ملک ،قوم اور محب الوطنی ۔۔۔۔۔۔ایک کہانی
ماڈل ٹاؤن پارک میں درخت کے نیچے نصب بینچ پر بیٹھے علی حسنین سے میں نے پوچھا ،بھارت اور پاکستان کی برطانیہ سے آزادی کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟ علی حسنین نے کہا،اجمل میاں ،میرا جواب عام روش سے ہٹ کر ہوگا ،اگر تم چاہتے ہو تو میں اس سوال کا جواب دے دیتا ہوں ،میں نے کہا ،جناب ،جیسا بھی جواب ہو،مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔علی حسنین نے کہا ،برطانوی سلطنت کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند میں ٹیکنالوجی ،سائنس متعارف ہوئی ۔تعلیم ،کالجز ،یونیورسٹیان ،ریلوے لائنز ،سڑکیں ،گاڑیاں ،جہاز یہ سب کچھ برطانوی دور حکومت کی نعمتیں ہیں ۔اگر اس خطے میں انگریز نہ آتا تو اس وقت پاکستان اور بھارت بھی افریقی ملک ایتھوپیا کا منظر پیش کرتے نظر آتے ۔برطانوی سلطنت سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں جہالت ہی جہالت تھی ۔یہ جو آج پاکستان اور بھارت میں کہیں کہیں تہذیب و کلچر نظر آتا ہے ,یہ گوروں کی وجہ سے ہی ہے ۔برطانوی سلطنت سے پہلے اس خطے میں ہر گھر میں دس بچے پیدا ہوتے تھے ،بیماری کی وجہ سے صرف ایک بچہ زندہ رہ پاتا تھا، باقی نو مر جاتے تھے ،لیکن جب انگریز آئے،وہ اپنے ساتھ میڈیسن اور میڈیکل کئیر کا سسٹم ساتھ لائے ،جس کی وجہ سے دس بچوں میں صرف ایک بچے مرتا اور نہ بچ جاتے ۔برطانوی دور حکومت سے پہلے ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا ،ہندوستان میں سینکڑوں بادشاہتیں تھی ،یہاں کوئی سیاسی نظام نہ تھا ،صرف طاقتوروں کے الفاظ ہی سب سے بڑے قوانین تھے۔انگریزوں کو ہی یہ کریڈت جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو وحدت عطا کی ۔اس نے کہا ،بھارت اور پاکستان آزاد تو ہو گئے ،لیکن بدقسمتی سے ان دونوں ملکوں کے پاس یہ واضح ایجنڈا نہیں تھا کہ آزادی کے بعد کرنا کیا ہے ؟آزادی ایک موقع ہوتا اہے کچھ کرنے کا ،لیکن پاکستان اور بھارت نے یہ موقع ضائع کردیا ۔آزادی کے بعد ان دونوں ملکوں میں ابھی تک ایک خوفناک قسم کا بحران ہے ۔برطانوی سامراج کے خلاف میں صرف ایک وجہ سے ہوں کہ وہ برصغیر پاک و ہند کو جلدی جلدی تقسیم کرکے اور بحرانی کیفیت میں چھوڑ کر بھاگ گئے اور وہ خوفناک کیفیت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔آزادی کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کےدرمیان لرائی جھگڑے جاری ہیں اور معلوم نہیں کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔پاکستان اور بھارت کے اندرکی کشمکش انگریزوں کی جلد بازی کا نتیجہ ہے ۔میں نے پوچھا ،سر کیا آپ کو پاکستانی ہونے پر فخر ہے؟انہوں نے کہا ،میں پاکستان میں رہتا ہوں ،پاکستان سے محبت ایک فطری چیز ہے ۔