوں سے بغاوت کی بو آرہی تھی ۔۔۔ جس رات وہ جیپ لے کر شہر کی جانب گیا تھا اسے تبھی انداز ہوگیا تھا کچھ نہ کچھ چل رہا تھا اسکے دماغ میں ۔۔۔ جب حقیقت کھلی تو وہ شاکڈ رہ گیا ۔۔۔ ہنوز بے یقین تھا ۔۔کمانڈر اسکی ناک کے نیچے اتنا سب بھی کر سکتا تھا ۔۔۔ اسے پیٹھ میں چھرا گھونپا جانا پسند نہیں آیا تھا۔۔۔
کمانڈر کا انجام تو وہ سوچ چکا تھا ۔۔
اس سے پہلے ایک ضروری کام نپٹانا تھا ۔۔ وہ عمارا کو لے کر یہاں سے کسی محفوظ مقام پر لے جانا چاہتا تھا ۔۔۔ مگر کہاں؟؟
اسی خام خیالی میں غرق تھا کہ غیر ارادی طور پر اس کا دھیان عمارا کی جانب گیا ۔۔ جس کا ہاتھ آہستگی زمین پر رینگتا اسکے پاس پڑے چاقو کی جانب بڑھ رہا تھا ۔۔ وہ اندر محفوظ سا ہوکر چاقو اٹھا کر اسکی طرف بڑھانے لگا ۔۔ عمارا نے ایکدم سٹپٹا کر رخ موڑ لیا ۔۔
کیا ہوا ؟؟ نہیں چاہیئے ؟ وہ بظاہر سنجیدگی سے بولا ۔۔
م ۔۔میں کیا کروں گی اس کا ! وہ ہکلائی ۔۔
چلو ۔۔ تم اتنا اصرار کر رہی تھی نا۔۔۔ تمہاری خواہش پوری کیئے دیتے ہیں ! وہ فیصلے پر پہنچ کر کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
کیا مطلب ؟ میں گھر جا رہی ہو ۔۔ تم مجھے میرے گھر چھوڑ رہے ہو ! وہ جی اٹھی ۔۔
نہیں ۔۔ اسکا کھلتا چہرہ یک دم ماند پڑ گیا ۔۔
کیوں ؟؟ وہ الجھی ۔۔
کیوں کہ تمہیں اب میرے ساتھ رہنا ہے عمر بھر ۔۔ وہی شائستہ اور محبت سے لبریز لہجہ ۔۔اور لو دیتی نرم نگاہیں ۔۔ عمارا کا دل کیا اس شخص کو کہیں غائب کردے ۔۔ میں شادی شدہ ہوں ۔۔ تمہیں شرم آنی چاہیئے ۔۔
وہ غرائی ۔۔
تو۔۔؟ مجھے کوئی اعتراض نہیں ویسے بھی تم ہی نے کہا تھا کہ تمہارا شوہر مر چکا ہے ! وہ بے نیازی سے بولا
وہ شہید ہوا ہے ۔۔ شہید کہو اسے اور ایک بات کان کھول کر سن لو ۔۔ وہ جہاں بھی ہو ۔۔ میں ہمیشہ اسی کی بن کر رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں مگر یہ بات تم جیسے ڈھیٹ اور جلاد صفت لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔۔۔ وہ بول کر غصیلی سانسیں لینے لگی ۔۔۔
درباس کئی دیر تک اسکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھتا رہا ۔۔ چلو ۔۔ یہاں سے
وہ اگلے ہی پل بولا ۔۔
کیا ۔۔۔؟ کہاں ؟
تم نے خود ہی کہا ہم جیسے لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔۔تو مجھے لگتا ہے سمجھنے میں وقت برباد نہیں کرنا چاہیئے ۔۔ چلنا چاہیئے ! وہ کہتا ہوا اسکی کلائی کھینچنے لگا ۔۔۔
سارے راستے عمارا دماغ میں عجیب سے خدشات پلنے لگے ۔۔۔ کبھی وہ جیپ سے کودنے کا سوچتی تو ۔۔ کبھی اسکا دھیان اسکی پشت کے ابھار کی جانب جاتا ۔۔۔جہاں اس نے ریوالور اڑس رکھی تھی ۔۔۔ کئی بار بڑھا ہوا ہاتھ واپس کھینچ لیا ۔۔ اسی کشمکش میں جیپ رک گئی ۔۔
