میرے شہر والے……20
وحید مراد….ندیم
عید مبارک
اچھے دنوں میں عید کے دن ایک بڑی خوشی نئی فلم دیکھنے کی ہواکرتی تھی. عام طور پر تو نئی فلم کا افتتاح جمعہ کے "مبارک" روز ہو کرتا تھا لیکن عید سے قبل ساری فلمیں عید کے دن ریلیز کرنے کیلئے روک دی جاتی تھیں.
ںئی فلم کا ایک لطف تو اہل خانہ کے ساتھ جاکر دیکھنے میں آتا تھا جس کیلئے ایڈوانس بکنگ کرائی جاتی تھی تاکہ نازک اندام خواتین کو ٹکٹ خریدنے کی دھکم پیل سے بچایا جائے. سینما ھال کے باہر ھجوم ٹکٹ کی تگ ودو میں ہلکان ہورہا ہوتا تھا اور ہم گھر کی خواتین کے ساتھ شاہانہ انداز میں بالکونی کی طرف بڑھ رہے ہوتےتھے.
دوسرا لطف دوستوں کے ساتھ عید کا پہلا یا دوسرا شو دیکھنے میں آتا تھا. ٹکٹ کیلئے جدوجہد یا بعض اوقات "بلیک" سے جب ٹکٹ ہاتھ میں آتے تھے تو گویا دونوں جہاں کی بادشاہی ہاتھ آجاتی تھی.
عید کے دن لگنےوالی فلم چاہے تیسرے درجہ کی بھی ہو، مزہ دیتی تھی.
نوجوانوں کے آئیڈیل اس دور میں نہ تو سیاسی رہنما تھے نہ کوئی کھلاڑی وغیرہ. ہر لڑکا اپنے آپ کو محمدعلی، وحید مراد یا ندیم سمجھتا تھا اور لڑکیاں خود کو زیبا، شبنم اور شمیم آرا سمجھتی تھیں.
چاکلیٹی ہیرو …
نوے فیصد لڑکیوں کی خوابوں کا شہزادہ چاکلیٹی ھیرو یعنی ان کا "ویدو" تھا.
ہمیں اس دور میں وحید مراد کبھی پسند نہیں آیا. وجہ اسکی یہ تھی لڑکیوں کی پسند ناپسند کا پیمانہ صرف ایک تھا اور وہ تھا، وحید مراد ، اگر آپکا رنگ گندمی، آنکھیں موٹی موٹی اور خاص کر بال آدھی پیشانی کو ڈھانپتے ہوئے ہیں اور آپ میں کم از کم تیس چالیس فیصد مماثلت وحید کی ہے تو آپ صنف نازک کی توجہ پاسکتے ہیں.
ہمارا ہاتھ چونکہ ان معاملات میں کچھ تنگ تھا چنانچہ اور تو کچھ نہیں کرسکتے بس وحید کو اپنا رقیب سمجھ سکتے تھے.
کچھ باہمت نوجوان اپنے بالوں کو پیشانی پر گرا کر اور آواز کو وحید کی طرح "ٹیلیفونک " بنا کر نوجوان خواتین کی توجہ پانے کی کوشش کرتے ہوئے اکثر بس اسٹاپس اور گرلز اسکول اور کالج کے آس پاس منڈلاتے رہتے اور اکثر وبیشتر نشان عبرت بنے ہوتے.
وحید مراد کبھی بھی بھی بہت بلند پایہ یا ورسٹائل فنکار نہیں رھے. لیکن انھوں نے ایک مدت تک ایک عالم کو سحرزدہ کر رکھا تھا. ان کا نام کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت تھا. ھندوستان اور پاکستان میں بہت سےرومانوی ہیروآئے،لیکن جس انداز کی رومانی اداکاری وحید کرتے تھے وہ انکے پرستاروں کے دلوں کو چھولیتی تھی. گانوں اور رقص کی فلمبندی میں تو شاید اب تک کوئی ان کا ہم پلہ سامنے نہیں آیا . (میرے ھندوستانی دوست یو ٹیوب پرانکے گانے دیکھ سکتے ہیں)
دلیپ کمار کا نعم البدل
وحید کے سحر سے نوجوانو کو جس نے آزاد کرایا وہ نہ تو وحید مراد کی سی سحر انگیز شخصیت کا مالک تھا نہ اس میں وہ گلیمر تھا جو وحید کا خاصہ تھا.لیکن اس کی سادگی سے پر اداکاری نے نئی نسل کے دل پر ایسا قبضہ جمایا جو چار عشروں تک قائم رہا اور آج بھی وہ "سپراسٹار" مانا جاتاہے.
پاکستان میں ہندوستانی فلموں پر ساٹھ کی دہائی کے ابتدائ سالوں (غالبآ سن چونسٹھ یا پینسٹھ) میں پابندی لگ چکی تھی. ندیم کی شکل میں فلم بینوں کو دلیپ کمار کا نعم البدل مل گیا تھا (راجکپور کی کمی اداکار کمال پوری کردیتے تھے).
ندیم جو گلوکاری میں قسمت آزمائی کیلئے مشرقی پاکستان چلے گئےتھے وہاں ایک اتفاق کے نتیجے میں فلم چکوری کے ہیرو بن گئے. چکوری نے وہ تاریخ ساز کامیابی حاصل کی جو شاید اب تک بر صغیر کے کسی ہیرو کے حصےمیں نہیں آئی یعنی انکی پہلی ہی فلم سو ہفتے سے زیادہ چلی.
اس کے بعد ندیم نے مڑ کر ہیں دیکھا.
ندیم کی مقبولیت نے وحید کی شہرت کے چاند کو گہنا دیا جو بالآخر انکی زندگی کے افسوسناک خاتمے کا سبب بنی. لیکن عام زندگی میں یہ دونوں ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے.
آج عید کے موقع پر کراچی کے ان دونوں سپر اسٹارز کا شکریہ جنھوں نے کبھی ہماری زندگیوں میں خوشی کے رنگ بکھیرے تھے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