لیکن میں پاکستانی نہیں ہوں ،نہ ہی میں بھارتی ،اور نہ ہی امریکی یا جاپانی ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ملکوں پر یقین ہی نہیں رکھتا ۔دوسرا سیاسی تقسیم اور خلفشار پر بھی یقین نہیں رکھتا ۔میں صرف ایک عالمی دنیا کا باشندہ ہوں اور اس پر مجھے فخر ہے۔میں نے پوچھا،نیشنلزم کے نظریئے کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟انہوں نے کہا،نیشنلزم یا قومیت پرستی کی وجہ سے انسانیت کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے اور پہنچ رہا ہے۔قومیت ایک nonsense آئیڈیا ہے ۔قومیت کسی نہ کسی طرح فاشزم کی ایک خطرناک شکل ہے ۔اس لئے مجھے قومیت پرستی سے شدید نفرت ہے۔جب کوئی انسان یہ کہے گا کہ وہ پاکستانی ہے ،یا ہندوستانی ہے یا امریکی ہے تو اس کا مطلب ہے وہ فاشسٹ ہے۔اور انسانی دنیا کے لئے خطرناک ہے ۔قومیت پرست ،محب وطن عناصر انسانیت کے لئے خطرناک ہیں ۔امن ،محبت اور ترقی کے دشمن ہوتے ہیں ۔انسانی تاریخ میں اس کے واضح ثبوت ہمارے پاس ہیں ،یہ ہٹلر بھی تو ایک قوم پرست فاشسٹ تھا ۔یہ قوم پرستی اور محب وطنی انسانیت کے ساتھ غداری ہے ۔پاکستان کو نیشنالزم کا انکار کردینا چاہیئے۔پاکستان اقوام متحدہ کو ایک خط لکھے اور کہے کہ وہ عالمی ایریا ہے اور یہاں کوئی بھی کسی وقت بھی آسکتا ہے ،کسی قسم کے ویزہ یا پاسپورٹ کی قید نہیں ۔علی حسنین نے کہا ،وہ انسانیت کے غدار نہیں بن سکتے ۔وہ جو قوم ،وطن یا کسی ملک سے محبت کرتے ہیں وہ انسانیت کے غدار ہیں ۔کسی ایک مذہب ،کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا محب وطن دوسری قوم یا دوسرے ملک کا دشمن ہوتا ہے ۔جو اپنے ملک سے محب وطنی کا اظہار کرے گا وہ یقینا دوسرے علاقے سے نفرت کرے گا یا اس علاقے کا دشمن ہوگا ۔پاکستان اور بھارت کے کڑوروں انسانوں کا آپس میں یہی ایک تعلق رہ گیا ہے۔علی حسنین نے کہا ،وہ کسی قوم یا کسی ملک کے دشمن بنکر زندگی کو انجوائے نہیں کرسکتے ۔ان کا نظریہ عالمی ہے ۔یہ زمین ایک ہے ،یہ انسانیت ایک ہے اور یہ دنیا ایک ہے اور یہاں اس زمین پر حکومت بھی عالمی ہونی چاہیئے۔۔علی حسنین نے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے کہا ،بیٹا جی ،اس زمین پر تین ہزار سالوں میں پانچ ہزار جنگیں لڑی گئی ،ان جنگوں میں کروڑوں انسان قوم ،مذہب اور وطن کے نام پر قربان ہوگئے ۔یہ کونسی انسانیت ہے؟یہ وطن ،یہ ملک ،یہ قومیں انسانیت کے لئے موت ہیں ۔امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراکر لاکھوں انسان کو ہلاک کر دیا ،یہ انسان کیا قومیت اور وطن کے نام پر نہیں مارے گئے؟دنیا کے نوے فیصد انسانوں کی صلاحتیں جنگی ساز و سامان میں تباہ و برباد ہورہی ہیں ،اگر یہ صلاحیتیں اور وسائل انسانیت کے لئے استعمال ہوں تو یہ دنیا جنت بن جائے ۔یہ کیا بکواس اور گھٹیا نظریہ ہے کہ یہ میرا ملک ہے ،وہ اس کا ملک ہے ،یہ میری قوم ہے ،وہ اس کی قوم ہے ۔