(Last Updated On: )
محترمہ نے کم سنی میں اس دشت میں قدم رکھا مگر بڑے بڑوں کے چھکے چھڑوا دئیے۔ چھڑوانے میں آپ کو کمال حاصل تھا۔ آپ نے بہت سوں سے بری عادتیں چھڑوائیں اور فطری اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں مدد دی۔ لباس ایسا ہوتا کہ کچھ تو دیکھتے ہی پانی پانی ہو جاتے۔ طبیعت اتنی فیاض کہ فقیر ڈر کے مارے خیرات نہیں مانگتے تھے۔
شہرمیں جہاں چھاپہ پڑتا پہلا شک آپ پر کیا جاتا بلکہ کئی ایک تو دوسرا اور تیسرا شک بھی آپ پر ہی کرتے۔ جو لڑکا بگڑتااس کا نام آپ کے ساتھ لیا جاتا۔ کئی نسلیں تربیت کے مراحل سے گزروا کر بوڑھی کروا چکی تھیں مگر آپ میں دم خم ویسا ہی تھا بلکہ بہت سوں کا خم ہی آپ کے دم سے تھا۔ پہناوے میں صرف چشمہ پسند تھا۔
آپ کو دوسرا بڑا شوق گانے کا تھا، کئی ماہرین فن نے گانا سکھانے کی کوشش کی مگر کچھ اور سیکھ کر تائب ہو گئے۔ کچھ کو جو تھوڑا بہت آتا تھا وہ بھی بھول گئے۔
کچھ ہی برسوں میں سارے شہرنے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے اور اپنی صحت سے بھی، یوں بھی چھوٹا سا شہر تھا کب تک چلتا چنانچہ لاہور آ گئیں۔
یہاں آپ نے ایک شادی بھی کی، جانے کیوں… شوہر نامدار کچھ ہی دنوں میں ہاتھ جوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
آپ نے کونسلری کا الیکشن بھی لڑا۔ یہ آپ کا کسی مرد سے کھلے میدان میں پہلا مقابلہ تھا۔پھر آپ کو ٹی وی پر کام کرنے کا شوق ہوا چنانچہ ٹی وی پر دل لگا کر کام کیا لیکن وہ پردہ سکرین پر نہ آ سکا۔ آتا تو بڑے بڑے ننگے ہو جاتے۔
آپ نے معاشرے میں ڈسپلن کے فروغ میں بہت حصہ لیا۔ آپ جہاں جاتیں وہاں لائن لگ جاتی۔ شریف گھرانے سے تعلق ہونے کے باعث آپ نے کبھی اپنے شوق کو پروفیشن نہیں بنایا۔ آپ کو پتہ تھا کہ شوق دا کوئی مل نئیں۔آپ وقت کی قدر دل سے کرتیں۔ جس کسی سے ملاقات ہوتی پہلی ملاقات میں اس کا کام کر دیتیں۔
سوشل ورک کا کام اتنا بڑھا کہ بہت سوں کا کام آپ کو کھڑے کھڑے نمٹانا پڑتا۔ لاہور میں آپ نے باقاعدہ گھر لے کر نوجوان نسل کی تربیت کا ذمہ لیا۔ آپ کی کوچنگ کے نتیجے میں پورے محلے میں بیداری پھیل گئی، سارا محلہ رات رات بھر بیدار رہ کراپنی باری کا انتظار کرتا۔ دن رات کی انتھک خدمت خلق کے نتائج آپ کی صحت پر ظاہر ہونے لگے تو آپ نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ نتیجتاً ڈاکٹر ایک ہفتے بعد ہسپتال میں داخل ہو گیا۔
معاشرے میں صحت مندانہ رجحانات کے فروغ کے لیے آپ اور کھیلوں میں بھی دلچسپی لیتیں۔ آپ نے مردوں سے بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کے کئی مقابلے جیتے۔ آپ کا طریقہ کار یہ ہوتا کہ آپ پہلے ان کا سٹیمنا کمزور کرتیں ، پھر ان سے کھیلتیں۔ دونوں طرح گیم آپ کے ہاتھ میں رہتی۔ آپ نیٹ پریکٹس پر یقین رکھتیں۔ آپ کا نیٹ اتنا مضبوط تھا کہ جو کوئی اس میں آتا پریکٹس سے نہ بچ پاتا۔ اگر آپ کی پسندیدہ گیم کو حکومت کی اعلانیہ سرپرستی حاصل ہوتی تو آپ عالمی سطح پر ہم سب کا نام روشن کرتیں۔
(مزاح پارے 2، ڈاکٹر آصف ریاض قدیر، ص:91نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد ، اشاعت2016ء )
٭٭٭
گم شد ہ گڑیا
فرانز کافکا (۱۸۸۳ء۔۱۹۲۴ء) نے شادی نہیں کی تھی۔ چالیس سال کی عمر میں وہ ایک دن برلن کے ایک پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے جب انھیں ایک چھوٹی بچی ملی جو رو رہی تھی۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی سب سے پسندیدہ گڑیا کھو گئی ہے۔ کافکا نے بچی کے ساتھ مل کر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ کافکا نے بچی سے کہا کہ وہ کل وہیں ملے اور وہ ایک مرتبہ پھر گڑیا ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ اگلے دن جب انھیں گڑیا نہیں ملی تھی تو کافکا نے بچی کو ایک خط دیا جو اس’’گڑیا‘‘ نے لکھا تھا۔ خط میں لکھا تھا کہ’’میری دوست، رو مت میں دنیا گھومنے جا چکی ہوں اور میں تمھیں اپنے حیرت انگیز سفر کے بارے میں بتاؤں گی‘‘۔ یوں ایک ایسی کہانی کی ابتدا ہوئی جو کافکا کی زندگی کے اختتام تک جاری رہی۔
بچی سے ملاقاتوں کے دوران کافکا اس گڑیا کے خطوط پڑھتے جس میں حیرت انگیز سفر اور مزے مزے کی کہانیاں ہوتیں جسے وہ بچی اپنی گڑیا کے خطوط سمجھ کر پڑھتی اور اُسے دلی سکون ملتا۔
بالآخر ایک دن کافکا نے اس بچی کو ایک گڑیا لا کر دی اور کہا کہ اس کی گڑیا دنیا کے سفر سے برلن واپس آ گئی ہے۔ بچی نے کہا کہ یہ گڑیا تو بالکل بھی میری گڑیا جیسی نہیں لگتی۔ کافکا نے بچی کو ایک اور خط دیا جس میں گڑیا نے لکھا تھا کہ’’دنیا بھر کے سفر سے میں تبدیل ہوگئی ہوں‘‘۔ چھوٹی معصوم بچی نے گڑیا کو گلے سے لگایا اور خوشی خوشی اپنے گھر لے گئی۔ ایک سال بعد کافکا کی موت ہوگئی۔ کئی سال بعد جب وہ بچی اپنی جوانی میں داخل ہوئی تو ایک دن گڑیا کو اُلٹتے پلٹتے اُسے اس کے اندر سے فرانز کافکا کا دستخط شدہ ایک خط ملا جس پر لکھا تھا: ’’ہر وہ چیز جس سے تم محبت کرتی ہو، ایک دن گم ہو جائے گی، لیکن بالآخر تمہیںکسی اور شکل و صورت میں ہی سہی، لیکن محبت ضرور ملے گی‘‘۔٭ (اُردو قالب: ڈاکٹر روبینہ الیاس)
****
عطا ء اللہ عالی
****
عطا ء اللہ عالی