جدید تنقید سے میری مراد ساختیات،پس ساختیات،مابعد جدیدیت،ڈی کنسٹرکشن اور ادبی تھیوری کے عمومی مظاہر ہیں۔مغرب میں ان مسائل کی زمانی مدت اندازاً ایک صدی کو محیط ہے۔ہمارے ہاں تقریباً دو دہائیوں سے زائد ان پر کسی نہ کسی حوالے سے لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری ہے۔اُردو میں اس کے ابتدائی بنیاد گزاروں میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر وزیر آغا ، ڈاکٹر فہیم اعظمی،قمر جمیل اور ڈاکٹر احمد سہیل کا ذکر لازمی آتا ہے۔ان کے بعد نئی نسل کے نقادوں نے اپنے اپنے فہم کے مطابق اس سلسلے کو جاری رکھا اور آج ہمارے پاس پاک و ہند کے ایسے نام موجود ہیں جن کے مقالات اور کتابوں نے ان جدید تنقیدی رویوں کو مقدور بھر عام کیا ہے۔ مغرب میں ان تمام مظاہر کا اولین حوالہ لسانیات،بشریات،فلسفہ،نفسیات،اساطیر اور ثقافتی مطالعات کی ذیل میں آتا ہے تاہم معروف فرانسیسی نقاد رولاں بارت (۱۹۸۰۔ ۱۹۱۵) نے ادب میں ساختیاتی تنقید کو متعارف کرایا۔ اس کے بعد سے اب تک ادبی فن پاروں کو انھی مذکور عوامل کی روشنی میں پرکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔جدید تنقید نے متن کو خود مختار اور خود مکتفی خیال کرتے ہوئے اس کے تمام متعلقات سے انکار کیا ہے۔’’قاری اساس تنقید ــ‘‘ نے متن کو مادر پدر آزاد کر کے ایسی ایسی تنقیدی گلکاریاں کی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اس جدید تنقید کی جمالیاتی اور فکری سطح اتنی پست ہے کہ اچھا بھلا فن پارہ لغت اور تھیسارس کا بھٹیار خانہ بن کر رہ جاتا ہے۔مغرب میں بے شک اس تنقیدی ادا کی بہت مانگ ہو گی لیکن ہمیں شاید اس کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ ہمارے اور اُن کے تناظرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔مغرب میں تو اور بھی بے شمار رویے اور اشیا مستعمل ہیں مگر ہمارے تناظرات میں اُن کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔تمام مغربی تعقلات ایک خاص پس منظر میں ہی اپنی مطابقت پذیری کے جوہر دکھا سکتے ہیں اُن کا اطلاق ہر من چاہے ماحول میں کرنا مضحکہ خیز نتائج کا باعث بنتا ہے ۔ہماری اردو تنقید میں اسی وقت یہی صورت حال بنی ہوئی ہے۔اس نوع کی قاری اساس تنقید مغرب کو مبارک ہو۔یہ تنقید پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے فن پارے میں شامل اعلیٰ تخیل کا پوسٹ مارٹم کر دیا گیا ہے۔ یہ تنقید ایک اچھے بھلے فن پارے کو سطحی تجربے کا اشاریہ بنا ڈالتی ہے اور بظاہر یہ تاثر بھی دیتی ہے کہ اصل فن پارے کی کوئی فکری حیثیت یا معنویت نہیں بنتی۔ قاری اساس تنقید قاری کو کسی تخلیق کے بارے میں گمراہ تو کر سکتی ہے اس کی تفہیم اور تحسین نہیں کر سکتی۔جدید تنقید کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ تنقید کسی ادب کو ثروت مند نہیں بنا سکتی۔غالب،میر،اقبال،ملٹن،شیکسپیئر اور گوئٹے جو عالمی سطح پر اب تک متاثر کرتے چلے آ رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن خوش نصیبوں کے دور میں اور پھر بہت بعد تک ساختیات اور قاری اساس تنقید ایجاد نہیں ہوئی تھی۔دنیا کے باقی ادب کا تو کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن ہمارے اُردو ادب میں قاری اساس تنقید کی مثال کڑوے بادام جیسی ہے۔اس وقت اردو زبان و ادب میں جدید تنقید کا حال نثری نظم اور انشایئے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔الفاظ کے طوطے مینا بنا کر اُڑائے جاتے ہیں اور لوگوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ان کے قلم سے نکلنے والے ایک ایک لفظ کو وحی تسلیم کریں گے۔
