(Last Updated On: )
مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا القصّہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں آخر اجاڑ دینا اُس کا قرار پایا اتنا نہ تجھ سے ملتے نَے دل کو کھو کے روتے جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا کیا اعتبار یاں کا پھر اُس کو خوار دیکھا جس نے جہاں میں آ کر کچھ اعتبار پایا آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرؔ سے شب واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا