تم رستم ہو؟
ہاں میں رستم ہوں۔
اور تم ؟
میں فردوسی نہیں ہوں۔
کیوں؟
اس لیے کہ میں سہراب ہوں۔
اچھا تم رستم اور میں سہراب۔
یہ ہوئی نہ بات۔
اب ہو گی جنگ۔
نہ نہ جنگ کی بات مت کرو۔
کیوں؟
دنیا میں اس سے پہلے ہی بہت سی جنگیں ہو چکی ہیں۔
سچ ! دنیا بنی ہی جنگ کے لیے ہے ۔ اقتدار طاقت کے لے جنگ کرتا ہے اور طاقت اقتدار کو استحکام بخشتی ہے۔ طاقت تمام رشتوں ناطوں سے ماورا ہوتی ہے ۔ طاقت نشہ ہے ۔ جادو ہے۔۔۔۔
نہیں تمھار ا خیال غلط ہے۔ دنیا محبت کے لیے بنی ہے ۔ محبت نہیں ہے توکچھ بھی نہیں ہے۔
میرے دوست! میں سہراب ہوں اور اتنی بات جانتا ہوں کہ دنیا میں خوبصورت عورت مردوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوتی ہے ۔ تاریخ ان باتوں سے بھری پڑی ہے۔
اچھا ۔ مگر مجھ سے پوچھو تو صاف کہے دیتا ہوں کہ محبت ہی دنیا کا نادر عجوبہ تاج محل بنواتی ہے ۔ تم نے چاندنی رات میں تاج محل کا نظارہ کیا ہے۔
چاند کے سامنے چاندنی کی کیا حقیقت؟ مان لو کہ چاند پر چاندنی نہیں ہوتی۔
حقیقت آشنا بنو: بات چاندکی نہیں ۔ زمین کی کرو جس کے لے دنیا میں ہمیشہ ہی جنگیںہوتی آئی ہیں۔
کون سی زمین؟
جس پر تم قابض ہو جس پر تم بس رہے ہو ۔ میں اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہوں۔
اگر تم نے میری زمین پر قبضہ کر لیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ سہراب۔
بھاڑ میں جاؤ۔ میری بلا سے ؟
بھائی ۔ میرا کل اثاثہ یہی زمین ہے۔ میرے سارے خواب اسی زمین سے وابستہ ہیں۔ میں اس زمین پر ہی پلا بڑھا ہوں اور اب میری اولاد بھی اسی زمین پر گزر بسر کر رہی ہے۔
دیکھو! میں بھی دورسے آیا ہوں۔ میں اس زمین پر قبضہ کرکے رہوں گا اور پھر اسے اپنی اولاد کو دے دوں گا ۔ ہم بھی بہت دنوں سے تمھاری زمین پر تاک لگائے بیٹھے ہیں؟
سہراب! یہ اولاد کی محبت ہی فتنے جگاتی ہے ۔ میں ایک غریب آدمی ہوں ۔ جنگ میرے بس کی بات نہیں ہے ۔
مگر میں غریب نہیں ہوں ۔ آگے بڑھنے کے لیے طاقت کا استعمال بہت ضروری ہے ۔ ہر دوڑنے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کو دھکا دے کر گرا دے اچھا دولت مند بننے کے لیے دوسروں کو دھکا دینا بہت ضروری ہے۔
ہاں رستم ضروری بلکہ بہت ضرری ہے ۔ میری مانو تو اپنی زمین شرافت سے مھے دے دو ورنہ مجھے قبضہ کرنا پرے گا ۔ یہ یادر کھنا کہ میرا سالا کوتوال شہر بھی ہے ۔ سہراب ! تمھارا آبائی وطن کون سا ہے۔
میں نیا درکارہنے والا ہوں وہاں میری زمین تھی مگر قادر بخش نے والی علاقہ کے کارندوں کے ذریعے سے وہ زمین بزور قوت مجھ سے چھین لی تھی۔ قادر بحش میرے قبیلے کا فرد تھا۔
اچھا۔ طاقت کا بدلہ طاقت ظلم کا بدلہ ظلم ۔ نسخہ بھی وہی پرانا ۔ جو کچھ ماضی میں تمھارے ساتھ ہوا وہ تم حال میں میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو تم سہراب سے قادر بخش بننا چاہتے ہو۔
