میں نے کھڑکی سے پردے کو ذرا سا سرکایا تو میرے سامنے تاحد نگاہ سرسبز و شاداب پھولوں کے قطعات اور ہرے بھرے درختوں کے وسیع و عریض پھیلے ہوئے سلسلے اور ان کی ہریالی دیکھ کر میرے من نے مسرت ، فرحت اور تازگی محسوس کی ہے جس کی وجہ سے میرا دل چاہتا ہے کہ اسے بھی بھول جاؤں جس نے اس پرمسرت موقع پر میرے دل میں ’حشر‘ برپا کر رکھا ہے۔ میں نے ایک بار پھر کمرے میں نظر دوڑائی۔ میری میز کے ساتھ ہی اس کی میز تھی ۔ میںاپنے کمرے میں آ گیا تھا اور وہ آنے والی تھی ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی قطعاّ تامل نہیں ہے کہ شاید میں اس کے ہی انتظار میںتھا۔ میری بے قراری دیکھ کر میرا دل بلیوں اچھل رہا ہے اور کسی کی من موہنی صورت دیکھنے کے لیے بے قرار ہو رہا ہے ۔ جو لوگ مجھے جانتے ہیں انھیں معلوم ہے کہ حسن میری کمزوری ہے حسین چہرو ں کو تو میں گھنٹوں دیکھنے سے بھی نہیں اکتاتا۔ ویسے اللہ جنھیں حسن دیتا ہے انھیں نزاکت بھی دیتا ہے۔ اور یہ جو عاشق ہوتے ہیں وہ اپنے گلے میں حسن پرستی کا پٹہ ڈالے عشق عشق کے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ اس کھیل میں ہار جیت بھی ہوتی ہے۔ اس کا مجھے اندازہ بھی ہے کیوں کہ میں نے ساری دنیا کی آوارگی کی ہے مگر حسن مشرق کا ہمیشہ سے مداح رہا ہوں۔ ہائے ہائے حسن مشرق کی ملاحت کے کیا کہنے گزشتہ ایک سال سے اس بین الاقوامی رسالے میں آرٹ ڈائریکٹر ہوں اور جس حسن ملیح کا ذکر کرتے میری زبان نہیں تھکتی وہ بھی اسی ’ رسالے‘ میں میگزین ایڈیٹر ہے اور اس کا نام نامی مون ہے… آپ اسے دیکھ کر خود کہیں گے کہ واقعی چاند ہے چاند … حسن کی جیتی جاگتی تصویر جب بولتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ فضا میں رنگ گھولتی ہے اور جب چلتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ پگلی پون اٹھلا کر چل رہی ہے جس طرف جاتی ہے ہر چیز کوخوشبو سے لبریز کر دیتی ہے۔ میرے رسالے کے مالک نے مجھ سے کہا ’ عمران اس بار سرورق پر مون کی تصویر کیسی رہے گی ۔‘ میںنے آہستہ سے کہا تھا ۔ ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین چہرہ موجود ہے … تو… مون کی تصویر کیا کر لے گی۔ آپ اطمینان رکھیے ۔ سرورق کے شایان شان چہرے ہمارے پاس بہت ہیں۔ اب میں اس کروڑ پتی تاجر نما ذہنیت کے حامل کو کیسے بتلاتا کہ عشاق اپنے عشق کو کبھی رسوا نہیں ہونے دیتے … نہ جانے کیا بات ہے کہ میں کبھی کھڑکی کی طرف دیکھ رہا ہوں اور کبھی کمرے کے دروازے کی طرف… مجھے یقین ہے کہ میں اس وقت بڑا بے چین اور بے قرار ہوں… لوگ میری اس حالت کو کوئی بھی نام دیں مگر میں اسے انسیت اور چاہت کا نام دیتا ہوں۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ آ رہی ہے۔ اک نامعلوم سی بھینی بھینی خوشبو اس کے آنے کا پتہ دیتی ہے۔ شاید مون آ رہی ہے۔ اس کا استقبال مجھے کیسے کرنا چاہیے… آداب بجا لا کر ۔ خاموش کھڑے ہو کر یا ذرا سا جھک کر ہاتھ جوڑتے ہوئے … میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اک آواز نے مجھے چونکا دیا۔ عمران۔ پلیز اپنے ڈرائیور کو بلائیں میری گاڑی خراب ہو گئی ہے ۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچی ہوں۔
’’ ہم خود جاکر آپ کی گاڑی صحیح کرا دیتے ہیں۔‘‘
’’ نہیں عمران۔ ڈرائیور کو ہی بھیج دیں ۔ گاڑی تو مستری نے ٹھیک کرنی ہے۔‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ میں ڈرائیور کو ہی بھیج دیتا ہوں۔ مگر مون اک بات تو بتلاؤ، صبح ہی صبح کہاں سے تشریف لا رہی ہیں۔‘‘