جدید تنقید کا سب سے بڑا نقصان تخلیقی ادب کو پہنچ رہا ہے،اول تو ہمارے جدید نقادوں کو نظری مباحث سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ نظم و نثر کے تخلیقی سرمائے پر توجہ دیے سکیں اور اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو اُن کی من پسند تاویلات اور تعبیرات سے سارا خواب ہی پریشان ہو جاتا ہے۔ اگر بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ہمارے ادب میں نئی تنقید لکھنے والے کسی تخلیقی ادب پارے پر بات کرنا کسر ِ شان سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک علمیت کا واحد معیار یہی ہے کہ ثقافتی یلغار اور گلوبلائزیشن کے مختلف عناصر پر مغربی افکار کی کھتونی سجا کر دکھا دی جائے اور اُن پہلوئوں کو موضوع بنایا جائے جن کا رشتہ ادب کے ساتھ تو نہیں جوڑا جا سکتا البتہ اسی بہانے اپنی علمی شان دکھانے کا موقع تو نکالا جا سکتا ہے۔ اس وقت جدید اردو تنقید کے حوالے سے شائع ہونے والے مقالات اور کتابوں کی درج ذیل تین صورتیں بنتی ہیں۔
(ا) مغرب کی دیگر زبانوں سے انگریزی زبان میں ہونے والے تراجم کو اُردو زبان میں منتقل کرنا
( یہی اصلی کام تھا لیکن اس طرف دھیان نہ ہونے کے برابر ہے)
(۲) انھی انگریزی متون کے چربے اور اپنی فہم کے مطابق ان کے تجزیات پیش کرنا
(۳) انگریزی متون سے اخذ شدہ معلومات کو اپنا مال بنا کر متعارف کرانا
محولہ بالا نکات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ہمارے ہاں کس قسم کے لوگوں کی فراوانی ہے کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مغرب میں جدید تنقید کے نمائندگان میں سے کسی کا تعلق بھی براہ راست ادب کے ساتھ نہیں ہے۔یہ حکما ثقافتی مطالعات کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس میں ادب کی حیثیت محض ثانوی رہ جاتی ہے۔(اصولاً ثقافتی مظاہر میں ادب کی مرکزیت فعال رہنی چایئے)اس سے بڑھ کر یہ کہ مغرب میں یہ تمام مباحث فکری اور سماجی ارتقا کا حصہ بن کر سامنے آئے ہیں جب کہ ہمارے ہاں یہی جدید مباحث راتوں رات بن بلائے مہمان کی طرح آن دھمکے ہیں۔
ہمارے وہ احباب جو مغربی تنقید سے متاثر ہو کراُردو تنقید میں اضافے کر رہے ہیں اُن کی تنقیدی کاوشوں نے کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ پہلے سے موجود تنقیدی ڈسپلن پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔جدید مغرب زدہ تنقید نے عام قاری کے ادبی ذوق کو جس بری طرح مسخ کیا اُس پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے علاقائی میشل فوکو اپنی اپنی بساط کے مطابق اُردو نقد و نظر میں انتشار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ تخلیق کاروں کی بڑھتی ہوئی توانائی نے ہمارے جدت طراز نقادوں کوایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔میرے ایک مفکر دوست سعید ابراہیم نے جو بات کہی تھی وہ اُردو زبان کے نظریہ ساز نقادوں پر بھی صادق آتی ہے۔اُن کا کہنا ہے:
’’ کوئی نظریہ بھلے کتنا ہی انسان دوست کیوں نہ ہواُس کی بہرحال حدود ہوتی ہیں۔
جبکہ تخلیقی سوچ ان حدود کو بھلانگنے اور توڑنے والی ہوتی ہے،اسی لیے نظریہ نافذ