رستم ۔ ضرورت ایجا د کی ماں ہے یہ گورکھ دھندہ اسی طرح سے ہوتا چلا آیا ہے۔ بزور طاقت فاتح مفتوح کی ہر چیز کا مالک ہوتا ہے ۔ ملک دولت اور عزت کا سمجھے سہراب کہیں بھی قبضہ کرنے کے لیے پہلے منصوبہ بندی کی جاتی ہے میں اسے سازش کہتا ہوں تم انقلاب کہہ سکتے ہو۔
میں غریب آدمی ہوں مگر بزدل نہیں مجھ میں ابھی اتنی طاقت ہے کہ تمھیں خاک چٹوا سکتا ہوں رستم دو بدو مقابلہ اچھا نہیں ہوتا۔
رستم ہم اس کے علاوہ بھی کچھ سوچ سکتے ہیں ہم دونوں مل کر کیا دوسروں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔ مسافر تو بادوباراں میں بھی اپنی منزل تلاش کرتے رہتے ہیں۔
بہت سے لوگ ہم دونوں کی ہمت طاقت اور بدمعاشی کی وجہ سے خود ہی میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
سہراب ! زندگی کی چوہا دوڑ میں آگے بڑھنے کی ہمت لیے جب ہم پیش قدمی کریں گے تو تم مجھے دھکا تو نہیں دو گے؟
نہیں ہرگز نہیں!
ہم ایک نئے کاروبار میں شراکت دار ہیں ہر کاروبار میں راست بازی اور دیانت داری ضروری ہے۔
اسمگلر اور ہیروئن کا کاروبار کرنے والے کاروباری امور پر ہمیشہ کاربند رہتے ہیں ۔ یہاں بھی بددیانتی موت ہے ۔
مگر سہراب: پھر بھی عموماً شراکت دار ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے ہیں۔
رستم! تم نے سنا ہے کہ زن زر اور زمین سے ہر شحص محبت کر تا ہے ۔ ہم ایسا چکر چلائیں گے کہ برسوں تک لوگ ہمیں جان ہی نہ پالیں گے ۔ ہم شہر شہر قریہ قریہ سستے مکانات کا لالچ اور قیمتی زمین کوڑیوں کے مول بیچ کر کروڑوں کما لیں گے اور سرکاری افسران کی طرح سے عقل محنت دیانت اور راست بازی کا صرف زبانی مظاہرہ کیا جائے گا عملاً کچھ اور کریں گے۔
ٹھیک ہے اس کے ساتھ اور کوئی کاروبار ؟
ہاں ۔ ذہن میں ایک اور کھیل آیا ہے ۔ یہ کھیل نورا کشتی ہے جو ہمارے معاشرے میں مکمل یکسوئی کے ساتھ جاری و ساری ہے یہ کھیل ہر شخص کھیلتا ہے مگر ۔۔۔۔
سہراب ! پکڑے جانے پر صاف مکر جاتا ہے۔
رستم! یہ کھیل کھیلنے کے لیے ہمیں بہت بلند بانگ دعوے کرنا ہوں گے۔ بڑے بڑے قد آدم تصویروں والے پوسٹر شائع کرنے ہوں گے اور انعام میں ۲۰ کلو سونا جیتنے والے پہلوان کو اور ۱۰ کلو سونا عوام کو انعام دیا جائے گا ۔ یہ مقابلہ بذریعہ ٹکٹ ہو گا ہر روز نیا نعرہ۔ نئی تکنیک کے ذریعے سے عوام کو اکسایا جائے گا ۔ نت نئے فریب اور فتنے جگائے جائیں گے ۔ سہراب ! تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ معرکہ کامیاب ہو جائے گا۔
ہاں رستم۔ کھڑکی توڑ کامیابی کا یقین ہے ۔ بس ہم لوگوں کے جذبات کو بھڑکائیں گے اس کا م کے لیے کچھ اور لوگ ملازم رکھنے پریں گے میڈیا پر پبلسٹی زوردار ہونی چاہیے۔ سہراب کیا واقعی ہمیں کشتی لڑنی ہو گی۔
ہاں رستم۔ ہم کل تین کشتیاں لڑیں گے۔ پہلی اور تیسری میں جیتوں گا ۔ دوسری آپ کو جتوائی جائے گی ۔ تاکہ آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہے۔
اچھا اس طرح سے تم ہمیں رسوا کرو گے ۔ رستم الزماں کو ۔ سہراب بھائی یہ جو اپنا شاعر فردوسی تھا ۔ اس نے کمال یہ کیا کہ رستم کے ساتھ ایک لفظ بڑھا دیا۔ آج تک کوئی اس کا توڑ نہیں کر سکا ہے کسی نے بھی سہراب الزماں ہونے کا دعوی ٰ نہیں کیا بس یہ ہمیں ہی زیبا ہے۔
رستم! یہ گورکھ دھندہ ہے محنت زیادہ مال کم۔ میں یہ کھیل نہیں کھیل سکتا۔
ایسا کرو ہم ایک فلم بناتے ہیں عشق عشق ہے یہ رومانی فلم ہو گی اس کا ہیرو میں ہوں گا اور ولن تم میں معاملات عشق میں خاصا ماہر اور تجربہ کار ہوں اس کا مظاہرہ فلم میںاس طرح ہو گا ہیروئن پہاڑ کے دامن میں اپنی بکریاں چرا رہی ہو گی۔ ہیرو گھوڑا سرپٹ دوڑاتے ہوئے آئے گا اور کہے گا ۔
’’ اے حسن کی دیوی! مسافر ہوں ۔ پیاس کا مارا ۔ پانی کا طلب گار ہوں ۔ اگر پانی نہیں ہے تو ان شربتی آنکھوں سے ہی کچھ پلا دو ۔ تشنگی بلائے جان ہو رہی ہے پردیسی ! پہاڑو ں میں پانی کہاں ۔ ہاں اس دل میں تمھیں دیکھ کر محبت کی لہر اٹھی ہے ۔ کہو تو دل دریا سے چند قطرے۔۔۔
اے حسین ماہ لقا ! تیری محبت بھری آواز سن کر دل بے قابو ہو رہا ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ فضا ئیں ہوا ئیں ایک ہی گیت سنا رہی ہیں ۔ ہوا سے موتی برس رہے ہیں۔۔۔
اے میرے خوابوں کے شہزادے ۔ تمھارے آنے سے میرے خوابوں کو تعبیرمل جائے گی۔ بیاکل روح اطمینان اور مسرت کے گیت گائے گی۔
رستم اس فلم میں یہ خوبی بھی ہو گی کہ اس فلم کا بدمعاش ولن بھی عاشقانہ مزاج کا حامل ہو گا وہ بھی ایسے ڈائیلاگ بولے گا۔
’’ اے پربتوں کی شہزادی! تجھے دیکھے ہوئے جب بہت دن ہو جاتے ہیں تو پہاڑبھی تمھاری یاد میں آنسو بہانے لگتے ہیں اور سنگ دل پہاڑوں سے میٹھے پانی کے چشمے جار ی ہو جاتے ہیں ۔ میری شاہزادی ۔ ترے عشق نے دیوانہ بنا دیا ہے میرا دل تیری یاد میں ہر لمحہ’’ مست‘‘ رہتا ہے میں بزدل نہیں ہوں اس لیے آنسو نہیں بہاؤں گا میرا پیار سمند ر کی طرح گہرا اور ٹھنڈا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ بحرالکاہل ہے مرا دل
سہراب ! تاریخ گواہ ہے کہ رستم کبھی بھی ولن ہیں رہا ۔ یہ تو ہمیشہ سے مرد میدان ہی رہا ہے۔
فتح مند ۔ اپنی زمین سے محبت کرنے والے کو فلم انڈسٹری میں جب بھی ولن کو ہیرو بنا دیا گیا ہے وہ فلم ناکامی سے دوچار ہوئی ہے سمجھے ! تمھاری فلم بھی ڈبوں میں بند ہو جائے گی تم بن بادل برسات کے شائق لگتے ہو۔
رستم ! پھر میںکیا کروں۔
سہراب ! تم کیا کر و گے یہ میں جانتا ہوں تمھاری عقل تمھارا کتنا ساتھ دے گی یہ آنے والے وقت پر منحصر ہے فی الحال تم روپیہ کمانا نہیں لوٹنا چاہتے ہو اور وہ بھی کروڑوں رستم! میں کیا کروں زندگی صرف دولت کے پہیے مانگتی ہے۔ لشکارے مارتی زندگی کیا سادگی سے گزاری جاتی ہے ۔ یہ اس بدقسمت گلشن کی کہانی ہے جاں کرپشن روز اک نیا چولہ بدلتی ہے ۔ سہراب ! جوہڑ کے کنارے رہنے والے مچھروں کی شکایت نہیں کرتے میں جانتا ہوں کہ جہاں احساس زیاں کو سرعام نیلا م کر دینے کا رواج ہو ہاں سب کروڑوں میں کھیلتے ہیں ۔ بنگلوں میں رہتے ہوئے دن بدن بیماریوں کو پالنے میں مصروف رہتے ہیں ۔