’’ عمران میری سہیلی نازلی جو مرگلہ گارڈن میں رہتی ہے۔ کل رات اس کے بھائی کی شادی تھی ۔ میں سیدھی وہیں سے آ رہی ہوں۔‘‘
’’ مون ۔ اللہ ۔ نازلی اور اس کے بھائی کو شادی مبارک کرے ویسے بھی زندگی شادی کے بعد ہی کا نام ہے۔‘‘
’’ عمران! شادی جذبات کا نام نہیں ہے جو جذبات سے کام لیتا ہے پھر ساری عمر آہیں بھرتا ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی …‘‘
’’ مون یہ خوب کہی تم نے … شادی ہی تو خانہ آبادی ہے۔‘‘
’’ ہاں عمران۔ مگرجذباتی لوگ بغیر سوچے سمجھے اسے خانہ بربادی بنا دیتے ہیں۔‘‘
’’ وہ کیسے؟‘‘
’’ وہ ایسے… کہ خوابوں میں رہنے والوں کی جب آنکھ کھلتی ہے تو ماجرا زندگی اور کچھ ہو جاتا ہے۔‘‘
’’ عمران ! صبح ہی صبح لمبی ڈرائیونگ کرنے کا بھی مزہ کچھ اور ہے۔ فطرت کو قریب سے دیکھنا کتنا خوشگواراور حیرت انگیز ہوتا ہے۔‘‘
’’ مون یہی سوچ کر میں بھی کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا اور فطرت کے نظاروں سے بھرپور مزہ لے رہا تھا ۔ صبح دم جب شبنم پھولوں کا منہ دھوتی ہے تو پھولوں پر کیسا غضب کا نکھار آجاتا ہے ۔ عمران پھولوں کا منہ دھونا شبنم کی فطرت ہے ۔ فلسفی کہتے ہیں کہ ہر چیز شعور سے برآمد ہوتی ہے جیسے گیت، تان ، لے ، سُراور سنگیت۔‘‘
’’ ہاں عمران صاحب سارا کھیل ہی سارے گاما کا ہے۔‘‘
آرٹ ڈائریکٹر کے سامنے میوزک ڈائریکٹر کیا کرے ۔ تجربات زندگی ہی سب کچھ سکھاتے ہیں۔ عمران ! ایک میمن سیٹھ جو کہ ایک اخبار کا مالک تھا۔ میں نے ایک دن ہنستے ہوئے پوچھا تھا … کا کا۔ آپ نے اپنے اخبار کے میگزین میں ’ انار‘ کے فوائد نامی مضمون کیوں شائع کیا ہے۔
’’ بی بی آ پ کا تو خود رنگ انار دانے کی طرح ہے میں نے ماہر حکیم کی طرح سے بڑی عمر کے لوگوں کو بتلایا ہے کہ انار کے رس کے کیا فوائد ہیں ۔ ویسے بی بی آپ کے لیے انار کے چھلکے کافی ہیں۔‘‘
’’ مون! بس رونا یہی ہے کہ ہر شعبہ جات میں نااہل جبراّ گھس کر قابض ہو گئے ہیں تم اسی شہر کو دیکھ لو ۔ پہاڑوں سے گھرے اس شہر میں ایک سرکاری ملازم نے ہر چیز پر بزور قوت قبضہ کر رکھا ہے۔ یہاں عجب قانون ہے کہ ملازم حاکم بن بیٹھا ہے اور … راگ جمہوریت کا الاپ رہا ہے۔‘‘
’’ عمران! زیادہ جذباتی مت بنو ۔ ہمارا کلچر یہی ہے۔ طاقت کو آداب بجا لاؤ۔ ورنہ مر جاؤ۔ سنوشب فراق میں بھی تو لوگ جی لیتے ہیں۔‘‘
’’ مون! نہ صرف جی لیتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت میں زندہ رہ کر بھی کمال کرتے ہیں۔‘‘
’’ عمران بات جب کمال اور باکمال کی آگئی ہے تو میں تمھیں آج ایک خط پڑھنے کو دیتی ہوں جو مجھے کل کی ڈاک سے ملا ہے۔‘‘
’’ مون تم ہی پڑھ کر سنا دو۔‘‘
’’ لو عمران سنو!‘‘
محترم ایڈیٹر صاحب … کل میں نے آپ کا میگزین دیکھا ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آپ کے آرٹ ڈائریکٹر کا مزاج کتنا سلجھا ہوا اور نفیس ہے۔ آپ نے سرورق پر جس خاتون کی تصویر چھاپی ہے وہ سراسر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایکسرے ماڈلنگ کے بانی مبانی آپ ہی ہوں گے۔ اس تصویر کا نمایاں ’ عنصر‘ نقاہت ہے جس کی بنا پر ہڈیاں خوب خوب ابھر آئی ہیں ان ہڈیوں پر کپڑے ایسے لگ رہے ہیں جیسے آپ نے ستار پر کپڑا چڑھا دیا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کریوں محسوس ہوا کہ جیسے ہم
آرٹ کی شکل میں کوئی این جی اوز کی رپورٹ دیکھ رہے ہیں۔
باکمال آرٹ ڈائریکٹر نے ہمارے سامنے عصر کی تصویر پیش کر دی ہے۔
آپ نے سرمایہ دارانہ پالیسی کے خلاف صدائے احتجاج پیش کیا ہے۔
کاش اس تصویر کا عنوان یوں ہوتا ’ بھوکے خواب‘
