بڑا سہانہ منظر تھا ' ایک خواب ناک منظر – سجے سجائے کمرے میں ایک سجی سنوری دلہن دلکش عروسی جوڑے میں ملبوس ایک ادائے بے نیازی سے بیٹھی اپنے دولہا کی منتظر تھی – چہرے کے تاثرات میں البتہ ایک طرح کا تردد ضرور پایا جاتا تھا ' جیسے ۔۔۔ جیسے وہ کچھ اکتا سی گئی ہو – انتظار کبھی بھی کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا –
" اگر یہ میری پسند کی شادی ہوتی تو کیا پھر بھی انتظار اتنا اکتا دینے والا ہوتا ؟ – اس نے دل میں سوچا – اور پھر خود ہی مسکراتے ہوئے سر جھٹکا – ایک مفروضے پر قیاس آرائیوں سے بھلا کیا حاصل؟
اور پھر اسے مزید کچھ سوچنے کا موقع ہی نہ ملا ' قدموں کی آہٹ اتنا واضح تھی کہ اسے ایک دم چونکنا پڑا – دروازہ آہستگی سے کھلا اور پھر چٹخی چڑھائے جانے کی مخصوص آواز سے گونج اٹھا – یک بارگی دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں اور جانے کیوں قید میں ڈالے جانے کا گھٹن بھرا احساس وجود کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑ گیا –
وہ بدستور سر جھکائے اس کی منتظر تھی – خوشبو میں بسا کوئی وجود اس کے قریب بہت قریب آ کر رک سا گیا تھا – دھڑکنیں بے ترتیب سی ہونے لگیں – جانے وہ قریب کھڑا کیا سوچ رہا تھا – ایک نسوانی وجود پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گرنے کو تیار تھا اور وہ کھڑا جانے سوچوں کے کس ادھیڑ بن میں گم تھا –
اچانک ایک جھماکا ہوا اور اس کا پورا وجود کانپ کر رہ گیا –
" کہیں ۔۔۔۔ کہیں میرے ساتھ بھی وہی کہانی تو نہیں دہرائی جائے گی ۔۔۔ وہی جو نگینہ کے ساتھ ہوا تھا " –
پھر خود ہی زور زور سے اس نے سر جھٹک کر اس منحوس خیال کی پر زور نفی کی –
پھر اچانک وہ اچھل پڑی – کسی نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے پاؤں پر رکھ دیے تھے -اسے یوں لگا جیسے کسے نے بڑے گول پہیے میں اسے ڈال کر چکنی زمین پر زور سے لڑکا دیا ہو – سہارے کے لیے بازو پھیلائے تو اس کے ہاتھ اپنے شوہر کے گریبان میں اٹک کر رہ گئے – پھر اسے کچھ ہوش نہ رہا –
۔۔۔۔۔
وہ ایک متوسط گھرانے کی عام سی شکل و صورت والی پڑھاکو قسم کی لڑکی تھی – اس کا مشغلہ بھی تعلیم سے ملتا جلتا ہی تھا – اسے مطالعے کا جنون تھا – درسی کتابوں سے نکلتی تو ڈائجسٹ کی دنیا میں جا گھستی – جانتی تھی کہ روکھی سوکھی روٹی اور عید شب رات پر ایک ایک سوٹ کے سوا اسے کچھ ملنے والا نہیں' سو وہ کوئی فرمائش کرتی ہی نہ تھی – ڈائجسٹ پڑھنے والی اکثر لڑکیاں خیالوں ہی خیالوں میں اپنے محبوب تراش لیا کرتی ہیں پر اس سے یہ بھی نہ ہو پایا تھا – سخت گیر والد کی موجودگی میں اس کی دال کہاں گلنے والی تھی – سو اپنے شوہر کو ہی اپنا محبوب بنا لینے کا اس کا پکا ارادہ تھا – گھر کی اکلوتی تو تھی نہیں کہ لاڈ اٹھواتی سو خود کو ایک محدود سے کینوس میں بند کیے رکھتی تھی –
وہ کل پانچ افراد تھے جن میں دو بھائی بھی تھے – دونوں بھائی اور دو بہنیں اس سے بڑے تھے ۔ اتفاق مگر ایسا ہوا تھا کہ ساری بہنوں میں سے لاٹری اسی کی نکلی تھی – اس کے دور پار کی ایک عزیزہ پسند تو بڑی کو کرنے آئی تھی پر ہوا یہ کہ انہیں ساحرہ پسند آ گئی – ساحرہ کا ایسا جادو ان پر چلا کہ انگلی میں منگنی کی انگوٹھی ڈال کر ہی دم لیا –
پھر تین ہی ماہ میں وہ اپنی امانت بڑی دھوم دھام سے لے گئے تھے –
کل کی کس کو خبر ہوتی ہے – اس کے والدین اور خود اس کو کب خبر تھی کہ یہ قیامت اس پہ ٹوٹے گی – تین چار دن وہ اسپتال میں رہی – ڈاکٹر اسے نارمل کیس کے طور پر لے رہے تھے کہ بعض دفعہ لڑکیاں خوف کے سبب اپنے اندر بے انتہا کمزوری محسوس کرتی ہیں اور ان پر کمزوری کے سبب نیم بے ہوشی سی طاری ہو جاتی ہے – چوتھے دن کہیں اسے گھر جانے کی اجازت مل پائی تھی –
اس کا شوہر احسن سارا سارا دن اس سے چپکا رہتا اس سے باتیں کرتا اسے خوش رہنے کی کوشش کرتا مگر وہ تو کسی گہری کھائی میں جا پڑی تھی – مسلسل گم صم رہتی – کبھی کبھار ہوں ہاں کر دیتی کہ وہ یہ سوچ کر مطمئن ہو جائے کہ اسے سنا جا رہا ہے – اس کے پیش نظر ایک ہی بات تھی کہ اس کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے .اپنی دوست نگینہ والا کہ جس نے شادی کے اگلے ہی روز ایسا واویلا کیا کہ لڑکے والوں کی طلاق دیتے ہی بنی – اس طرح اس نے ایک ساتھ دو مقاصد حاصل کر لیے – اپنے نامرد شوہر سے چھٹکارا بھی پا لیا اور اپنے محبوب کے لیے گھر والوں سے ہاں بھی کرا لی کہ وہ اب بھی اسے اپنانے کے لیے تیار ہے – لیکن یہاں تو ایسا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں – اس کے غریب والدین نے بڑے مشکل سے ایک بیٹی رخصت کی تھی اور ابھی دو لڑکیاں شادی کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھیں – اگر وہ گھر واپس پہنچ جاتی تو اس کی دوسری بہنوں کا مستقبل تاریک ہو سکتا تھا – مردوں کے اس معاشرے میں مرد خطا کار ہو کے بھی معزز ٹھہرتا ہے جب کہ عورت مظلوم ہو کر مطعون – جب جب وہ اس خیال سے احسن کی طرف دیکھتی کہ آخری اور الوادعی نظر ڈالے اور گھر چھوڑ کر رخصت ہو جائے تو جانے کیوں اس کی نظریں احسن کے خوب صورت چہرے سے چپک کر رہ جاتیں – دل چیخ کر کہتا کہ اس کا دل مت توڑو – ٹوٹ جائے گا بکھر جائے گا – اس سے عجیب طرح کا انس اور اپنائیت سی ہو چلی تھی – بلآخر اس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا – احسن نے سنا تو خوشی سے جھوم اٹھا – چہرہ یوں کھل اٹھا جیسے ساری دنیا کی دولت اس کے قدموں میں لا کر رکھ دی گئی ہو – اس کا بس نہ چلتا تھا کہ اٹھے اور تب تک رقص کرتا رہے جب تک اس کے وجود میں توانائی کی ہلکی سی رمق بھی باقی ہے – اسے خوش دیکھ کر اسے بھی یقین ہونے لگا تھا کہ اس کا فیصلہ واقعی درست ہے –
۔ِ۔۔۔۔۔
چھ ماہ بمشکل سکون سے گزرے ہوں گے کہ اس کی ساس کو پوتے پوتیاں نہ کھلا سکنے کا دکھ ستانے لگا -اٹھتے بیٹتھے ایک ہی ذکر اور ایک ہی دکھ گھر کی فضاء میں گونجنے لگا – میاں بیوی نے ڈاکٹر سے رجوع کا فیصلہ کیا – وہاں حسب توقع شوہر میں خرابی کی رپورٹ سامنے آئی – بات واقعی پریشان کن تھی – مردانہ کمزوری ہی صرف ہوتی تو کچھ بات بھی تھی یہاں تو باپ بننے کے امکانات ہی صفر سے کچھ زیادہ تھے – اور پھر بیوی کا علاج شروع ہو گیا – کم از کم ان دونوں نے یہی بتایا تھا درپردہ مگر اس کے شوہر کا علاج جاری تھا – ڈاکٹروں خود بھی بہت زیادہ پر امید نہ تھے – اور پھر چھ ماہ کے علاج کے بعد نتیجہ صفر ہی رہا تو دونوں پریشان ہو گئے – اب وہ اپنی ساس کو کیسے مطمئن کرتی – اور پھر ایک دن اس کی ساس نے ایسی بات کہ اسے زمین اور آسمان آپس میں ٹکراتے محسوس ہوئے –
" اگر تمھاری بیوی تمھیں اولاد کی خوشی نہیں دے سکتی تو تم دوسری شادی کر لو – چھ ماہ کے علاج سے ذرا برابر بھی تو اثر نہیں پڑا – اب میں اور کتنا انتظار کروں – کیا یہ حسرت دل میں لیے قبر میں اتر جاؤں – آخر سوچ کیا رکھا ہے تم نے " –
امی میں ڈاکٹر دانیال سے آج ہی ملاقات کرتا ہوں – وہ بہت بڑے ڈاکٹر ہیں – امریکہ میں ہوتے ہیں آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں مجھے امید ہے کہ وہ ضرور ہمیں خوش خبری سنائیں گے ان شاءاللہ " – اور اس کی ساس منہ بنا کر رہ گئی – لگتا تھا وہ بادل ناخواستہ ہی سہی اپنی بہو کو آخری موقع دینے پر آمادہ ہو گئی تھی –
…..
ڈاکٹر دانیال کے چھ ماہ کے علاج سے بھی دو آنے کا فائدہ نہ ہوا تھا – ساس کے تیور ایسے تھے کہ وہ ڈر کے مارنے اسے دیکھنے کی جرات نہیں کرتی تھی – اس کا دل سہم سہم سا جاتا تھا – رہ رہ کر خیال آتا تھا کہ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے – ہر آہٹ پہ چونک اٹھتی تھی – لگتا تھا وہ کسی تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے – ہوا کا جھونکا بھی اسے کسی گہری کھائی میں گرا سکتی تھا – ہونے کو آخر ٹال ہی کون سکتا ہے اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا –
" یہ لو اپنی رپورٹ جس نے بتا دیا کہ تم ایک بانچھ عورت ہو ' ایک بنجر کھیتی ' ایک ایسی زمین جس پر کبھی سبزہ نہیں کہلاتا – ایک سال کا علاج بھی تمھیں ٹھیک نہیں کر پایا – ساری عمر بھی تمھارا علاج کیا جائے تب بھی تم ٹنڈ منڈ درخت ہی رہو گے " اس کی ساس نے ڈاکٹری رپورٹ اس کے منہ پر مارتے ہوئے کہا – اور اسے یوں لگا جیسے اسے کسی نے آسمان کی وسعتوں سے گرا کر زمین کی پستیوں لا پھینکا ہو –
" تمھیں اس کا انعام ضرور ملے گا ' یہ لو طلاق ۔۔ جس کی تم حق دار ہو – میرے بیٹے نے تمھیں آزاد کر دیا ہے – دفع ہو جاؤ میرے گھر سے "
اور اسے یوں لگا جیسے کسی نے اس کے اددگرد بارودی سرنگ بچھانے کر اسے آگ لگا دی ہو – اس کے اندر اور باہر دھماکے ہو رہے تھے اور اسے یوں لگتا تھا کہ تھوڑی ہی دیر میں اس کا پورا وجود جل کر خاکستر ہو جائے گا – اپنے جلتے وجود کو بدقت تمام سنبھالتے ہوئے اس نے اپنے شوہر کی آنکھوں میں جھانکا – وہ ظالم نگاہیں بچا گیا – رکنا مشکل ہوا تو منہ پھیر کر چلتا بنا – اس کا جی چاہا چیخ چیخ کر پوری دنیا کو اکٹھا کر لے اور اپنے بے فیض شوہر کا پول کھول دے – چیخ چیخ کر کہے کہ وہ بے گناہ ہے' بے قصور – یہ جعلی رپورٹ ہے – یہ اس کی نہیں اس کے شوہر کی رپورٹ ہے – وہ بالکل ٹھیک ہے – مگر یوں لگتا تھا جیسے اس کے گلے میں کسی نے کپڑے کا گولا دبا دیا ہو – وہ ایک لفظ بھی ادا نہ کر پائی – سانس گلے میں اٹک گیا تھا – اسے لگا اسکی سانس رک جائے گی – لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے اس نے گھر کی دہلیز پار کی – برسوں پہلے کسی ڈائجسٹ میں وصی شاہ کے اشعار ذہن میں گنبد میں گونج اٹھے – شاید وصی نے اس کے شوہر کے حوالے سے کہا تھا
مجھے اکثر ستاروں سے یہی آواز آتی ہے
کسی کی یاد میں نیندیں گنوا کر کچھ نہیں ملتا
جگر ہو جائے گا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی
وصی بے فیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا