نشے کی لت کا ارتقاء کیونکر ہوا؟
ترجمہ: قدیر قریشی
ستمبر 02، 2018
نشے کی لت کی وجہ یہ ہے کہ نشہ آور کیمیائی مالیکیولز کی موجودگی ارتقاء کے عمل کے دوران مختلف انواع کی کیمیائی ہتھیاروں کی لڑائی کا نتیجہ ہے- پودوں میں کیفین، نکوٹین، کوکین اور افیون جیسے مالیکیول اس وجہ سے ارتقاء پذیر ہوئے کہ یہ پودوں کو کیڑے مکوڑوں کے حملوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں- یہ مالیکیول کیڑوں کے جسم میں داخل ہو کر ان کے دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں اور دماغ کی کارکردگی کو تبدیل کر دیتے ہیں- ایسا کرنے کے لیے یہ مالیکیول دماغ میں موجود ان ریسیپٹرز (receptors) کے ساتھ تعاملات کرتے ہیں جن کا اصل کام دماغ کے انعامی نظام میں موجود نیوروٹرانسمٹرز کے ساتھ تعاملات کر کے دماغ کی کارکردگی کو بڑھانا ہوتا ہے-
پودے چونکہ بھاگ نہیں سکتے اس لیے ان میں وہ fight or flight ریسپانس ناممکن ہے جو جانوروں کے بقاء کے لیے سب سے اہم ہے- پودے خطروں کا مقابلہ طاقتور نیوروٹاکسنز (neurotoxins یعنی ایسے زہر جو نیورونز کو ناکارہ کر سکتے ہیں) کے استعمال سے کرتے ہیں- یہ نیوروٹاکسنز اتنے طاقتور ہوتے ہیں اور پودے کو کھانے والے کیڑے کے دماغ کو اتنا ناکارہ کر دیتے ہیں کہ اکثر اوقات وہ کیڑا مر جاتا ہے- اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے مالیکیولز کی شکل دماغ میں استعمال ہونے والے نیوروٹرانسمٹر مالیکیولز سے ملتی جلتی ہے- دماغ میں موجود ریسیپٹرز ان نیوروٹاکسنز اور دماغ میں موجود نیوروٹرانسمٹرز میں فرق نہیں کر پاتے- یہی نہیں بلکہ جب یہ نیوروٹاکسنز ان ریسیپٹرز سے ملتے ہیں تو ان کے ساتھ مضبوطی سے منسلک ہو جاتے ہیں جس وجہ سے نیوروٹرانسمٹرز اپنا کام نہیں کر پاتے- اس دوران ممکن ہے کہ کیڑے کو سرور بھی محسوس ہوتا ہو لیکن اس سرور کا نتیجہ کیڑے کی موت کی صورت میں نکلتا ہے-
چونکہ تمام جانورں کے دماغ بنیادی طور پر ایک ہی قسم کے تعاملات کی وجہ سے کام کرتے ہیں اس لیے انسانوں کے دماغ میں بھی وہی نیوروٹرانسمٹرز اور ان کے ریسیپٹرز ہوتے ہیں جو ان کیڑوں کے دماغ میں ہوتے ہیں- لیکن انسان چونکہ جسامت میں بہت بڑے ہیں اس لیے پودوں میں پائے جانے والے ان نیوروٹاکسنز سے انسان کی موت واقع ہونے کا امکان انتہائی کم ہے- چنانچہ جب یہ نیوروٹاکسنز مارفین، کوکین، نکوٹین یا کیفین کی شکل میں انسان کے خون میں شامل ہو کر دماغ تک پہنچتے ہیں تو یہ ان ریسیپٹرز سے منسلک ہو جاتے ہیں جو دماغ کے انعامی نظام کا حصہ ہیں- یوں دماغ کا انعامی نظام متحرک ہو جاتا ہے اور ہمیں فرحت کا احساس فراہم کرتا ہے- ہم اس کیفیت کو سرخوشی یا نشے کی کیفیت کہتے ہیں جو ہمیں اچھی لگتی ہے- کوکین اور دوسری نشہ آور دواؤں کے استعمال سے یہ کیفیت بہت زیادہ فرحت بخش محسوس ہوتی ہے- عام طور پر چند گھنٹوں میں یہ مالیکیولز خون سے خارج ہو جاتے ہیں یا ناکارہ ہو جاتے ہیں اور یہ کیفیت زائل ہونے لگتی ہے- چنانچہ چند گھنٹوں بعد نشہ ہرن ہو جاتا ہے-
آپ کے دماغ کا خودکار نظام ان مالیکیولز اور اندرونی نیوروٹرانسمٹرز میں فرق نہیں کر پاتا اور یہ سمجھتا ہے کہ نیوروٹرانسمٹرز ضرورت سے زیادہ ہو گئے ہیں- چنانچہ دماغ میں ان نیوروٹرانسمٹرز کی تعداد کم ہونے لگتی ہے اور نیوروٹرانسمٹرز کو خون سے خارج کرنے کا نظام زیادہ تیزی سے کام کرنے لگتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نشہ اترنے کے بعد جب دماغ میں نیوروٹرانسمٹرز کی مقدار نارمل ہوتی ہے تو انسان بجائے نارمل محسوس کرنے کے افسردگی محسوس کرنے لگتا ہے- اس افسردگی سے نجات پانے کے لیے لوگ پھر کوکین استعمال کرتے ہیں- تاہم اس مرتبہ جب اسی مقدار میں کوکین استعمال کی جائے جتنی پہلے کی تھی تو فرحت کا احساس بہت کم ہوتا ہے چونکہ ریسیپٹرز کی تعداد کم ہو چکی ہے- چنانچہ فرحت کے اسی احساس کو پیدا کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں کوکین درکار ہوتی ہے- اس طرح ایک vicious circle پیدا ہوتا ہے جس میں فرحت کے احساس کے لیے کوکین کی مقدار مسلسل بڑھانا پڑتی ہے اور نشہ اترنے کے بعد اسی قدر زیادہ افسردگی اور بیزاری محسوس ہوتی ہے- عادی نشئی لوگوں میں یہ کیفیت بیزاری سے بڑھ کر باقاعدہ ایک تکلیف دہ تجربہ بن جاتی ہے جسے withdrawal کہا جاتا ہے-
آرٹیکل کا لنک
https://www.quora.com/Are-addictions-a-byp…/…/Franklin-Veaux
اردو زبان میں سائنس کے ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کیجیے
https://www.youtube.com/sciencekidunya
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