وہ اس کا منتظر راستے پر نگاہیں بچھائے کھڑا تھا مگر وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی ۔۔
درباس کو مجبوراً ذبردستی اپنے ساتھ گھسیٹنا پڑا ۔۔۔
عمارا کا دھیان ریوالور پر اٹکا ہوا تھا ۔۔
اس کا ہاتھ چھوڑ کر دروازہ کھولنے میں مصروف تھا جب عمارا نے اس کی ریوالور اپنے قبضے میں لے لی ۔۔
وہ چونک کر مڑا ۔۔۔اور داد بھری نظروں سے دیکھنے لگا ۔۔
وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی
۔۔ م۔۔۔مجھے گھر جانا ہے ! وہ اپنی بات بھول گئی تھی ۔۔
یہ تو کوئی دھمکی نہیں ہوئی ؟ وہ ہنس پڑا ۔۔ اور دروازے کے پٹ وا کرکے اسکی جانب متوجہ ہوا ۔ ۔۔
میں ۔۔گولی ماردوں گی سچ میں اس نے تھوک نگلا ۔۔ سیفٹی کیچ تو ہٹا لو ۔۔ وہ دیوار سے ٹیک لگا کر فرست سے اسکی شکست انجوائے کرنے لگا ۔۔
عمارا نے بے اختیار ریوالور کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔۔ اسکے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی سیفٹی کیج کسے کہتے ہیں ۔۔ اسے اس وقت بے حد غصہ آیا ۔۔ وہ غصے سے ریوالور اسکے سینے پر مار کر اندر آگئی ۔۔۔درباس کا جاندار قہقہ بہت دور تک گونجا ۔۔
_____________________________________________
وہ تینوں نایا کی انفارمیشن کے مطابق اس شخص کے نام کے کئی لوگوں کی جانچ پڑتال کر چکے تھے ۔۔مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا ۔۔ یا یہ بھی ممکن تھا کہ اس شخص کی شناخت نکلی ہو ۔۔ لیکن انہیں تلاش جارہی رکھنی تھی ۔۔ دائم گھڑی پر ایک نگاہ ڈال کر باہر نکل گیا ۔۔ ان سب کو بھوک پیاس کی فکر نہیں تھی ۔۔ مگر دائم کو احساس تھا ۔۔ سو یہ کام اس نے اپنے زمے لے لیا تھا ۔۔
فیصل بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا تھا سو وہ اٹھا اور بے مقصد چکر کاٹنے لگا ۔۔۔ تبھی ایک دم سے نسوانی چیخیں بلند ہونے لگیں ۔۔ وہ دونوں اپنی جگہ ٹھٹھکے ۔۔
ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ کسی نے بہت زور سے دروازہ بجایا ۔۔ ایک پل کو لگا جیسے اگلے لمحے دروازہ ٹوٹ جائے گا ۔۔
نایا برق رفتاری سے اٹھی اور فیصل کے قدموں کو ضرب لگا کر زمین پر جھک گئی ۔۔ وہ جو شاک میں تھا تیورا کر گرا ۔۔ فرش پر قالین بچھے ہونے کے بعث آواز پیدا نہ ہوسکی ۔۔ اس نے سختی سے اسکا منہ دبا کر آواز پیدا ہونے سے روکا ۔۔۔ فیصل کے ہاتھ پیر حرکت کرنے سے عاری تھے ۔۔وہ اس حد تک خوفزدہ ہوچکا تھا ۔۔ نسوانی چیخوں کی آوازیں ابھی تک آرہی تھی ۔۔۔ شاید فوجی پھر سے نہتے شامیوں کو نشانہ بنا رہے تھے ۔۔۔ جسکے بعث کوئی بہت زور سے بند پڑے داخلی دروازے سے ٹکرایا ۔۔ نتیجتاً وہ دونوں سانس روکے زمین پر لیٹے ہوئے تھے ۔۔۔
کوئی بری طرح سے شہری کو پیٹ رہے تھے ۔۔ اچانک سے آوازیں آنا بند ہوگئی ۔۔۔یک لخت سناٹا چھایا گیا ۔۔ مدھم سسکیوں کی آوازیں سنائیں دینے لگیں ۔۔۔
