(Last Updated On: )
کون دیکھے گا مرے دشت کی ویرانی کو
میں نے آنکھوں میں سجایا ہے بیابانی کو
جب بھی کھلتا ہے گلابوں کا دریچہ کوئی
شہر کا شہر چلا آتا ہے دربانی کو
گھر سے جاتا ہے تو پھر لوٹ کے آ جاتا ہے
کوئی زنجیر نہ ڈالے مرے سیلانی کو
کفرکا فتویٰ لگایا ہے مرے یاروں نے
میں نے سمجھا تھا مقدس تری پیشانی کو
اس کی کیا بات تھی کیا ظرف تھا اللہ اللہ
بھول جاتا تھا وہ اکثر مری نادانی کو
میرا لہجہ مرے اسلوب میں ڈھل جاتا ہے
میں نے بخشا ہے نیا رنگ غزل خوانی کو