میرے اور تیرے نے انسانیت کو وحشی بنادیا ہے ۔یہ جنگ و جدل اور خطرناک ہتھیار ملک اور قوم کے نام پر تیار ہورہے ہیں اور انسانیت انہی ہتھیاروں کی وجہ سے مررہی ہے ۔غریب سے غریب ملک بھی ایٹم بم بنانے کی جدوجہد میں لگے ہیں ،یہ اسی محب وطنی اور قوم پرستی کا نتیجہ ہے ۔پاکستان اور بھارت غربت سے مررہے ہیں ،لیکن ایٹم بم بنارہے ہیں ۔گھاس کھا رہے ہیں لیکن نام نہاد شان و شوکت کے لئے ایٹم بم بناکر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ محفوظ بن رہے ،لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے ۔علی حسنین نے کہا ،اجمل میاں ،قوموں پر کبھی یقین نہ کرنا ،کبھی اپنے آپ کو کسی ملک کا محب وطن نہ سمجھنا اور نہ ہی اپنے آپ کو کسی ملک کا شہری سمجھنا ،بس اپنے آپ کو عالمی انسان کی طرح سوچو۔قوم ملک اور وطن کے غدار بن جاؤ،لیکن انسانیت کے غدار کبھی نہ بننا ۔یہ محب وطنی فرقہ پرستی کی مانند ہے ۔یہ سرحدیں ،یہ باڑ ،یہ ویزہ اور یہ پاسپورٹ ،یہ سب قوم پرستی اور ملک پرستی کی وجہ سے ہیں ۔دنیا میں تمام ملکوں اور قوموں کو سرنڈر کرنا چاہیئے اور عالمی حکومت کا حصہ بن جانا چاہیئے۔جب پوری دنیا میں ایک ہی قسم کی حکومت ہوگی جسے عالمی حکومت کہا جائے گا تو پھر کسی قسم کی افواج اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی ۔پھر انسان ملکوں ،قوموں اور محب وطنی کے نام پر نہیں لڑیں گے اور پھر دنیا کے تمام انسان عالمی انسان کہلائے گے۔اس دنیا کا ہر ملک ایٹم بموں اور ہتھیاروں سے بھرپور ہے،اتنے ایٹمی ہتھار ان ملکوں کے پاس ہیں کہ یہ اس دنیا کو لاکھوں مرتبہ تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اقوام متحدہ کو عالمی حکومت میں بدل دینا چاہیئے اور یہی انسانیت کو بچانے کا ایک واحد راستہ ہے ۔ٹیکنالوجی کو تخلیقی کاموں کے لئے استعمال کیا جائے ۔دنیا کے تمام ملکوں کی افواج کے سپاہیوں ،جرنیلوں وغیرہ کو تخلیقی کا موں پر لگادیا جائے ،ان زہین سائنسدانوں کو قید سے آزادی دے دی جائے جو ایٹم بم بنانے میں لگے ہیں ،ان سے تخلیقی کام کرائے جائیں ۔دنیا کے تمام ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم کو اس عالمی حکومت کے ممبران بنا دیا جائے ،پھر انہی میں سے کسی ایک کو عالمی دنیا کا صدر چن لیا جائے ۔یہی ایک بہترین راستہ ہے جو انسانیت کو تیسری جنگ عظیم سے نجات دلاسکتا ہے ۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ساری انسانیت انہی ایٹم بموں سے اجتماعی خودکشی کر لے گی اور وہ وقت قریب آرہا ہے ۔قوموں کا دور ختم ہوگیا۔قومیں اور ملک مسائل کا سبب ہیں ۔