پلیزز ۔۔۔پلیزززز اسے بچا لیں اسکی مدد کریں ورنہ ۔۔ وہ مر جائے گی ۔۔ فیصل کا دل کانپنے لگا ۔۔۔
نایا نے گھورتے ہوئے اسکے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ فیصل نے بے بسی سے پیشانی زمین سے ٹکائی اسکا دل چاہ رلا تھا باہر جائے اور سارے وحشی درندوں کو قطار میں کھڑا کرکے ان کے سینے گولیوں سے چھلنی کردے ۔۔۔۔
جنہوں نے سفاکی کی حد پار کردی تھی
غیر ارادی طور پر اسکی نظر دروازے کی نیچے سے آتی روشنی کی طرف پڑی ۔۔۔ وہ دنگ رہ گیا ۔۔ دو سرد آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ مردہ عورت کے سر سے خون کی قطاریں دروازے کے راستے اندر کی جانب آرہی تھی ۔۔۔ فیصل کا رنگ وحشت ناک حد تک پیلا پڑ گیا ۔۔
وہ ہاتھوں کے بل خود کو گھسٹتا ایسے دور ہوا جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو ۔۔ نایا کا دل خون خون ہوگیا ۔۔۔
وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ لڑکی ۔۔۔مرگئی ! فیصل بری طرح کانپنے لگا ۔۔۔ اسے ابھی بھی دو بے نور نگاہیں خود پر جمی محسوس ہو رہی تھیں ۔۔
فیصل ریلیکس ۔۔۔ اٹس اوکے ۔۔
اسکا وجود کپکپی کی زد میں تھے ۔۔۔ پورا جسم پسینے سے شرابور ہورہا تھا ۔۔۔
نوووووو ۔۔۔۔ اٹس ناٹ اوکے ۔۔۔ اٹس ۔۔۔۔۔ناٹ ۔۔۔۔۔۔اوکے آفیسر! وہ چلا اٹھا ۔۔۔
فیصل ۔۔۔ ہوش کرو ! وہ گھبرا گئی ۔۔۔
یہ بہت غلط ہے ۔۔۔بہت
مجھ سے یہ دیکھا نہیں جا رہا ۔۔۔ مجھے واپس جانا یے ۔۔۔ مجھے واپس بھجوائیں ۔۔۔ یا کم از کم یہاں سے کہیں اور چلیں ۔۔ میں نہیں دیکھ سکتا یہ سب ۔۔۔ کوئی اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے ! اس نے سر پکڑ لیا ۔۔۔۔
ریلیکس ۔۔ لو پانی پیئو ! وہ خود کو نارمل ظاہر کرنے لگی ۔۔۔ بیشک وہ لوگ No’ obsession ‘ کا مخوٹہ پہن کر یہاں آئے تھے ۔۔۔ مگر جو کچھ بھی یہاں ہورہا تھا ۔۔ سراسر انسانیت کی توہین تھی ۔۔ انسان کے لئے خاموش رہنا کتنا مشکل تھا ۔۔۔ ہر کسی کا ضمیر اسے کچوکے لگا رہا ہوگا ۔۔ ہر کوئی ان ظالموں کو روکنا چاہتا ہوگا ۔۔۔ مگر وہ سب اٙن دیکھی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔۔ کسی کو اپنی جان عزیز تھی ۔۔ کسی کو اپنا مال ۔۔۔ کسی کو اولاد۔۔۔ کسی کو دولت ۔۔۔ اور انہیں سب مفاد سے بالاتر ہوکر اپنا وطن عزیز تھا ۔۔۔ صرف اپنا وطن
فیصل ابھی تک ٹرانس کی کیفیت میں سر تھامے بیٹھا تھا ۔۔۔نایا بھی خاموش تھی ۔۔ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ اس معصوم لڑکی کی موت کا سوگ منارہے تھے ۔۔۔
اسی وقت دائم بھی آگیا ۔۔ وہ دیکھ چکا تھا سب ۔۔ بس فوجیوں کے منظر سے ہٹ جانے کے انتظار میں تھا ۔۔۔
تم دونوں کو اور کوئی کام نہیں ہے جو منہ لٹکائے بیٹھے ہو ۔۔۔ کھانا کھائو اور اپنے اپنے کام پر لگ جائو !
