(Last Updated On: )
اینیلیز این فرینک 12 جون 1929 کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوئی۔ 1933 میں نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد فرینک خاندان نیدر لینڈ چلا گیا۔ این نے زیادہ تر وقت ایمسٹرڈم میں گزارا۔ فروری 1945 میں محض پندرہ سال کی عمر میں اس کی وفات کے بعد یہ ڈائری ”ایک نو عمر لڑکی کی ڈائری” (The Diary Of a Young Girl) کے عنوان سے شائع ہوئی جس نے اسے شہرتِ دوام بخشی۔ اس ڈائری میں این نے جنگِ عظیم دوم میں جرمنی کے نیدر لینڈ پر قبضے کے دوران 1942تا 1944 اپنی زندگی کے احوال بیان کئے ہیں۔ اس ڈائری کا شمار دنیا کی معروف ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ ڈائری بنیادی طور پر ڈَچ زبان میں لکھی گئی۔ اب تک اس کا 60 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس ڈائری کے واقعات پر مبنی کئی فلمیں اور ڈرامے بن چکے ہیں۔ اسے یورپ اور امریکہ کے ہزاروں مڈل اور ہائی سکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ این فرینک ان بچوں کے گمشدہ عہد کی علامت بن چکی ہے جو ہالو کاسٹ کے دوران مارے گئے تھے۔
اس ڈائری کے کچھ منتخب اقتباسات کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔
1: یہ حیران کن بات ہے کہ دنیا کو بہتر بنانے کے آغاز کے لئے کسی کو ایک لمحہ بھی انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔
2: یہ حقیقتاً تعجب انگیز ہے کہ میں اپنے تمام تصورات سے دستبردار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا تکمیل پانا مشکل اور ناممکن امر لگتا ہے۔ تاہم میرے تصورات قائم ہیں کیونکہ سب باتوں کے باوجود مجھے ابھی بھی یقین ہے کہ لوگ دل کے اچھے ہوتے ہیں۔
3: اس خوب صورتی کے متعلق سوچیں جو ابھی بھی آپ کے ارد گرد موجود ہے ۔ اس بات کو سوچ کر خوش ہو جائیں۔
4: جب میں لکھتی ہوں تو ہر بات کو ذہن سے جھٹک دیتی ہوں ۔ میرے دکھ غائب ہو جاتے ہیں اور میری ہمت دوبارہ پیدا ہو جاتی ہے۔
5: مجھے علم ہو گیا ہے کہ خوب صورتی ہمیشہ باقی رہ جاتی ہے، فطرت، دھوپ، آزادی اور اپنے آپ میں۔ یہ سب عناصر آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔
6: کوئی دے کر کبھی غریب نہیں ہوا۔
7: میں ان تمام مصائب کے متعلق نہیں سوچتی لیکن اس خوب صورتی کے بارے میں سوچتی ہوں جو ابھی بھی باقی ہے۔
8: والدین صرف اچھا مشورہ دے سکتے ہیں یا انھیں سیدھا راستے پر لگا سکتے ہیں لیکن کردار کی حتمی تشکیل کسی بھی شخص کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔
9: جو لوگ خوف زدہ، تنہا یا نا خوش ہیں ان کا بہترین علاج یہ ہے کہ وہ کہیں باہر گھومیں پھریں۔ کسی بھی ایسی جگہ جہاں وہ آسمان، فطرت اور خدا کے ساتھ بالکل تنہا ہو سکیں ۔ کیونکہ تب ہی کوئی شخص محسوس کر سکتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا اسے ہونا چاہئیے تھا۔ اور یہ کہ خدا فطرت کی سادہ خوب صورتیوں کے درمیان لوگوں کو خوش دیکھنے کی تمنا رکھتا یے۔ جب تک یہ سب کچھ موجود ہے اور یہ یقینی طور پر ہمیشہ رہے گا، میں جانتی ہوں کہ پھر جیسے بھی حالات ہوں ہرغم کو ہمیشہ راحت ملے گی۔ اور میرا پختہ یقین ہے کہ قدرت تمام پریشانیوں میں دلاسہ دیتی ہے۔
10: کاغذ میں لوگوں کی نسبت زیادہ صبر ہے۔
11: دیکھو ایک ہی موم بتی کس طرح اندھیرے کی وضاحت اور اس کی مزاحمت کرتی ہے۔
12: لوگ آ پ کا منہ بند کرا سکتے ہیں مگر آپ کو اپنی رائے سے باز نہیں رکھ سکتے۔
13: جو خوش ہے وہی دوسروں کو خوشی دے گا۔
