چلو شاعری کا موڈ ہو رہا ہے میں تمہیں سناتا ہوں اور اس کا۔جواب تم سے رات کو لوں گا ” احسن نے دھیمی آواز میں اسے سنانا شروع کیا تو وہ اس کی آواز کے سحر میں ہی ڈوبی جا رہی تھی ساتھ ساتھ وہ گاڑھی چلا رہا تھا اور ساتھ ہی اسے اپنی آواز کے سحر میں باندھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ اگر یہ کہہ دو بغیر میرے نہیں گزارہ، تو میں تمہارا
یا اس پہ مبنی کوئی تاثر کوئی اشارا، تو میں تمہارا
غرور پرور، انا کا مالک، کچھ اس طرح کے ہیں نام میرے
مگر قسم سے جو تم نے اک نام بھی پکارا ، تو میں تمہارا
تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو، میں جیسے چاہوں لگاؤں بازی
اگر میں جیتا تو تم ہو میرے، اگر میں ہارا ، تو میں تمہارا
تمہارا عاشق، تمہارا مخلص، تمہارا ساتھی، تمہارا اپنا
رہا نہ ان میں سے کوئی دنیا میں جب تمہارا ، تو میں تمہارا
تمہارا ہونے کے فیصلے کو میں اپنی قسمت پہ چھوڑتا ہوں
اگر مقدر کا کوئی ٹوٹاکبھی ستارا تو میں تمہارا
یہ کس پہ تعویز کر رہے ہو؟یہ کس کو پانے کے ہیں وظیفے؟
تمام چھوڑو بس ایک کر لو جو استخارہ ، تو میں تمہارا۔۔۔۔دھیمی لے میں پڑھے گئے یہ اشعار فاطمہ کو اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوئے تھے احسن نے گاڑی ایک خوبصورت ریسٹورنٹ کے آگے روکی تھی اور پھر دروازہ کھول کر فاطمہ کو بھی گاڑھی سے نکالا تھا ریسٹورنٹ میں رش بہت زیادہ نہیں تو بہت کم بھی نہ تھا پرسکون ماحول فاطمہ کو بہت اچھا لگا تھا روشنیوں میں وہ احسن کا چہرہ آسانی سے دیکھ سکتی تھی جو اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک ٹیبل پر لے کر گیا تھا جہاں پہلے سے ہی ایک کپل موجود تھا احسن کو دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے
“شکر ہے تم آگئے ورنہ ہم انتظار کر کر کے تھک چکے تھے ” بولنے والی لڑکی تھی
“سوری یار تھوڑی دیر ہو گئی میں فاطمہ کے تیار ہونے کا انتظار کر رہا تھا ” فاطمہ نے احسن کو گھورا جو الزام اس کو دے رہا تھا ۔۔اس لڑکی نے فاطمہ کو بہت غور سے دیکھا
“بھئی تعارف تو کرواؤ”
“فاطی یہ ثانیہ ہے ۔۔۔۔اور ثانیہ یہ فاطمہ میری بیوی ”
فاطمہ نے بہت حیرانگی سے اسے دیکھا تھا اسمارٹ سی وہ اسے بہت پیاری لگی تھی لیکن ساتھ کھڑا شخص کون تھا؟
“فاطی یہ مرتضیٰ ہے ثانیہ کا شوہر ” احسن کے تعارف کروانے پر فاطمہ کے چاروں طبق روشن ہوئے تھے یعنی وہ شادی شدہ تھی اور احسن اسے اب بتا رہا تھا
“اسلام علیکم بھابھی ۔۔۔” فاطمہ نے جواب دیتے ہوئے آہستہ سے سر ہلایا تھا
” واہ بھئی پتہ تھا مجھے کہ تم کوئی ایسا۔پیس ہی چنو گے ” ثانیہ نے احسن کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو وہ ہنس دیا جبکہ فاطمہ کو عجیب لگا
” بھابھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ لوگ ایسے ہی ہیں پچھلے ایک سال سے یہ دونوں جو حرکتیں مل کے کر رہے ہیں اس حساب سے میرا خیال ہے یہ میراسی ہی ہیں اور ایسا کہنا ہمارا حق بنتا ہے ” مرتضیٰ کی بات پر ثانیہ نے اسے گھورا تو باقی سب بھی ہنس پڑے
“فاطمہ تمہارا شوہر جو ہے نا وہ تو ایک نمبر کا فراڈیا ہے ” ثانیہ نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اس کی درگت بنائے گی