مجھے بھوک نہیں ہے ! فیصل اٹھا اور واشروم میں چلا گیا ۔۔۔ اس نے کبھی اتنا ظلم اور بربریت اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی تھی ۔۔۔وہ بری طرح سے ڈسٹرب ہوگیا تھا ۔۔۔ آج تیسرے دن یہ دوسرا حادثہ دیکھا تھا اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا ۔۔۔ روسی بہت سفاک تھے ۔۔ وہ کافرانہ روش اپنائے ہوئے تھے ۔۔ سوال یہ تھا کہ وہ شہریوں کو نشانہ کیوں بنا رہے تھے ؟؟؟
اور پہلے سوال یہ اٹھتا تھا کہ یہ ملک ان حالاتوں میں کیوں تھا ۔۔۔!!!
دراصل اس سب کی شروعات سات سال پہلے ہوئی ۔۔۔ سات سال قبل شام کے صدر (بشار الاسد) کے خلاف ہونے والے پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی جس میں( اب تک ) ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔۔۔ اور اس سے متعدد شہر اور قصبے بھی تباہ ہو گئے۔۔۔
لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی بہت سے شامیوں کو صدر اسد کی حکومت سے بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کی شکایتیں تھیں۔۔۔
مارچ (2011) میں جنوبی شہر دیرا میں پڑوسی عرب ملکوں کے ‘عرب سپرنگ’ سے متاثر ہو کر جمہوریت کے حق میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تشدد پھوٹ پڑا۔
حکومت نے اسے کچلنے کے لیے مہلک طاقت کا استعمال کیا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہونے لگا جن میں صدر اسد سے استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
مظاہروں اور انھیں دبانے کے لیے طاقت میں شدت آتی گئی۔ حزبِ مخالف کے حامیوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے اور انھیں پہلے اپنے دفاع اور بعد میں سکیورٹی فورسز سے لڑنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔
صدر (بشار الاسد)نے کہا کہ مظاہرے ‘بیرونی پشت پناہی سے ہونے والی دہشت گردی’ ہے، اور عزم کیا کہ وہ انھیں کچل کر رہیں گے۔ مگر کچھ کام کار نہ آیا
تشدد پھیلتا چلا گیا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔
[جس کے نتیجے میں( اب تک)
(مارچ 2018 )شام میں 353,900 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے، جن میں 106,000 عام شہری ہیں۔
اس تعداد میں وہ 56,900 افراد شامل نہیں ہیں جو یا تو غائب ہیں یا پھر ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ مر چکے ہیں۔]
[ جن میں 119,200 عام شہری ہیں ۔۔۔ صرف اتنا ہی نہیں
بلکے یہ جنگ صرف (بشار الاسد ) صدر اور ان کے مخالفین کے درمیان محدود نہیں رہی۔ اس میں متعدد تنظیمیں اور متعدد ملک ملوث ہو گئے جن میں ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ ]
شام میں ایک طرف مذہبی جنگ ہو رہی ہے، جس میں سنی اکثریت صدر اسد کی علوی شیعہ اقلیت سے نبردآزما ہے۔
دوسری طرف ملک کے اندر بدامنی سے دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کو وہاں قدم جمانے کا موقع مل گیا ۔۔۔
شام میں رہنے والے کرد الگ ہیں جو سرکاری فوج سے تو نہیں لڑ رہے لیکن اپنے لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔
شامی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل ہے، جب کہ امریکہ، ترکی اور سعودی عرب باغیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
روس نے شام میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں اور اس نے (2015 سے) بشار الاسد کی حمایت میں فضائی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے پانسہ صدر کی حمایت میں پلٹ گیا ہے۔
