(Last Updated On: )
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سُلا رکھا جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے گل پھول کو ہے اُن نے پردہ سا بنا رکھا جوں برگِ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو دل جس کسو کا پایا چٹ اُن نے اُڑا رکھا تھی مسلکِ الفت کی مشہور خطرناکی میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی رخساروں کو گو تُو نے برقعے میں چھپا رکھا لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزا رکھا قطعی ہے دلیل اے میرؔ اس تیغ کی بے آبی رحم اُن نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا