شیر شاہ سوری ( 1486ء تا 1545 ء ) نے مغلوں کے ہاتھوں سے تخت صرف پانچ سالوں کے لئے چھینا تھا اور فتوحات کرنے کے علاوہ ڈاک کے نظام میں سدھار ، ٹکسال و دیگر سماجی اصلاحات کے علاوہ ' گرینڈ ٹرنک روڈ ' ( اُتر پتھ / بادشاہی / جرنیلی سڑک ) جو چندر گپت موریہ کے زمانے( لگ بھگ 300 قبل از مسیح ) سے عوامی رابطے کا اہم ذریعہ تھی ، کو چٹاگانگ سے کلکتہ ، وہاں سے دہلی ، امرتسر ، لاہور ، پشاور سے ہوتے ہوئے کابل تک نئے سرے سے استوار کیا تھا ۔ لگ بھگ تین ہزار تین سو کلو میٹر لمبی یہ سڑک اس نے فقط 1540 ء تا 1545 ء کے عرصے میں ہی مکمل کر دی تھی جس کے ہر دس کوس ہر ایک سرائے ، گھوڑوں و جانوروں کے لئے ایک طبیلہ ، ایک کنواں اور تالاب موجود تھا ۔ برگد کے درختوں کا چھنڈ بھی ان پر سایہ کئے رہتا تھا ۔ اس سڑک پر سفر کرنے کے لئے کسی قسم کا ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا تھا ۔ مئی 1545ء میں شیر شاہ سوری مر گیا اور سوری اقتدار کو اس کی پشتیں نہ سنبھال سکیں ۔ ہمایوں واپس آ گیا ، کئی مغل بادشاہ گزرے ، انگریز آئے، انہوں نے اس سڑک کو پکا کیا ، کچھ سراوٗں کو سرکاری تصرف میں لائے لیکن عمومی طور پر دس کوسی یہ ' سرائے نظام ' اپنی اصل ہیت میں برسوں برقرار رہا ، وہ بھی چلے گئے ، برصغیر کے ٹکڑے ہوئے اور یہ سٹرک امرتسر ، لاہور کے درمیان سے کٹ کر خیبر پاس تک پاکستان کے حصے میں آ گئی ۔ میں اس سٹرک پر بچپن سے اب تک سفر کرتا آیا ہوں اور دو روز قبل بھی اسی کے ذریعے لاہور واپس پہنچا ہوں ۔ گزشتہ دو ایک دہائیوں میں اس سڑک کو کشادہ اور دو رویہ کرنے کے لئے برگد کے درختوں ، کنووٗں ، تالابوں اور سراوٗں کا جو حشر کیا گیا ہے وہ الگ کہانی ہے ۔ میں یہاں جس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ پشاور تا لاہور تک کا سفر ' ٹول ' کی مد میں تین سو روپے سے زائد ادا کرکے ہی اپنی کار پر گھر پہنچ سکتے ہیں ۔
سن 19900 ء میں پاکستان کی مسند اقتدار پر ایک ایسا حکمران بیٹھا جس نے خود کو شیر شاہ سوری ہی جانا اور ملک میں ' سپر ہائی ویز ' کا جال پھیلانے کی ٹھانی ۔ ' ایم 2 ' اس جال کا پہلا ٹکڑا تھا جو لاہور کو اسلام آباد / راولپنڈی سے ملانے کے بنایا جانا تھا ۔ 233 میل ( 375 کلو میٹر) لمبی اس موٹر وے کو بنانے میں سات سال لگے اور پانچ انٹر جینجز اور وہاں موجود کچی پکی سفری و قیام و طعام کی سہولتوں کے ساتھ اس کا افتتاح نومبر 1997ء میں کیا گیا ۔ اس پر ابتداً کوئی ' ٹول' نہیں لگایا گیا تھا جس کے بعد ' ٹول ' کا نفاذ کر دیا گیا ۔ یہ ٹول اس وقت تک جیب پر گراں نہیں گزرتا تھا ( یہ دو صد روپے کے لگ بھگ تھا ) جب تک اس کا انتظام BOT کے تحت تعمیراتی کمپنی ' ڈائیو ' کے پاس تھا لیکن جیسے ہی اس کو NHA کے کور میں دسمبر 2014 ء میں FWO کے حوالے کیا ہے اس کا ' ٹول ' پرسنل کار کے لئے بڑھتے بڑھتے 580/- روپے ہو چکا ہے ( دیگر گاڑیوں کے ٹول میں بھی اسی مناسبت سے اضافہ کیا گیا ہے ) ۔ کوئی چھ ماہ پہلے کار کے لئے یہ 510/- روپے تھا لیکن چند روز قبل مجھے اسلام آباد کے Exit پوائنٹ پر 70 روپے اضافے کے ساتھ ' ٹول ' ادا کرنا پڑا ۔ اس لگ بھگ بیس سال کے عرصے میں اس کے پانچ انٹر چینج بھی بڑھ کر بیس تک جا پہنچے ہیں ، مطلب اس سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت پندرہ مزید مقامات سے ہو سکتی ہے لیکن جس حساب سے ' ٹول ' بڑھایا گیا ہے لگتا ہے کہ اس پر آمد و رفت کرنے والی گاڑیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اب ارباب اختیار موٹر وے کی حدود میں آئی زمین کو ہی آگے کرایے پر دے کر اپنی جیبیں بھر رہی ہے ۔ یہ لوٹ کھسوٹ کچھ یوں ہے ؛ جا بجا ' آرام گاہ ' کے نام پر ایک گھٹیا بیکری کو بھی کاروبار کے اڈے فراہم کئے گئے ہیں ۔ پانچوں بڑے انٹر چینجز پر بھی وسیع اراضی پر طرح طرح کے ہوٹل کھڑے کر دئیے گئے ہیں جو ' فوڈ سٹریٹ ' کا سماں پیش کرتے ہیں : مقصد صرف اور صرف پیسے بٹورنا ہے کیونکہ موٹر وے پر ہر شے کی قیمت عمومی قیمت سے زیادہ ہے ؛ چائے کی ہی مثال لیں ، یہ عام طور پر بیس روپے کا کپ ہے لیکن اس سڑک پر آپ کو ایک ' مِنی کپ ' تیس روپے میں ہی مل پائے گا ۔ اس کے علاوہ پی ایس او (PSO) کا ٹھیکہ بھی ختم کرکے کسی غیر معروف کمپنی کو پڑول پمپس دے دئیے گئے ہیں جن کے پاس صرف ' ریگولر ' پٹرول ہی دستیاب ہے ۔ اس بارمجھے اسلام آباد سے پشاور جانے کے لئے بھی 260/- روپے ادا کرنے پڑے جبکہ یہ ٹکڑا صرف 96 میل (155 کلو میٹر) لمبا ہے ۔
لاہور تا اسلام آباد کار میں سفر کرنے پر آپ کا 1.555 روپے جبکہ اسلام آباد تا پشاور سفر کرنے پر 1.68 روپے فی کلو میٹر ' ٹول ' ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر اوسط نکالی جائے تو لاہور تا پشاور آپ لگ بھگ 1.615 روپے فی کلو میٹر ' ٹول ' دے کر ہی ڈھائی ہزار کلو میٹر لمبی ' گرینڈ ٹرنک روڈ ' کے پانچویں حصے کے ایک سے دوسرے تک پہنچ سکتے ہیں ۔ کل کو جب گوادر اور کراچی تک ایم 8 اور ایم 9 مکمل ہو گئیں ( اگر مکمل ہو گئیں ) تو ذرا سوچیں کہ ' ٹول ' کی مد میں آپ کو کتنے روپے دینا پڑیں گے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : اس وقت لاہور تا اسلام آباد کا ٹول ؛ کار 580/- ، بارہ سیٹوں تک کی ویگن 9700 /- ، منی بس یا کوسٹر 24 سیٹر 1360/- ، 42 سیٹر بس 1940/- ، دو یا تین ایکسل والا ٹرک 2530/- اور اس سے اوپر والے ٹرک 3110/- روپے ہے جبکہ اس وقت اسلام آباد تا پشاور کا ٹول ؛ کار 260/- ، بارہ سیٹوں تک کی ویگن 450 /- ، منی بس یا کوسٹر 24 سیٹر 620/- ، 42 سیٹر بس 880/- ، دو یا تین ایکسل والا ٹرک 1140/- اور اس سے اوپر والے ٹرک 1410/- روپے ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