روسی فوج کا کہنا ہے کہ وہ صرف ‘دہشت گردوں’ کو نشانہ بناتی ہے، لیکن امدادی کارکنوں کے مطابق وہ حکومت مخالف تنظیموں اور شہریوں پر بھی حملے کرتی ہیں۔
دوسری طرف ایران کے بارے میں خیال ہے کہ اس کے سینکڑوں فوجی شام میں سرگرمِ عمل ہیں اور وہ صدر اسد کی حمایت میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
ایران ہزاروں شیعہ جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے۔ زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق لبنان کی حزب اللہ سے ہے، لیکن ان میں عراق، افغانستان اور یمن کے شیعہ بھی شامل ہیں۔ یہ سب شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔۔۔۔
اور دوسرے مغربی ممالک باغیوں کو مختلف قسم کی مدد فراہم کر رہا ہے ۔۔۔ ایک بین الاقوامی اتحادی فوج (2014) سے شام میں دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہی ہے۔ ان کی وجہ سے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نامی باغی دھڑے کو بعض علاقوں پر تسلط قائم کرنے میں مدد ملی ۔۔۔
سعودی عرب کو فکر ہے کہ شام میں ایران اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، اس لیے وہ باغیوں کو اسلحہ اور پیسہ دے رہا ہے۔۔۔
جبکے۔۔
اسرائیل کو تشویش ہے کہ حزب اللہ کو ملنے والا اسلحہ اس کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، اس لیے وہ بھی شام میں حملے کر رہا ہے۔۔۔غرضیکہ شام کے مسلمان ہر طرف سے پس رہے ۔۔۔
اعوام کے مصائب جنگ کی وجہ سے لاکھوں اموات کے علاوہ کم از کم 15 لاکھ شامی مستقل معذروی کا شکار ہو چکے ہیں، جب کہ 86 ہزار افراد ایسے ہیں جن کا کوئی عضو ضائع ہوا ہے۔۔۔
(بےگھر ہونے والوں کی کل تعداد 61 لاکھ ہے جب کہ 56 لاکھ دوسرے ملکوں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔۔۔۔
حکومت نے ملک کے اکثر بڑے شہروں پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں اب بھی بڑے پیمانے پر ایس ڈی ایف کے باغیوں کا کنٹرول ہے)
(موجودہ صورتِ حال کے مطابق)
باغیوں کے قبضے میں سب سے بڑا صوبہ ادلب ہے جس کی آبادی 26 لاکھ ہے۔
ادلب کو ‘غیر جنگی علاقہ’ قرار دے دیا گیا ہے، لیکن اسکے باوجود حکومتی فوج اس پر یہ کہہ کر حملے کرتی رہتی ہے کہ یہاں القاعدہ کے جنگجو چھپے ہیں۔۔۔۔۔
نہ جانے اور کتنی کچھ سہنا باقی تھا ان شامیوں کی قسمت میں ۔۔۔ ان تنازعوں کا تصفیہ جنگ سے نہیں بلکے سیاسی مزاکرات سے حل ہو سکتا تھا ۔۔۔
اور صدر اسد حزب مخالفت بات کرنے سے کترا رہے ہیں ۔۔۔ جبکہ باغی اس بات پر مصر ہیں کہ صدر استعفی دیں ۔۔۔ مخالف ضدی روش اپنائے ہوئے ہیں جبکے لا چار اور بے بس شامی ناحق ان خانہ جنگی حالاتوں کی چکی میں پس رہے ہیں ۔۔۔
_____________________________________________
فیصل پورے پندرہ منٹ واشروم میں گزار کر آیا ۔۔۔ اسکا
سرخی مائل چہرہ بہت کچھ بیان کر رہا تھا ۔۔
دائم نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اس وقت کیا محسوس کر رہا ہوگا ۔۔۔ ارادہ اسے سبکی دلانے کا تھا نہ کہ اسکے اندر کے خوبصورت ہمدردانہ احساس کو ختم کرنا۔۔
میں نے سنا تم واپس جانا چاہتے ہو ؟؟؟
فیصل نے چونک کر سر اٹھایا
نہیں ۔۔۔مختصر سا کہا اور دوبارہ سر جھکا لیا ۔۔۔
میں نے کہا نا ،میں نے خود سنا ہے تمہیں یہ کہتے ہوئے !