“پچھلے دنوں ہم نے اسے شاپنگ کرنے کے لیے بلایا لیکن مجال ہے اس نے ایک روپیہ بھی خرچ کیا ہو ”
“چلو بس کرو اور کیا کھاؤ گے آرڈر کرو ” احسن نے بات کا رخ بدلا تھا اور کھانے کا آرڈر کیا وہ لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اس دوران فاطمہ نے بھی محسوس کیا کہ وہ دونوں صرف دوست ہی ہیں ثانیہ بھی اب فاطمہ سے گپیں مار رہی تھی وہ بہت ملنسار اور خوش مزاج لڑکی تھی کم از کم ثانیہ کے ملنے سے فاطمہ کی غلط فہمی تو دور ہوئی تھی جو پچھلے چںد مہینوں سے اس کو احسن سے دور رکھے ہوئے تھی ۔۔۔
“دو دن بعد ہماری ویڈنگ انیورسری ہے ۔۔۔فاطمہ تم ضرور آنا ۔۔مجھے اچطا لگے گا ” فاطمہ نے احسن کی طرف دیکھا تو وہ ہنس دیا
“تمہاری مرضی ہے یار جب کہو گی میں تمہیں لے جاؤں گا میں تو آپ کا غلام ہوں ” اس نے شرارت سے کہتے ہوئے سر جھکایا تو وہ نروس ہوتی سر جھکا گئی
“بھابھی یہ بات تو آپ کو ماننا پڑے گی کہ احسن بہت اچھا شوہر ہے ۔۔۔جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تب بہت سی لڑکیاں احسن کو پرپوز کر چکی تھیں لیکن اس نے کسی بھی لڑکی کو رسپانس نہیں دیا ” مرتضیٰ نے احسن کو آنکھ ماری تو احسن نے اس کو آنکھیں نکالیں
“اچھا بس کرو اب تم لوگ ۔۔۔تم جو اپنی بیوی کا پلو ہی نہیں چھوڑتے وہ کیا ہے ”
“بھئی ہماری تو لو میرج تھی ۔۔۔” مرتضی نے شرمانے کی ایکٹنگ کی
“میری بھی لو میرج ہی ہے وہ اور بات ہے کہ گھر والوں نے خود ہی شادی کر دی ” احسن نے فاطمہ کو استفہامیہ انداز میں دیکھا تو اس نے آنکھیں سکیڑیں
“ویسے ایک بات ماننا پڑے گی ” ثانیہ نے احسن کو متوجہ کرتے ہوئے کہا
“کونسی بات ”
“یہی کہ تمہاری چوائس کمال کی ہے ۔۔۔تم دونوں کا کپل بہت پیارا ہے ” اب کی بار احسن کھل کر مسکرایا تھا جبکہ فاطمہ کے لبوں پر بھی مسکراہٹ تھی
“تھینک یو ” فاطمہ ہولے سے بولی تھی
وہ لوگ کچھ دیر بیٹھ کر پھر اجازت لیکر آ گئے تھے فاطمہ کو دلی طور پر اب سکون تھا اب تک وہ احسن کو قصور وار ہی ٹھہراتی آ رہی تھی لیکن اب وہ سوچ رہی تھی کہ کچھ زیادہ ہی اسے تنگ کر لیا پورے راستے وہ خاموش آئی تھی احسن بھی خاموش تھا کیونکہ اب اسے ہی بولنا تھا اور نہ صرف بولنا تھا بلکہ اب تو اظہار کی باری تھی گاڑی سے نکل کر وہ ڈائریکٹ کمرے میں گئی تھی احسن کی قربت میں وہ اور بھی کنفیوز ہو جاتی ۔۔۔دل پر ہاتھ رکھ کر وے گہری گہری سانسیں لینے لگی ۔۔۔کچھ خیال آنے پر وہ احسن کے بک ریک کی جانب گئی تھی بکس کے پیچھے پڑے ہوئے شاپنگ بیگ نکالے تو اس کی حیرت کی انتہا نہیں رہی تھی بہت سارے گفٹس تھے جو صرف فاطمہ کے لیے تھے اسے ہئیر بینڈ ،رنگز ،چوڑیاں، اور پائل بہت پسند تھیں چھوٹی چھوٹی ہر چیز کے مختلف رنگوں کے جوڑے تھے جو نہ جانے کتنے ہی تھےفاطمہ کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار نکلے ۔۔۔اس نے وہ تمام گفٹس بیڈ پر رکھے اور باری باری سب کو غور غور سے دیکھتی ۔۔ابھی اسے چند منٹ ہی ہوئے تھے جب احسن کمرے میں آیا تھا اسے یہ سب سامان بکھیرے دیکھ کر ایکدم ٹھٹکا تھا لیکن پھر اپنے آپ کو نارمل کرتا وہ فریش ہونے چلا گیا تھا اس نے کوئی بات نہیں کی تھی کیونکہ وہ اسی کے انتظار میں تھا جب باہر آیا تو فاطمہ اسی حالت میں بیٹھی تھی اور روئے جا رہی تھی وہ اسے چپ کروانا چاہتا تھا لیکن وہ کچھ تو بولتی ۔۔۔۔چپ چاپ جا کر وہ اس کے پاس کھڑا ہو گیا ۔۔۔گیلے بال۔۔ گلے میں تولیہ ڈالے وہ باہر نکلا تھا فاطمہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور اس کے چوڑے سینے میں اپنا منہ چھپا کر رونے لگی ۔۔احسن کے لیے یہ غیر متوقع تھا اس نے بھی فاطمہ کے گرد اپنی بانہوں کا گھیرا بنایا اور اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا تھا وہ اسے چپ نہیں کروا رہا تھا بلکہ رونے دے رہا تھا تاکہ وہ سارا غبار نکال لے
“ایم سوری ۔۔۔احسن۔۔۔م۔۔۔میں جانتی ہوں آپ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں ۔۔ل۔۔لیکن میں بھی تو ۔۔۔” آگے مزید اسے بولا نہیں جا رہا تھا احسن نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر اس کے کانپتے لبوں کو چھو کر معتبر کیا تھا
“لیکن کیا فاطی۔۔۔؟ بولو نا میں ترس رہا ہوں کب سے ”
“میں بھی آپ سے بہت پیار کرتی ہوں ” اس نے ہکلاتے ہوئے بات مکمل کی تھی لیکن احسن کو لگا تھا کہ دونوں جہاں کی خوشیاں اسے ہی مل گئی ہوں اس نے فاطمہ کو پھر اپنے ساتھ لگا لیا تھا اور اس کے بال سہلاتے ہوئے اس نے فاطمہ کے سر پر اپنے لب رکھ دیے
“فاطی ایم سوری یار ۔۔۔جب میں نے انکار کیا تب پتہ نہیں تھا کہ تم ہی میرے دل کی دھڑکن بن جاؤ گی میں نے ہولے ہولے محسوس کیا کہ میں تمہارے بنا کچھ نہیں ہو میرے اندر تم بستی ہو ۔۔۔مجھے میری جان سے بھی پیاری ہو ۔۔۔” وہ اب اس کے ہاتھ کو پکڑ کر انگلیوں کی پوروں کو چوم رہا تھا فاطمہ اس کے چوڑے سینے میں سر چھپائے ہوئے تھے جب اسے احساس ہوا کہ قربت کے یہ لمحات بہت حساس ہیں تو فورا وہاں سے ہٹی تھی
“کہاں جا رہی ہو ۔۔۔” احسن نے پیچھے سے آواز دی تھی
“آپ کی شرٹ پریس کرنے لگی ہوں ” بہانہ اچھا تھا جو احسن کا ہاتھ چھڑوا کر بھاگی تھیاور وہ صرف مسکرا کر رہ گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
(پروین شاکر)
فاطمہ کو لگا تھا کہ احسن سو گیا ہے اس لیے وہ کافی دیر بعد کمرے میں آئی تھی آتے ہی پہلے وہ احسن کو غور سے دیکھنے لگی شاید اندازہ لگا رہی تھی کو وہ سو گیا ہے جب یقین ہو گیا تو دوسری طرف آ کر لیٹ گئی اور لائٹ آف کر کے آنکھیں بند کر لیں ،ابھی کچھ لمحے ہی گزرے تھے جب اس کے کانوں میں سرگوشی ہوئی تھی
“تمہیں کیا لگا تھا میں سو گیا ہوں ؟” احسن اس کے پاس بہت قریب تھا یہاں تک کہ احسن کی سانسیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھیں جب کہ دل زور زور سے دھڑکنے لگا
” اب تم مجھ سے نہیں بچ سکتی ۔۔۔” اس نے شرارت سے کہتے ہوئے فاطمہ کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا تنگ کیا تھا
“وہ۔۔۔وہ مجھے نیند آرہی ہے۔۔” فاطمہ نے بہانہ بنانا چاہا لیکن احسن نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ دی اور پھر اس کے ماتھے پر پیار کیا
“تمہاری نیند میں بھگاتا ہوں ۔۔۔ڈونٹ وری ”
“پلیز نا سونے دیں “اس نے التجائی انداز میں کہا تو وہ ہنس دیا
“اب تو تم میرے ہاتھ آئی ہو اور چھوڑ بھی دوں۔۔۔ایسے کیسے ” احسن نے کہتے ہوئے اسے اور قریب کیا تھا وہ اس کے دل کی دھڑکن آسانی سے سن سکتی تھی
” مانو بلی ہو تم میری ” اب وہ اس پر اپنا پیار لٹا رہا تھا جبکہ وہ مزید گھبرائی تھی