14: طویل تجربے کے بعد ثابت ہوا کہ سب سے تیز ہتھیار ایک مہربان اور نرم خو طبیعت ہے۔
15: جہاں امید ہے وہاں زندگی ہے۔ یہ ہم میں ایک تازہ جذبہ پیدا کرتی ہے اور ہمیں پھر سے مضبوط بناتی ہے۔
16: میں بہت سے دیگر لوگوں کی طرح بے کار زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔ میں لوگوں کی زندگی کو پُر مسرت بنانے کے لئے مفید کردار ادا کرنا چاہتی ہوں حتیٰ کہ ان لوگوں کے لئے بھی جن سے میں کبھی نہیں ملی۔میں چاہتی ہوں جیتی چلی جاؤں۔
17: خواتین کو بھی اسی طرح احترام ملنا چاہئیے ۔ عام طور پر مردوں کو دنیا کے تمام حصوں میں بہت عزت سے نوازا جاتا ہے تو خواتین کو ان کا حصہ کیوں نہیں ملنا چاہئیے۔ فوجیوں اور جنگجوؤں کو اعزاز دئیے جاتے ہیں اور ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ دریافتیں کرنے والوں کو لازوال شہرت دی جاتی ہے۔ شہداء کی تعظیم کی جاتی ہے۔ لیکن کتنے لوگ عورت کو سپاہی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں؟ عورتیں جو نسلِ انسانی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے جد و جہد کرتی ہیں اور مشکلات برداشت کرتی ہیں۔
18: ہم سب خوش رہنے کے مقصد کے تحت جیتے ہیں۔ ہم سب کی زندگیاں سب سے مختلف ہیں لیکن پھر بھی یکساں ہیں۔
19: میں بہت زیادہ سوچتی ہوں اور بہت کم کہتی ہوں۔
20 : ایک مطمئین ضمیر انسان کو مضبوط بناتا ہے۔
21: اگرچہ میں صرف چودہ برس کی ہوں لیکن میں بخوبی جانتی ہوں کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ کون درست ہے اور کون غلط۔ میری اپنی رائے، اپنے نظریات اور اصول ہیں۔ اگرچہ یہ کسی نو بالغ کا پاگل پن لگے مگر میں ایک بچی کی نسبت ایک شخصیت کے طور پر سوچتی ہوں۔ میں خود کو مکمل طور پر خود مختیار سمجھتی ہوں۔
22: میں الجھنوں، مصائب اور موت کی بنیادوں پر اپنی امید کی عمارت کھڑی نہیں کر سکتی۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ دنیا رفتہ رفتہ ویرانے میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ میں آنے والے طوفان کی آوازیں سن رہی ہوں جو ہمیں تباہ کر دے گا۔ میں لاکھوں لوگوں کے دکھوں کو محسوس کر سکتی ہوں۔ اس سب کے باوجود جب میں آسمان کی جانب نگاہ بلند کرتی ہوں تو میں سوچتی ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا اور اس دھرتی کا امن و سکون دوبارہ لوٹ آئے گا۔
23: آپ اس وقت بھی تنہا ہو سکتے ہیں جب بہت سے لوگ آپ کو پیار کرتے ہوں جب تک کہ آپ کسی کے واحد و یکتا پیارے نہ ہوں۔
24: انسان کی عظمت دولت اور طاقت میں نہیں بلکہ کردار اور نیکی میں پوشیدہ ہے۔ لوگ تو لوگ ہوتے ہیں اور تمام لوگوں میں کمیاں کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ لیکن ہم سب ایک بنیادی اچھائی کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔
25: جب تک یہ موجود ہے، یہ دھوپ اور شفاف آسمان باقی ہیں تب تک میں ان سے لطف اندوز ہو سکتی ہوں۔ میں کیسے اداس ہو سکتی ہوں۔
26: احساسات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا چاہے وہ کتنے ہی غیر منصفانہ اور نا شکر گزار لگیں۔
27: آپ کو صرف ایک اصول یاد رکھنے کی ضرورت ہے: ہر بات پر ہنسیں اور باقی سب بھول جائیں۔ یہ تھوڑی خود پسند ادا لگتی ہے۔ لیکن خود ترسی کی کیفیت میں مبتلا افراد کا اصل علاج صرف یہی ہے۔
28: جس میں ہمت اور یقین ہے اسے مصائب ہلاک نہیں کر سکتے.
29. مرنے والوں کو زندہ لوگوں سے زیادہ پھول ملتے ہیں کیوں کہ احساسِ تاسف میں احساسِ تشکر سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