کرنے والے تخلیق کاروں سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
جدید تنقید نے ہمیں دیا تو کچھ نہیں البتہ لیا بہت کچھ ہے۔ اگر ماضی کو سامنے رکھ کر اُردو ادب پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب کو بطور پروپیگنڈہ بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکومتی سطح پر ہر صاحب اقتدار ادب کو اپنی سیاسی ضرورت کے تابع رکھتا تھا۔ایک مذہبی حاکم اور روشن خیال اور ترقی پسند حاکم کی سیاسی ترجیحات میں جو بُعد ہوتا ہے اسے جاننے کے لیے کسی افلاطونی فکر کی ضرورت نہیں پڑتی۔یہی معاملہ عالمی سطح پر پہنچ کر اپنے انوکھے رنگ ڈھنگ دکھاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ کوئی عالمی ایجنڈا کسی خاص ملک کی فکری اور اقداری سرحدوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ادبیات کا سہارا بھی لے؟اس حوالے سے سوچا تو جا سکتا ہے۔اگر اس حوالے سے سوچنا ممکن ہے تو پھر کیا ایسا نہیں لگتا کہ جدید ثقافتی اور تنقیدی یلغار اور مطالعات کا ہمارے ہاں در آنے کا اصل مقصد مغرب کی بالا دستی کو ثابت کرنا اور اُردو والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا ہے؟اس وقت جدید مغربی تصورات کے نام پر مغرب کی علمی دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اس دہشت گردی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ادبی اور تہذیبی متون علمی سطح پر مشکوک بنائے جا رہے ہیں۔نئی تنقید نے متن اور مصنف سے گریز کی جو جو صورتیں پیدا کر ڈالی ہیں اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو آیندہ آنے والے وقتوں میں ہماری تمام تہذیبی نشانیاں ختم ہو جائیں گی اور ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانو ں میں۔اس وقت مغرب ہمیں جو سبق پڑھا رہا ہے اس سبق کو باتمام و کمال رٹ لینے کے بعد کا تمام ترفائدہ مغرب ہی کو پہنچے گا،ہمیں اس کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔مشرق،مشرق ہے اور مغرب،مغرب ہے۔ہم کبھی بھی مستعارٹکنالوجی اور مستعار تنقیدی تصورات کی مدد سے مغرب کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔
آج کل جدید تنقیدی اصطلاحات اور تکنیکوں کی مدد سے جس طرح تخلیقی ادب کی گھنائونی تشریحات،توضیحات اور تعبیرات کی جا رہی ہیں اسے دیکھ کر عام قاری تو ایک طرف اچھے اچھے تخلیق کار اس سوچ میں گم ہو جاتے ہیں کہ اس ساختیاتی مطالعے میں ادب بذات خود کدھر ہے؟جدید تنقید کا کام اب یہی رہ گیا ہے کہ وہ تنقید کے نام پر یا تو انشائیہ نگاری کرے (انشائیے کا بنیادی وصف ہی کسی معمولی شئے کو غیر معمولی اور غیر معمولی شئے کو معمولی بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے) یا اپنے من پسند اور پہلے سے طے شدہ اور تیار شدہ نظریات کے ٹوٹے زیر نظر تخلیق پر منطق کرے۔اس وقت اُردو زبان میں مغرب سے درآمد تنقیدی معجون ہمارے کلاسیکی متون کو اس انداز سے پیش کر رہا ہے کہ اس میں کوئی عقل و دانش کی بات تلاشنا نا ممکن ہے۔ان مطالعات کو دیکھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ ہماری تنقید میں پوسٹ ماڈرن ازم کا تصور اصل میںہمارے تخلیقی ادب کا پوسٹ مارٹم ازم ہے۔جدید تنقید کچھ ایسی بے برکت تنقید ہے کہ جس میں تخلیق اور تخلیق کار کے لیے کچھ نہیں۔ہمارے اُردو نقادوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ابھی ان سے یہی طے نہیں ہو رہا کہ ہم نے مغرب سے کیا لینا اور کیا ترک کرنا ہے۔
