حفیظ الرحمٰن احسن( مرتب ) : مشاہیر ِادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ،مثال پبلشرز ،فیصل آباد،اشاعت 2019
پہنچا جس وقت سے مکتوب
زندگی کا بندھاکچھ اسلوب
احباب کے مکاتیب زندگی کی حقیقی معنویت سے لبریز ہوتے ہیں۔مکتوب نگار کی ذاتی پسند و نا پسند، شخصیت ،مزاج اورعادات و اطوار کے بارے میں تمام حقائق کی گرہ کشائی مکاتیب ہی کی مرہون منت ہے ۔خطوط کا بے ساختہ انداز،خلوص و دردمندی سے مزّین پیرایۂ اظہار، ایک درد آشناکی غم گساری اور مسیحائی کی شان، اپنائیت اور مروّت کی زبان اور محرم ِ راز کی باتوں کی نہاں خانۂ دِل پر دستک زنی کا سلسلہ مکاتیب کا ثمر ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںہوس اور حرص نے نوع انساں کوناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیا ہے ۔بڑھتی ہوئی بے حسی ،تکلف کی رواداری ،خلوص کی اداکاری ،سعادت مندی اور عقیدت کے دکھاوے ،جعلی خلوص،وفا اور ایفائے عہدکے بہلاوے انسان کوسرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔اس لرزہ خیز اور اعصاب شکن صورت حال میںخطوط ید ِ بیضاکا معجزہ دکھاتے ہیں دروں بینی کااوجِ کمال ،تجربات و مشاہدات کا عکس اور اُمنگ کی ترنگ قاری کے سنگ سنگ چلتی محسوس ہوتی ہے ۔یہاں آ ہنگِ سازِ محفل کا پرلطف انداز اس حقیقت کا غماز ہے کہ خلوص کے بندوں کے خلاف ساز باز کرنے والے ہمیشہ منھ کی کھاتے ہیں۔ اس عالمِ آب و گِل میںانسانی زندگی کی سرگزشت کے جملہ پہلواِن مکاتیب میں حقیقت پسندانہ انداز میںجلوہ گر ہیں۔ مجلسی آداب کی افادیت اور طرزِ تخاطب کے طریقوں کی مظہریہ کتاب ایک بیش بہاادبی مخزن اورعلمی معدن ہے ۔اس کتاب میں علم و ادب کے جو گنج ہائے گراں مایہ محفوظ کیے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ان میں سے اکثر مکاتیب ان یگانۂ روزگار ادیبوں اور عبقری دانش وروں کے ہیں جن کی علمی ،ادبی اورقومی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔یہ وہ ہستیاں ہیںجواُفقِ علم و ادب پر مثلِ آفتاب و ماہتاب ضوفشاں ہیں ۔ان کے افکار کی ضیاپاشیوں سے سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں اور روشنی کاسفر جاری ہے ۔ غازی علم الدین ایک وسیع المطالعہ ادیب، نقاد اور محقق ہیں ان کے ذاتی کتب خانے میں دس ہزار کے قریب نادر کتب کا ذخیرہ موجود ہے ۔اس کتب خانے سے سیکڑوں تشنگان علم سیراب ہو رہے ہیں۔ایک رجحان سازادیب کی حیثیت سے غازی علم الدین نے جو انجمنِ خیال آراستہ کی ہے اس کی تابانیوں سے گلشنِ ادب کاگوشہ گوشہ بقعۂ نور ہو گیاہے۔عملی زندگی میں غازی علم الدین نے جن پائیدار،مستحکم اور مفید لسانی مباحث کو فروغ دیا وہ ابدآشناہیں اور ہر عہد کی ادبی تاریخ میں ان کے آ ثار ملیں گے ۔اس صنف ادب کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اپنے دیرینہ احباب سے راہ و رسم محض لمحاتی رفاقت اور باہم میل جول تک محدود نہیں رہتی بل کہ یہ ایک ا یساروحانی اور قلبی تعلق ہے جو فناکے اندیشے سے بے نیازہے ۔ ماہرین تعلیم نے اپنے ان خطوط میں جہاں پیچیدہ لسانی مسائل کی گتھیاں سلجھائی ہیں وہاں افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سر گرمِ سفر رہنے کی تلقین بھی کی ہے ۔ان مشاہیر کی علم دوستی ،ادب پروری اور جذبۂ انسانیت نوازی دنیاکے لیے سرچشہ ٔ فیض ہے ۔ایک مخلص مکتوب نگاراپنی روحانی ،قلبی،وجدانی اور جذباتی کیفیات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت جس مہارت کا ثبوت دیتا ہے اس کے معجز نمااثر سے مکتوب کے ایک ایک لفظ سے زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ ان مکاتیب کا مطالعہ کرتے وقت قاری جب اپنی عملی زندگی کے حالات کا جائزہ لیتاہے تو ان مکاتیب میںمشاہیر ِ اَدب کی زندگی کی سر گزشت کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن کاکرشمہ دامن ِ دِل کھینچتاہے ۔چار سو بانوے صفحا ت پر مشتمل یہ کتاب ایک ایسا جامِ جہاں نماہے جس میں بیش بہاادبی ،تاریخی ،تحقیقی ،تنقیدی اور لسانی خزائن کی فراوانی ہے ۔
جو لوگ ڈاک سے موصول ہونے والے مکاتیب کی اہمیت سے آگاہ نہیں وہ ان مکاتیب کا سرسری انداز میں مطالعہ کرنے کے بعد انھیں ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ا س کے بعدکبھی آ نکھ اُٹھاکر بھی ان خطوط کی طر ف نہیںدیکھتے ۔ اپنے نام آنے والے خطوط کے ساتھ اُن کی یہ بے اعتنائی جہاں اُن کی بے حسی کی دلیل ہے وہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ ہے کہ کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگاہے ۔ اپنی عملی زندگی میںغاز ی علم الدین اپنے نام آنے والے مکاتیب کامطالعہ کرنے کے بعد اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کر کے اُنھیں ایک طرف نہیں رکھ دیتے۔انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ احباب کے مکاتیب کو فوری سانس کے مانند زندگی کی ناگزیر ضرورت کی حیثیت حاصل ہے ۔ اپنے نام آنے والے خطوط سے بے اعتنائی ایک ایسا غیر محتاط طرز عمل ہے جس کے نتیجے میںسب کچھ ابلق ِایام کے سموں کی گردمیں اوجھل ہوجائے گا، تلخ و حسین یادوں اور دردناک فریادوں کے سب سلسلے تاریخ کے طوماروں میں دب جائیںگے۔ ممتاز ماہر ِ تعلیم ،ماہر لسانیات اور ماہر علم بشریات غازی علم الدین کے نام لکھے گئے اکیاسی مشاہیر کے چار سو پچپن (455) مکاتیب میںشگفتگی،انسانی ہمدردی،بے لوث محبت ،بے باک صداقت،عجز و انکسار،علمی و ادبی وقار ،حسن و جمال کا احوال،بصیرت کی مظہر جہاں بینی ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیازسمجھاجاتاہے ۔مکاتیب کے اس مجموعے میں شامل کچھ مکاتیب کی غیر معمولی طوالت کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ہوتاہے کہ مکتوب نگاروں کو اپنے مخاطب کے ساتھ درد کے نازک رشتے کا احساس ہے ۔اپنا حالِ دِل لکھتے وقت ان کی عدیم الفرصتی اس امر کی مانع رہی کہ وہ اپنے خیالات کے متلاطم دریا کومحض ایک کُوزے میں بندکرسکیں ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ کتاب ایسے ادبی نوادرات کامجموعہ ہے جس میں ہر صنف ِادب کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔
’’ مشاہیر ِادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘‘کے آغاز میں جن ممتاز ادیبوں کے مضامین شامل ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
حفیظ الرحمٰن احسن : پیش گفتار ،پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی : پیش لفظ ،پروفیسر ڈاکٹر عبدالستا دلوی :مقدمہ ،پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ :حرفے چند،
’’ مشاہیر ِادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘‘ میں شامل خطوط کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکتوب نگاروں نے اس امر کی مقدور بھر سعی کی ہے کہ معتبر ربط،خلوص و مروّت ،رازداری ،وفا،ایثاراور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مہمیز کیاجائے ۔مکتوب نگاروں نے تمناؤں ،توقعات اور عزائم کی امین اپنی داخلی کیفیات کو جس خلوص ،دیانت اور جرأ ت سے زیبِ قرطاس کیاہے وہ قاری کے لیے ایک منفرد تجربہ ہے ۔ تخلیق ادب کے معائر اورمعاصر ادبی رُجحانات کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز ان خطوط میں سمٹ آئے ہیں۔ان مکاتیب میں ایسے دانائے راز متکلم نظر آ تے ہیں جنھوں نے سدا علم و ادب کے نگہبانی ،حریتِ فکر و عمل اور جرأت ِ اظہارکی روایات کی پا س داری کواپناشعاربنایا۔بادی النظر میں یہ حقیقت روزِ روشن کے مانندواضح ہے کہ ان مکاتیب کااہم ترین مقصدعلم و ادب کی روشنی پھیلاناہے ۔ ان مکاتیب کے مطالعہ کے بعدقاری مکتوب نگاروں کی ادبی و لسانی مسائل پر گرفت کا قائل ہو جاتاہے ۔ان مکاتیب کا نادر و نایاب اور غیر معمولی اسلوب قاری کے نہاں خانۂ دِل کو معطر کر دیتاہے ۔مشاہیر ادب کے یہ گرا ںقدرمکاتیب مراسلے اور مکالمے کی حدود سے نکل کر مستقل اور بنیادی نوعیت کے حوالہ جاتی مضامین کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔منظراور پس منظر سے قطع نظر یہ مکاتیب عصری آ گہی پروان چڑھانے کی ایک سعی ہیں یوں ان مکاتیب کی اہمیت اورافادیت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔اس وقیع کتاب میں جن مشاہیر کے مکاتیب شامل ہیں،ذیل میں ان کے اسمائے گرامی درج ہیں:
آزادبن حیدر ( ایڈووکیٹ )،آصف ثاقب ، احمد صغیر صدیقی ، احمدسعیدپروفیسر، ارشد خانم ڈاکٹر ، ارشاد شاکر اعوان ڈاکٹر، اسلم انصاری ڈاکٹر ،اصغر ندیم سیّدڈاکٹر، افتخار الحسن میاں ڈاکٹر ، الطاف انجم ڈاکٹر ،امین جالندھری ، امین راحت چغتائی ،انجم جاوید ،ایوب صابر ڈاکٹر ، تسلیم الٰہی زلفی ، جمیل احمدرضوی سیّد، حامد سعیداختر( بریگیڈ ئیر (ر)،حفیظ الرحمٰن احسن ،خورشید رضوی ڈاکٹر ، رشید افروز ،رشیدامجدڈاکٹر ، رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر ،رؤف پاریکھ ڈاکٹر ، رؤف خیر ڈاکٹر ،سعادت سعیدڈاکٹر ،سلطان سکون، سلمیٰ صدیقی محترمہ ،سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر، سلیم الرحمٰن پروفیسر ،سیف اللہ خالد پروفیسر ، شاہد شیدائی ،شکیل عثمانی ، شوکت حسین کاظمی سیّد ،طارق جان ، ظفر حجازی پروفیسر ،ظہور احمداظہر ڈاکٹر ، ظہیر الحسن جاوید عبدالرزاق مغل پروفیسر، عبدالستار دلوی ڈاکٹر ، عبدالستار ہاشمی ،عتیق احمد خان سردار، عرفان شا ہ ڈاکٹر ،عطش درانی ڈاکٹر غالب عرفان ،غفور شاہ قاسم پروفیسر ڈاکٹر ،غلام شبیررانا پروفیسر ڈاکٹر ،غلام قادر آزاد،فیاض عادل فاروقی ،کریم اللہ قریشی میاں کرناہی ، محبوب حسن مقدم پروفیسر ، محبوب عالم تھابل ، محمد اسلم لودھی ،محمد سہیل شفیق ڈاکٹر ، محمدراشد شیخ ،محمد عارف خواجہ ،محمدکامران ڈاکٹر ، محمد ریاض شاہدپروفیسر ڈاکٹر ، محمد ظہیر بدر ، محمدعالم نقوی ،محمد یعقوب شاہق پروفیسر مسعود علی بیگ پروفیسر ، مشتاق اعظمی ڈاکٹر ،مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر، معراج جامی سیّد،معین الدین جینا بڑے ڈاکٹر ، معین الدین عقیل ڈاکٹر ، معین نظامی ڈاکٹر، نبیل زبیری ڈاکٹر ، نجیب عمر،نثار احمدڈاکٹر ،ندیم صدیقی ، نذیر فتح پوری، نسیم سحر ، نگار سجادظہیر ڈاکٹر ، نصرت بخار ی پروفیسر سید ، ہارون الرشید تبسم ڈاکٹر ،یاسمین گل محترمہ ، یحییٰ نشیط ڈاکٹر سیّد ، یونس جاوید ڈاکٹر ۔
مکاتیب کی صورت میںعلم و ادب کی اس کہکشاں کی ضیاپاشیاں دیکھ کرقاری اش اش کر اُٹھتاہے ۔پیہم تنہائیوں کے جان لیواعذاب سہنابہت کٹھن مرحلہ ہے ۔ان حالات میںمکتوب نگاراپنے دیرینہ رفیق کو روح اورقلب کی رفاقتوں کے احساس سے متمتع کر کے سمے کے سم کے مسموم ثمر سے نجات دلاتاہے ۔ فطرت کے مظاہر سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حبس کے ماحول اورسناٹوں کی گرج میں بے سروسامانی و درماندگی کاشکار ہو جانے والے پرافشاں طیورکے دِلِ زارکی کیفیت تڑپنے ،پھڑکنے اور چہچہانے کی صورت میں فضاؤں میں پھیل جاتی ہے ۔اسی طرح مکتوب نگار بھی اپنے دِلِ حزیں پرگزرنے والے نشیب و فراز اور شادی و غم کے توام لمحات کے بارے میں مکتوب الیہ کومطلع کرتارہتاہے ۔ان مکاتیب میں مکتوب نگاروں نے پامال راہوں سے بچتے ہوئے تنوع اور جدت کو زادِ راہ بنایاہے ۔ روشنی کے اس سفر میںمکتوب نگاروں نے بالعموم افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے اذہان کی تظہیر و تنویر کااہتما م کرنے اورجہانِ تازہ کی جانب پیش رفت جاری رکھنا اپنامطمح نظر ٹھہرایا ۔ وہ سب احوال جس کے بارے میں مکتوب الیہ کوعلم ہے اسے دانستہ نظر انداز کرتے ہوئے اپنی کتاب زیست کے ناخواندہ اوراق کی جانب متوجہ کرکے مکتوب نگاروں نے یدبیضا کا معجزہ دکھایا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں مکتوب آپ بیتی ،خود نوشت ،تاریخ نویسی ،سوانح نگاری ،معاصرانہ چشمک ،تنقید ،تحقیق اورلسانی مسائل کا اہم ترین حوالہ بن جاتاہے ۔ ماضی میںمکاتیب کی اہمیت اور افادیت کوملحوظ رکھتے ہوئے جن ادبی رسائل نے نابغۂ روزگار ہستیوں کی علمی فیاضی کے یہ بیش بہاجواہر محفوظ کرنے کے لیے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیااس کی تفصیل درج ذیل ہے :
1 ۔ادبی مجلہ ایشیا،مکاتیب نمبر ،بمبئی،1941
2 ۔ادبی مجلہ آج کل ،خطوط نمبر،دہلی ،1954
3۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد اوّل 1957 ، خطوط کی تعداد: 694
4۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد دوم ،1968، خطوط کی تعدا: 865
5۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلدسوم ،1968 ،خطوط کی تعداد:694
ادبی مجلہ نقوش کے مکاتیب نمبر کی تین جلدوں میں مشاہیر کے خطوط کی مجموعی تعداد: 2253
غازی علم الدین علم و ادب اور معرفت کی اقلیم کاایساابدال ہے جو اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف ہے ۔ ستائش و صلے کی تمناسے بے نیار رہتے ہوئے عجز و انکسار کا یہ پیکر اپنی دھن میںمگن پرورشِ لوح و قلم میں جس انہماک کامظاہرہ کرتاہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںنمود و نمائش اور ذاتی تشہیر نے ایک وباکی صورت اختیار کر لی ہے ۔ زندگی کی برق رفتاریوں کے نتیجے میں شہرِ خوگر کی یایا پلٹ گئی ہے اس کے نتیجے میںفکر و خیال کا محور اور حالات کا پور ا منظر ہی یکسر بدل گیا ہے ۔اس کتاب کویکھ کر خوش گوار حیرت کااحساس ہواکہ قارئین کی ضرور ت کے مطابق اس کتاب کے آخر میں غازی علم الدین کی تصویر،سوانح ،تصانیف اور معتبر ربط کے لیے گھر کا پتا اور ٹیلی فون نمبر بھی درج ہے ۔یہ منظر دیکھ کر پس منظر میںرہنے والے عصر حاضر کے اس درویش منش ادیب اور اس کے ممتاز رفقائے کار کی منکسر المزاجی اور شان استغناقاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ابھی کچھ ایسے لوگ اس جہاں میں باقی ہیں جن کے بحرِخیالات کا پانی بہت گہراہے اوروہ خود بھی یہ چاہتے ہیں کہ قارئین ان کی حقیقت کے شناسا ہو جائیں ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زندگی ایک امتحاں در امتحان مرحلہ بن گئی ہے ۔زندگی کے سفر میںملنے والے ایسے مکتوب نگار جن کی زندگی کا فسانہ لائق تقلید ہو وہ یادگارِ زمانہ ہواکرتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل کی مثالیں دی جاتی ہیںاور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی تمنا کی جاتی ہے ۔ اس کتاب کے آخر میں اردو ادب کے جن مشاہیر کے مکاتیب کی عکسی نقول شامل ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں :
