میرے شہر والے ….38
عثمان آزاد کا "انجام" ….فخر ماتری کا حرّیت
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
برطانیہ کے قومی ہیرو امیر البحر نیلسن کے شہر ناروچ میں ایک ہزار سالہ قدیم کلیسا کی زیارت کے دوران میں عبادتگاہ کے عظیم الشان اندرونی ھال کی تصویریں اور ویڈیو بنانے میں مصروف تھا کہ ایک معمر گارڈ جسکے گلے میں بھاری سی بندوق حمائل تھی میری جانب آیا. میں نے دونوں کیمرے بند کرنا شروع کئے .اتنے میں بڑے میاں قریب آچکے تھے. آتے ہی سوال کیا کہ میں نے کون کون سی چیزوں کی تصویر کشی کی ہے. ایک تو خدا کا گھر دوسرے برطانیہ جیسا ملک جہاں ہماری طرح آسانی سے جھوٹ بولنے کی سہولت نہیں ہے. میرے بتانے پر اس انھوں نے ہال کے لمبے چوڑے مرکزی دروازے کے اوپر روشندان نما شیشے پر نہایت خوشنما رنگوں کی مینا کاری میں یسوع مسیح اور کنواری مریم کی شبیہات اور دلفریب گل بوٹوں کی طرف اشارہ کیا کہ ان کی تصویر بنائی یا نہیں. میں سوچ رہا تھا شاید اسکی تصویر بنانے کی ممانعت ہو،کہ بڑے صاحب نے بتانا شروع کیا کہ فلاں سن میں فلا ں ہنری نے یہ تصویر بنوائیں اور فلاں سال میں فلاں ایڈورڈ نے اس میں اور تبدیلیاں کیں. میں ہونقوں کی طرح انکی طرف دیکھ رہا تھا. یہ سب بتاتے ہوئے بڑے میاں کے چہرے کا فخر اور خوشی مجھے اج تک یاد ہے.
کہنا یہ ہے کہ قومیں اپنے ماضی پر شرمندہ نہیں ہوتیں اور اپنی یادگاروں کی حفاظت کرتی ہیں اور دنیا کے سامنے انھیں فخر سے پیش کرتی ہیں.
بدقسمتی سے اپنے دیس میں ایسا کوئی رواج نہیں.
اس مملکت خداداد کی تشکیل کے ساتھ جہاں بہت سوں نے نوزائیدہ ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے کیلئے دن رات ایک کردئیے وہیں ایسی قوتیں بھی بر سر کار رہیں جو اس ملک کو زوال کی جانب دھکیلتی رہیں. نتیجتاً پچیس سال کے اندر ہی ملک دولخت ہو گیا. ہم نے بجائے کوئی سبق سیکھنے کے،ایک عجیب سی بے حسی کی روش اپنالی.
تلخ نوائی کی معافی چاہتاہوں کہ آج میں سر اونچا کرکے اپنے شہر کی کوئی بات نہیں کر رہا بلکہ ہماری مجموعی قومی بے حسی، اقدار، روایات اور تاریخی آثار کی بربادیوں کا نوحه پڑھنا چاہتاہوں
پینسٹھ، سڑسٹھ برس کسی ملک یا قوم کی تاریخ میں بہت طویل عرصہ نہیں ہوتا مگر ہم نے اس قلیل مدت میں ہی بہت کچھ کھودیا. ہم آج سے تیس پینتیس برس پہلےکی چیزوں کا ذکر یوں کرتےہیں جیسے زمانہ ما قبل تاریخ کی بات ہو..
میرے کراچی میں کتنی ہی پرانی عمارتیں، باغ،ادارے، درسگاہیں اور ہسپتال قصہ ماضی بن گئےہیں. ایمپریس مارکیٹ اور اس سے متصل جہانگیر پارک اپنی بربادی کی داستان لیے آپ کے سامنے کھڑے ہیں. مجھے مزید مثالیں دینےکی ضرورت نہیں ہے.
بچپن اور لڑکپن میں میرے ملک اور شہر سے کسقدر خوبصورت جرائد اور اخبارات نکلا کرتےتھے. آج ان میں سے نوّے فیصد کا کوئی وجود نہیں.
ادبی رسالوں میں نقوش،ادب لطیف،لیل و نہار،سیپ،نقاد،چٹان، ماہ نو،شعور،نیا دور،فلمی رسالوں میں شمع،رومان،کردار، نگار،ڈائیریکٹر، نورجہاں، مذہبی رسالے فاران،تجلی، طلوع،ترجمان القرآن، خواتين کے رسالے بانو،حور،زیب النساء، بچوں کے رسالےتعلیم و تربيت، کھلونا، پھلواری، ہمدرد نونہال، غنچہ، بچوں کی دنیا، اسکے علاوہ چاند،قہقہہ اور بے شمار رسالے.
میرے دوست مجھے بتائیں کہ امروز ـ پاکستان ٹائمز ـ کوہستان ـ مشرقـ ایوننگ اسٹار. مارننگ نیوز.ڈیلی نیوز. لیڈر.دی سن. السٹریٹیڈ ویکلی آف پاکستان ـ ایسٹرن فلم. وطن اور ملت گجراتی ـ نئی روشنی. آغاز. امن. اسپورٹائمز. کرکٹر. سب رنگ. عالمی ڈائجسٹ اور دوسرے کتنے رسالے اور اخبارات آج بھی شائع ہورہےہیں.
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج سانوں وی مرن دا شوق وی سی.