ان دنوں قاری اساس تنقید کا بہت غلغلہ ہے پاک و ہند کا ایک مخصوص گروہ اس تنقیدی پیٹرن کو عام کرنے میں سرگرداں ہے اور ہم سب کے گرو جی جناب ستیہ پال آ نند نے قاری اساس تنقید کے اولین نمونے کلام غالب کو حوالے سے متعارف کرانے کا جو سلسلہ شروع کیا تو وہ اب ختم ہونے کا نام ہی نہیں رہا۔آ نند جی نے اپنی فیس بک پر قاری اساس تنقید کے نمونوں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔آنند جی کی یہ تحریریں پڑھ کر قاری غالب کے بارے میں تو یہ سوچتا ہی ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے خود آنند جی کے بارے میں یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ غالب کے بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ آنند جی نے اپنی گراں قدر تنقیدات میں یہ فارمولا بتا یا ہے کہ شعر میں موجود تمام الفاظ کے مترادفات لے کر اُن پر غور کرتے چلے جائیں اور اخذ معانی کی یہ مشق اس وقت تک جاری رکھیں جب تک اصل متن اپنی سابقہ حیثیت گم نہ کر دے۔التوائے معنی کا سیلاب کسی صورت تھمنے والا نہیں اور پرت در پرت معانی کھلتے کھلتے اصل متن کو ہمیشہ کے لیے اوجھل کر دیتے ہیں۔جدید تنقید اسے قاری اساس تنقید کا نام یتی ہے میں اپنی آ سانی کے لیے اسے متن دشمنی کہتا ہوں۔
دوجدید کی پڑھی لکھی تنقید کا ایک بھیانک عیب یہ بھی ہے کہ اس دور یعنی چل چلائو میں ہمارے بہت سے اُردو نقاد مغرب کے تنقیدی خیالات طبع زاد تصانیف بنا کر پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ نقاد اپنے چربوں کے آ فاقی نمونے ادبی رسایل و جرائد کے ذریعے بھی سامنے لاتے رہتے ہیں۔۔۔ایک عام قاری یہ تاثر لینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب ہمارے اُردو نقاد اتنے بالغ نظر ہو گئے ہیں کہ وہ آج کل اُنھی علمی ادبی مسائل پر بات کر رہے ہیں جو اِن دنوں مغرب میں زیر بحث ہیں۔اُردو تنقید کا موجودہ دور اس حوالے سے تاریخی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔۔کیا اسے ادبی خیانت کہنا مناسب رہے گا یا ادبی دہشت گردی۔ہمارے اپنے ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ موجود ہیں جو جدید تنقیدی اور ثقافتی مظاہر پر دھڑا دھڑ لکھ کر کتابیں اور مقالات شائع کرا رہے ہیں اور وہ یہی ظاہر کر نے اور ثابت کرنے میں غلطاں و پیچاں ہیں کہ مغرب میں اس وقت جو جدید تصورات عام ہو رہے ہیں راتوں رات اب ان کے مسائل بھی بن چکے ہیں۔
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم مشرق والے مل کر کوئی ادبی تھیوری وضع کریں اور کچھ عرصے کے بعد سارا مغرب ہمارے فراہم کردہ تعقلات اور تناظرات کے مطابق اپنے فن پاروں کو پرکھنا شروع کر دے۔۔۔ہمارے موجودہ اُردو نقاد دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی،امریکہ،فرانس اور
برطانیہ کے نصابوں میں شامل ہو جائیں اور وہاں ہر ایک کی زبان پر الطاف حسین حالی،محمد حسن عسکری،شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا ذکر چل پڑے۔۔مغرب کی تمام جامعات میں ’’ مقدمہ شعرو شاعری‘‘ پر عالمی سیمنارز منعقد ہو رہے ہوں۔۔۔کچھ لوگ میری اس بات کو مذاق سمجھیں گے لیکن ہمارے اُردو نقاد یہی مذاق عملی سطح پر ہمارے ادب کے ساتھ کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