(Last Updated On: )
شمشان گھاٹ میں بیٹھی وہ چِتا کے جلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اچانک ایک دھماکہ ہو ا گوشت کا ایک لوتھڑا چمپا رانی کے قدمو ں میں گرا ۔ اس نے پائوں سمیٹ لئے۔
سرگوشیاں کرتے لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیئے۔ اُفق پر تارے لوٹنے لگے۔ چمپا رانی سڑ ک پر چل پڑی۔
چمپا رانی چنڈال طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ جو اہلِ ہنود کی چاروں ذاتوں سے کم تر سمجھا جاتا تھا۔ ان کا پیشہ لاشیں اُٹھانا اور مردے جلانا ہوتا تھا۔ یہ لوگ صرف مُردوں کی اُترن پہن سکتے تھے ۔
اس کی عمر بیس برس سے زیادہ نہ تھی، پر طبقاتی کمتری نے ابھی سے اس کے چہرے پر مایوسی کی جھریاں ڈال دی تھیں ۔ رات کو وہ ویرانے میں سو گئی۔ نیند میں شمشان گھاٹ کے خوفناک ہیولے اُس کے آنکھوں میں گردش کرتے رہے۔
صبح اُٹھتے ہی اس نے زور دار جمائی لی، آنکھیں ملیں اور جوتی گھسیٹتے سڑک کے کو نے پر بیٹھ گئی۔
اُس کے ذہن میں خیالوں کے دیپ روشن ہو رہے تھے۔ مشرق کی طرف سے سورج کی کرنیں اس کے قریب سے گزرتی فٹ پاتھ پر جا پڑیں۔ چند بچے گلی میں گِلی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ ایک پجاری مہاتما بدھ کی مورتی کو پرنام کرتا جا رہا تھا۔ کچھ سادھو اپنی تسبیح پر مخصوص کلمات کا ورد کرتے جارہے تھے۔
چمپا بڑے انہماک سے بدلتی دنیا کے منظر دیکھنے میں مگن تھی۔ پرندوں کا گروہ آپس میں چہ مگوئیاں کرتا اس کے ساتھ سے گزرا۔وہ بھی تیار ہو کر اپنے معبد چلی گئی۔ایک برہمن کے سامنے لوگ عقیدت سے بیٹھے وعظ سن رہے تھے۔ وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی۔
اُسے یہ دنیا محض تصورات کا شیش محل لگتی تھی۔ جسے انسان باربار بناتا ہے پھر خود ہی زمین بوس کر دیتا ہے۔ انسان در حقیقت خود ایک بھول بھلیا ہے۔ فطرت نے اسے سکون سے محروم کر رکھا ہے۔ وہ اپنے احساس ِ کمتری کو چھپانے کی خاطر ہر طرح کی آسائش و زیبائش سے آراستہ ہو تا ہے۔ مگر انجام بالآخر ایک ہی ہوتا ہے۔ موت۔۔۔۔ہائے کفِ افسوس
’’ روح کی پاکیزگی اور نفس پہ قابو پانے سے انسان اعلیٰ و ارفع مقام حاصل کرتا ہے‘‘۔ برہمن گویا ہوا ’’دل محض گوشت کے لوتھڑ ے کا نام نہیں ہے بلکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں پہ ایشور کا استھان ہے‘‘۔
اس کے دل میں کسی صوفی شاعر کا کہا یاد آگیا ۔
مسجد ٹادے ، مندر ٹادے ، ٹا دے جو کچھ ٹیندا اے
کسے بندے دا دل نہ ٹاویں، ربّ دلاں وچ ریندا اے
چمپا وتی گیا ن سن کر اپنے انگریز صاحب کی کوٹھی پر چلی گئی۔ وہاں سے اس نے کوڑا دان اُٹھایا اور کچرے میں جاکر اسے الٹنے لگی ۔ اس نے کوڑا دان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور کچرے میں شامل چائے کی پتیاں اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ان کو اپنے دوپٹے میں لپیٹ کر اپنے گھر لائی اور دھوپ میں جا کے سکھا دیا۔ پتیاں سکھانے کے بعد اُس نے انہیں خوب رگڑا۔ اور چائے بنا کر مٹی کے پیالے میں ڈالی اور پی گئی۔ یہ اس کا معمول تھا۔ اگر کسی گھر میں فوتگی ہو جاتی تو مردے کی اُترن ان کو ملتی ۔ ایک مرتبہ دیوالی کا تہوار آگیا، پر کسی کی فوتگی نہ ہوئی ۔ چمپا وتی کوچِنتا لاحق ہوئی کہ اس کے بچے کیا پہنیں گے؟
اسی دوران اُس کے شوہر کی موت ہو گئی۔ ستی کی رسم کے تحت اس کو بھی شوہر کے ساتھ ہی جلنا تھا۔
اس کا 4 سالہ بچہ راجو خوش تھا کہ اب وہ مردے کی اُترن پہنے گا۔
٭٭٭
ہمہ جہت شاعر ۔۔۔محمد نواز خوشتر
معروف بزرگ عظیم صوفی شاعر محمد نواز خوشترعباسی 1895ء میں خان پور کے تاریخی قصبہ گڑھی اختیار خان میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم ججہ عباسیاں اور گڑھی اختیار خان سے حاصل کی ۔بچپن سے ہی مولوی لطف علیؒ کے قصہ سیف الملوک کو یاد کیا اور انھیں اپنا روحانی استاد تسلیم کیا۔ جبکہ آپ کے ظاہری استاد سخن چاچڑاں شریف کے شاعر احمد جان فریدی
تھے۔خوشتر ججویؒ کی شاعری میں حمدو نعت،قصیدہ،منقبت، مرثیہ،ڈوہڑہ، غزل،کافی، نظم، قطعہ اور رُباعیات،مثنوی شامل ہیں ۔
آپ کی وجۂ شہرت کلام منظوم قصہ ’’یوسف ؑزلیخا ‘‘ہے ۔جس میں سرائیکی زبان کی اصلاحات ،محاورے، تشبیہات انتہائی مہارت سے استعمال کیں ۔جسے سرائیکی ادبی مجلس بہاولپور نے شائع کیااور بعد میں خوشتر ؒکے صاحب زادے عاقل محمد عباسی مرحوم نے بھی یہ قصہ شائع کیا حسن وعشق،سوزو گداز،ہجرو وفراق، منظر کشی آپ کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ پڑھنے کا انداز منفرد اور دلکش تھا،کلام سنانے سے پہلے اپنی نعت ’’صورتِ مثل محمد سرور نہیں کہیں زمیں وچ ‘‘کے چند اشعار لازمی پڑھتے۔
آپ کے شاگردوں میں صوفی محمد یار بے رنگ،گل تر،احسن فقیر،اور مجاہد جتوئی نمایاں ہیں ۔
آپ نے 77 سال کی عمر میں 1972ء میں وفات پائی اور شیخ عبداللہ شاہ قبرستان بستی پیرا بلوچ گڑھی اختیارخان میں مدفون ہیں ۔٭ ( تحریر : مرزا حبیب الرحمن)
****
کشور کمار
****
کشور کمار