(Last Updated On: )
آرٹس کونسل کے لان پر کرسی ڈالے میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے یہاں وقت کی پابندی کیوں نہیں کی جاتی۔ میٹنگ کا وقت سات بجے تھا اور ابھی تک کوئی بھی نہیں آیا۔ ہم موجود ہیں اور بس بے روزگار افراد کی طرح سوچ رہے ہیں کہ یہ کریں گے … وہ کریں گے… شاید آج میٹنگ ہو بھی یا نہ ہو… میڈم آزوری کل بہت جذبات میں تھیں اور آج کی میٹنگ اس کی خواہش پر ہی رکھی گئی تھی رہبر ہمدانی۔ ذکریا باوانی ۔ عائشہ خان ۔ خالد بیگ۔ فرحت شہناز۔ عاصمہ پروین اور ہاں وہ جمشید خانجی ۔ یعنی سب ندارد۔ میرا خیال ہے کہ وقت گزاری کے لیے گھاس کی تیلیاں ہی توڑنا شروع کر دوں۔ میںنے کرسی سے جھک کر گھاس کی ایک تیلی کو توڑا۔ اس تیلی کو اپنے دانتوں میں دبا کر میں نے سوچا’’ پوش علاقوں میں رہنے والے ، رنجیت سنگھ کی طرح سے ایک آنکھ سے دنیا کو کیوں دیکھتے ہیں؟‘‘ قریب کی نظر شاید کمزور ہے ان کی … میں نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا …
ہاں … تمھاری دور کی نظر تو ٹھیک ہے ۔ میرے ضمیر نے مجھ سے کہا ۔ ’’ کل ہی تو تم نے کلفٹن میں چار ہزار گز کا پلاٹ الاٹ کرایا ہے۔‘‘
ٹھیک ہے پلاٹ تو سب ہی لیتے ہیں ۔ اگر میں نے لے لیا تو کیا … میں نے اپنے ضمیر کی آواز کو سلانا چاہا۔ ’’ ہاں شہر کے اردگرد کے پہاڑ تک تو اس قوم نے الاٹ کر الیے ہیں ۔ شاید ایٹی کیٹ اسے ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’ میاں پہاڑسی زندگی گزارنے کے لیے بھی کچھ اہتمام کرنا پڑتا ہے ۔ آئندگان کے مستقبل کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے… ہم تو وطن کے ذرے ذرے سے محبت کرنے والے ہیں ۔ تاحد نظر نئی نئی بستیاں بساکر ہم نے کتنے بے گھر لوگوں کو آباد کیا … ہم تو گھاس کی تیلیاں توڑنے والے ہیںتاکہ گھاس سرسبز اور تازہ رہے ۔ خوب بہت خوب… میرا ضمیر مجھ پر طنز کر رہا تھا … میں اس سے نظریں چراتے ہوئے دوبارہ گھاس کی طرف جھک کر تیلیاں تلاش کرنے لگا۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک کار آرٹس کونسل میں داخل ہوئی ۔ ذکریا باوانی ۔ میڈم آزوری ۔ خالد بیگ اور عائشہ آ کر میرے قریب کھڑے ہو گئے ۔ بھئی کیا ہو رہا ہے… سرسبز گھاس سے سوکھی ہوئی تیلیاں نکال رہا ہوں۔ یہ تم لوگ میٹنگ میں آئے ہو یا پکنک پر … کچھ بھی سمجھ لو… ہم آگئے ہیں… باقی بھی آنے والے ہیں ۔ پھر میٹنگ شروع کرتے ہیں ۔ اور ہاں میرا خیال ہے تم نے فرصت میں اشہب خیال کو خاصا دوڑایا ہو گا ۔ میڈم آزوری نے ہنستے ہوئے چشمہ اتارتے ہوئے کہا ۔ ہاں۔ اگر آرٹس کونسل کی جگہ کاش میں ریس کورس میں ہوتا تو خوب گھوڑے دوڑاتا… میں نے کہا
’’ ہاں جی … گھوڑے پال ’’ مربعے‘‘ ملتے ہیں … عائشہ نے کہا۔
’’ مربعے … ہائے اللہ … سیب کے باغوں والے… کتنا دل کش ہوتا یہ منظر‘‘ … خالد بیگ نے ٹائی درست کرتے ہوئے کہا۔
’’ پلیز… ایسی باتیں نہ کریں میڈم آزوری نے ڈانٹتے کے انداز میں کہا ۔ یہ باتیں سیاست کے میدان میں ہی اچھی لگتی ہیں۔
میڈم… میدانوں میں میدان ایک ہی ہے … پانی پت کا … میں وہیں کا رہنے والا ہوں ۔ ذکریا باوانی نے آہستہ سے کہا۔
’’ اچھا… کیا میٹنگ کا موضوع۔ گھوڑے ۔ مربعے اور پانی پت کا میدان ہے ؟ میں نے سب سے سوال کیا ۔ ‘‘ دیکھو دانش ور… بال کی کھال مت نکالو… میٹنگ شروع کریں گے … سب آجائیں … اور ’’ معاملہ‘‘ جشن کا ہے ۔ آزادی کی نصف صدی اور اس کا جشن’’ ایک دوسری کار آرٹس کونسل میں داخل ہوئی… رہبر ہمدانی ، فرحت شہناز، عاصمہ پروین اور جمشید خانجی نے آتے ہی کہا۔
’’ کیا میٹنگ ختم ہو گئی … نہیں جناب… ابھی شروع ہو گی… چلیے سب اوپر چلیں۔ میٹنگ ہال میں … میڈم آزوری نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
اس آرٹس کونسل میں کتنی سیڑھیاں ہیں … میں نے کہا ۔
’’ جتنی ترقی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔‘‘ جمشید خانجی نے سیڑھی پر چڑھتے ہوئے کہا۔
صاحبان فکر و نظر… آج ہم سب یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ ہم اپنی نصف صدی کی آزادی کا تنقیدی جائزہ لیں ۔ پورا ملک ’’ جشن آزادی‘‘ منا رہا ہے ۔ ہم فن کار اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے بھی اس ’’ جشن زریں‘‘ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ ہم محب وطن اپنی محبت کا اظہار اپنے فن کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ عوام کو احساس ہو کہ ہم سب ایک ہیں … تو صاحبو! آج کی میٹنگ میں ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم جشن کس طرح منائیں…
’’ میرا خیال ہے … ہمیں عاصمہ پروین کا ڈرامہ ’’فرمان جنوں‘‘ پیش کرناچاہیے۔ عاصمہ نے غضب کی اداکاری کی تھی اور سبز لباس میں پری لگ رہی تھی ۔ پری ‘‘ رہبر ہمدانی نے ہاتھ ہلا ہلا کر کہا۔
’’ جناب سنجیدہ ہو جائیں۔ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ دو چار برس کی بات نہیں‘‘ … میں نے آہستہ سے کہا۔
’’ دوستو میرے خیال میں میڈم آزوری کا ’’ رقص حیات‘‘ جشن زریں پر اگر ہم پیش کریں تو خاصے کی چیز ہو گا۔‘‘ عاصمہ پروین نے کہا ۔
’’ حضرات رکیے۔ میں اپنی پروپوزل آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ ایک عشائیہ ترتیب دیا جائے جس کا عنوان ہو۔
’’ سبز گھاس کی سوکھی تیلیاں… غریب عوام کے مسائل پر مشتمل ہو … اس کے دو حصے کیے جائیں ۔ پرانا اور نیا‘‘ … میں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں مسٹر خالد بیگ… آپ اپنی کہیے۔ امریکہ میں جشن آزادی پر لوگ کیا کرتے ہیں۔‘‘
’’ وہاں زیادہ تر لوگ ڈنر اور کاک ٹیل پارٹیاں ترتیب دیتے ہیں۔ راگ و رامش کی ان محفلوں کو جشن قرار دیا جاتا ہے ۔ خالد بیگ نے بے زاری سے کہا ۔
حضرات میری پرپوزل پر آپ نے غور نہیں کیا ۔ نیا اور پرانا…
’’ پرانے دور میں قلعے، گھوڑے، پانی پت کا میدان… مانجھی ، سمندر ، ندیا دھیرے بہو اور بھات اور سونا ر… اور نئے میں ناپسندیدہ افراد ، ہوس گیری ، ملک ، دھونس، فرمان جنوں، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں ’’ رقص حیات، مساوات، عوامی زندگی، نظریہ ضرورت، جمہوریت، گھوڑے مربعے ، سیب ، بادام، اخروٹ ، لوہے کی کرشمہ سازیاں، اور اور ورلڈ بینک … میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا ۔
’’ کیا قصہ خوانی کر رہے ہو ۔ ہمارے عزیز دانش ور آرٹسٹ… تمھارے لیے تو پورے ملک میں مشہور ہے کہ منہ پھلا کر جھوٹ بولتے ہو ۔ سب نے بیک وقت ہم آواز ہو کر کہا
’’ سچ کو‘‘ ، ’’ جھوٹ‘‘ کا نام دینے پر سخت احتجاج کرتا ہوں ۔ آپ پانی میں برف کو تیرانا چاہتے ہیں ۔ پلیز… مہربانی فرما کر سنجیدہ ہو جائیں ۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ملک کے اہم ترین اداکار ، صداکار اس قابل نہیں کہ جشن زریں منا سکیں ۔ بھئی مٹی کا قرض ہم پر فرض ہے ۔ میڈم آزوری نے جوش جذبات میں کھڑے ہو کر کہا …
’’ میں آپ کو بتلانا چاہتا ہوں کہ جشن زریں کے موقع پر سری لنکا سے سفید ہاتھی منگائیں جائیں۔ ان کے جسموں کو رنگ دیا جائے اور ہم سب ان پر سوا ر ہو کر ایک شان دار جلوس نکالیں۔‘‘
مسٹر جمشید خانجی… یہ پھر آپ نے ’’ سیاسی‘‘ باتیں شروع کر دیں ۔ سفید ہاتھی ہمارے علاوہ کہیں نہیں ہوتے۔ اور اس چیز کو دیکھ کر بہت سے ماتھوں پر شکنیں ابھر آئیں گی۔ جشن زریں کے موقع پر ایسی دل آزار باتیں ہمیں زیب نہیں دیتیں۔ میں آپ کو بتلانا چاہ رہی ہوں کہ فنون لطیفہ کے لوگ بڑی چابک دستی سے اپنا ماضی الضمیر بیان کرنا جانتے ہیں ۔ حبس کے موسم میں علامتی اظہار اچھا لگتا ہے ۔ میری مانیے اور جشن زریں کے موقع پر ایک ’’ منڈوے‘‘ کا اہتمام کریں ۔ جہاں بے زبانی ہو زباں میری…
یہ کیسے … ممکن ہے میڈم… ’’ منڈوا اور آج کے دور میں … فرحت شہناز… اس پر غور کرو ’’ ہاں عائشہ خان ۔ میڈم ’’ منڈوا‘‘ کے بارے میں بتلائیں تو پتہ چلے ۔‘‘
’’ سنو … عاصمہ پروین کا ’’ فرمان جنوں‘‘ کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ پیش کیا جائے ۔ جن میں ہر روز دھڑا دھر ایک نیا فرمان امروز ہو… اور ہر شخص کے منہ پر فرمان چسپاں کر دیا جائے یوں… عائشہ خان نے اپنا ٹشو پیپر میرے چہرے پر پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’ بی بی عائشہ میرا گال آپ کی لپ اسٹک نے لال کر دیا ہے … پلیز ایک ٹشو پیپر اور دیں۔ میں اپنا گال صاف کر سکوں… یہ لو کرنسی نوٹ سے صاف کرلو… اپنا چہرہ‘‘… جمشید خانجی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ پلیز … آپ لوگ کوئی انوکھا آئیڈیا دیتے ہیں ابھی تک ناکام رہے ہیں ۔ جشن زریں… ہم کیسے منائیں گے ‘‘… میڈم آزوری نے اپنا چشمہ آنکھوں پر فٹ کرتے ہوئے کہا۔
’’ میڈم… آپ اپنے آئیڈیا پر گفتگو کریں ۔ ہاں ’’ منڈوا…‘‘
دیکھیں جی ۔ میرا خیال یہ تھا کہ نصف صدی میں نصف بہتر خواتین پر ہونے والے ظلم ، جہیز کی نازیبا اور بے جا روایت ، جبریہ پردہ… تعلیم نسواں… ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل … دولت کی تقسیم۔ بیواؤں کی زندگی … یتیموں کے حالات… روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی…
