(Last Updated On: )
مضمون نگار گورنمنٹ پوسٹ گریجو ایٹ کالج خان پور میں
عربی کے اُستاد،معروف شاعراور ادیب ہیں ۔
نذیراحمد بزمی (خان پور )
گڑھی اختیار خان کا شہر ریاست بہاول پور نواب خاندان کے فرد نواب اختیارخان عباسی ؒنے آباد کیا اور یہ یہ کچھ عرصہ تک عباسی سلطنت کا پایہ تخت بھی رہا۔ یہ ایک مردم خیز دھرتی ہے جہاں بلبل چمنستان فرید خواجہ محمد یار فریدیؒ، خواجہ غلام قطب الدین فریدی، اعجاز امرتسری، صوفی احمد یار’ کریم بخش شعیب، خواجہ عالم کوریجہ، شبنم اعوان، صادق جاوید اور صفدرجاوید جیسے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے ، جنہوں نے اپنی سرائیکی اور اُردو شاعری کے ذریعے اس خطے کو روشناس کرایا۔
گڑھی اختیار خان سے مغرب کی طرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر خانقاہ سہروردیہ شاہ آباد شریف ہے جہاں قادریہ سلسلہ کا ایک خاندان آباد ہے۔ جس کے جدامجد سید محمد جعفر شاہؒ نے گڑھی اختیار خان کو اپنا مسکن بنایااور یہاں درس وتدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ان کے دو بیٹوں سید سردار احمد القادری ؒاور سید بہار علی شاہ ؒنے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ سید سردار احمد القادری ؒنے علم حدیث کی تکمیل مدینہ منورہ میں کی اور تقریباً سات سال وہاں مقیم رہے ۔پھر مشہد، کربلا، نجف اور ایران سے ہوتے ہوئے گڑھی اختیار خان میں رشدو ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین خواجہ عبداللہؒ کے بیٹے خواجہ عبدالرحمنؒ کو بھی درس دیا۔سیّد سردار احمد القادریؒ کی وفات کے بعد ان کے فرزند سید مغفور قادریؒ جو سیف الدین کے لقب سے مشہور تھے، مسند نشین ہوئے۔ وہ عربی ،فارسی، ہندی ، سرائیکی، اردو اور سندھی کے شاعر تھے اور ان کی شاعری کی کتاب بھی موجود ہے۔ انہوں نے گڑھی اختیار خان میں اپنے بزرگان کی جلائی ہوئی شمع رشد وہدایت کو روشن کیے رکھا۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لیا اور علامہ اور اس وقت کے بہت سے علماء سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ان کی وفات ۱۳۹۰ھ میں ہوئی۔سیّد مغفور شاہ القادریؒ کے وصال کے بعد ان کے بیٹے علامہ پیرسید محمد فاروق شاہ القادری مسند نشین ہوئے جنہوں نے اپنے بزرگوں کے ورثہ کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اپنے علم وعمل کے ذریعے اس بلند مرتبہ تک پہنچایا۔
سید محمد فاروق القادریؒ کا نام علمی وادبی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔انہوں نے اپنے وقت کے جید اساتذہ کرام سیداحمد سعید کاظمیؒ، مولانا سراج احمد مکھن بیلویؒ، مولانا عبدالرشید نعمانیؒ، مولانا فیض احمد اویسیؒ، مولانا عبیداللہؒ، مفتی عبدالواحد خان پوریؒ، ڈاکٹر عبدالعزیز میمنؒ اور مولانا شمس الحق افغانیؒ سے دینی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی اور گولڈمیڈلسٹ بنے۔ والد کی وفات کے بعد ۱۳۹۰ ھ میں وہ مسند نشین ہوئے اور ۱۳جون ۲۰۲۰ء تک انہوں نے تبلیغ دین اور رشدوہدایت کے سلسلے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور پورے عالم اسلام میں اپنی تصنیفی مہارت کا سکہ جمایا۔ انہوں نے درجنوں کتابوں کی تصنیف وتالیف کی اور سیکڑوں تحقیقی و تنقیدی مقالہ جات بھی لکھے جس میں فارسی کی چاشنی اور اردو کا تڑکا موجود ہے۔
سید فاروق شاہ القادریؒ کی تصانیف کامختصر جائزہ پیش خدمت ہے:
۱۔فتوحات مکیہ:شیخ محی الدین ابن العربیؒ کی مشہور کتاب ’’فتوحات مکیہ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔ سید فاروق القادری ؒنے اسے ۷۰ صفحات کے مقدمہ کے ساتھ سلیس اُردو ترجمہ کیا ہے جو ان کے قلم کا شاہکار ہے۔
۲۔انفاس العارفین:شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تصنیف ’’انفاس العارفین ‘‘ کا ترجمہ سید محمد فاروق شاہ ؒنے ۱۹۷۴ء میں کیااور اسے تصوف فائونڈیشن لاہور نے شایع کیا۔ انفاس العارفین کا یہ اولین اردو ترجمہ تھا۔