وہ زور دے کر بولا ۔۔
میں کمزور پڑ گیا تھا! فیصل نا دم سا ہو کر سر جھکاگیا ۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے تم کمزور ہو ؟ یا وہ شامی کمزور ہیں تمہاری نظر میں ۔۔۔ ؟ جو ظلم سہہ رہے ہیں ۔۔ نہیں فیصل نہ تو تم کمزور ہوں نہ شامی کمزور ہیں ۔۔۔ دراصل وہ لوگ بے بس ہیں ۔۔۔ اور جن معاملوں میں ہمارا بس نہ چلتا ہوں ان معاملات سے دور رہنا ہیں بہتر ہے ۔۔۔ انہیں اپنی مدد خود کرنا ہوگی ۔۔ اگر وہ چاہیں تو مار مار کر روسی فوجیوں کو دو کوڑی کا کردیں ۔۔۔ لیکن انکا مفاد آڑے آجاتا ہےجو کہ انسان کا فطری عمل ہے
اور ہم یہاں انکی مدد کرنے نہیں آئے ۔۔۔ ہم یہاں اپنی مدد کرنے آئے ہیں ۔۔۔ جو 216.6 ملین کی آبادی ہم پیچھے چھوڑ کر آئے ہیں ۔۔۔ وہ ہمارے ہم وطن ہونے سے پہلے انسان ہیں ۔۔ مسلمان ہیں ۔۔۔ ان لوگوں نے بہت سی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی ہے ۔۔ اور ہمیں اس آزادی اور ان کے تحفظ دونوں کو برقرار رکھنا ہے ۔۔۔ ورنہ ان جیسا حال ہمارا بھی نہ ہو کہیں ۔۔۔ فیصل خاموش رہ گیا ۔۔۔
انہیں بھی آزادی کے لئے وقت درکار ہے ۔۔۔ قربانیاں درکار ہیں ۔۔۔ اللہ بہت جلد ان کی سنے گا ۔۔ہم سوائے دعا کے اور کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔
وہ آہستگی سے بولا
اب ۔۔۔ پہلے تم یہ ملک چھوڑو گے ۔۔۔ پھر ہم یہ گھر ۔۔۔
فیصل کا سر بے ساختہ نفی میں ہلا ۔۔
میں ۔۔۔ مجھ سے ۔۔ غلطی ہو گئی میں معافی مانگتا ہوں ۔۔دائم بھائی ۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا قسم سے ۔۔ میں تو ۔۔۔وہ بات ادھوری چھوڑ کر رنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ پلیز ایک آخری بار یہ غلطی معاف کردیں ۔۔۔ آئندہ دھیان رکھو گا ۔۔۔پلیزززز ! وہ منت سماجت کرنے لگا ۔۔۔
لیکن دائم رحم کھانے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔
کھانا کھا لو ۔۔ اسے جیسے کوئی فرق نہیں پڑا ۔۔
نہیں کھائوں گا ! وہ ناراض بچے کی طرح منہ بناتا ہوا بولا ۔۔
دائم اسے مکمل نظر انداز کیئے کھانے میں مصروف نظر آنے لگا ۔۔۔
پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر معاف کردیں نا !
دوسری بار ہوا ہے ایسا ۔۔۔
دائم نے اسے یاد دلانا ضروری سمجھا ۔۔
ہاں چلیں دوسری غلطی سمجھ کر معاف کردیں ۔۔
غلطی دوسری بار کی جائے تو وہ بے وقوفی کہلاتی ہے ۔۔
وہ بخشنے کے موڈ میں نظر نہیں آیا
اچھا چلیں جو بھی ہے بھائی ۔۔
فیصل کو اس سے بحث مہنگی پڑنے لگی ۔۔
“کیپٹن” ۔۔۔ وہ رک کر اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
ہاں وہی ۔۔ وہ فورا بولا ۔۔
کیا وہی ؟ دائم نے اس زچ کردیا۔
ارے ‘کیپٹن ‘
دائم جوابً خاموش رہا ۔۔
تو میں ہاں سمجھوں ؟؟ فیصل نے اسکی خاموشی کو نیم رضا مندی گردان کر پوچھا تھا ۔۔
میں نے ایسا تو نہیں کہا ۔۔۔
آپ نے جواب بھی تو نہیں دیا ۔۔
اسکا مطلب یہ بھی تو نہیں کہ تم اپنی پسند کے مطلب اخذ کر لو۔۔ فورا جواب آیا ۔۔
بھئی کیا مسلہ ہے ۔۔۔۔ وہ زچ ہوکر پیر پٹخنے لگا ۔۔۔
دائم زیر لب مسکرایا ۔۔ جس کا نوٹس صرف نایا نے لیا ۔۔فیصل منہ پھلائے کمپیوٹر کے آگے واپس جم گیا ۔۔ اور وہ دونوں کھانا کھانے کے بعد مختلف کاموں میں جٹ گئے ۔۔
Aftab sikender آفتاب سکندر
Aftab sikender آفتاب سکندر