آصف ثاقب ، اسلم انصاری ڈاکٹر ، امین راحت چغتائی ، رؤف پاریکھ ڈاکٹر ، رفیع الدین ہاشمی پروفیسر ڈاکٹر ، رؤف خیر ڈاکٹر ، سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر ،سیف اللہ خالدپروفیسر، ظہور احمد اظہر ڈاکٹر ،عطش درانی ڈاکٹر ، مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر ،معین نظامی ۔
’’ مشاہیر ِادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘‘ کے اوراق پر قوسِ قزح کے رنگ بکھرے ہیں۔میری خواہش ہے کہ انصاف کا ترازو تھام کر ہر مکتوب پر اپنی رائے دے سکوں ۔ان ادب پاروں کے مطالعہ کے دوران میں مجھے جو کچھ محسوس ہوا وہ میں بلا تامل پیش کردوں گا۔آئیے دھنک کے اُس پار اِن دِل کش رنگوں کی بہار اور مشاہیر کی گل افشانی گفتار کا عالم دیکھیں ۔
آزادبن حیدر ( ایڈووکیٹ ) : ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۳ ،تاریخ :۲۹؍ نومبر ۲۰۱۸ء)
مکتوب نگار نے چودہ برس سیال کوٹ میں گزارنے کے بعد کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔ متعددادیبوں سے اپنی ملاقاتوں اور غازی علم الدین سے ربط کے احوال نے اس مکتوب کو یاد نگاری کا ایک قابل غور نمونہ بنا دیا ہے ۔ اپنے خط میں انھوں نے اپنی تسبیح ِ روزو شب کادانہ دانہ شمار کرتے ہوئے مکتوب الیہ کو لکھاہے :
’’ علامہ اقبال اور فیض احمد فیض ؔ کے شہرمیں چودہ بار چودھویںکاچانددیکھنے کے بعدخاکسار کراچی منتقل ہو گیاجہاںمولانا عبدالحامد بدایونی القادری،مولاناحتشام الحق تھانوی اور مولاناابن حسن جارچوی کی صحبتوںمیں بیٹھ کر بہتر سال سے کراچوی ہو گیا۔‘‘ ( صفحہ : ۴۵۵)
آصف ثاقب: ( مکتوبات: ۱۱ صفحات : ۱۱،تواریخ :۶؍نومبر ۲۰۱۶ء،۳۰؍نومبر ۲۰۱۶ء،۲۱؍مئی ۲۰۱۷ء،۲۷؍اگست ۲۰۱۷ء،یکم فروری ۲۰۱۸ء،۵؍فروری ۲۰۱۸ء،۲۵؍جون ۲۰۱۸ء،۷؍اکتوبر ۲۰۱۸ء،۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۸ء،۱۹؍دسمبر ۲۰۱۸ء،یکم جنوری ۲۰۱۹ء )
بوئی ( ہزارہ ) میں مقیم علمِ عروض کے ماہر اس یگانۂ روزگار ادیب نے اپنے مکاتیب میں علم عروض اور لسانیات کے حوالے سے جو باتیںلکھی ہیںان کے اعجاز سے ان مکاتیب کا ایک ایک لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن گیا ہے ۔ مکتوب نگاری کو ایک حیات بخش اور حیات آفریں تخلیقی فعالیت سمجھنے والے اس جری تخلیق کار نے اپنے ایک مکتوب میں ان لوگوں پر گرفت کی ہے جنھیں علم کی ہوا چُھو کر بھی نہیں گزری ۔
’’جیل خانہ جات،کمرہ جات ،علاقہ جات ۔۔۔۔جات،جات کے کیا کہنے !!ایک تھانے والے نے اپنی رپورٹ میںلکھاتھا’ بد معاش ڈنڈا جات لے کرحملہ آور ہوئے ۔‘‘ ( صفحہ :۱۶۳)
احمد صغیر صدیقی: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۲ ،تاریخ :۸؍دسمبر۲۰۱۶ء )
اپنے مکتوب میں احمد صغیر صدیقی نے اور طرح کا انداز اپنایا ہے لسانی اصلاح کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ کسی صور ت یہ نکتہ چینیا ںکچھ رنگ تو لائیں ۔ دو صفحات پر مشتمل اپنے مکتوب میں ذوق ِ سلیم اور تخلیق ادب کے بارے میں لکھاہے : ’’اِن دِنوںصرف اچھی شاعری سے نام نہیں ہوتا ۔اِس کے لیے کچھ اور باتوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ‘‘ ( صفحہ :۱۸۴)
احمدصغیر صدیقی نے کیا خوب کہا تھا:
آنا ذر ا تفریح رہے گی
اِک محفلِ صدمات کریں گے
احمدسعیدپروفیسر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱ ،تاریخ :۱۸؍جنوری ۲۰۱۷ء )
ہوائے جورو ستم میں رخِ وفا کو فروزاں رکھنا ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔ آوازوں کے ازدحام اور شور شرابے میں اپنی رائے پر ڈٹ جانے والے اس جری تخلیق کار نے ہمیشہ اس جانب متوجہ کیا کہ ہوا کی حکمرانی کیا آئی کہ حریت فکر کے چراغ ہی ٹمٹمانے لگے۔ممتاز مورخ اور تحریک ِپاکستان پر اہم کتابوں کے مصنف پروفیسر احمد سعید نے اپنے ایک مختصر خط میں انھوںنے اپنی تصنیف ’’ چند تاریخی خطوط ‘‘ کا ذکرکیاہے ۔(صفحہ : ۲۰۲ )
ارشد خانم پروفیسر ڈاکٹر: (مکتوبات : ۱ صفحات : ۳ ،تاریخ : ۵؍فروری ۲۰۱۸ء )
اپنے اس مکتوب میں محترمہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خانم نے عصر حاضر میں تخلیق ادب کے موضوع پراپنی رائے دی ہے ۔غازی علم الدین کی تصانیف پر محترمہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خانم کے تاثرات قاری کے لیے بہت اہم ہیں ۔ لسانیات کے حوالے سے غازی علم الدین کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئیمحترمہ پروفیسر ڈاکٹر ارشد خانم نے لکھا ہے :
’’ زبان و ادب کے لسانی تقاضوں کو تو خیر آپ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ آ پ نے اُردو ادب کی خدمت کاجو بیڑہ اُٹھایا ہے وہ بے شک آ پ کاطرہ ٔ امتیازہے ورنہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بلند و بانگ دعویٰ توکرتے ہیں لیکن عملی قدم اُٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔اللہ ان صاحب ِ اقتدار لوگوں کو ہدایت دے ۔‘‘ (صفحہ : ۳۱۶)
ارشاد شاکر اعوان ڈاکٹر:( مکتوبات : ۲ صفحات :۷،تواریخ :۱۸؍جون ۲۰۱۸ء،۲۲؍جون ۲۰۱۸ء)
اپنے دو خطوط میں پروفیسر ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان نے غاز ی علم الدین کی لسانی خدمات سراہتے ہوئے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھاہے ۔
’’ آپ کی تحریرصاف،اُلجھنوںسے پاک اور جامعیت و اختصار سے سرمایہ دار ہے البتہ آپ ’ نقطۂ نظر ‘کوجس مفہوم میں استعمال کر رہے ہیں اُس مفہوم کااطلاق ’ زاویہ ٔ نظر ‘ پر ہوتاہے اس لیے کہ ہر کسی کااپنا مشاہدہ اپنے ’ زاویہ ٔ نظر ‘ کامرہون ہوتاہے ۔نقطہ نظر مسلمہ ہوتاہے ۔‘‘ ( صفحہ :۴۲۵)
اسلم انصاری ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۷ صفحات : ۲۴ ،تواریخ :۲۶؍جولائی ۲۰۱۶ء، ۱۵؍فروری ۲۰۱۷ء، ۸؍جولائی۲۰۱۸ء،۱۴؍جولائی ۲۰۱۸ء،۲۳؍جولائی۲۰۱۸ء،۵؍اکتوبر۲۰۱۸،۸؍نومبر ۲۰۱۸ء)
اس کتاب میں شامل ڈاکٹراسلم انصاری کے مکتوبات میں اپنی عملی زندگی کے مختلف واقعات بھی زیبِ قرطاس کیے گئے ہیں۔ ان مکاتیب میں غازی علم الدین کی ادار ت میں شائع ہونے والے علمی و ادبی مجلات ’سیماب‘ اور ’ سروش‘ کے معیار کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔
’’جہاں تک ’ سیماب ‘ کا تعلق ہے یہ ایک دنیائے احساس و معانی ہے جس کی ترتیب و تدوین میں معلوم نہیں آپ نے کتنی کاوش کی ہوگی۔ ۔۔۔آپ کی زبان دانی میں کوئی شک نہیں۔اردو زبان کی یہ خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔یہ سال نامہ ایک آئینہ خانہ ہے جس میں آزادکشمیر کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی جھلکیاں معنوی سطح پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ‘‘ ( صفحہ: ۱۳۳)
اصغر ندیم سیّدڈاکٹر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۲،تاریخ:۱۷؍اکتوبر۲۰۱۱ء )
اپنے اس مکتوب میںپروفیسر ڈاکٹر اصغر ندیم سیّد نے غازی علم الدین کے اسلوب کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کی تصنیف ’ میثاقِ عمرانی ‘ کے بارے میں لکھاہے :
’’غازی صاحب!میں اعتراف کرتا ہوں کہ یہ سب میری آگہی کے لیے بھی بہت اہم کتاب ہے کہ میں نے اِسے پڑھ کے تاریخ اور فلسفے کے طالب علم کی حیثیت سے سے بہت سی اُلجھنوںسے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘ ( صفحہ : ۳۴ )
افتخار الحسن میاں ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۲ صفحات : ۴، تواریخ : ۲۶؍مارچ ۲۰۱۸ء،۲۸؍اکتوبر۲۰۱۸ء)
غازی علم الدین کی علمی،ادبی اور قومی خدمات کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے نئی نسل میں ادبی ذوق پروان چڑھانے کے سلسلے میں مکتوب نگار نے ادبی مجلات ’ سروش‘ اور ’ سیماب ‘ کے کردار کو لائق تقلید قرار دیاہے ۔غازی علم الدین کی ادارتی کاوشوں نے ان مجلات کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا ہے ۔ تعلیمی اداروں سے شائع ہونے والے طلبا کے ادبی مجلات اُمید فردا ہیں ۔مکتوب نگار نے اپنے مکتوب میں ان رجحان ساز علمی و ادبی مجلات کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھاہے ؛
’’آپ نے اپنے کالج میگزین کے طور پر شائع کیے گئے دو اعلا ادبی مرقعے ’ سروش ‘ اور ’ سیماب ‘ مرتب کیے تھے ۔مجھے وہ دونوں بھی آپ کی تصنیف ِ لطیف ’ لسانی مطالعے ‘ کی طرح اس قدر پسند آئے کہ میں نے احساسِ تفاخر کے ساتھ اُن کے تقریباً تین نسخے مختلف جامعات اور معروف دینی مدارس کے کتب خانوں کو آپ کی طرف سے بھیجے تھے ۔‘‘ ( صفحہ : ۳۴۶ )
الطاف انجم ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱۲ ،تاریخ :۳۱؍مئی ۲۰۱۸ء )
سری نگر میں مقیم اس ادیب کا سفرنامے کے انداز میں لکھا گیا یہ مکتوب اس کتاب میں شامل ہے ۔ مکتوب نگارنے پاکستان میں اپنی آمد،سیر وسیاحت ، مختلف احباب سے ملاقات اور یہاں اپنی مصروفیات کا تفصیلی احوال اس خط میں تحریر کیاہے ۔ مکتوب نگار نے لکھا ہے :
’’ غازی صاحب ! آ پ تو جانتے ہیں کہ کشمیریوں کے لیے پاکستان مدینتہ الثانی کا درجہ رکھتاہے اور کوئی بھی کشمیری وہاں جانے کے کسی بھی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔‘‘ ( صفحہ: ۳۹۴ )
امین جالندھری: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۴،تاریخ :۳۱؍دسمبر ۲۰۱۷ء )
غازی علم الدین کی تصانیف بالخصوص ’ لسانی مطالعے ‘ اور لسانی خدمات کو سراہتے ہوئے مکتوب نگار نے ان کے عجز و انکسار کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے :
’’غازی جی ! رحم دلی ،فروتنی اورخلوص ’ محبت ‘ کے اٹوٹ انگ ہیں اور انسانیت کے اہم اجزا ۔یہ چاروں عناصرجب یک جا ہوتے ہیںتو محشرِخیال سر اُٹھاتاہے اور زندگی،تہذیب و تمدن اور علم و ادب میں کشادگی لانے کاعمل ٹھہرتاہے اور انسانی زندگی خوشی،مسرت،انبساط اور فرحت پاتی ہے ۔‘‘ ( صفحہ :۲۹۰)
امین راحت چغتائی: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱ ،تاریخ :۳؍جولائی ۲۰۱۸ء )
شہر ِ بے خبر میں خشک پتوں کے مانند صدائیں کرنابہت کٹھن مر حلہ ہے ۔احباب اگر یک جان دو قالب بھی ہوں اس کے باوجود دِل تو الگ الگ ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ زندگی کا افسانہ بھی کہیں کہیں سے جدا جدا دکھائی دیتاہے ۔ ضعیفی میں قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں اور عناصر میں اعتدال عنقا ہونے لگتاہے۔ان حالات میں سلگتی ہوئی یادوں کے چراغ بھی گُل ہو جاتے ہیں ۔ اپنے ایک ہی چار سطور پر مشتمل مختصر مکتوب میں امین راحت چغتائی اپنی ضعیفی اور یادداشت کے بارے میںلکھا ہے:
’’بھلکڑ پن کا شکار ہو چکا ہوں ۔آپ کے لیے خط لکھنے بیٹھا تو ذہن سے آ پ کا نام محو ہو گیا۔پھر کچھ دیر بعد’’ غازی ‘‘ کالفظ ذہن میں آ یا۔ڈائری دیکھی تو پورا نام نظر نواز ہوا۔‘‘ ( صفحہ :۴۲۷)
انجم جاوید: مکتوبات : ۱ صفحات: ۱۱ ،تاریخ :۲۳؍مارچ ۲۰۱۸ء)
اپنے گیارہ صفحات کے مکتوب میں انجم جاوید نے اپنی ذاتی زندگی کی دھوپ چھاؤں کااحوال نہایت خلوص اور دردمندی سے لکھاہے ۔ غازی علم الدین کی تصانیف پر بھی مکتوب نگار نے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ ادیبوں کی معاصرانہ چشمک پر مکتوب نگار نے اپنی رائے دی ہے ۔جامعات میںسندی تحقیق کی حا لتِ زار کے بارے میں مکتوب نگار کی تشویش پر متعلقہ اداروں کو توجہ دینی چاہیے۔ علم وادب پرمکتبی تنقید کے مسموم اثرات پر وارث علوی نے بھی دلی رنج کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر ،بلبل شیراز اور طوطیٔ ہند سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور کا بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ کر لاتا ہے۔۔۔۔دو پی ایچ۔ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر ’’کام‘‘کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔مدرس کے لیے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی وہی اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورمائوں کے لیے ہفت خواںکی ہوا کرتی تھی کہ ہفت خواں نہ ہوں تو سورمائوں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہتا۔مدرس ان عجوبہ ٔ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں چاول پر قل ہو اللہ لکھا کرتے تھے ،کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ‘‘
ماضی میںکراچی کی ایک جامعہ میںادبی تحقیق کے نام پر جو گل کھلائے گئے مکتوب نگار نے اپنے مکتوب میںاس جانب اشارہ کیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں حرص و ہوس نے تمناؤں ،چاہتوں ،خلوص اور علمی فضیلت کا منظر نامہ گہنا دیا ہے ۔ اردو کے جری نقادوارث علوی ( 1928-2014)نے تنقید کو نیا آ ہنگ عطاکیا ۔مکتبی تنقید کی تہی دامنی ، نارسائی اور سطحیت کو دیکھتے ہوئے وہ اس کے سخت خلاف تھے اس لیے اس مکتبی تنقید پرانحصار کرنے والے مدرس کے بارے میں انھوںنے لکھاہے :
’’مدرس ہر مضمون پر لکھ سکتا ہے ،ہر مجموعہ کلام پر تبصرہ لکھ سکتا ہے ،ہر کتاب پر اپنی رائے دے سکتا ہے جو دوسروں کے کام آئے حالانکہ بہت سی کتابیں ایسی ہوتی ہیںکہ آدمی تزکیہ نفس اور راہ ِ سلوک کے آخری مقام پر پہنچ کر بھی ان کے متعلق لب کشائی کرے تو بھنچے ہوئے لبوں سے سوائے بے نقط ملفوظات کے کچھ باہر نہ نکلے لیکن مدرس بے نقط کبھی نہیں بو لتا۔جب بھی بولتا ہے تنقید ہی بو لتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب تک مدرس کے دم میںدم ہے وہ کسی شاعر کو طبعی موت مرنے نہیں دیتا۔وہ جو دوسروں کے لیے مر گئے وہ بھی حنوط شدہ ممیوں کی طرح مدرس کے مقالوں میں زندہ ہیں۔جن شاعروں پر نول کشور فاتحہ پڑھ چکے ،ان کا عرس منانے کے لیے مدرس ماوراالنہر سے چلتا ہے تو پانی پت میںآکر دم لیتا ہے ۔‘‘
ایوب صابر ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱،تاریخ : ۹؍اپریل ۲۰۱۸ء )
نجی نوعیت کے اس مکتوب میں غازی علم الدین کے بیٹے محمد خبیب غازی کی شادی کادعوت نامہ ملنے پر اظہار تشکر کیا گیا ہے ۔مکتوب نگار نے خوشی کے اس موقع پردولھا کے والدین کودلی مبارک دی ہے اور ان کے لیے دعا کی ہے ۔
تسلیم الٰہی : ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۳ ،تاریخ : ۱۴؍اپریل ۲۰۱۳ء )
اپنے اس اہم مکتوب میں تسلیم الٰہی زلفی نے غازی علم الدین کی تصنیف ’ میثاقِ عمرانی ‘ کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔
’’ آپ نے اپنی اِس مفکرانہ تصنیف میںفطرت کے اس اصول کو پیشِ نظر رکھاہے جس کے تحت وہ عمرانی وجود کوسیراب کرتا اور انتہائے خیال تک اس کے اندرموجود رہتاہے ۔دوسری طرف یہ بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ معاہدۂ عمرانی کے تہذیبی سفر کے یہ معنی ہیں کہ وہ شعورِ ذات سے پیش قدمی کرتا ہوااپنے عمل کے طویل دورانیوں میں ذاتی امتیازات کی وضاحت کرتاچلاجاتاہے ۔‘‘( صفحہ : ۶۶(
جمیل احمدرضوی سیّد: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۸،تاریخ : ۸؍جنوری ۲۰۱۸ء )
یہ مکتوب یادنگاری ،شخصیات نگاری اور اہم تاریخی مقامات کی لفظی مرقع نگاری پر مبنی ۔اپنے اس خط میں سیّد جمیل احمد رضوی نے جن ممتازشخصیات کی یادوں کوشامل کیاہے ان میں محمد عالم مختا رحق ،پروفیسر سیف اللہ خالد ، ڈاکٹر انور سدید،خواجہ محمد عارف ،حفیظ جالندھری ، مشفق خواجہ اور ڈاکٹر وحید قریشی کے نام شامل ہیں ۔اس کے علاوہ جامعہ پنجاب ،اسلامیہ کالج سول لائنز ،لاہور ،غالب کالونی ،لاہوراور کتب خانہ جامعہ پنجاب کی حسین یادیں بھی اس مکتوب میں اپنا رنگ جما رہی ہیں ۔مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ کے بارے میں لکھا ہے :
’’ محترم غازی صاحب !آ پ کی یہ کتاب شخصی مطالعات کے شعبے میں گراں قدر اضافہ ہے ۔اس میدان میںعلمی کتابوں پر تجزیاتی تبصرے لکھنے والوں کو بھی اس سے راہنمائی ملے گی۔اس میں اردو زبان اور ’پاکستانیت ‘ کی اہم حیثیت کو واضح کیاگیاہے ۔‘‘ ( صفحہ : ۳۰۰)
حامد سعیداختر( بریگیڈ ئیر (ر): ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۲ ،تاریخ : ۲۶؍نومبر ۲۰۱۶ء )
اس خط کے اسلوب کی شگفتگی اور بے ساختگی قاری کو مسحور کر دیتی ہے اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو جاتاہے ۔مکتوب نگار نے ’’ مشاہیر کے خطوط ‘‘ کی ترسیل پر بے تکلفانہ انداز میں غازی علم الدین کا شکریہ اد اکرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ اتنے دلچسپ خطوط کو سنبھال کر رکھنا اور طبع کرانابھی کارے دارد کی سی بات ہے ۔۔۔۔اتنی خوب صورت اور دل چسپ کتاب شائع کرنے پر راقم کی دِلی مبارک قبول فرمائیے۔‘‘
حفیظ الرحمٰن احسن: ( مکتوبات: ۳ صفحات : ۷ ،تواریخ : ۱۸؍اپریل ۲۰۱۳ء،۱۴؍جنوری ۲۰۱۸ء،۲۲؍فروری ۲۰۱۹ء )
اس کتاب کے مرتب حفیظ الرحمٰن احسن کے یہ مکاتیب مسرت و شادمانی ،جہدِ مسلسل ،عزم و استقلال اور خوب سے خوب تر کی جستجو کے جذبات کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہیں ۔ تکلم کے سلسلے بھی خوب ہیں مگرانسانی زندگی میں بعض اوقات ایساوقت بھی آ تاہے جب ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ جاتاہے اس وقت اس نوعیت کے مکاتیب خضر راہ ثابت ہوتے ہیں۔تنقید و تحقیق کے نظریات بدل سکتے ہیں مگر زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کے امین ایسے خطوط کے مندرجات کبھی نہیں بدلتے ۔ مکتوب نگار نے ان خطوط میں کئی یادگارِ زمانہ ہستیوں کا ذکر کیاہے جن سے مِل کر زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات پروان چڑھتے تھے ۔ وہ پارس صفت انسان تھے جو مسِ خام کو کندن بنانے پر قادر تھے ۔ یہ خورشید جمال با کمال جو ذرے کو ستارۂ سحر بنانے کی صلاحیت سے متمتع ہیں ان سے استفادہ نے مکتوبات کے قارئین کو فکر و خیال کی نئی جہات سے آشناکیا ہے ۔ ایسے خطوط پڑھ کر قارئین کی لوحِ دِل پر انمٹ نقوش مرتب ہوتے ہیں ۔ اپنی علمی و ادبی زندگی میں حفیظ الرحمٰن احسن کو علم و ادب کے جن سرچشموں سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ان میںمولانا شبلی نعمانی( 1857-1914) ،مولانا الطاف حسین حالی ؔ (1837-1914)،مولانا عبدالحلیم شر ر (1860-1926)علامہ راشدالخیری (1868-1936) ،مولاناابو الکلام آزاد (1888-1958)،سیّدامتیاز علی تاج (1900-1970) ،مولاناسیّد ابوالاعلیٰ مودودی ( 1903-1979،ڈاکٹر سیّد عبداللہ ( 1906-1986) ،مولاناصلاح الدین احمد (1902-1964)،نسیم حجازی (1914-1995) اور نعیم صدیقی ( 1916-2002) شامل ہیں ۔ (صفحہ :۶۸)
خورشید رضوی ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱ ،تاریخ :۲۰؍دسمبر۲۰۱۷ء )
ایک صفحے پر مشتمل اپنے اس ایک مکتوب میں ڈاکٹر خورشیدرضوی نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ،پروفیسر سیف اللہ خالد اورمعین الدین عقیل سے وابستہ یادوں کو قلم بندکیاہے ۔اس کے ساتھ ہی اس مکتوب میں غازی علم الدین کی علمی ،ادبی اور لسانی خدمات کی تحسین کی ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنے اِس مکتوب میں لکھاہے:
’’آپ کے لطف ِپیہم کا شکریہ کیوں کراداکروں ۔’سیماب ‘ ، ’سروش ‘ ’لسانی مطالعے ‘ ، ’میثاق ِ عمرانی ‘ کے بعداب تخلیقی زاویے موصول ہوئی ۔دعا ہے کہ زورِ قلم اور زیادہ ہواور آپ اسی طر ح مضامینِ نو کے انبار لگاتے رہیں ۔اس بار آپ نے ایک رنگا رنگ باغ لگایا ہے۔آپ کا محبوب ترین موضوع لسانی تحقیق گویہاں بھی جا بہ جا جھلکتاہے مگر اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے َ‘‘ (صفحہ :۲۸۶)
رشید افروز : ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱ ،تاریخ : ۲۴؍اپریل ۲۰۱۸ء )
اس مکتوب میں رشیدافروز نے اپنی ادارت میں احمد آباد ( بھارت) شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’ گلبن ‘‘ کی اشاعت کا ذکر کیا ہے ۔اس کے ساتھ غازی علم الدین کی تصانیف کی اپنے نام ترسیل کے لیے اپنانیاپتاجلدبھیجنے کی بات کی ہے ۔
رشیدامجدڈاکٹر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۲ ،تاریخ : ۸؍مئی ۲۰۱۴ء)
اپنے اس اہم مکتوب میں پروفیسرڈاکٹر رشیدامجد نے اپنے اس مکتوب میں غازی علم الدین کی تصنیف ’ لسانی مطالعے ‘ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھاہے :
’’ اِس کتاب کو پڑھ کر میں نے بہت کچھ سیکھاہے اور میری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔اِس کتاب کی ایک خوبی اِس کا رواں دواں اسلوب ہے ۔لسانیات خشک موضوع ہے ،آپ نے ایسی روانی سے اپنے خیالات کااظہار کیاہے کہ قاری ایک خوش گوارمسرت کے احساس کے ساتھ پڑھتاھتاچلا جاتاہے ۔بنیادی بات یہ ہے کہ آپ ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے اپنی پہچان کراتے ہیں۔لفظ ومعنیٰ کے انسلاکات ،لسانی اشتقاقات اور لہجوںکی تشکیلات آپ کی نگارشات کے غالب رجحانات ہیں۔‘‘ ( صفحہ : ۹۳)
رفیع الدین ہاشمی ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۲ صفحات : ۲ ،تواریخ: یکم ستمبر ۲۰۱۸ء،۲۶؍اکتوبر۲۰۱۸ء )
اپنے ان مکاتیب میں پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ادبی مجلہ ’ سیماب ‘ کے بارے میں مکتوب الیہ کو لکھاہے :
’’ ’سیماب ‘ مِل گیا ۔نہایت عمدگی سے مرتب کیا گیاہے ۔کسی کالج میگزین کاایسا شمارہ ایسے پائے کااور ایسے معیار کاشاید ہی کہیں مرتب اور شائع کیا گیاہو۔مجلسِ ادارت کے جملہ اساتذہ اور طلبہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔‘‘ ( صفحہ : ۴۴۰)
’’ صحتِ زبان و اِملاکے بارے میںآپ نے جو جہاد شروع کر رکھا ہے ،اُسے جاری رہناچاہیے ۔بڑا مبارک قومی فریضہ ہے ۔اللہ آپ کوبیش از بیش تو فیق بخشے ،آمین۔‘‘(صفحہ:۴۳۹)
رؤف پاریکھ ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۲ صفحات : ۲،تواریخ : ۷؍مئی ۲۰۱۸ء،۱۰؍نومبر۲۰۱۸ء )
’’ مشاہیر ِ ادب کے خطوط ‘‘میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے دو نہایت اہم خطوط شامل ہیں ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ادبی اخلاقیات اور ادبی سماجیات کی زبوں حالی پر گرفت کرتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھاہے کہ ایسی احمقانہ تراکیب وضع کی جارہی ہیں جوذوق سلیم پر گراں گزرتی ہیں ۔حروف کاری کے بارے میں انھوں نے لکھاہے :
’’ اب حروف کاری بھی نِج کاری کی طرح قریب قریب بد کاری ہو گئی ہے ،حروف کے معاملے میںزبان کے ساتھ اور نِج کے معاملے میں قوم کے ساتھ۔‘‘(صفحہ:۳۸۶)
مظہر محمود شیرانی کی علمی فضیلت کے بارے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے لکھاہے :
’’ شیرانی صاحب جیسے عالم اور زبان داں اب ہمارے ہاں کتنے رہ گئے ہیں؟زبان اور لغت پران کا علم کامل اورکمال ہے ۔خدا اُنھیںصحت اور زندگی دے ،افسوس کہ ہمارے جاہل اور زر پرستمعاشرے نے ان کی علمیت سے بہت کم فائدہ اُٹھایا۔اُنھیں اُردو لغت بورڈ کامدیر اعلیٰ ہونا چاہیے تھایا مقتدرہ قومی زبان کا سربراہ۔وہ صحیح معنوں میںاپنے داداکے جا نشین ہیں ،لیکن ۔۔۔حیف صدحیف۔‘‘(صفحہ:۳۸۶)
سعادت سعید پروفیسرڈاکٹر:( مکتوبات : ۱ صفحات : ۴ تاریخ :۱۸؍جولائی۲۰۱۳ء)
غازی علم الدین کی کتاب ’’ لسانی مطالعے ‘‘ کے بارے میں اپنے چار صفحات پر مشتمل مکتوب میںپروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید نے کتاب کے اسلوب کو قدرکی نگاہ سے دیکھاہے ۔اپنے دلائل کو سمیٹتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھاہے :
’’ مجھے آپ سے مکمل اتفاق ہے کہ زبان ایک ایساوسیع میدان ہے جو اپنے اندرکسی قوم کی تہذیب و ثقافت کو سموئے ہوئے ہوتاہے ۔اس کی حفاظت کسی قوم کی تہذیبی ،اخلاقی،علمی،فکری اور تمدنی روایات کی حفاظت ہے ۔زبان اگر انجماد کا شکار ہو جائے تو جان لینا چاہیے کہ اس میں ابلاغ کرنے والے لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔‘‘ ( صفحہ : ۸۶)
سلطان سکون: ( مکتوبات: ۸ صفحات : ۱۳)
مکتوبات لکھنے کی تواریخ :۳۱؍دسمبر۲۰۱۵ء،۸؍نومبر۲۰۱۶ء،۱۶؍دسمبر۲۰۱۶ء،۱۹؍جنوری۲۰۱۷ء،۲۳؍جنوری ۲۰۱۷ء،۳۰؍جون۲۰۱۸ء،یکم جولائی ۲۰۱۸ء،۱۵؍اکتوبر۲۰۱۸ء )
اپنے ان مکاتیب میں سلطان سکون نے غازی علم الدین کی لسانی خدمات کی تحسین کی ہے ۔کالج کے علمی و ادبی مجلات اور غازی علم الدین کی وقیع تصانیف کے بارے میں سلطان سکون کی تجزیاتی تحریریں ان کے ذوق سلیم کی مظہر ہیں ۔سلطان سکون کے ہر مکتوب کی پیشانی پر لکھا دعائیہ جملہ ’’ پاکستان سلامت رہے ‘‘پڑھ کر ممنونیت کے جذبات سے آنکھیں بھیگ بھیگ گئیںاور دِل سے دعا نکلی اللہ کریم اس عظیم محبِ وطن کو طویل عمر عطا فرمائے۔ ارض ِ وطن اور اہلِ وطن کی محبت میں پلک تلک آنے والے آ نسوبھی گہری معنویت کے حامل الفاظ کے مانند ہوتے ہیںجنھیں مکتوب نگار زیبِ قرطاس کرتا چلا جاتاہے ۔اپنی حیات بخش اور حیات آفریں مکتوب نویسی کے اعجاز سے سلطان سکون نے اپنی تحریر کو معاشرتی زندگی کے ہرزہر کاتریاق بنادیاہے ۔ان خطوط میں یاد نگاری کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتاہے ۔
سلمیٰ صدیقی محترمہ: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱۴ ،تاریخ :۵؍ستمبر ۲۰۱۸ء )
غازی علم الدین کے تقاضے پر محترمہ سلمیٰ صدیقی نے اپنے والدپروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کی حیات اور علمی و ادبی خدمات کے بارے میں اپنے جذبات واحساسات کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ پیرایۂ اظہار عطاکیا ہے وہ ان کی سعادت مندی کی دلیل ہے ۔محترمہ سلمیٰ صدیقی نے اپنے اس طویل مکتوب میں روشنی کے اس لازوال رشتے کی مرقع نگاری احسن طریقے سے کی ہے ۔ اپنے والدین کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا ایک نیکی ہے ۔ایسی سعادت مند بیٹیاں والدین کابیش بہا اثاثہ ہوتی ہیں۔اللہ کریم محترمہ سلمیٰ صدیقی کواس نیکی کا اجر عظیم عطا فرمائے۔
سلیم آغا قزلباش ڈاکٹر (1956-2018 ): ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۲ ،تاریخ : ۲۹؍جنوری ۲۰۱۸ء )
ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ ذہین فرزندبزمِ ادب کو چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کوسدھارگیاہے ۔ گوشہ نشینی اور عالم تنہائی میں دِلِ حزیں پر ہاتھ رکھ کر اس کتاب میںڈاکٹر سلیم آغاقزلباش کا یہ خط دیکھا تومیری آنکھیںساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں ۔مجھے یوں محسوس ہواکہڈاکٹر سلیم آغاقزلباش نے مجھے کہا:
بات صر ف دیکھنے کی ہے
زندگی کو مسئلہ کس نے بنایا
میں نے یا تم نے
مگر زندگی تو زندگی ہے
مُشکل نہ آسان
اچھی نہ بُری
اِسے مُشکل یا آسان
تو ہم تم بناتے ہیں
ذرا سوچو!
زندگی تو سِکّے کی طرح ہے
ایک طرف سے دیکھو
توسزا
دوسری طرف سے دیکھو
تو جزا
بات صرف دیکھنے کی ہے !
مجھے یقین ہو گیاکہ واقعی بات صرف دیکھنے کی ہے ۔ غازی علم الدین کی کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘کوڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے جس طر ح دیکھاوہ درج ذیل ہے :
’’کچھ عرصہ قبل آپ کے ادبی اور شخصی مطالعوں پر مشتمل کتاب بہ عنوان’ تخلیقی زاویے ‘ موصول ہوئی تھی۔تدریسی اور انتظامی مصروفیات سے وقت نکال کر آپ علمی و تحقیقی نوعیت کا کام جس جانفشانی اور جذبۂ صادق سے انجام دے رہے ہیں،وہ آپ کی اُردو زبان و ادب سے گہری شیفتگی کابر ملا اظہار ہے ۔‘‘ ( صفحہ :۳۰۳ )
سلیم الرحمٰن پروفیسر : ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱ ،تاریخ :۲۷؍مارچ ۲۰۱۸ء )
اپنے اس خط میں انھوں نے غازی علم الدین کی کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ ملنے کی رسیددی ہے اور ساتھ ہی اس کتاب کے بارے میںاپنے مختصر تاثرات بھی لکھے ہیں:
’’ آپ کی محبتوں کا ممنون ہوں اور مقروض بھی ۔ممنون اس لیے کہ آپ میری تمام تر کوتاہیوں کے باوجود مجھے یاد رکھتے ہیںاور مقروض یوں کہ ’ تخلیقی زاویے ‘ مفصل جائزے کی حق دار ہے اوراس کا مطالعہ مجھ پر قرض ہے۔جستہ جستہ اس کامطالعہ کیا۔حسب توفیق اس عمدہ اور خوب صورت تصنیف پرایک نظر ڈالی۔ماشا ء اللہ ! نظر ِ بد دُور۔آمین!‘‘ ( صفحہ : ۳۴۹ )
سیف اللہ خالد پروفیسر: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۸،تاریخ : ۱۷؍مارچ۲۰۱۸ء )
لسانی مباحث ،تخلیق ادب اور تنقید و تحقیق سے متعلق پروفیسرسیف اللہ خالد نے اپنے اس مکتوب میں خاکہ نگاری اور شخصیت نگاری کے اسلوب کے بارے میںاہم نکات کی جانب توجہ دلائی ہے ۔سخن سازوں اورسخن آراؤں کے رمزآشنا پروفیسر سیف اللہ خالد نے لکھاہے :
’’ یادش بخیر کم و بیش ایک عشرہ پیش ترآپ کی بصیرت افروزنوازشات کا ابرِ کرم برسنا شروع ہواتھا۔۔۔’میثاقِ عمرانی‘ ،لسانی مطالعے ‘، ’ لسانی لغت ‘ ،’ اُردو معیار اوراستعمال ‘ ،’ تنقیدی و تجزیاتی زاویے ‘ ، ’ سروش اقبال کے نام‘ ،’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘، ’ سروش و سیماب ‘ جیسے مجلات اوراب ’ تخلیقی زاویے ‘ ،نے ، یقین جانیے جتنا مجھے سنجیدگی کے ساتھ ،ادب زار کے گُل گشت سے محظوظ کیا،نصف صدی کے دوران میںاتناانہماک کبھی ارزاں نہیں ہواتھا۔‘‘ صفحہ :۳۲۱)
شاہد شیدائی: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۵،تاریخ : ۲۹؍مئی ۲۰۱۸ء )
اپنے مکتوب میں شاہدشیدائی نے لسانیات ،ادب ،فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت کے اہم موضوعات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیاہے ۔ان کا خیال ہے کہ ادب میں کوئی جمود نہیں بل کہ تخلیق ِادب میں کلیشے سے نجات حاصل کرنا ہی اصل مسئلہ ہے ۔ مکتوب نگار نے واضح کیاہے کہ تخلیق ِادب کے لیے کسی تحریک کی موجودگی ضروری نہیں بل کہ ادب خود ایسی جان دار،زندہ اورمتحرک شے ہے جو تحریکوں کو جنم دیتی ہے ۔ ثقافت،تہذیب اور تمدن کے موضوع پر مکتوب نگار کے فکر پرور خیالات بہت اہم ہیں۔ لمحۂ موجود میںاُردو زبان و ادب کی مجموعی صورت حال کے بارے میں انھوں نے لکھاہے :
’’ اصنافِ ادب کے اعتبار سے بھی نئے دور میںجوتیز ترقی ہوئی ہے ، اُس کی مثال بھی ماضی میں کم کم ہی نظر آئے گی ۔موجودہ دور میںافسانے ،انشائیے ،جدیدنظم اور تنقیدنے اسلو ب اور معیارکے باب میںجو اضافے کیے ہیںاور جن فنی قدروں کو پروان چڑھایاہے ،اُس کا مقابلہ گزشتہ کسی دور کا ادب نہیں کر سکتا۔‘‘ ( صفحہ :۳۹۰)
شکیل عثمانی: ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۱ ،تاریخ:یکم دسمبر ۲۰۱۶ء )
اپنے اس مکتوب میں شکیل عثمانی نے ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین ‘ کی رسید دی ہے ۔اس کے ساتھ ہی مکتوب نگار نے مجلہ ’سیماب ‘بھی طلب کیاہے ۔
شوکت حسین کاظمی سیّد : ( مکتوبات: ۱ صفحات : ۴،تاریخ : ۱۵؍اگست ۲۰۱۸ء )اپنے اس مکتوب میںسید شوکت حسین کاظمی نے اپنے والد گرامی سیّدصادق حسین ( مرحوم) کا ذکر کیاہے
۔سیّد صادق حسین کا یہ شعر تو زبان زدِ عام ہے:
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
ہر انگارۂ خاکی کے ساتھ تقدیر کا یہی المیہ ہے کہ خاکِ مہ وسال میں اس کا بیش بہا اثاثہ اس طرح وقت برد ہو جاتاہے کہ کچھ ہاتھ ہی نہیں آتا۔مکتوب نگار نے جس عقیدت و احترام کے ساتھ اپنے والد محترم کویادکیا ہے وہ ان کی سعادت مندی کی دلیل ہے ۔رفتگاں کی یادواقعتاً قلبِ حزیں کو اُن کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کی ایک کوشش ہے ۔قزاق ِاجل کے وار سے جوبچھڑتے ہیں، وہ پھر کبھی نہیں ملتے اور زندگی کی سب رعنائیاںاُن کے ساتھ ہی پیوندِ خاک ہو جاتی ہیں ۔اُن کے دنیاسے اُٹھ جانے کے بعدجس وقت سب موسم بدل جاتے ہیں اور سورج سوا نیزے پر آ جاتاہے تو یہ منظر دیکھ کر دِل بیٹھ جاتاہے ۔دائمی مفارقت دینے والوں کے پس ماندگان سانس گِن گِن کرزندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بعد الم نصیب جگر فگار پس ماندگان اپنی بقیہ زندگی کے دُھندلے نقوش میں پھیکے رنگ بھرنے کی جس سعیٔ ناکام میں مصروف رہتے ہیں اسی کا نام یاد رفتگاں ہے۔ یہ وفا کی ایسی کٹھن مسافت ہے جس میںآبلہ پا مسافروں کو دردِمحبت اور غبارِ سفر کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے باوجودپس ماندگان یہ سمجھتے ہیں کہ کسی صورت میں اُن کی دیدۂ گریاں سے کچھ رنگ اور آ ہنگ تو پیداہوئے ۔ یہ مکتوب ایک ایساعدسہ ہے جس میں مکتوب نگار کے ذہن و ذکاوت کی عکاسی قارئین کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔ اپنے والدمحترم کی زندگی کے حالات اور تحریک پاکستان میںان کی خدمات پر روشنی ڈالنے کے بعدمکتوب نگار نے لکھا ہے :
’’ یہ خط کچھ طویل ہو گیاہے لیکن والدین کاذکر لمبا ہوہی جاتا ہے۔میں خط کے ساتھ والد صاحب کا مجموعہ ’ برگِ سبز‘ بھیج رہاہوں۔آپ یقیناًمتاثر ہوں گے۔‘‘ ( صفحہ:۴۳۸ )
طارق جان:اپنے دو صفحات پر مشتمل مکتوب میں طارق جان نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پرروشنی ڈالتے ہوئے انسان اور تخلیق کائنات کے بارے میں اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
ظفر حجازی پروفیسر: (مکتوبات: ۷، صفحات : ۴۱ )
تواریخ : ۱۱؍دسمبر ۲۰۱۷ء،۱۵؍جنوری۲۰۱۸ء،۱۹؍جنوری ۲۰۱۸ء،۲۵؍جنوری۲۰۱۸ء،۲۰؍ستمبر۲۰۱۸ء،۲۶؍ستمبر۲۰۱۸ء،۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۸ء
اپنے ان مکتوبات میں پروفیسر ظفر حجازی نے غازی علم الدین کی لسانی ،تنقیدی اور تحقیقی مساعی کو سراہتے ہوئے لکھاہے :
’’ آزادکشمیرکے اہلِ قلم کے تعارف میںآپ نے مختلف جہتوں سے جو کام کیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اِتنا گراں قدرکام کسی ایک شخص کے بس کا کام نہیں ۔یہ اداروں کے کرنے کاکام ہے جسے آپ نے تن تنہانبھایاہے ۔’ سیماب ‘ اور ’ سروش‘ کوآپ کی کاوشوںنے جس مقام پر پہنچادیا ہے ،شاید اس سے بلندمقام پر پہنچانا کسی اور کے بس کاکام نہ ہوگا۔‘‘ ( صفحہ : ۲۴۵)
ظہور احمداظہر ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱ )اپنے مکتوب میں انھوں نے عربی اور اردو زبان میں اپنی تصانیف کا ذکر کیاہے ۔غاز ی علم الدین کی تحقیقی کامرانیوں پرمکتوب نگار نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھاہے :
’’آپ کی علمی سرگرمیاں دیکھ کراور جان کر دِل بہت خوش ہوا۔’لسانی مطالعے‘پر ایک بار پھر توجہ مرکوز کی اور آپ کی قابلِ قدر کوشش دیکھ کر بے حدخوشی اوراطمینان ہوا،یہ سلسلہ جاری رکھیے اس سے پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیر کاچہرہ خصوصی طورپر روشن ہوتاہے ۔‘‘ ( صفحہ :۲۱۰)
ظہیر الحسن جاوید (1937-2018) : ( مکتوبات: ۴ ،صفحات : ۵ ،تواریخ: ۱۵؍مئی ۲۰۱۷ء،۱۳؍جولائی ۲۰۱۷ء،۲۱؍جولائی۲۰۱۷ء،۱۶؍جنوری۲۰۱۸ء)
مولاناچراغ حسن حسرت ( 1904-1955) کے فرزند ظہیر الحسن جاویدنے اپنے والد سے وابستہ یادیں تازہ کی ہیں ۔ ظہیر الحسن جاویدنے غازی علم الدین کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیاہے ۔ مجھے ایسامحسوس ہوا کہ مکتوب نگار نے اپنے والد کی یادوں اور اپنی ذات کی خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت کی ایک سعی کی ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ خطوط ظہیر الحسن جاویدکے اسلوب کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقاصدکی جانب توجہ دلاتے ہیں جن کا اہم ترین پہلو اپنے رفتگاں کی یاد ہے ۔ اردوشاعری میں صنف ’ ماہیا ‘کے فروغ کے لیے مولانا چراغ حسن حسرت کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے ۔مکتوب نگار نے اپنے والد(مرحوم ) کے لکھے ہوئے ماہیے درج کرنے کے بعد سہ حرفی صنف میں اپنی کاوش بھی لکھی ہے۔ذیل میں قارئین کے استحسان کی خاطر ان دونوں شعر اکی تخلیقات کا موازنہ پیش کیا جاتاہے :
باغوں میں پڑے جُھولے
تم بھول گئے ہم کو ،ہم تم کو نہیں بُھولے (چراغ حسن حسرت)
’’ باغوں میں پڑے جُھولے ‘‘
کوئل بھی کہے تم سے
’’ ہم تم کو نہیں بُھولے ‘‘ ( ظہیر الحسن جاوید )
اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بُلا بھیجو،یا آپ چلے آ ؤ (چراغ حسن حسرت)
’’ اب اور نہ تڑپاؤ ‘‘
پھر پاس مرے آ کر
سینے سے لگاجاؤ ( ظہیر الحسن جاوید )
عبدالرزاق مغل پروفیسر( 1929-2012) : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۶،تاریخ : ۲۷؍اپریل۲۰۱۰ء )
اس مکتوب میں پروفیسرعبدالرزاق مغل نے اپنے استاد ڈاکٹر مولوی محمدشفیع(1883-1963 )کی زندگی کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی ہے ۔مشرق و مغرب کے علمی سرچشموں سے سیراب ہونے والے ڈاکٹر مولوی محمدشفیع کے بارے میں یہ معلومات بہت اہم ہیں۔ پنجاب کے شہرقصورسے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مولوی محمدشفیع نے کیمبرج یونیورسٹی سے (1915-1919)ڈاکٹریٹ کی ۔اردو اسلامی دائرۃ المعارف کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یادنگاری پر مبنی اپنے اس مکتوب میں پروفیسرعبدالرزاق مغل نے تہذیبی ،ثقافتی اور عمرانی روایات کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور انھیں یادوںمیں محفوظ رکھنے کی سعی کی ہے ۔اس خط میںپروفیسرعبدالرزاق مغل نے اپنی قلبی و روحانی کیفیت کواحاطۂ تحریرمیں لانے کی جو کوشش ہے وہ لائق تحسین ہے ۔اس خط کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مکتوب نگار نے مکتوب الیہ کی زندگی اور ذاتی دلچسپیوں کو بھی پیشِ نظر رکھاہے ۔ اس مکتوب کے واضح مقاصد نے اسے ارفع مقام عطا کیا ہے ۔یادگارِ زمانہ لوگوں کی باتوں پرمبنی ایسے خطوط جو قارئین کی روح اور قلب کی گہرائیوں میںاُتر جاتے ہیں وہ مکتوب الیہ کوجواز ِ افتخار فراہم کرتے ہیں ۔
عبدالستار دلوی ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۶ ، صفحات : ۷،تواریخ : ۲۹؍جنوری۲۰۱۸ء،۲۹؍مارچ۲۰۱۸ء،یکم اپریل۲۰۱۸ء،۶؍اکتوبر۲۰۱۸ء،یکم نومبر۲۰۱۸ء،۷؍نومبر۲۰۱۸ء )
مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصانیف اور مجلہ ’ سیماب ‘کو پسند کیا ہے اور اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیاہے :
’’ آپ کی تصانیف سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔خدا کرے تصنیف و تالیف کاآپ کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہے ۔میںآپ کی اِن نوا زشوںکے لیے بے حد شکرگزارہوںاور جب کبھی آپ کی نئی کتاب آتی ہے اور آ پ مجھے یاد رکھتے ہیںتو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوںاور کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتاہے ۔انسان ہمیشہ علم کے مقابلے میں چھوٹا ہی رہتاہے ۔‘‘ (صفحہ :۳۰۵)
عبدالستار ہاشمی : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات : ۲،تاریخ:۳؍فروری ۲۰۱۸ء )
مکتوب نگار نے اردو زبان میں مروّج غلط الفاظ کی جانب متوجہ کیاہے ۔مکتوب نگار نے علامہ اقبال کے شعری مجموعہ’ ضرب ِ کلیم ‘میں ’ تعلیم و تربیت ‘ کے ذیل میں نظم’ مرگِ خودی ‘کے ایک شعر کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کتابت کی غلطی موجود ہے ’ بالوں پر ‘ کے بجائے ’ بال وپر ‘ درست ہے ۔ شعر درج ذیل ہے :
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام! ( ضربِ کلیم ، صفحہ ،80 )
عتیق احمد خان سردار : ( مکتوبات: ۳ ، صفحات : ۹،تواریخ : ۱۴؍دسمبر۲۰۱۲ء،۱۴؍فروری۲۰۱۳ء،۲۶؍کتوبر۲۰۱۷ء )
اپنے ان مفصل مکتوبات میں سردار عتیق احمد خان نے مکتوب الیہ( غازی علم الدین ) کی تصانیف ’ میثاق عمرانی ‘، ’ لسانی مطالعے ‘ ،’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین ‘ اور ادبی مجلات ’ سیماب ‘ اور ’ سروش ‘ پربے لاگ رائے دیتے ہوئے لکھاہے :
’’محترم غازی صاحب!آپ کی اور میری شناسائی کی حدودکو عقلی پیمانے سے نہیں بل کہ قلبی اور روحانی پیمانے سے ماپا جا سکتاہے اور مجھے یقین ہے وہ پیمانہ استعما ل کرنا آپ بخوبی جانتے ہیں۔لیکن یہاں اس بات کا اعتراف اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کہ اگر آپ مجھے یہ تاریخی نوعیت کی شاہکار کتاب نہ بھیجتے تو اس قدر قربت اورمحبت کے باوجود راقم اصلی غازی علم الدین سے کبھی آشنا نہ ہوسکتا۔ لہٰذا میںآ پ کا اس شفقت پر بے حد شکر گزار ہوں ۔‘‘ ( صفحہ : ۴۴)
عرفان شا ہ ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۲ ،تاریخ: ۳۰؍جولائی ۲۰۱۸ء)
اس مکتوب میں پروفیسرڈاکٹر عرفان شاہ نے اردو رسم الخط اور اظہار و ابلاغ کے مسائل پر اظہار خیال کیاہے ۔مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصانیف ’ تنقیدی و تجزیاتی زاویے ‘ ،’لسانی مطالعے ‘،اور ’ تخلیقی زاویے ‘ موصول ہونے پر اظہار تشکر کیاہے ۔
عطش درانی ڈاکٹر (1952-2018) : ( مکتوبات: ۳ ،صفحات : ۲،تواریخ :۲۱؍مارچ۲۰۱۷ء،۲۲؍جنوری۲۰۱۸ء،۲۲؍اکتوبر۲۰۱۸ء )
پروفیسر ڈاکٹرعطش درانی نے ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘کوجواہر اندوختی کا ایسا نرالا انداز قرار دیا جواس سے قبل نہ کبھی دیکھانہ پڑھا۔غازی علم الدین کے مجموعۂ مضامین ’ تخلیقی زاویے ‘ کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹرعطش درانی نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے :
’’ آپ کا مجموعہ ٔ مضامین’تخلیقی زاویے ‘جہاں نہ صرف ایک بکھرے ہوؤں کی لڑی ہے وہیں یہ معاصر ادب کا مبسوط جائزہ بھی ہے اور مستقبل میں مورخِ ادب کے لیے ایک اہم ماخذ بھی ٹھہرتا ہے ۔بادی النظر میں میرا تاثر یہی ہے ۔قبول فرمائیے ۔( صفحہ : ۲۲۴)
غالب عرفان : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۲ ،تاریخ : ۶؍اکتوبر۲۰۱۷ء )
اپنے مکتوب میں غالب عرفان نے’ مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘کو ایک ایسی عظیم و ضخیم کتاب قرار دیاہے جس کے مندرجات سے نہ صرف غازی علم الدین کی ہمہ جہت شخصیت اُبھر کر سامنے آتی ہے بل کہ ان کا علمی و ادبی مرکزیت سے لبریز وقار بھی سامنے آتاہے ۔ یہ مکاتیب پس نو آبادیاتی دور کی تاریخ ہیں جن میں پورا عہدسانس لیتا ہوا محسوس ہوتاہے ۔اس مفید کتاب کے بارے میں مکتوب نگار نے لکھا ہے :
’’بات یہ نہیں کہ اِس مخزن میںکس نے کیا لکھابلکہ قابلِ غور و فکر امر یہ ہے یہ مکاتیب ایک تاریخ بھی ہیں جوآپ کے کام پر پی ایچ۔ڈی کرنے والے طلبا کے لیے ایک اہم دستاویز ہے ۔بلکہ میں تویہ کہتاہوںکہ اس کتاب پر ایک تفصیلی تجزیاتی محاکمہ بھی آج کی ضرورت بن کر میرے شعور پر چھا گیاہے ۔‘‘ (صفحہ :۲۴۴)
غفور شاہ قاسم پروفیسر ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات : ۱ ،تاریخ : ۵؍دسمبر ۲۰۱۶ء )
الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم جن کا شمارعالمی شہرت کے حامل مذہبی و روحانی بزرگوں، عبقری دانش وروں،ماہرین علم بشریات ،مورخین ،محققین اور ماہرین لسانیات میں ہوتاہے ان کا ایک مختصر خط’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘میں شامل ہے ۔اپنے اس گراں قدر مکتوب میں الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے قطرے میں دجلہ اور جزو میںکُل دکھا کر وسعتِ افلاک میں اپنی جولاں گاہ سے ادب کے مجھ جیسے خاک نشیں طالب علموں اور خاکسارانِ جہاں کو آئینہ دکھایا ہے کہ اختصار میں جامعیت اس طرح پیدا کی جاتی ہے ۔ الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے اپنے اس مکتوب میںغازی علم الدین کی وقیع تصانیف ’لسانی مطالعے ‘ ،’ ’مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ ، ’ مجلہ سیماب ‘ اور ’ ’ مجلہ سروش‘ کو پسند کیاہے ۔ مجلہ سیماب ‘ اور ’ ’ مجلہ سروش‘کے بلند معیار کوسراہتے ہوئے مکتوب نگار نے غازی علم الدین سے یہ مجلات طلب کیے ہیں۔غازی علم الدین کی بھیجی ہوئی کتابیں بل کہ سوغاتیں ملنے پر الحاج پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے اظہار تشکرکرتے ہوئے لکھاہے :
’’بہت ہی ممنون ہوں کہ آپ نے مجھے میرے مطالعاتی مراقبے کے لیے بہت عمدہ کتابیں مرحمت فرمائیں ۔اب آ پ سے تفصیلی ملاقات کا خواہش مند ہوں۔‘‘ ( صفحہ:۱۸۳)
حقیقت میںیہ مکتوب عطیۂ خدا وندی ہے جسے میں غازی علم الدین کی خوش قسمتی پر محمول کرتا ہوں۔ غازی علم الدین مبارک بادکے مستحق ہیں کہ اقلیم معرفت کے سکندر نے ان سے ملنے کی خواہش کا اظہارکیا ہے ۔ ان کے لیے یہ ملاقات مسیحا وخضر کی ملاقات سے بھی زیادہ فیض رساں ثابت ہو گی۔
غلام شبیررانا پروفیسر ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات : ۷،تاریخ : ۱۷؍مارچ۲۰۱۷ء )
یہ مکتوب راقم السطور نے اپنی مرضی سے لکھا ہے ۔اس کے بارے میںیہی کہوں گا : صلاح کار کجا ومن خراب کجا
غلام قادر آزاد : ( مکتوبات: ۲ ، صفحات : ۹ ،تواریخ : ۲۱؍اگست۲۰۱۷ء،۷؍مارچ۲۰۱۸ء )
اپنے ان مکتوبات میں غلام قادرآزاد نے امریکی ماہر نفسیات ابراہم مازلو( : 1908-1970 Abraham Maslow )کی انسان کی اپنی حقیقت کو پہچاننے کے حوالے سے نہایت مفیدمعلومات فراہم کی ہیں۔ مکتوب نگار کا تبحر علمی ان خطوط کے ایک ایک جملے سے ظاہر ہو رہاہے۔ غلام قادرآزادنے جن ممتاز اہلِ قلم کی یادوں کوان خطوط میں شامل کیا ہے ان میں سے آوارہ سلطان پوری ، ڈاکٹر جسٹس جاویداقبال، جمیلہ شبنم ،ڈاکٹر حسن الدین احمد ، خالدقیوم تنولی،ڈاکٹر رؤ ف خیر ، شمس الرحمٰن فاروقی ، پروفیسر صابر لودھی، پروفیسر قاضی ظفر قبال ،پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی ، ڈاکٹر محمدرفیع الدین ہاشمی ،مرزا محمد اقبال ،مظفر حسین،ندیم صدیقی اور واجدہ تبسم کانام قابلِ ذکر ہے ۔مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصانیف کو پسندکرتے ہوئے ان کے اسلوب کو سراہاہے ۔کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ پراپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے :
’’اہلِ علم و قلم کااتنا بڑا اجتماع جہاں علم اور زندگی یک نفس ہو کر سانس لے رہے ہیں،اُس پر ایک نگار خانے ہی نہیں ایک آئینہ خانے کاگمان گزرتا ہے جن کے اندرون اُتریں تو جہاں اہلِ علم و قلم کی صورتیں نگاہوں میں پھرنے لگتی ہیںوہاںآپ کی علمی و ادبی کاوشوں پر اُن سب کے جداگانہ او ر متنوع تاثرات کی رنگا رنگی نظر آتے ہوئے سنائی دینے لگتی ہے ۔‘‘ ( صفحہ:۲۳۵)
فیاض عادل فاروقی : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات : ۳ ،تاریخ : ۲۵؍مئی ۲۰۱۶ء)
غازی علم الدین کی وقیع تصنیف ’ لسانی مطالعے ‘ کی رسید دیتے ہوئے مکتوب نگار نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے :
’’ آپ کی یہ کتاب ایک دار العجائب ہے جس میںالفاظ و تراکیب کا ایک جہان آباد ہے ۔یہ ایک انسائکلو پیڈیا اور حوالے کی کتاب ہے ۔جس میں ہر پڑھنے والے کے لیے علم وفضل اور زبان کے بے شمار خزینے موجود ہیں۔آپ نے یہ کتاب بھیج کر مجھے خوش قسمت لوگوں کی قطارمیں کھڑا کر دیاہے۔‘‘ (صفحہ :۱۳۲)
کریم اللہ قریشی میاں کرناہی : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱ ،تاریخ: ۱۲؍جولائی ۲۰۱۸ء)
مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی تصنیف ’ تخلیقی زاویے ‘ ملنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کے لیے مصنف کی خدمات کی تعریف کی ہے ۔ اردو زبان اور ہندی زبان کے ایک ہی زبان ہونے کے متعلق بھارتی ادیب ’گیان چند جین ‘ کے انتہا پسندانہ زاویۂ نگاہ پر مکتوب نگار نے گرفت کرتے ہوئے اسے لائق استردادٹھہرایا ہے ۔اپنے اس مکتوب میں میاںکریم اللہ قریشی کرناہی نے ’ تخلیقی زاویے ‘ پر اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے :
’’تخلیقی زاویے ‘ میں زبان و بیان کے بارے میں آ پ کا مضمون ’ ذرا سنبھال کے لفظوں کو جوڑئیے صاحب ‘ بہت قابلِ قدرہے ۔اس مضمون میں آ پ نے بہت محنت سے لسانی نکات اور زبان کی موشگافیاں بیان کی ہیں۔‘‘ ( صفحہ : ۴۲۸)
محبوب حسن مقدم پروفیسر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۳،تاریخ: ۴؍مارچ۲۰۱۵ء )
اس مکتوب کا موضوع غازی علم الدین کی تصنیف ’ میثاقِ عمرانی ‘ ہے ۔ پروفیسر محبوب حسن مقدم نے اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے :
’’ آپ کی سب سے اہم کاوش کتاب کا آخری باب ہے ۔اس باب میںپاکستان کے زوال زدہ تباہ حال معاشرے کی کم زوریوں اور ان کے اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے اور اس مہلک بیماری کاواحدعلاج بھی دریافت کیا گیاہے جو بِلا شبہ ’ نیامعاہدہ عمرانی ‘ کوقرار دیا جا سکتاہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے ارباب ِ حل وعقد اور عُمّالِ حکومت و ریاست اس سے کس حدتک استفادہ کرتے ہیں ۔‘‘ (صفحہ : ۹۹)
محبوب عالم تھابل : ( مکتوبات: ۲ ،صفحات : ۱۵ ،تواریخ : ۲۷؍جولائی ۲۰۱۵ء،۲۶؍دسمبر۲۰۱۷ء )
لسانیات کے موضوع پر غازی علم الدین کی تصنیف’ لسانی مطالعے ‘ کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعدمحبوب عالم تھابل نے اپنے پہلے مکتوب میں پینتالیس ( ۴۵)ایسی اغلاط کی نشان دہی کی ہے جن کے
باعث اس وقیع تصنیف کا حسن ماند پڑ گیاہے ۔
’’اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ جسے ڈاکٹر آصف حمیدنے مرتب کیا ہے محبوب عالم تھابل نے اس پر اپنے تاثر ات قلم بند کیے ہیں۔مکتو ب نگار نے اپنے دوسرے مکتوب میں مصنف کے کوہِ افتخار پر تیشۂ حرف کی ضرب لگاتے ہوئے ڈاکٹر رؤف خیر کے حوالے سے یہ شعر لکھاہے :
کر اس قدربھی فخر نہ اپنی کتاب پر
میری نگاہ میرے قلم سے پناہ مانگ
اس کے بعد غیر محتاط پروف ریڈنگ کے باعث اس کتاب میں موجود تیس (۳۰) ایسی اغلاط کی نشان دہی کی ہے جن کے باعث کتاب کا حسن گہنا گیا ہے ۔
غازی علم الدین کی تصنیف’ لسانی مطالعے ‘کو مکتوب نگار نے علم کا ایک حیرت کدہ قرادیتے ہوئے لکھاہے :
’’ آپ نے جن موضوعات کے تحت لکھاہے ،سب اچھوتے اور نئے اندازمیں معلومات سے بھر پور ہیں۔‘‘ ( صفحہ :۱۰۴)
محمد اسلم لودھی : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات : ۲ ،تاریخ : ۱۰؍مارچ۲۰۱۷ء )
اپنے اس مکتوب میں محمد اسلم لودھی نے پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کی حیات و ادبی خدمات کے موضوع پر غازی علم الدین سے معلومات فراہم کرنے کی استدعاکی ہے ۔
محمد سہیل شفیق ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۲ ، صفحات : ۳ ،تواریخ : ۴؍جولائی ۲۰۱۳ء،۱۹؍فروری۲۰۱۸ء)
غازی علم الدین کے اسلوب ِ تحقیق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے اُن کی تصنیف ’’ تخلیقی زاویے ‘‘ کے بارے میںاپنے تاثرات کااظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
’’ آپ کی کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ ( ادبی اور شخصی مطالعے )موصول ہوئی ۔کتاب کیا موصول ہوئی گویا خزانہ ہاتھ آ گیا۔جی ہاں!آپ کی تحریر یںمیرے لیے بہت قیمتی ہیں۔سوچنے ،سمجھنے اور سیکھنے کا بہت سامان فراہم کرتی ہیںآپ کی تحریریں ۔اسلوب کی دل کشی وعمدگی اِس پر مستزاد۔‘‘
محمدراشد شیخ : ( مکتوبات: ۲ ، صفحات : ۲۹ ،تواریخ: ۱۶؍اپریل۲۰۱۸ء،۱۴؍اگست۲۰۱۸ء)
اپنے مکتوب میں محمدراشد شیخ نے وزیر الحسن عابدی کے بارے میں متعدد روایات کی روشنی میں ان واقعات کی طرف توجہ دلائی ہے جن سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ وطن عزیز کے تعلیمی اداروںمیں گروہ بندی نے ماضی میں کس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر لی تھی ۔مکتوب نگار نے سندی تحقیق کے گرتے ہوئے معیارپر تشویش کا اظہارکیاہے اور لکھا ہے :
’’ ماضی قریب کے برصغیرپاک و ہندکے د و نامورمحقق یعنی مشفق خواجہ اور رشیدحسن خان اس قسم کی تحقیق کے سخت خلاف تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوںنے تحقیق کے بلندمرتبے پرفائز ہونے کے باوجودپی ایچ۔ڈی ( Ph.D)کی سند حاصل نہیں کی ۔اس بارے میںمشفق خواجہ مرحوم کے ادبی کالموں میںبعض دلچسپ جملے ملتے ہیںجن میں سے دو جملے قارئین کے ضیافتِ ذوق کی خاطر لکھتاہوں:
’’ مہذب ملکوں میں جن کاموں پر سزا دی جاتی ہے ہمارے ہاں اُنھی کاموں پر پی ایچ۔ڈی (Ph.D) کی ڈگر ی دی جاتی ہے ۔‘‘
’’ آ ئندہ اُنھی اساتذہ کوترقی دی جائے جو پی ایچ۔ڈی (Ph.D)کی تہمت سے محفوط ہوں ۔‘‘ (صفحہ: ۳۷۳)
اردوادب کے متعدد سنجیدہ نقادوں،اساتذہ ،محققین اور ماہرین تعلیم نے بھی مکتبی تنقید کی تہی دامنی پر گرفت کی ہے ۔ میں یہاں قارئین کی خدمت اس کی کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں :
اردو کے جری نقادوارث علوی ( 1928-2014)نے تنقید کو نیا آ ہنگ عطاکیا ۔وہ مکتبی تنقید کی نارسائی کو دیکھتے ہوئے اس کے سخت خلاف تھے اس لیے اس تنقید پرانحصار کرنے والے مدرس کے بارے میں انھوںنے لکھاہے :
’’مدرس ہر مضمون پر لکھ سکتا ہے ،ہر مجموعہ کلام پر تبصرہ لکھ سکتا ہے ،ہر کتاب پر اپنی رائے دے سکتا ہے جو دوسروں کے کام آئے حالانکہ بہت سی کتابیں ایسی ہوتی ہیںکہ آدمی تزکیہ نفس اور راہ ِ سلوک کے آخری مقام پر پہنچ کر بھی ان کے متعلق لب کشائی کرے تو بھنچے ہوئے لبوں سے سوائے بے نقط ملفوظات کے کچھ باہر نہ نکلے لیکن مدرس بے نقط کبھی نہیں بو لتا۔جب بھی بولتا ہے تنقید ہی بو لتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب تک مدرس کے دم میںدم ہے وہ کسی شاعر کو طبعی موت مرنے نہیں دیتا۔وہ جو دوسروں کے لیے مر گئے وہ بھی حنوط شدہ ممیوں کی طرح مدرس کے مقالوں میں زندہ ہیں۔جن شاعروں پر نول کشور فاتحہ پڑھ چکے ،ان کا عرس منانے کے لیے مدرس ماوراالنہر سے چلتا ہے تو پانی پت میںآکر دم لیتا ہے ۔‘‘ (1)
مکتبی تنقید کے مسموم اثرات نے گلشنِ ادب کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔مکتبی تنقید کی بے بضاعتی اور تہی دامنی پر گرفت کرتے ہوئے پروفیسرگوپی چند نارنگ نے فرانس کے ممتاز ادبی تھیورسٹ ،فلسفی اور نقادرولاں بارتھ ( 1915-1980:Roland Barthes )کے حوالے سے لکھا ہے :
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے ۔متعینہ معانی تو صرف لُغوی معنی ہو سکتے ہیںاور ادب میں اکثر و بیش تر بے ہُودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں ۔مکتبی نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ ان کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود ہوتی ہے وہ ادعائیت کا شکار ہیںاور ادب میں اکثریت کے علم بردار ہیں؛اس لیے ادب کے لطف و نشاط میں شرکت کے لیے ان کی آمریت کو تہس نہس کرناضروری ہے ،‘‘ (2)
مکتبی تنقید اور مدرس کی فکری نہج کے بارے میں وارث علوی نے ہمیشہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ وارث علوی نے محض خارجی حقائق پر توجہ نہیں دی بل کہ اس مسئلے کے داخلی پہلو کو بھی مدِ نظر رکھاہے ۔یہ وہ طرزِ خاص ہے جو اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔ وارث علوی کے پیرایۂ بیان میں اس جری نقاد کے ضمیر کی آواز پوری معنویت کے ساتھ مقتضائے حال کی ترجمان بن جاتی ہے ۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے ۔چربہ ساز ،سارق ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے تمام ادبی منظر نامہ گہنا دیاہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں تحقیق اور تنقید کی حالت ِزار کسی سے مخفی نہیں تنقیدی نشستوں نے انجمن ستائش ِ باہمی کی ناقابلِ برداشت صورت اختیار کرلی ہے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں ہیں ۔اس سے
بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ سمے کے سم کے ثمر کے نتیجے میں جید جاہل ،خفاش منش کندہ ٔنا تراش اور بُزِ اخفش رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں ۔ جب سے سندی تحقیق کے ساتھ مدرسین کومالی منفعت اور اضافی ترقیوں کی جھلک دکھائی گئی ہے ،تحقیق اور تنقید کو بازیچہ ٔ ا طفال بنا دیا گیا ہے ۔اب ہر مدرس جلد از جلد ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کی ڈگریاں ہتھیا کر زرو مال سمیٹنے اور خود کو اعلا تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی فکر میں مبتلا ہے تعلیمی اداروں میں مدرسین کی صورت میں جو نام نہاد نقاد براجمان ہیں ،ان کی بو العجبیوں اور خام خیالی نے ہمیں اقوام ِ عالم کی صف میں تماشا بنا دیاہے ۔تحقیق اور تنقید کے نام پر جو گل کھلائے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میںکیا کہا جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس سانحے کے متعلق اپنے جذبات حزیں کا اظہار کن الفاظ میںلکھا جائے ۔اپنے ایک مضمون ’’روح کی اڑان ‘‘ میں وارث علوی نے اپنی طرزِ خاص میں اس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور روح فرسا المیہ کے تضادات ،ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور اجاگر کرتے ہوئے نہایت دردمندی اور خلوص سے لکھا ہے :
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر ،بلبل شیراز اور طوطیٔ ہند سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور کا بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ کر لاتا ہے۔۔۔۔دو پی ایچ۔ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر ’’کام‘‘کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔مدرس کے لیے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی وہی اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورمائوں کے لیے ہفت خواںکی ہوا کرتی تھی کہ ہفت خواں نہ ہوں تو سورمائوں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی نہ رہتا۔مدرس ان عجوبہ ٔ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں چاول پر قل ہو اللہ لکھا کرتے تھے ،کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ‘‘ (3)
محمد عارف خواجہ : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۴ ،تاریخ : ۱۱ ؍جون ۲۰۱۷ء)
اپنے مکتوب میں خواجہ محمدعارف نے غازی علم الدین کی کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ملنے کی رسید دی ہے اور اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ ذوقِ سلیم سے متمتع محتاط مکتوب نگار نے اصلاح ِ زبان کے لیے کچھ تجاویز پیش کی ہیں اور اس کتاب میں پروف ریڈنگ کی چند اغلاط کی نشان دہی بھی کی ہے۔انھوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھاہے :
’’ اگرچہ سب مکتوب نگار اہلِ قلم ہیں لیکن ان کا اپنا اپنا اسلوبِ نگارش اور علمی مقام ہے ۔مکتوب نگاروں میں اردو ادب کے تقریباًتمام بڑے نام شامل ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ بعض ایسے نابغۂ روزگارنام بھی ہیںجن کاخط کتاب میں شامل ہوناہی کتاب کے مقام کو مزیدبلند کردیتا ہے ۔‘‘ (صفحہ :۲۳۰)
محمدکامران ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱ ،تاریخ : ۸؍دسمبر۲۰۱۶ء)
مکتوب نگار نے غازی علم الدین کی کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘کے بارے میں اپنے تاثرات میں لکھاہے :
’’ اس کتاب کے ذریعے نہ صرف مختلف علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ آپ کے روابط سے آگہی حاصل ہوئی بل کہ آپ کی شخصیت اور زبان و ادب سے آ پ کی گہری وابستگی بھی آشکار ہوئی ۔‘‘ (صفحہ :۱۸۶)
محمد ریاض شاہدپروفیسر ڈاکٹر: ( مکتوبات: ۲ ، صفحات : ۲ ،تواریخ :۴؍جنوری ۲۰۱۷ء،۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۸ء)
ان دوخطوط میں علی الترتیب کالج کے مجلہ ’ سیماب ‘ اور کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ ڈاکٹر آصف حمیدکی رسید دی گئی ہے ۔ مشاہیر ادب کی مکتوب نگاری کی اہمیت کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کے خیالات ان کی وسعت ِ نظر اور عالمی ادب پر خلاقانہ دسترس کی دلیل ہیں۔اُن کا قیاس ہے کہ مکاتیب کے الفاظ مکتوب نگار کے ذہن وذکاوت کی مقیاس ہیں۔مشاہیر کے خطوط سے ان کے افکار ِ عالیہ سے ایسی بصیر ت افروز آ گاہی ملتی ہے جوزندگی کے ہر مر حلہ پر قارئین کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوتی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کا خیال ہے کہ ممتاز ادیبوں کے خطوط میں علم و ادب اور تہذیب وثقافت کے بارے میں معلومات کاگنج گراں مایہ پنہاں ہوتا ہے اس تک رسائی کے لیے مطالعہ کے دوران میں ارتکاز ِ توجہ نا گزیر ہے ۔فطرت کے مقاصد کے مانند مشاہیر کے خطوط کی تہہ میں متعدد راز پوشیدہ ہوتے ہیں۔جن میں سے نصف تو عیاں ہیں اور باقی نصف کو بصیرت سے متمتع صرف چشمِ بیناہی دیکھ سکتی ہے ۔ اپنے ان دو گراں قدرمکتوبات میں ممتازماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض شاہدنے غازی علم الدین کی شخصیت اور اسلوب کو پسند کرتے ہوئے لکھاہے :
’’قصہ مختصر یہ کہ ،غازی علم الدین کے چاہنے والے نہ صرف بر صغیر بل کہ دنیاکے کئی دوسرے ممالک میں بیٹھے ہوئے افرادبھی ان کی دسترس میں ہیں اور اِن تمام اصحاب کا ایک علمی اورادبی رشتہ مضبوط سے مضبوط ترہوتا نظر آ رہاہے ۔‘‘ (صفحہ ۱۹۲)
محمد ظہیر بدر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۲ ،تاریخ :۲۲؍مارچ۲۰۱۸ء)
’ لسانی مطالعے ‘ کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد غازی علم الدین کی اس کتاب کی اہمیت وافادیت کے بارے میں مکتوب نگار نے لکھاہے :
’’ایسی کتابیںثواب ِ جاریہ کا درجہ رکھتی ہیں۔جب جب،جہاں جہاں،جوجواس سے استفادہ کرے گا اپنی زبان کی اصلاح کرے گا۔اس کاثواب آپ کے حساب میں جمع ہوتا جائے گااور مجھ پر آپ کی یہ عنایت کہ اِدھر سے خواہشِ طلب ہوئی اُدھر سے عطا ہو گئی ۔ایسے علم نوازلوگ اِس قحط الرجال میں کہاں ملتے ہیں؟آپ کا ستغنائی روّیہ بہت خوش آیا ۔‘‘ ( صفحہ ٍ:۳۳۳)
محمدعالم نقوی : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۳،تاریخ :۲؍مئی ۲۰۱۸ء)
اپنے اس مکتوب میں محمد عالم نقوی نے فضیل جعفری (پیدائش:1936،وفات:۳۰؍اپریل ۲۰۱۸ء)کی رحلت پر اپنے جذبات حزیں کااظہار کرتے ہوئے ممتاز امریکی دانش وراور مدبربنجامن فرینکلن (1706-1790 : Benjamin Franklin) کا چشم کشا صداقتوں کا مظہر ایک قول درج کیا ہے :
’’بیش تر لوگ پچیس سال کی عمر ہی میں مرجاتے ہیںلیکن اس وقت تک دفن نہیں ہو پاتے(اور خوداپنے کاندھوں پراپنی لاش لیے پھرتے رہتے ہیں)جب تک وہ پچھتر یا پچاسی سال کے نہیں ہوجاتے ۔‘‘ ( صفحہ : ۳۸۲)
مکتوب نگار نے اپنی پسند کا ایک شعر درج کیاہے جو میرے حسبِ حال ہے ۔ ضعفِ پیری اورعالمِ تنہائی میں زندگی کی حقیقی معنویت کا عکاس یہ شعرپڑھ کر میری آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں ۔
جی میں آتا ہے کہ اِک دِن مر کے ہم
ہمّت ِ دوشِ عزیزاں دیکھ لیں!
غازی علم الدین کے اسلوب،ان کی تصانیف اور شخصیت کے بارے میں مکتوب نگار نے لکھاہے :
’’’لسانی مطالعے ‘ اور’ لسانی لغت ‘کی اشاعت کے بعد حقیقی اہلِ زبان ہونے کی آپ کی حیثیت توپہلے ہی دائرہ اختلاف سے باہرتھی لیکن تازہ ترین تصنیف’ تخلیقی زاویے ‘(۲۰۱۷ء)نے ثابت کر دیاکہ قحط الرجال کے اِس عہدمیں اُردوادب کے ہر شعبے میںآپ ایک رَجُلِ مجاہد ہیں۔‘‘ ( صفحہ : ۳۸۲)
مسعود علی بیگ پروفیسر : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات: ۲ ،تاریخ :۲۵؍ستمبر۲۰۱۳ء )
پروفیسر مسعود علی بیگ نے اپنے اس مکتوب میںغازی علم الدین کی تصنیف ’ لسانی مطالعے ‘ کے بارے میں لکھا ہے :
’’ اُردو کی عظیم الشان تہذیبی روایت سے دِل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ مضامین کسی نعمت سے کم نہیں ۔تحقیقی مواد،تجزیے ،موضوعات اور تدریسی راہ نمائی کے لحاظ سے اِن مضامین میں ایک خوش گوار امتزاج و توازن بھی بخوبی موجود ہے ۔‘‘ (صفحہ : ۹۲)
مشتاق اعظمی ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۲ ،صفحات : ۲،تواریخ :۲۷؍دسمبر ۲۰۱۷ ء، ۲۴؍مارچ۲۰۱۸ء )
اپنے د ومختصر مکاتیب میں ڈاکٹر مشتاق اعظمی نے ڈاکٹر رؤف خیر کے فکر و فن پر لکھے گئے غازی علم الدین کے مضمون کو پسندکیا۔غازی علم الدین کی لسانی خدمات کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق اعظمی نے لکھاہے :
’’ آپ کی کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ آج مِل گئی،بے حد شکریہ ۔۔۔آپ کے دِل کش اسلوب اور شگفتہ ترنثر کامیں پہلے ہی سے قائل تھا،آج اِس خیال کو مزیدتقویت مِلی۔‘‘ (صفحہ:۲۸۷)
مظہر محمود شیرانی ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۷ ، صفحات : ۱۰ ،تواریخ : ۲۳؍مارچ۲۰۱۳ء،۲۱؍اکتوبر۲۰۱۷ء،۱۹؍جنوری۲۰۱۸ء،۱۱؍مارچ۲۰۱۸ء،۳؍اپریل۲۰۱۸ء،۱۱؍جولائی۲۰۱۸ء، ۷؍اکتوبر۲۰۱۸ء)
اپنے ان مکاتیب میں ڈاکٹر مظہر محمودشیرانی نے غازی علم الدین کی عدیم النظیر لسانی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیاہے ۔ کالج کے مجلہ ’ سیماب ‘ کے معیار کو انھوںنے پسندکیا اور کہا کہ یہ ضخیم ،بھرپور اور متنوع مجلہ غازی علم الدین کی سیمابی طبیعت کاآئینہ دار ہے ۔ پیری و صد عیب کی کیفیت بیان کرتے ہوئے انھوں نے میر تقی میرؔ کا یہ شعر لکھاہے :
تم واقف ِ طریق ِ نا طاقتی نہیں ہو
یاں راہ دو قدم بھی اب دُور کا سفر ہے
معراج جامی سیّد : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱۴،تاریخ : ۸؍جون۲۰۱۸ء )
اس طویل مکتوب میںسیّد معراج جامی نے غازی علم الدین کی ان مساعی کو سراہاہے جو انھوں نے اردو زبان کی اصلاح کے لیے کی ہیں۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے کے بارے میں انھوں نے نہایت دردمندی سے لکھاہے:
’’ نہ پڑھانے والے وہ اُستاد رہے جوپہلے خود پڑھتے تھے پھر پڑھاتے تھے نہ پڑھنے والے وہ رہے جو اُستادکی عزت کریںاور علم کوعلم سمجھ کر حاصل کریں۔جب بآسانی نقل کر کے ڈگری مل رہی ہو توپھر کون رٹا لگائے ۔ادارے مفلوج ہو گئے ہیں۔تما م اداروں کے سر براہ حاکم ِوقت کے آگے دُم ہِلارہے ہیں ۔اب کسی کوبھی احساسِ زیاں نہیں رہا۔ ‘ ‘ (صفحہ :۴۱۹)
سیّد معراج جامی نے بھارت کے ممتازشاعر اختر الایمان (6 1915-199) کے ایک مصرع کا حوالہ دیاہے :
اُٹھاؤ ہاتھ کہ دست ِدعا بلند کریں
ہماری عمر کایک اور دِن تمام ہوا
خدا کا شکر بجا لائیں آج کے دِن بھی
نہ کوئی واقعہ گزرانہ ایسا کام ہوا
سیّد معراج جامی نے لکھا ہے :
’’ اُٹھاؤ ہاتھ کہ دستِ دعا بلند کریں‘ دستِ دعا کے معنی دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنا ہے مزید ہاتھ کس کے لیے اُٹھایا جا رہاہے ۔‘‘ صفحہ :۴۱۲)
اپنے مکتوب میں سیّد معراج جامی نے کچھ ایسے اشعار کی نشان دہی کی ہے جنھیں کور ذوق متشاعروں نے تختۂ مشق بنا کر ان کی شکل ہی بدل ڈالی :
خط اُن کا بہت خوب عبارت اچھی
اللہ کرے ’ حسنِ رقم ‘ اور زیادہ (مرزا داغ )
خط اُن کا بہت خوب عبارت اچھی
اللہ کرے ’ زورِ قلم ‘ اور زیادہ ( متشاعر )
شہ زور اپنے زور پہ گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گاجو گھٹنوں کے بل چلے (مرزا عظیم بیگ عظیم)
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گاجو گھٹنوں کے بل چلے (متشاعر)
ڈاکٹر رؤف خیر نے اسی طرح کے ایک شعر کاحوالہ اس کتاب پر اپنے تبصرے میں دیاہے :
اچھے گُن دیکھ اچھی شکل نہ دیکھ
سنکھیا بھی سفیدہوتی ہے ( صفی اورنگ آبادی )
اچھی صورت نہ دیکھ سیرت دیکھ ( متشاعر )
سنکھیا بھی سفیدہوتی ہے
معین الدین جینا بڑے ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱،تاریخ : ۱۲؍اپریل ۲۰۱۸ء )
مکتوب نگار نے کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ کے حوالے سے غازی علم الدین کی عمدہ نثراور لسانی نکتہ دانی کی داددی ہے ۔مکتوب نگار نے اس امر پر مسرت کااظہار کیا ہے کہ ممتاز ادیب ڈاکٹر معین الدین عقیل ،ڈاکٹر اسلم انصاری اورڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی غازی علم الدین کے قدر دانوںمیںشامل ہیں ڈاکٹر معینالدین جینا بڑے نے غازی علم الدین سے اپنی قربت کااظہار کرتے ہوئے لکھاہے :
’’ آپ سے ایک جذباتی تعلق استوارہوا ہے جو مجھے تاعمر عزیزرہے گا۔آ پ ’ جرگۂ ندیم صدیقی ‘کے رکن ہیں اور میں بھی ۔اب اور کیا لکھوں ؟‘‘
معین الدین عقیل ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۴ ، صفحات : ۶ ،تواریخ :۲۵؍نومبر ۲۰۱۶ء،۲۹؍مارچ۲۰۱۸ء،۱۶؍جولائی۲۰۱۸ء،۲۵؍ستمبر۲۰۱۸ء )
ان مکاتیب میں پہلے مکتوب میں ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ ڈاکٹر آصف حمید میں مکاتیب کے مضامین و موضوعات اور مکتوب نگاروں کے تنوع کو پسند کرتے ہوئے مکتوب نگارنے لکھاہے:
’’ ایک عرصے سے اس قدرخوب صورت اُردو کی کتاب نظر سے نہیں گزری ۔‘‘
( مکتوب نمبر ۴) میں کالج کے ادبی مجلہ ’ سیماب‘ کے معیار کی تحسین کی گئی ہے۔نوآبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے قومی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں مکتوب نمبر ۴ میں تمام حقائق نہایت صراحت کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔
معین نظامی ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۲ ،صفحات : ۲ ،تواریخ : ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۶ء،۱۸؍دسمبر۲۰۱۷ء )
’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ مرتبہ ڈاکٹر آصف حمید اور ’ تخلیقی زاویے ‘ کی رسید ارسال کرتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھاہے :
’’ آپ کی ہر نئی کتاب ایک نئی مسرت کاباعث بنتی ہے اوربہت سی نئی جہتوں سے روشناس کراتی ہے ۔‘‘ ( صفحہ : ۱۸۸)
نبیل زبیری ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱ ،تاریخ : ۱۷؍مارچ ۲۰۱۵ء )
غازی علم الدین کی تصنیف ’ میثاقِ عمرانی ‘ کے تحقیقی اور علمی اندازکوسراہتے ہوئے مکتوب نگار نے لکھاہے :
’’ میں ذاتی طور پر آپ کی اس علمی اور تحقیقی کوشش پر مبارک باد پیش کرتا ہوںجس میںآپ نے بیک وقت مغربی اور اسلامی نقطۂ نظر کو سمیٹا ہے اور دعا کرتا ہوںکہ اِس علمی کاوش سے اور بھی چراغ جلیں۔‘‘ ( صفحہ : ۱۰۱)
نجیب عمر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۲،تاریخ :۱۷؍جنوری ۲۰۱۸ء )
کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ملنے پر مکتوب نگارنے غازی علم الدین کاشکریہ اداکیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی شعری مجموعہ ’’ رودِ خیال ‘‘ کے خالق پروفیسر خیال آفاقی اور ڈاکٹر ماجد دیوبندی ( پ : ۷؍جولائی ۱۹۶۴) کے ساتھ اپنے مراسم کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر حاجی حافظ محمد حیات ( مصنف : نورحیات )بھی غاز ی علم الدین کے اسلوب کے بہت بڑے مداح تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ خیال آفاقی کے افسانوں اور شاعری کے اسلوب میں پائی جانے والی جدت کے سوتے روایت سے پھوٹتے ہیں۔ انسانیت سے والہانہ محبت کے آفاقی لہجے کے حامل شاعر پروفیسر خیال آفاقی کا یہ شعر وہ اکثر دہراتے تھے :
میں آ ئینہ ہوں مجھے اپنے رو برو رکھنا
مر ا بھرم نہ سہی اپنی آبرو ر کھنا
اپنے اس خط میں مکتوب نگار نے ڈاکٹر ماجد دیو بندی کی ایک نظم ’ ہم بھی تم بھی ‘ درج کی ہے :
ظاہری طور سے ذیشان ہیں ہم بھی تم بھی
ہاں مگر بے سرو سامان ہیں ہم بھی تم بھی ( صفحہ :۳۰۰)
میں نے ڈاکٹر ماجد دیوبندی کے شعری مجموعے ’شاخِ دِل ‘ اور ’ لہولہوآ نکھیں ‘پروفیسر گدا حسین افضل اور پروفیسر احمد بخش ناصرکے پاس دیکھے۔ان کا کلام سب نے پسند کیا :
شاخ ِ دِل پر دیکھ کر چاہت کی تازہ کونپلیں
آرزوؤں کے پرندے چہچہانے آ گئے
ترا فراق ،تری جستجو،تری حسرت
یہ زخم زخم تبسم ،لہو لہو آ نکھیں
نثار احمدڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۳ ، تاریخ : ۱۱؍فروری ۲۰۱۵ء)
’’ میثاق عمرانی ‘‘ موصول ہونے کے بعد اس مکتوب میں ڈاکٹر نثار احمد نے غازی علم الدین کی محنت ،لگن،وسعتِ نظر ،روشن خیالی اور دقت نظر ی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’غازی صاحب !مجموعی طو رپر آپ کی کتاب سنجیدہ علم وتحقیق کانمونہ ہے ۔بحث ونظرکے تمام مواقع پر پوری محنت اور ایمان داری سے کام لیا گیاہے ۔‘‘ (صفحہ :۹۷)
ندیم صدیقی : ( مکتوبات: ۴ ،صفحات : ۱۰ ،تواریخ :۲۰؍فروری ۲۰۱۳ء،۳؍جون۲۰۱۷ء،۷؍جون۲۰۱۷ء،۱۵؍مئی ۲۰۱۸ء )
یادرفتگان پر مبنی ’’ پُرسہ ‘‘ جیسی یادگار کتاب کے مصنف اور صاحب ِ طرز ادیب ندیم صدیقی نے اپنے ان خطوط میں غازی علم الدین کی تصانیف کی اہمیت کو اجاگر کیاہے ۔ مکتوب نگار کی تحریر کا ایک ایک لفظ ان کی وسعت نظراور لسانی مہارت کی دلیل ہے ۔مکتوب نگارنے ’’ لسانی مطالعے ‘‘ کے بارے میں لکھاہے :
’’ خوب کام کیا ہے آپ نے ۔یقین ہے لوگ اس سے مستفید ہوں گے اور اللہ سے آپ کو اجر ملے گا۔‘‘ (صفحہ : ۴۵)
سنسان جزیرۂ جہلامیں گھرے حساس تخلیق کارجب لسانی اغلاط کو دیکھتے ہیں تو اُن کے صبر کا پیمانہ لبریزہوجاتاہے ۔اصلاح ِ زبان کی خاطر جدوجہدکرنے والے ادیب سمجھتے ہیں کہ تحریر و تقریرکی اغلاط دیکھنے کے بعد حقائق کی جستجوکی مظہرا صلاح کی کوششیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے آموزش کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے ۔زبان میں بے ہنگم تجربات پر گرفت کرتے ہوئے ندیم صدیقی نے لکھا ہے:
’’ آج ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے شخص کا ’گو مگوئیوں ‘‘لکھنااس خط کے لکھنے کاسبب بن گیاہے ۔موصوف نے گومگوکی جمع بنانے کے چکر میں نجانے کیالکھ ڈالا۔۔۔ ہمارے ہاں ہر لفظ کی جمع بنانے کی نجانے کیا ضرورت آپڑتی ہے ۔اسی طرح ایک حضرت نے ’ بے سکونیوں ‘ لکھ کر ہمارے سکون کی جھیل میں کنکر نہیںپتھر دے مارا۔‘‘ (صفحہ : ۴۹)
عادات واطوار اور مجلسی شائستگی کے مانند اظہار و ابلاغ کا دل کش اور موثر اندازپتھروں کو بھی موم کر دیتاہے ۔زبان و بیان پر اس وقت جو سخت مقام آیا ہے اس میں جو سبق پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ تکلم کے سلسلوں پر اثر انداز ہونے والوں کو اس بات کا قائل کیاجائے کیا جائے کہ اغلاط کے ارتکاب کے بعد اصلاح پر مائل ہونازبان کو زوال سے نکال کر اوجِ کمال تک پہنچانے کا انتہائی موثر ترین وسیلہ ثابت ہو سکتاہے ۔اپنے ایک مکتوب کے آخر میں ندیم صدیقی نے لکھا ہے :
’’ خموشی بھی بسا اوقات ایسا لفظ بن جاتی ہے کہ ’ آواز ‘ بے معنی محسوس ہوتی ہے ۔ذرا سنیے سیفی امروہوی کایہ شعر جس میں خموشی نے کتنی سفاکی سے اپنے معنی و مطلب برپا کیے ہیں:
تری نگاہ نے محفل میں دفعتاً اُٹھ کر
کسی کاحال بِگاڑاکسی کامستقبل ‘‘ ( صفحہ : ۵۴)
نذیر فتح پوری : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۳،تاریخ :۱۷؍ اگست ۲۰۱۳ء )
آزادغزل کے حامی نذیر فتح پوری کا شمار ان ماہرین لسانیات میں ہوتاہے آنے والی نسلیں جن کے اسلوب کی تقلید کریں گی ۔جو کچھ ان کے دِل میں ہوتاہے وہی ان کے چہرے پر عیاںہوتاہے ۔
نذیر ؔ چہریبدلنا نہیں مری فطرت
میں ایک دِل ہوں میراایک ہے چہرہ
نذیر فتح پوری نے اپنے مکتوب میں واضح کیا ہے کہ تحریر اورتقریر میں استعمال ہونے والے الفاظ کی حفاظت ،حرمت اور تقدس کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔غازی علم الدین کی تصنیف ’ لسانی مطالعے ‘ کے بارے میں نذیر فتح پوری نے لکھاہے :
’’ آپ کی کتاب ’ لسانی مطالعے‘کا پہلاباب ان معنوں میں اہم ہے کہ اس موضوع پراتنی تفصیل سے پہلی بار قلم اُٹھایا گیاہے ۔‘‘ (صفحہ :۸۹)
نسیم سحر : ( مکتوبات: ۲ ، صفحات : ۳،تواریخ : ۱۹؍مارچ۲۰۱۸ء،۳؍جولائی ۲۰۱۸ء )
غازی علم الدین کی کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘کے بارے میں نسیم سحر نے لکھا کہ اس کتاب میں شامل ان مکاتیب کامجموعہ ادبی تاریخ کاایک اہم حصہ ہے ۔ان مکاتیب کے مطالعہ سے مکتوب نگاروں کے ادبی اور علمی ذوق سے بھی کامل آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ غازی علم الدین نے آزادیٔ اظہار کے لیے جوگراں قدر خدمات انجام دی ہیں ان کے بارے میںنسیم سحر نے اپنے مکتوب میںلکھا ہے :
’’ گزشتہ بیس برسوں میں مختلف ایسے مشاہیر کے مکاتیب بھی اس مجموعے میں شامل کیے ہیںجوآپ کے نقطۂ نظر سے متفق نہیں ہیں ۔بل کہ انھوں نے آ پ کے نظریات پر کھلی اور واشگاف الفاظ میں تنقیدکی ہے ۔‘‘ ( صفحہ :۳۲۹)
نگار سجادظہیر ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۳ ،صفحات : ۲،تواریخ : ۲۵؍دسمبر۲۰۱۶ء،۸؍مئی۲۰۱۷ء،یکم فروری۲۰۱۸ء)
اپنے ان مکاتیب میںمحترمہ نگار سجاد ظہیر نے غازی علم الدین کی کتاب ’ تخلیقی زاویے ‘ کو پسندکیاہے اور اپنے بارے میں ایک مضمون کی اشاعت پر اظہار تشکر کیا ہے ۔ اپنے مکاتیب میں انھوں نے لسانی حوالے سے مصنف کی خدمات کو سراہاہے ۔( صفحہ : ۱۹۰)
نصرت بخار ی پروفیسر سید : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۳ )
قد آور شخصیات کے خطوط پر مشتمل کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ملنے پرمکتوب نگار نے غازی علم الدین کا شکریہ ادا کیاہے ۔پروفیسر سیّدنصرت بخاری نے اس کتاب کو مزیدنکھارنے کے سلسلے میں پانچ تجاویزدی ہیں جومناسب ہیں۔ مختلف علوم کے اس مخزن کی اشاعت پر اپنے خط میں انھوں نے لکھاہے :
’’میں کتاب کی اشاعت پر خوش ہوں کیوں کہ اس کی خوبیاں اس کی خامیوں سے بہت زیادہ ہیں۔میںآپ کا ممنون ہوںکہ آپ نے ایک نہایت ہی قیمتی کتاب مجھے بھیجی ۔‘‘(صفحہ :۲۱۳)
ہارون الرشید تبسم ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ، صفحات : ۲،تاریخ:۱۷؍مئی ۲۰۱۸ء )
مکتوب نگارنے غازی علم الدین کے ساتھ معتبرربط پرخوشی کا اظہارکیاہے ۔غازی علم الدین کی تصانیف بالخصوص ان کی نگرانی میں شائع ہونے والے کالجزکے مجلات کے بلندمعیار کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشیدتبسم نے لکھا ہے :
’’درس گاہوںکے ادبی مجلے ’ سیماب ‘اور’سروش‘ آپ کی تخلیقی صلاحیتوں ،ادب شناسی،اقبال فہمی اورادب برائے زندگی کے آئینہ دار ہیں۔‘‘ ( صفحہ :۳۸۸)
یاسمین گل محترمہ : ( مکتوبات: ۲ ،صفحات : ۷،تاریخ:۷؍فروری ۲۰۱۷ء،۱۸؍جنوری ۲۰۱۸ء )
پہلے مکتوب میں محترمہ یاسمین گل نے غازی علم الدین کی کتاب ’ اہلِ قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین‘ کو بہ نظر تحسین دیکھا ہے ۔مکتوب نگاری کی روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے محترمہ یاسمین گل نے کلاسیکی ادب سے مرزا اسداللہ خان غالب ؔ کے خطوط کا ذکر کیاہے ۔دوسرے مکتوب میں محترمہ یاسمین گل ’ تخلیقی زاویے ‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔
یحییٰ نشیط ڈاکٹر سیّد : ( مکتوبات: ۲ ، صفحات : ۷ ،تواریخ :۵؍مئی ۲۰۱۳ء،۲۱؍اگست۲۰۱۸ء)
اپنے پہلے مکتو ب میں ڈاکٹرسیّد یحییٰ نشیط نے غازی علم الدین کی تصانیف ’ لسانی مطالعے ‘اور دوسرے مکتوب میں ’ تخلیقی زاویے ‘ پر اپنی بے لاگ رائے دی ہے ۔اپنے مکتوب میںڈاکٹرسیّد یحییٰ نشیط نے لکھا ہے :
’ لسانی مطالعے‘ نے اردو ادب میں جو مقام حاصل کر لیاہے ’ تخلیقی زاویے ‘ اس معیار کی نہیں ہے ۔‘‘ (صفحہ :۸۰)
’ تخلیقی زاویے کے بیش تر مضامین کتابوں پر تبصرے ہیں جو ایک پختہ کار ادیب کے دائرہ عمل سے بڑ ی حد تک خارج ہوتے ہیں۔‘‘ صفحہ :۸۰)
یونس جاوید ڈاکٹر : ( مکتوبات: ۱ ،صفحات : ۱ ،تاریخ :۳۱؍مارچ ۲۰۱۰ء )
اپنی کتاب ’ میثاق عمرانی ‘ میں غازی علم الدین نے فارابی ،ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ جیسے روشنی کے عظیم میناروںکے خیالات سے جس طرح استفادہ کیا ہے اسے یونس جاوید نے قدر کی نگاہ سے دیکھاہے ۔ عمرانیات کے موضوع پرغازی علم الدین کی کتاب ’ میثاقِ عمرانی ‘پراپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر یونس جاویدنے لکھاہے :
’’ میثاق عمرانی ‘‘ آ پ کی عرق ریزی سے کی گئی تحقیق کامنھ بولتاثبوت ہی نہیں بل کہ قاری کوبھی علوم سے آراستہ کرنے کا نسخہ ہے ۔‘‘ ( صفحہ : ۲۷)
غازی علم الدین کی کتاب ’ مشاہیر ِ ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘ مرتبہ حفیظ الرحمٰن احسن(مدیر سیارہ ،لاہور ) کے بارے میں ڈاکٹر رؤ ف خیر نے لکھاہے :
’’ مختصر یہ کہ پروفیسر غازی علم الدین نے یہ ضخیم کتاب بغیر ایڈٹ کیے بہ زرِ کثیرشائع فرمائی ہے اور کتاب کی قیمت سے زیادہ ڈاک خرچ برداشت کرکے ہند و پاک کے قلم کارو ںتک پہنچائی بھی ہے ۔لکھنے والوں نے جو کچھ قلم بر داشتہ لکھا ہے اُس کی غازی صاحب نے بڑ ی کشادہ دلی سے پذیرائی کی ہے اورقارئین سے وسعت ِ نظر کے متمنی ہیں جس کی توقع کم ہے ۔
فون،facebook,whats app,smsکے دور میںاِتنے لمبے لمبے خطوط مذاق سے کم نہیں لگتے ۔قاری کی عدیم الفرصتی کے پیشِ نظر ناول کی جگہ افسانے ،افسانے کی جگہ افسانچے ،مختصر غزلیں اور نظموں کی جگہ یک مصرعی نظمیں ،لکھی جانے لگی ہیں۔smsبھی لمبا ہو تو بغیر پڑھے مٹا دیا جاتاہے ۔ایک پرانا مقولہ ہے :
درخواست دو حرفی : بحالی یا برطرفی ۔ ‘‘ ( 4)
اس عہدِ ناپرساں میں ضعفِ بصارت نے اس قدر گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے کہ انسان شناسی ممکن ہی نہیں۔قحط الرجال کے موجودہ اعصاب شکن دور میںخلوص و مروّت بھی احتیاج کے اور دعا سلام بھی مفادات کے مدار میں گھومتے ہیں۔ہر کوئی اپنی دُھن میں مگن اور اپنی فضا میں مست پھرتا دکھائی دیتاہے، بے حسی اور خود غرضی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا ہے ۔ان حالات میں حساس تخلیق کار کی چشمِ تر کی جانب کون دیکھے گا؟حرص و ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحان نے معاشرتی زندگی کا نقشہ ہی بدل کر ر کھ دیاہے ۔ عام آدمی کے شہرِ آرزو پر آلامِ روزگار اور حسرت و یاس کے کالے بادل چھا گئے ہیں ۔ اس صورت حال میںتخلیقِ ادب کا محور بدل جانے سے فکر و خیال کا پورا منظر یکسر بدل گیاہے ۔ناقدری کی ایسی بادِ حوادث چلی ہے کہ کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ہونی چپکے چپکے اپناکام کر جاتی ہے اور وقت کے رخسار پر دِلِ پُر خوں سے نکلنے والے ایسے آنسوچھوڑ جاتی ہے جونوشتۂ تقدیر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔نوحہ گرانِ شام ِغم صر صرِ اجل کے شور میں پنہاںدردکو محسوس کر لیتے ہیں ۔ غازی علم الدین ذرا دھیان سے سنیں کہ خلقِ خدا کیا کہتی ہے ۔محمدراشدشیخ نے اپنے مکتوب کے آخر میں لکھا ہے :
’’ آپ اس مہنگائی کے دور میںکثیر مصارف برداشت کر کے مہنگے ولایتی کاغذ پرکتابیں چھپواتے ہیں اور پھر یہ کتب انتہائی مہنگے ذریعہ ٔ ترسیل یعنی TCSکے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوںکو بھجواتے ہیںاور اس طرح کثیر مصارف کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے ہیں۔از راہ ِکرم اِس طرزِ عمل پر نظر ثانی فرمائیں ۔ہم میں سے کسی کے گھر کے صحن میں ایسا درخت نہیں ہے جس پرپتوں کے بجائے نوٹ اُگتے ہوںاور نہ
ہی ہمارے پاس قارون کا خزانہ ہے۔مجھے ڈر ہے کہ اپنی خون پسینے کی کمائی کو اس طرح صرف کرنا کہیں’’ اسراف ‘‘ میں داخل نہ ہو جائے ۔۔۔۔مشفق خواجہ نے جب اپنا مجموعۂ کلام ’ ابیات‘مہنگے ولایتی کاغذ پرشائع کرایاتوایک نسخہ ہدیتہً پیر حسام الدین راشدی کو پیش کیا۔پیر صاحب نے کتاب کھول کر دیکھی اورخواجہ صاحب سے فرمایا :’’خواجہ صاحب !آپ نے اِس کاغذ پراپنی شاعری چھاپ کر کاغذکو ضائع کیا،اس سے کہیں بہتر ہوتاکہ آپ کاغذمجھے دے دیتے اور میںاِس پر اپنے مضامین چھپوا لیتا۔‘‘
خواجہ صاحب نے جواب دیا:’’ کاغذ تو پھر بھی ضائع ہی ہو جاتا۔‘‘
غازی علم الدین ان تمام حقائق سے آگاہ ہیں لیکن وہ علم و ادب کے ایسے عاشق ہیںکہ کسی اندیشۂ سود و زیاں کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ یہ ایسا جذبہ ہے جسے روح سے محسوس کیا جاسکتاہے اور اِسے کسی میزان میں تولنا ممکن ہی نہیں ۔ ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل ہی فروغ ِ علم و ادب کی تمنا اور انسانیت نوازی کی اساس پر ہوئی ہے۔علم دوستی ،ادب پروری اور انسانی ہمدردی کی تمازت اور عطر بیزی ان کی زندگی کا نمایاں وصف ہے ۔دنیا بھر کے دانش وروں سے انھیں قلبی لگاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ مشاہیرِ ادب بھی اُنھیں ٹُوٹ کر چاہتے ہیں۔وہ جانتے ہیں مصلحت اندیشی کے اعجاز سے ذہن و ذکاوت کو پختگی نصیب ہوتی ہے ۔اس کے برعکس اگر عشق میں مصلحت اندیشی کو شعار بنانے کی مہلک غلطی کا ارتکاب کیا جائے تو روشن مستقبل سے وابستہ اُمیدوں کے تاج محل مسمار ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں علم و ادب ،تہذیب و ثقافت اور اہل علم و دانش سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کے بغیر زندگی ایک نخلِ بے ثمرہے ۔ہر غم گسار ناصح ، محرم راز اور معتمد رفیق کی تلخ باتیں سننے کے بعد بھی انھیں کوئی ملال نہیں ہوتا۔ اپنے دِل میں قوتِ عشق سے ہر پست کوبالا کرنے کی تمنا لیے غازی علم الدین مسکرا کر یہی کہتے ہیں :
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دِل کے بازارمیں بیٹھے ہیں خسارا کر کے
پس نوآبادیاتی دور میںقلعۂ فراموشی میں گونجتے سناٹوںسے دِل دہل جاتاہے ۔اس کٹھن ماحول میں بے حس ستم گروں کوسنگِ ملامت لیے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر بھی خواہشوں کے طلسم سے نجات حاصل کرنے کی تمنا کرنے والے جری تخلیق کار کی حیثیت سے غازی علم الدین نے سدا ایک شانِ استغناکے ساتھ پرورشِ لوح و قلم کو اپنا شعاربنایاہے ۔ان کی تخلیقی ،تحقیقی اور تنقیدی فعالیت زندگی کی حقیقی معنویت کواُجاگر کرنے کی ایک سعی ہے۔انھیں معلوم ہے کہ ماضی میں خفاش منش جہلاکی وجہ سے دھیرے دھیرے معاشرتی زندگی کو ایسا روگ لگا ہے کہ دروغ کو فروغ ملا ،جاہل کو اس کی جہالت کا انعام ملنے لگا اور مصلحت اندیشی و موقع پرستی کووتیرہ بنانے والوں کی پانچوں گھی میں تھیں ۔ سُونی سُونی سی آبادیوں میں درندوں کے جوروستم نے سہمے سہمے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ۔آرزوؤں کے گھنے جنگل میں جب پر اسرار خاموشی لفظ لفظ پھیلنے لگتی ہے تواِسے معاشرتی زندگی کے لیے انتہائی بُرا شگون سمجھا جاتاہے ۔ایسے میں بے زبانی بھی کئی رازوں سے پردہ اُٹھاتی ہے اور اپنا احوال سناتی ہے ۔ایسے میں غازی علم الدین جیسے کسی مرہم بہ دست مسیحا کا سندیسہ طلوعِ صبحِ بہاراں کی نویدثابت ہوتاہے ۔ غازی علم الدین نے فروغِ علم وادب کا جوتاج محل تعمیر کرنے کا قصد کیاہے اُسے اندیشۂ زوال نہیں ۔تاریخ کے ہر دور میں اس ابد آشناتصور کے آثار ملیں گے ۔
مآخذ
1۔وار ث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو ،راول پنڈی ،جلد 22،شمارہ جنوری ۔مارچ 2013، صفحہ 11۔
2۔بہ حوالہ گوپی چند نارنگ :ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات ،سنگ ِ میل پبلی کیشنز ،لاہور ،1994 ، صفحہ 163۔
3۔وار ث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو ،راول پنڈی ،جلد 22،شمارہ جنوری ۔مارچ 2013، صفحہ 11۔
4۔رؤف خیر ڈاکٹر : ’ مشاہیر ِ ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین‘ ماہنامہ سب رس ،حیدرآباد،جلد۸۱،شمارہ ۷،جولائی ۲۰۱۹ ،صفحہ 79۔
———————————————————————————————————————————————————–
پس نوشت
غازی علم الدین صاحب ! السلام علیکم۔ آپ نے مجھے یاد رکھااللہ کریم آپ کواس نیکی کااجر عظیم عطا فرمائے۔آلامِ روزگار کی زد میں آنے کے باعث کمر جھک گئی ہے اور دیدۂ گریاں کی بینائی بھی متاثر ہوئی ہے ۔ آپ جیسے مخلص اور درد آشنا لوگ اب دنیامیں کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کی تصانیف میں علم و عمل کا قشقہ کھنچاہے ۔ اس سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے میں نے ناخن پہ گرہ نیم باز کاجو قرض تھا اُسے اُتارنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور لوح ِ جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع ِ صبح ِ بہاراں کا نصاب بھی لکھ دیا ہے ۔زندگی رہی تو میں ہوں اور یہ دَم پھر ہے اگر چل بسا تو یہ میرا سلامِ آخر ہے ۔آپ کے مکتوب کے جواب میں صنعت روالعجز علی الصدور سے مزین کسی شاعر کا یہ شعر حسبِ حال ہے :
خط نامہ بر کو پھیر دیااور یہ کہا
کہنا کہ ہم نے جان لیا مدعائے خط
والسلام
فقیر
غلام شبیر