” تمہیں یاد ہے نا گاڑی میں،میں نے کچھ سنایا تھا اب اس کا جواب مجھے دو ”
“مجھے نہیں آتا جواب ” اس نے دو ٹوک جواب دیا تھا
“ارے کیسے نہیں آتا تم نے وعدہ کیا تھا ”
“وعدہ توڑنے کے لیے ہی ہوتا ہے مائی ڈئیر ہسبینڈ ” فاطمہ نے کہتے ہوئے لاڈ سے اس کے گلے میں بازو ڈالے تھے اور اس کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا
“تمہیں تو میں بتاتا ہوں ” احسن اب اسے گدگدی کرنے لگا تھا ہنس ہنس کے اس کا برا حال ہو گیا
“اچھا ۔۔اچھا ٹھہریں سناتی ہوں ” اس نے اپنے لب احسن کے کان کے پاس کیے اور سرگوشی کرنے لگی جبکہ احسن بھی اس کی طرف متوجہ تھا اس نے بھی فاطمہ کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیرا کیا اور آنکھیں موندیں اسے سننے لگا جو اس کے بہت پاس تھی ،،،،۔۔۔۔۔۔
چلو جنگل سے ہو آئیں
کوئی جگنو پکڑ لائیں
گھنی چپ کے اندھیرے میں
نگاہیں جگمگا جائیں
سنو میلے میں چلتے ہیں
کسی ٹھیلے پہ چلتے ہیں
خریدیں برف کے گولے
جو ہونٹوں پہ پگھلتے ہیں
آؤ پانی بھریں دونوں
کسی دریا پہ جا ٹھہریں
کوئی پکا سا گھر دیکھو
صحن میں بیج بوتے ہیں
کریلوں کی نہیں دیکھو
مجھے وہ زہر لگتے ہیں
توری کی دھانی ریشم سی
نئی اک بیل اگاتے ہیں
یہاں یہ سب بہت مشکل
چلو ہم چاند پہ جاکر
نیا اک گھر بناتے ہیں
۔۔۔۔
سرگوشی کرتے ہوئے اس کے لب احسن کے کانوں کو ٹچ کر رہے تھے اور وہ اپنے آپ کو معتبر گردان رہا تھا ۔۔۔
محبت کی یہ کہانی اپنی تکمیل کو پہنچ چکی تھی اس کے دل کی ملکہ تو تھی ہی لیکن اب باقاعدہ راج کر رہی تھی
ہاں وہ اسی کی تھی ۔۔کیونکہ اس کے لیے بنائی گئی تھی ۔۔۔جب کہ وہ تو تھا ہی اس کا
اس کے دل کے قریب ۔۔۔اس کا اپنا ۔۔۔
محبت کے دو دیوانے آج مل گئے تھے
ان کا ملنا امر ہو گیا تھا
کیونکہ احسن کی محبت لازوال تھی اس کے لیے
جو اس کی اپنی تھی ۔۔۔اس کی بیوی تھی ۔۔۔اس کی محبت تھی ۔۔
** *** ***
بہت خوبصورت ہو تم۔۔۔۔۔۔
کبھی میں جو کہہ دوں محبت ہے تم سے
تو مجھ کو خدارا غلط نہ سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم۔۔۔۔۔۔
ہے پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہے خاموش جادو نگاہیں تمہاری
جو کانٹے ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاوں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانہ کی خود کو بچانا
کسی اور سے دیکھو دل نہ لگانا
کہ میری آمانت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم۔۔۔۔۔۔
ہے چہرہ تمہارا کہ دن ہے سنہرا
اور اس پر یہ کالی گھٹاوں کا پہرہ
گلابوں سے نازک مہکتا بدن ہے
یہ لب ہیں تمہارے کہ کھلتا چمن ہے
بکھیرو جو زلفیں تو شرمائے بادل
یہ پاگل بھی دیکھے تو ہوجائے پاگل
وہ پاکیزہ مورت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم۔۔۔۔۔۔
جو بن کے کلی مسکراتی ہے اکثر
شب ہجر میں جو رلاتی ہے اکثر
جو لمحوں ہی لمحوں میں دنیا بدل دے
جو شاعر کو دے جائے پہلو غزل کے
چھپانا جو چاہے چھپائی نہ جائے
بھلانا جو چاہے بھلائی نہ جائے
وہ پہلی محبت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم۔۔۔۔۔۔
ختم شد
زاہد سرفراز زاہد ۔۔۔ فن نعت گوئی کا خوبصورت نگینہ
محمد زاہد سرفراز کا ادبی نام زاہد سرفراز زاہد ہے۔ آپ کا شمار عہدِ حاضر کے نوجوان شعرا میں نعت...