::: اردو میں ترقی پسند تحریک کیوں ناکام ہوئی ؟۔۔۔ کچھ۔ سوالات ۔۔۔ اور ترقی پسند تحریک کا مختصر پس منظر۔:::
1917 میں روس میں انقلاب کا واقعہ، تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا ۔ اس واقعہ نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے ۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی ۔ دوسری طرف ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا ۔ ان حالات اور سیاسی کشمش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی ، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے ۔ شاعر اور ادیب ٹالسٹائی کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے ۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہبی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے ۔ اس طرح یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔یورپ میں پہلی جنگِ عظیم کے ایک عشرے کی بعد 1929ء میں کساد بازاری سے پیدا شدہ بحران اور فاشزم کی یلغار نے دُنیا بھر کے ادیبوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اُس وقت نہ صرف یورپ بلکہ امریکا میں بھی ترقی پسند فکر رکھنے والے ادیبوں کے گروپ وجود میں آرہے تھے۔ 1933ء میں جرمنی میں ہٹلر کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد فاشزم کے بڑھتے ہوئے خطرات نے ساری دنیا کے روشن خیال اور انسان دوست ادیبوں کو چونکا دیا تھا
دوسرے افق پر 1923ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت نے سر اُٹھایا ، جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراء و ادباء میں آئن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً روماں رولاں ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا:
The world congress of the writers for the defence of culture.
ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کی البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبا کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر ، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا ۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی ۔
ترقی پسند تحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:
فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا۔
ادب میں بھوک، افلاس، غربت، معاشرتی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا۔
واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیروتشکیل میں کام آسکتی ہوں۔
بیمار فرسودہ روایات جو معاشرہ و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ۔ اور ادب کو جمود سے باہر نکالا جائے۔
ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک اہم تحریک تھی۔ کوئی بھی تحریک اچانک وارد نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اس کے وجود میں آنے میں معاشرتی، اقتصادی اور اقتصادی حالات کا دخل ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک عالمی سطح کی تحریک تھی جس کی بہت سی فلسفیانہ اساس ہیں۔ اردو کے بیشتر نقادترقی پسند تحریک کو علی گڑھ تحریک کی توسیع کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حقیقت نگاری کا جو تصور سرسید احمد خاں کے عہد میں تھا وہ اصلاحی اور تعمیری تحریک کا ا ٓغاز تھا۔ ہمارے خیال میں سماجی حقیقت نگاری کا جو تصور سرسید کے عہد میں تھا یہ ترقی پسند تحریک کی حقیقت پسندی سے قدرے مختلف تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ترقی پسند تحریک کو علی گڑھ تحریک کی توسیع کہنے کا کوئی جواز ہے؟ کیا سرسید کے عہد کی حقیقت نگاری، ترقی پسند تحریک کی حقیقت نگاری سے جداگانہ نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اجتماعیت، اشتراکیت اور مقصدیت کو اپنے لیے ضروری قرار دیا۔
منشی پریم چند نے حقیقت نگاری کا جو تصور اپنی تخلیقات میں پیش کیا ہے وہ ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ تھا۔ پریم چند کا زمانہ سماجی اور سیاسی اعتبار سے بہت اہم تھا اور یہ دور ترقی پسند تحریک کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوا۔
۳۶۔۱۹۳۵ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے دستور پر جب غور کیا جا رہا تھا تو ان دنوں اس اجلاس میں انجمن کے نصاب سے متعلق حصہ لینے والوں میں اہم ناموں میں ملک راج آنند‘سجاد ظہیر‘احمد علی‘رشید جہاں‘ڈاکٹر تاثیر‘ڈاکٹر عبدالعلیم نامی‘ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری‘مجنوں گورکھ پوری‘ڈاکٹر اعجاز حسین اوررگھوپتی سہائے شامل تھے۔
مجنوں گورکھ پوری رگھو پتی سہائے فراق ‘ اعجاز حسین اور اختر حسین رائے پوری ایسے لوگوں میں شامل ہیں جو کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی نہیں تھے اور نہ ہی اشتراکی نظام سے دل چسپی رکھتے تھے۔اقبال سنگھ اور ڈاکٹر ملک راج آنند اس اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے ترقی پسند افسانہ لکھنا شروع کیا۔اقبال سنگھ کے ابتدائی افسانہ’’When one is it‘‘ لکھا اور ملک راج آنند نے ’’مرغ زار‘‘،’’فطرت کا دل‘‘ اور ’’A Kashmir Idyll ‘‘لکھ کر دیہات نگاری کو ترقی پسند تحریک میں لانے کا فارمولا ایجاد کیا۔
یہاں اردو میں ترقی پسند تحریک کی عدم فعالیت ، غیر متحرک اور ناکامی پر چند سوال دریافت کئے گئے ہیں ۔ اردو کے اہل قلم، دانشور اور عام قاری ان سوالات کے جوابات دے کر ان اس کے کئی تشریحات پیش کرے گا۔ جو اب بھی اردو کی ادبی تاریخ کا الجھا ہوا سوال ہے۔ جس کے جواب اب تک ہم کو نہیں مل سکے ہیں۔