تو بھائی رستم! میں بھی اسی چولے کا امیدوار ہوں ۔ میرا بسنتی چولا کون رنگے گا۔
سہراب! تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ رنگریز سفید کپڑوں کو قطعی اہمیت نہیں دیتا ۔ تم تو مجھ سے میری زمین چھین لینا چاہتے ہو میرے پیروں سے زمین نکالنا چاہتے ہو ۔۔۔ میرے خوابوں کو چکنا چور کرنا چاہتے ہو۔
رستم! اتنی سی بات ہے زندگی میں دولت بہت ضروری ہے۔
سہراب : دولت اندھی ہوتی ہے اور اس کے پجاری بھی اندھے کم عقل خیالی پلاؤ پکانے والے ۔ تم میری توہین کر رہے ہو رستم۔
نہیں سہراب میں تمھیں قصہ زمین برسر زمین بتلا رہا ہوں سمجھا رہا ہوںسکھا رہا ہو ںرستم تم فلسفی اوراستاد کب سے ہو گئے ہو؟
جس دن تم نے اپنی محبوبہ گل نازکو بے گناہ قتل کیا تھا۔
اچھا تمھیں یہ بھی پتہ ہے۔
ہاں اور بہت کچھ ۔۔۔۔۔
گل ناز کی موت نے تمھیں اپنے رقیب شیرزادہ کی اہمیت کا اندازہ کروا دیا اور پھر تم دشمنی کرتے ہوئے ہمارے دشمنوں کے ہتھے چڑھ گئے اپنے ذاتی مفاد کے لے تم نے ایک غیر مذہب کے ماننے والے کو اپنا سرپرست بنا لیا ۔ او ر تم طاقت کے کھیل میں شریک ہو گئے۔
سنو! ہم لوگ اپنی زمین سے محبت کرتے ہیں اس لیے وطن دشمنوں پر خصوصی نظر رکھتے ہیں ۔
رستم خان! اگر بات کھل ہی گئی ہے تو سنو جنگ میں سب جائز ہے تمھیں جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ تم کتنے بڑے رستم ہو۔
سہراب خان ! تم نے خواہ مخواہ میرا راستہ نہیں روکا ہے تمھیں میرے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ تمھاری جیب میں میرا فوٹو اس امر کا گواہ ہے کہ میں تمھار ا ازلی دشمن ہوں۔
رستم ! تمھارا سردار اکبر خان شاید ہی دنیامیں موجود ہو۔
سہراب ۔ یہ سن کر شاید تم چکرا کر گر پڑ و گے کہ اکبر حان نے تم جیسے نمک حراموں اور غداروں کی چالوں کو ناکام بنا کر ہمت اور حوصلے سے جنگ جیت لی ہے او رہمار ی جری افواج چند ہی لمحوں میں تمھارے سر پر پہنچنے والی ہیں سامنے دیکھو ! فتح مندی سے لال رومال لہراتے ہوئے چاک و چوبند گھڑ سوار دستے اپنے دشمن تک پہنچ رہے ہیں فتح مندی اور سرشاری گردوغبار میں بھی ان کے حوصلوں کی داد دے رہی ہے ۔ گھڑ سوار دستے لمحے بہ لمحے اپنا گھیرا تنگ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ رستم خان فتح یابی مبارک ہو اور سہراب خان دیوانوں کی طرح سے چلا چلا کر کہہ رہا تھا رستم میں زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔ حرامی سامراج کے بچے آخری التجا یہی کرتے ہیں۔
_______________
تذکرہ سلام بن رزاق
میرا ایک افسانہ جس کا عنوان ’انتظار‘ ہے۔ روزنامہ انقلاب کے ادبی صفحے ’ادب نما‘ میں 19 مارچ 2018 میں...