(Last Updated On: )
وقت ڈھلتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں
شہر کے ساتھ مضافات بدل جاتے ہیں
ہم نے بھی سمجھا تھا رشتوں کو مقدس لیکن
دل بدلتا ہے تو جذبات بدل جاتے ہیں
ایسی گفتار پہ شکوہ بھی نہیں ہو سکتا
بات تو کرتے ہیں پر بات بدل جاتے ہیں
میں نے موسم سے عبث کالی گھٹائیں مانگیں
ابر چھاتے ہیں تو دن رات بدل جاتے ہیں
رات کو جتنی بھی تسکین فراہم کر لیں
دھوپ پڑتی ہے تو ذرات بدل جاتے ہیں