اس بربادی کا سارا سہرا حکومتوں کے سر نہیں بندھتا. اگر فوجی آمروں نے اظہار رائے پر قد غنیں لگائیں تو بھٹو جیسے جمہوریت پسند بھی پیچھے نہیں رہے
حکومتوں نے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس، نیشنل پریس ٹرسٹ جیسے اداروں کی مدد سے صحافت کو اپنے قبضے میں کیا. پروگریسو پیپرز جیسے اداروں کو تاراج کیا. امروز اور پاکستان ٹائمز جیسے اخبارات پر شبخون مارا.
ان سے بڑھکر خود اخبارات کے مالکان نے صحافتی اور اخلاقی حدود پر کاروباری مصلحتوں کو ترجیح دی اور بڑی مچھلیوں نے چھوٹی مچھلیوں کا جینا ایسے دوبھر کیا کہ کم وسائل رکھنےوالے اخبارات پر زمین تنگ یو گئی.
آج میرے شہر کے دو ایسے ہی اخباروں کا ذکر ہے جنھیں ھماری بے قدری اور کاروباری رنجشوں نے نگل لیا.
انجام
ــــــــــــــــــ
قیام پاکستان سے قبل "منشور "مسلم لیگ کا ترجمان ہوا کرتا تھا. پھر دہلی سے ایک ایسے اخبار کا اجراء ہوا جس نے تحریک آزادی کو ایک نیا رخ دیا.
انجام کے مالک شیخ عثمان آزاد اسے کراچی لے آئے اور کراچی کے علاوہ پشاور سے بھی شائع کرنے لگے.
انجام ایک مدت تک پاکستان کا سب سے کثیرالاشاعت اخبار تھا. اسے بیترین اہل قلم کا تعاون حاصل تھا. ابن انشاء بھی پہلے انجام میں ہی لکھتے تھے.
مجھے اس فکاہیہ کالم کا نام یاد نہیں جو کوئی رمضانی صاحب تحریر کرتے تھے. یہ میری والدہ کا پسندیدہ کالم تھا. انجام نے راست طریقے سے صحافتی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی. یہ نہ حکومتوں کا ہمنوا تھا نہ مخالف. جو خبر جس طرح ملی اسے عوام تک پہنچا دیا.
لیکن اس کے مقابل جو اخبار دہلی سے ساتھ ہی آیا تھا وہ حکمرانوں اور عوام کے مزاج اور زوق کو اپنی کاروباری ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کا فن جانتا تھا. رفتہ رفتہ انجام مقابلے سے پیچھے ھٹتا گیا.
19633میں عمر فاروقی کی جگہ طفیل احمد جمالی جیسے جید صحافی نے سنبھالی لیکن وہ بھی اس گرتی دیوار کو زیاده دیر نہ تھام سکے. 1964میں سے نیشنل پریس ٹرسٹ کی جھولی میں ڈالدیا گیا. آخر تھک ہار کر شیخ عثمان آزاد نے 1967میں اسے بند کرنےکا فیصلہ کیا اور یوں میرا شہر اپنے اولین اور قدیم اخبار سے ہمیشہ کیلئے محروم ہو گیا.
حرّیت
ــــــــــــــــــــ
روزنامہ انجام اپنے انجام کو پہنچ رہا تھااور روزنامہ جنگ اپنے شباب پر تھا کہ کراچی کی اخباری صنعت میں
یوں کودا ترےآنگن میں کوئی دھم سے نہ ہوگا
کے مصداق ایک تازہ دم، ہونہار اور خوشگوار اخبار کی آمد ہوئی.
گجراتی بولنے والے فخر ماتری جو ولی دکنی کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے،بمبئ سے ملت گجراتی شائع کرتے تھے. کراچی اکر ڈان گروپ کے گجراتی اخبار وطن کے مقابل "ملّت"شائع کرنا شروع کیا اسکے علاوہ انگریزی اخبار Leader کا اجرا کیا.
1962میں حریت کا اجرا ء ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا. اسکی طباعت، کاغذ اور lay outtدل کو لبھانے والا تھا.
گجراتی ہونے کے باوجود فخر ماتری شاعر بھی تھے اور ان کا ادبی ذوق حریت میں پوری طرح جھلکتا تھا. حریت نے خاص موضوعات پر خصوصی صفحات شائع کرنے کی جدت پیدا کی.
نصراللہ خان کا فکاہیہ کالم آداب عرض ابراہیم جلیس کے وغیره وغیرہ سے کم مقبول نہ تھا.
میں تیسری جماعت میں تھا اور میرے شوق کا مرکز تسلسلہ وار تصویری کہانیاں (comicss) فینٹم، جادوگر مینڈریک اور فلیش گورڈن ہوا کرتےتھے.
لیکن حریت کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب وہ سلسلہ وار مضامین تھے جنھوں نے قارئین کو اپنا گرویدہ بنا رکھاتھا.
زوالفقار علی بخاری کی سرگزشت، مصر کے صدر ناصر کی،پراسرار داستان جمال،کرکٹر امتیاز احمد کی کہانی اور سب سے بڑھ کر ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا ناقابل فراموش ناول "ڈاکٹر دعاگو" جس سے قارئین استاد محبوب نرالے عالم سے روشناس ہوئے.
1966 میں فخر ماتری صرف سینتالیس سال کی عمر میں چل بسے اور ساتھ ہی حریت کا چل چلاؤ بھی شروع ھوگیا.
اظہار تشکر…
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روزنامہ انجام اور حریت کی لوح کی تصاوير عقیل عباس جعفری صاحب کی کتاب "پاکستان کرونیکل" سے لی گئی ہیں جسکے لیے میں عقیل صاحب کا تہہ دل سے ممنون ہوں.
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