۳۔کشف المحجوب: حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصوف کے موضوع پر لافانی کتاب کا ترجمہ بھی سید فاروق شاہ ؒ نے کیا اور اس کا دیباچہ حکیم محمد موسیٰ امرتسری نے لکھا۔
۴۔احوال وآثار شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ: پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے احوال وواقعات پر مشتمل یہ کتاب تحقیقی ہے اور سیدفاروق شاہ ؒ کے قلم کا شاہکار ہے۔
۵۔اصل مسئلہ معاشی ہے: دوسری جنگ عظیم کے بعد سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں پھیل گیا جس کی وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا گیا۔ دنیا بھر کے ماہرین اس مسئلے کے حل کے لئے سرگرداں ہیں۔ ’’اصل مسئلہ معاشی ہے‘‘ میں فاروق شاہ صاحب معاشی اصلاحات کا لائحہ عمل مرتب کیا اور بتایا اور مسلمانوںکی بربادی کا ذمہ دار تین طبقوں سرمایہ دار، جاگیر دار اور گدی نشینوں کو قرار دے کر ان کی اصلاح کی ترغیب دی ہے۔ ان کی اس کتاب کو ہرمکتبہ فکر کے لوگوں نے سراہا ہے۔
۶۔رسائل شاہ ولی اللہؒ: سید محمد فاروق شاہ ؒنے معروف اسلامی مفکر و سکالر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے ملفوظات وافکار کو عام کرنے کے لئے ان کے رسائل کا ترجمہ مفصل پیش لفظ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جن میں رسائل الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ، الدرالثمین اور القول الجمیل شامل ہیں۔
۷۔فتوح الغیب: پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مشہور کتاب کا ترجمہ مفصل پیش لفظ کے ساتھ کیا۔
۸۔الطاف القدس: شاہ ولی اللہ ؒکے مختصر رسالے کا ترجمہ بمعہ پیش لفظ
۹۔احوال وآثار سید حسن شاہ جیلانیؒ: سلسلہ قادریہ کی مشہور شخصیت حضرت سید محمد راشدؒ کے نامور خلیفہ سید حسن شاہ جیلانی ؒ کا تذکرہ
۱۰۔فاضل بریلوی و اُمور ِبدعت: یہ کتاب سید محمد فاروق شاہ ؒکے قلم کا شاہکار ہے جس میں انہوں نے امام اہلسنت مولانا احمد رضا بریلویؒ پر لگائے گئے شرک وبدعت کے الزامات کا عالمانہ دفاع کیا ہے یہ کتاب ۱۹۷۴ء میں شایع ہوئی اور بعد میں دہلی اور بمبئی سے بھی اس کے ایڈیشن شایع ہوئے۔
۱۱۔جامع العلوم: امام فخرالدین رازیؒ کی مختلف علوم کے تعارف پر مشتمل سلیس ترجمہ و پیش لفظ
۱۲۔کتاب الصدق: شیخ ابوسعید خراز ؒکی تصوف پر لکھی گئی عربی کتاب کا بہترین ترجمہ و تحقیقی پیش لفظ
ان کے علاوہ اسلام کا تصور ملکیت، تحفہ مرسلہ، خلاصۃ المفاخرفی مناقب شیخ عبدالقادرؒ، دیوبند وبریلی کے خصوصی مسائل کا جائزہ اور درجنوں غیر مطبوعہ کتب آپ کی ادبی صلاحیتوں کی گواہ ہیں۔
سید محمد فاروق شاہ القادری ؒکے مختلف موضوعات پر شایع ہونے والے مضامین، مقالات کتابوں کے پیش لفظ ، مقدمے ودیباچیسینکڑوںکی تعداد میں موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
۱۔مقدمہ اکابر تحریک پاکستان ۲۔اسلام کی معاشی تعلیمات کا پہلا ڈھانچہ
۳۔قرآن اور سیرت محمدیہ ۴۔عصمت سیدنا آدم علیہ السلام
۵۔حر تحریک ۶۔تصوف کیا ہے؟
۷۔حضرت علامہ شاہ احمد نورانی ؒ ۸۔تفہیم القرآن میری نظر میں
۹۔مقدمہ رسالہ ’’پیغمبر اعظم‘‘ ۱۰۔دورحاضر کے اہم مسائل اور سیرۃ النبیؐ
۱۱۔یزید کی زندگی پر طائرانہ نظر ۱۲۔اقبال کے معاشی نظریات
۱۳۔سید احمد سعید کاظمی ؒ ایک مثالی انسان ۱۴۔فخر بہاول پور شہاب دہلوی
۱۵۔حُر تحریک
الغرض سیدمحمد فاروق قادری ؒ کے قلم کی جولانیاں نصف صدی تک عروج پر رہیں۔ ان کے ضخیم علمی وادبی کام کو دیکھ کر ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ مرکز سے دور ہونے کے باوجود ایک شخص نے اتنا سارا کام کیسے کر لیا۔ ان کی تخلیقی اور ترجمہ نگاری کی صلاحیتوں کو اہل علم وفن نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی داد بھی دی ہے۔ اُن کا علمی وادبی کام اردو ادب کا بیش قیمت خزینہ ہے جو ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
٭٭٭