اگر ایسے ہی دو چار میگزین آپ نے شائع کر دیے تو پھر جلد ہی آپ کو اپنا کاروبار لپیٹنا پڑے گا
فقط آپ کا جمی ڈاگ والا‘‘
’’ واہ بھی واہ، مون یہ صاحب ایمی مینو والا کے بھائی لگتے ہیں۔ رقص میں ہے سارا جہاں ویسے مون تمھاری اس خط کے بارے میں کیا رائے ہے۔‘‘
’’ عمران لکھنے والے نے خط نما شکوہ صحیح کیا ہے ۔ تم مریل سی ’ ماڈل‘ کو کیو ں سرورق کی زینت بناتے ہو غبار کم نگاہی بصارت کو چھپا دیتی ہے ۔ آج ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ ڈالڈا گھی بنانے والے بھی تروتازہ اور توانا ’ ماڈل‘ کمپنی کی مشہوری کے لیے پیش کرتے ہیں ۔ تین دن پہلے کی بات ہے کہ ’ باس‘ نے مجھے بلا کر پوچھا تھا ۔ مون عمران کھوئے کھوئے کیوں رہتے ہیں اورمیں دیکھ رہا ہوں کہ ان کی آنکھ میں وہ چمک بھی باقی نہیں ہے جو کہ پہلے تھی ہمارے آرٹ ڈائریکٹر کو کسی خوبرو حسینہ ننے لوٹ لیا ہے اور اس کے ہاتھوں کا ہنر بے ثمر کر دیا ہے۔‘‘
’’ اچھا تم سے پوچھا ۔ مجھ سے براہ راست بات کرتے تو میں انھیں بتلاتا کہ زندگی میں رنگ و نکہت صرف رومانس سے پیدا ہوتی ہے ۔ محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
’’ ہاں عمران! تمھارے فلسفہ محبت پریاد آیا کہ آج کل لڑکے بس لڑکیاں پھنسانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ آہیں بھرنا ، عشقیہ اشعار پڑھنا او ر فلمی ہیرو کی طرح سے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کو عشق کہتے ہیں ۔ اب غم دل غم ہجر سہنے سے قاصر ہے۔‘‘
’’اب چپکے چپکے عشق کی آگ میں جلنا، آنسو پینا متروک ٹھہرا ہے ۔ عشق و محبت بھی اب ’ باہمی مفادات کے حوالے ٹھہرے ہیں۔‘‘
’’ عمران باس یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ تمھیں کس کا غم کھائے جا رہا ہے۔‘‘
’’ مون مجھے بھی اک پری وش نے بدحواس کر دیا ہے۔ ہر دم میری آنکھوں میں اس کی صورت رہتی ہے۔‘‘
’’ اچھا دنیا بھر کی آوارہ گردی کرنے کے بعد بھی ’ چاہ سیماب‘ میں اتنے غرق ہو ہمیں پتہ نہ تھا۔ زندگی درد کی بانہوں میں کب سے جکڑی ہوئی ہے ۔ ہے کوئی حاتم جو کہ کوہ ندا کی خبر لائے۔‘‘
’’ مون! کیا تمھیں کسی سے محبت نہیں ہے؟‘‘
’’ عمران! میں حقیقت پسند ہوں اور خواب دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ پھر میرا تعلق پہاڑوں سے ہے گھرے اس شہر سے ہے جہاں ملازم حاکم بن جاتا ہے۔ تم ہی بتلاؤ میں نے بھی دنیا بھر کی سیاحت کی ہے ۔ میرا علم ’ میرا تجربہ‘ مجھے رہ رہ کر بتلاتا اور جتلاتا ہے کہ زندگی میں خوابوں کا دھواں آنسوؤں کی مالا تول دیتا ہے ۔ حقیقت زندگی سے آنکھیں چار کرنے کا نام ہے۔ عشق و شق وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں اصولوں، ضابطوں، طریقوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ویسے تمھیں شاید۔ یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اج اس دفتر میں ہمارا آخری دن ہے ۔ باس نے اس کاروبار کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کیو ںکہ وہ جہاندیدہ ’ صاحب زر‘ وسعت دل کا مالک فردفرید ہے اور میں نے ہمیشہ ایسے عقل مندوں کو دل سے چاہا ہے کہ جواپنی رائے کا اظہار مون سے ہنی کہہ کر کرتے ہیں اور یہ میرے ہاتھ میں جو انگوٹھی ہے وہ ’ ہیرے‘ کی ہے…‘‘
’’ اچھا عمران نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔‘‘
’’ دست بے توقیر میںہیرے کا ٹکڑا… کچھ نہیں۔‘‘
_______________
دریچہ ادب پاکستان کی سلور جوبلی تقریب
لاہور کے قدافی سٹیڈیم میں، 4 مئی ، 2024 ، کو دریچہ ادب پاکستان کی سپیشل سلور جوبلی کے موقع...