میرے ان نکات کو آپ ذہن میں رکھیں۔ خواتین کو سب سے پہلے زنجیروں میں جکڑا ہوا دکھایا جائے اور پس منطر میں ’’ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے کی موسیقی ہو…
میڈم… یہ سارے مناظر ہمارا ٹی وی پہلے ہی دکھلا چکا ہے۔ ہمیں افادیت کی بات کرنی چاہیے اور جشن زریں کے موقع پر ایک انوکھا اور یادگار پروگرام کرنا چاہیے۔‘‘ رہبر صمدانی نے میری جانب دیکھتے ہوئے ۔
میڈم… میرا آئیڈیا… اچھا ہے۔ نیا اور پرانا … سوسنار کی ایک لوہار کی…’’ میںچاہتا ہوں کہ جشن زریں کے موقع پر ایک ڈرامہ اسٹیج کیا جائے ۔ جس میں فرمان جنوں۔ رقص حیات۔ سبز گھاس کی سوکھی تیلیوں کو جمع کرکے آگ لگا دی جائے۔
’’ آئیڈیا… زبردست آئیڈیا… گولیاں ۔ دھواں۔ کرفیو… لمبی لمبی عمارات ، بڑے بڑے بنگلے، موٹے موٹے پیٹ والے سیٹھ۔ سوکھے جسموں والے غریب عوام … بوڑھے بچے، خواتین سب کو زندہ زمین میں دفن کر دیں اور اس کا نام رکھیں۔
’’ پانی پت کا میدان… زمین کی آخری فریاد… آخری فریاد… آخری فریاد…‘‘ خالد بیگ نے جذباتی انداز میں کہا۔
’’ فریادی … زیادہ ڈرامہ مت بولو… ایک ہو۔اپنی عظمت رفتہ کو آواز مت دو۔ جسموں میں چھپی رومانی بے چینی کے اظہار میں کون سا امر مانع ہے ۔ سچ بات کہنے کے لیے ہے کہ اپنے جرائم کا اعتراف کرنے کے لیے جشن زریں سے بہترین کوئی موقع نہیں ۔ جنگلوں میں آگ جل جانے کے بعد بھی ہرمائع میں نہ کہیں سے سرنکال لیتی ہے۔
اے سبز گھاس کی سوکھی تیلیوں۔ اے فرماں جنوں کے تحت زندگی بتانے والو… اے رقص حیات کے متوالو۔ اے عیش پسندو۔ اے ناشکرو۔ اے فنون لطیفہ کے ماہرو ۔ اپنی کوتاہیوں کے اعتراف میں بخل سے کام نہ لو۔ گلشن بے امید کو گلشن مراد میں تبدیل کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ آئندگان کے لیے ہر ا بھرا سجا سجایا ، جگمگاتا، روشن، پرامید، ’’ گلشن‘‘ ہماری ذمہ داری ہے جس کے ہر نخل اور بات پر بہار ہمیشہ رقصاں رہے … مسرت ، شادمانی ، انصاف اور سکون کادور دورہ ہو۔
بس کرو۔ بس کرو ۔ رہبر صمدانی ، جمشید خانجی نے مجھے بزور قوت بٹھاتے ہوئے کہا ۔
’’ میڈم آزوری کا فیصلہ آخری ہے۔
’ ’ ہاں میڈم آپ آخری فیصلے سے نوازیں… سب نے باآواز بلند کہا۔
’’ پلیز… فنون لطیفہ میںگھٹن ، حبس ، جبر، تعذیر، اخلاقی گراوٹ اور مسائل حیات سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ ازل سے موجود ہے ۔ ان جذبوں کا اظہار رقص ، اشاروں کنایوں، علامتوں، تمثیل، داستاں، ناٹک، منڈوے ذریعہ سے ہوتا آیا ہے۔ ہم جشن زریں کے موقع پر ایک پروگرام ’’ محاسبہ ‘‘ کے نام سے پیش کریں گے جس میں اظہار کے تمام جذبوں، طریقوں سے کام لیا جائے گا۔ ہر حال میں سچ کو عوام تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ انقلاب وہی ہے جو انسان کے اپنے جسم پر سے گزرے۔‘‘
آخری سین میں انگلیاں عوام کی طرف ہوں گی اور پوچھا جائے گا…
تم نے وطن کو کیا دیا۔
______________