کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی کل قومی آمدن میں بلحاظ آبادی سب سے زیادہ حصہ بلوچستان کو ملتا ہے ؟؟
بلوچستان کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا محض 6 فیصد ہے لیکن مرکزی حکومت کی طرف سے صوبوں کو دیے جانے والے فنڈز( این ایف سی ایوارڈ) میں بلوچستان کا حصہ 8.4 فیصد ہے۔ جبکہ دوسری طرف ٹیکسز کا بوجھ پاکستان میں سب سے کم بلوچستان پر ڈالا جاتا ہے جو ملک کی کل محصولات کا صرف 3 فیصد ادا کرتا ہے۔
ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتائیں کہ صوبوں کو دئیے جانے والے فنڈز میں سے بلحاظ آبادی سب سے کم حصہ پنجاب کو ملتا ہے ذرا یہ اعداد و شمار ملاحظہ کیجیے !
پنجاب کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 1 کروڑ 52 لاکھ روپے۔
سندھ کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 1 کروڑ 58 لاکھ روپے۔
کے پی کے کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 1 کروڑ 87 لاکھ روپے۔
جبکہ بلوچستان کی فی ایک لاکھ آبادی کے لیے 2 کروڑ 82 لاکھ روپے ادا کیے جاتے ہیں یعنی پنجاب کے مقابلے میں بلوچستان کے لیے ہر شخص کے لیے دگنی رقم۔
پنجاب کی کل آبادی ملک کا 60 فیصد ہے جہاں سے پاکستان کی کل محصولات کا تقریباً 60 فیصد ہی وصول کیا جاتا ہے لیکن پنجاب کا حصہ مرکز کی طرف سے دیے جانے والے فنڈز میں محض 50 فیصد ہے۔
پاک فوج میں بلحاظ آبادی بھرتیوں کا سب سے بڑا کوٹہ بلوچستان کے لیے رکھا گیا ہے اور آفیسر بھرتی کرنے کے لیے دیگر تینوں صوبوں کے مقابلے میں خصوصی طور پر سب سے نرم شرائط بھی بلوچستان کے لیے ہیں۔
بلوچستان میں ذرعی پیدوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا وہاں کی معدنیات اور ان سے جڑے معاملات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بلوچستان پاکستان کی گیس کی کل ضروریات کا محض 6 فیصد پیدا کرتا ہے لیکن 7 فیصد استعمال کرتا ہے۔ بلوچستان اپنی گیس کی زائد ضرورت صوبہ سندھ سے پوری کرتا ہے جو کہ اس وقت پاکستان کی گیس کی 70 فیصد ضروریات پوری کر رہا ہے۔
(کسی دور میں بلوچستان ملکی گیس کی کل ضروریات کا 35 فیصد پورا کرتی تھی بلکہ بہت شروع میں تقریباً 85 فیصد جب پاکستان میں گیس صرف چند شہروں تک محدود تھی۔ لیکن اسکا فائدہ بلوچستان کے چند سرداروں نے ہی اٹھایا جن میں سب سے بڑا نام نواب اکبر بگٹی کا ہے۔ جس نے گیس کے لیے ملنے والی اربوں روپے کی رائیلٹی سے بیک وقت سینکڑوں لیموزین اور لینڈ کروزر گاڑیاں اور پرائیویٹ جہاز خریدے بلکہ وہاں رہنے والے 80 ہزار سے زائد بگٹی قبائل کو علاقہ بدر بھی کر دیا تاکہ رائیلٹی اکیلے ہضم کر سکے )
بلوچستان پاکستان کی تیل کی کل پیدوار کا 6 فیصد استعمال کرتا ہے لیکن پیدا تقریباً 1 فیصد کے لگ بھگ کرتا ہے۔ بلوچستان اپنی تیل کی ضرویات ایرانی تیل خرید کر یا صوبہ کے پی کے سے پوری کرتا ہے۔
(بلوچستان میں تیل تلاش کرنے میں رکاؤٹ اس کے کچھ نام نہاد قوم پرست لیڈرز ہیں جنہیں سوائے اپنے خود غرضانہ مقاصد کے کسی چیز سے غرض نہیں۔ نہ بلوچستان کے لوگوں سے نہ پاکستان سے )
بلوچستان میں سونے اور کاپر کے کافی بڑے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں جن پر صوبہ بلوچستان کو ہی کام کرنے کا حق دیا گیا۔ تب بلوچستان کے کرتا دھرتاوؤں نے کچھ غیر ملکی کمپنیوں سے عجیب و غریب معاہدات کیے جس کے بعد اس سونے اور کاپر میں سے ایک دھیلہ بھی بلوچستان کے عوام کو نہ ملتا۔ تب بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جج افتخار چودھری نے ان منصوبوں پر کام رکوا دیا)
ان کے بعد بلوچستان کی اہم ترین معدنیات میں کوئلہ، کرمائیٹ اور بیرائٹ شامل ہے۔ ان تینوں میں سے کسی پر بھی مرکزی یا خود بلوچستان کی صوبائی حکومت کام نہیں کر رہی بلکہ بلوچستان کے مقامی لوگ خود کان کنی کر کے نہ صرف ان کو دوسرے صوبوں میں فروخت کرتے ہیں بلکہ پاکستان سے باہر ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں۔
بلوچستان کے لیے پاکستان کا سب سے بڑا تحفہ گوادر ہے جو حکومت پاکستان نے 1958ء میں سلطنت عمان سے خریدا اور بعد میں اس کو صوبہ بلوچستان کا حصہ بنا دیا۔ پرویز مشرف کے دور میں چین کو گوادر تک لانے کے لیے شروع کیے جانے والے منصوبے کی بدولت انشاءاللہ جلد ہی پورے بلوچستان کی تقدیر جاگ جائیگی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گوادر اور اس کے لیے بننے والی اقتضادی راہداری کی بدولت پاکستان کا جو صوبہ سب سے زیادہ فیض یاب ہوگا وہ بلوچستان ہی ہے۔
لیکن بلوچستان نسبتاً پسماندہ کیوں ہے ؟
اسکی دو نہایت سادہ سی وجوہات ہیں۔
پہلی یہ قدرتی بات ہے کہ کم آبادی اور کم پانی والے علاقے باقی علاقوں کی نسبت تھوڑے سے پسماندہ رہتے ہیں۔ بلوچستان کا یہ معاملہ بھی پاکستان بننے سے پہلے کا ہے۔ حتی کہ مولانا طارق جمیل صاحب ایک صحابی کا ذکر کرتے ہیں جو یہاں اسلام کی دعوت لایا تو 1400 سال پہلے بھی اس صحابی نے اپنی کارگزاری میں اس علاقے کی ویرانی کا ذکر کیا تھا۔
پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی یہی حال ہے جہاں پانی اور آبادی کم ہے۔ اسکی ایک مثال تھر اور تھرپاکر ہے جہاں اس وقت بھی قحط کی سی کفییت ہے۔ صوبہ پنجاب کے لوگ بھوکوں اس لیے نہیں مرتے کہ اللہ نے اس صوبے کو 5 دریاوؤں اور زرخیز زمین نے نوازا ہے اور وہاں کا کسان سارا سال اپنی زمینیوں کا سینہ چیز کر فصلیں اگاتا رہتا ہے۔
دوسری وجہ وہ لوگ جو دن رات بلوچستان کے حقوق کا رونا روتے ہیں لیکن خود بلوچستان کو لوٹنے سے بعض نہیں آتے۔
نواب اکبر بگٹی کا ذکر میں اوپر کر چکا ہے۔ ایک دو چھوٹی چھوٹی مثالیں آپ کو اور دیتا ہوں۔
بلوچستان کی پچھلی حکومت میں کل 65 اراکین اسمبلی تھے جن میں سے 64 وزیر تھے ۔۔۔ ان میں سے ایک صاحب کو کوئی وزارت نہیں ملی تو اسکو آئی ٹی کا وزیر بنا دیا گیا۔ موصوف کی ٹائروں کی دکان تھی اور ان کو اپنی وزارت کے 5 سال پورے کرنے کے بعد بھی کمپیوٹر آن کرنا نہیں آیا۔
ایک محمود اچکزئی صاحب ہیں جس نے پورا بلوچستان اپنے خاندان میں بانٹ رکھا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے وزیرخزانہ کے سیکٹری کے گھر سے 63 کروڑ روپے برآمد ہوئے اور انکی کراچی میں 2 ارب روپے کی جائداد کا انکشاف ہوا۔ اگر سیکٹری کا یہ حال ہے تو وزیروں کا کیا حال ہوگا؟؟ لیکن اس کے باوجود وہ موصوف عدالت جاتے ہٰیں تو لوگ ان کے ہاتھ چومتے ہیں۔( شائد اس کے ہاتھ کی صفائی کی داد دینے کے لیے )
بلوچستان کو لوٹنے والے ان ساروں میں سے کوئی ایک بھی پنجابی ، سندھی یا صوبہ کے پی کے کا نہیں ہے۔
درحقیقت بلوچستان پاکستان کا سب سے لاڈلا صوبہ ہے۔ لیکن بلوچستان کو ڈسنے والے سانپ خود انہی کے آستینوں میں ہیں۔ جب تک ان سانپوں سے بلوچستان کی عوام اپنی جان نہیں چھڑائنگے تب تک ان کے حالات بہتر نہیں ہونگے۔
( اللہ کا شکر ہے کہ اب وہ کم از کم ان سانپوں کو پہچاننے لگے ہیں )
ویسے کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ بلوچستان کے کون سے حقوق کون کھا رہا ہے اور کیسے کھا رہا ہے ؟
شیعہ وراثت کے بارے میں عدالتِ عظمٰی کا فیصلہ ایک قانونی نقطہ نظر
2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے شیعہ قانون کے تحت ایک بے اولاد بیوہ کو اس کے متوفی شوہر...