جب انسانیت ایک ہوگی ،عالمی حکومت ہوگی،دنیا قوموں میں تقسیم نہیں ہو گی ،کسی کو کہیں آنے جانے کی آزادی ہوگی ،کسی قسم کے ویزے یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی ،تو ایسی دنیا جنت سے بھی کہیں بہتر اور عظیم ہو گی اور انسان زندگی کو بھرپور انداز میں انجوائے کرسکیں گے ۔ملکوں کی حکومتیں گھٹیا اور بدصورت ترین گیم کھیل رہی ہیں ،قومیت اور محب وطنی اور سیکیورٹی کے نام پر خوف پیدا کررہی ہیں ،یہ خوامخواہ کا ڈر پیدا کررہی ہیں کہ اگر حکومتیں نہ ہوں تو دنیا میں تباہی آجائےگی۔اور ہم انسان ان پر یقین کررہے ہیں ۔ان حکومتوں نے قومیت اور محب وطنی کے نام پر ہمیشہ انسانوں کا استحصال کیا ہے ۔انسانوں میں خوف پیدا کیا ہے ۔یہ ملک ہمیشہ کے لئے جنگ ہیں ۔ایڈلف ہٹلر ،الگژنڈر دی گریٹ،نپولین بوناپارٹ ،چرچل ،موسولینی ،سٹالن ،چنگیز خان یہ انسانیت کے ہیروز نہیں ،انسانیت کے دشمن تھے ۔ان وحشیوں نے وطن ،قوم اور ملک کے نام پر کروڑوں انسانوں کو مروادیا ۔یہ سب idiots تھے ۔ملک ،قوم اور محب وطنی کا نام لیکر طاقتور اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں ۔یہ ان خوبصورت الفاظ کا سہارا لیکر انسانوں کا قتل عام کراتے ہیں ۔یہ صدور اور وزراء اعظم اور فوجی جرنیل استحصال کرکے یہ عہدے حاصل کرتے ہیں ۔ہر انسان منفرد اور اوریجنل ہے اور اسے کسی قوم اور وطن کی ضرورت نہیں ۔ہم سب اس انسانیت اور عالمی دنیا کے منفرد انسان ہیں ۔ہمیں قوم یا ملک بنکر نہیں جینا چاہیئے ،ہمیں افراد بنکر زندگی کو انجوائے کرنا چاہیئے۔کیا ضرورت ہے انسانوں کی زمین پر لائینیں کھیچنے کی ،کیا ضرورت ہے سرحدوں ،پاسپورٹ اور ویزوں کی ۔یہ تمام زمین ہم سب انسانوں کی ہے اور ہم سب کو ان لکیروں کو مٹا دینا چاہیئے ۔کیا یہ سورج ،چاند ،ستارے کسی کی پراپرٹی ہوسکتے ہیں ۔یہ سب انسانوں کے لئے ہیں ۔ہوا ،دریا ،سمندر سب انسانوں کے لئے ہے ،لیکن ہم انسانوں نے ہوا،دریا ،چاند ،ستاروں اور سورج پر بھی اپنے جھنڈے گاڑھے ہوئے ہیں اور وہ بھی قوم ،وطن اور ملک کے نام پر ۔اب تو چاند پر بھی مختلف ممالک اپنا اپنا حق جتانا شروع ہو گئے ہیں ۔وہاں کوئی انسان نہیں رہتا ،پھر بھی ملکیت کی جنگ ہورہی ہے ۔چاند پر بھی امریکی جھنڈا گاڑھ دیا گیا ہے ۔کوئی انسان ان جھندوں کو چاند یا مریخ پر نہیں دیکھ سکتا ،نہ ہی سیلوٹ مار سکتا ہے ،پھر بھی وہاں قوم اور وطن کے نام پر جھنڈا گاڑھ دیا گیا ہے ،کیا اس سے بڑی تزلیل انسانیت کی اور ہو سکتی ہے ۔اس انسانیت کو بچانے کا سادہ حل یہی ہے کہ تمام سرحدیں مٹاؤ،اور انسانیت کو بچاؤ۔زمین ایک ہے ،اس پر کسی قسم کی لائینیں نہیں ہونی چاہیئے ۔انسانیت ایک ہے اس پر کسی قسم کی بیہودہ نظریات غالب نہیں ہونے چاہیئے۔یہ ملک رہے،یہ قومیں رہیں اور یہ محب وطنی جیسے آئیڈیاز رہے، تو پھر دنیا کو بہت جلد تیسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر انسانیت اور انسان سب فنا ہو جائیں گے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