بی بی جی ! آج کچھ دن منحوس سا محسوس ہو رہا ہے۔
تمھارا وہم ہے بیٹی ۔ دن کبھی منحوس نہیں ہوتے۔ دن سب اچھے ہوتے ہیں ۔ بس بھاگ اچھے ہونے چاہییں۔
نہیں بی بی جی۔ نہ جانے کیا بات ہے مرا دل دھڑک رہا ہے ۔ میرے دل میں طرح طرح کے واہمے ، وسوسے اور گمان پیدا ہو رہے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے پرکھوں کے چہرے گھوم رہے ہیں۔
میری بیٹی۔ وہم نہ کر۔ خوش رہ۔ ہمیں کیا دکھ ہے ۔ بھگوان کا دیا سب کچھ ہے ۔ اتنی بڑی حویلی ہے اور پھر تمھارے ابا سردار موہن سنگھ کھیڑی والے کا رعب اور دبدبہ۔۔۔
بی بی جی۔ آج کچھ ہو کر رہے گا۔ تم باپو کو فون کرو۔ جلدی گھر بلالو۔ بھائی اوتار سنگھ اور کرپا بہادر کو بھی آج گھرہونا چاہیے۔۔۔ نہ جانے کیسا سمے آ گیاہے کہ دل ہول رہا ہے ۔ آپ جلدی کریں باپو کو بلالیں۔۔۔ آج گھر مردو ں سے خالی ہے اور ۔۔۔
بیٹی سرجیت۔۔۔ ہمت مت ہارو ۔ حوصلہ کرو۔
نہیں بی بی جی۔ آج میری چھٹی حس کچھ کہہ رہی ہے۔۔۔کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا کوئی لمبا دنگا فساد ۔۔۔ خون خرابہ۔۔۔
سرجیت کور ۔۔۔ بہت بکواس کرنے لگی ہو ۔۔۔ جو منہ میں آتا ہے بک دیتی ہو ۔ کیا عقل تمھارے پلے سے کہیں چلی گئی ہے یا ۔۔۔
بی بی جی۔ میں بنتی کرتی ہوںآپ باپوکو ، اوتارے اور کرپے کو بلا لو۔ جلدی کرو۔ یا شہر ابھی چھوڑ دو۔
کیوں سرجیت کور۔ ہم بزدل ہیں۔ چوروں کی طرح سے کیوں بھاگیں۔۔۔اری ہمارے پرکھوں میںشجاعت اور بہادری پیڑھیوں سے چلی آ رہی ہے ۔ تم کیا سمجھتی ہو ۔ شہر کی ہوا نے تمھاری بی بی کا دل کمزور کر دیا ہے۔ اب بھی اس عمر میں کوئی مجھ سے اپنی بینی نہیں چھڑوا سکتا۔
بی بی جی۔ یہ وقت بڑھکیں مارنے کا نہیں ہے ۔ یہ شہر ہمارا نہیں ہے۔ یہ ہمارادیس نہیں ہے ۔ یہ دلی ہے جو کئی بار اجڑی ہے ۔ یہاں ۔۔۔ شہدوں نے وہ رنگ دکھائے ہیں کہ شریفوں نے پناہ مانگی ہے ۔ میں بنتی کرتی ہوں ۔ میرے باپو ،بھائیا اوتارے اور کرپے کو بلا لو بی بی جی۔ ایسا نہ ہو کہ انھیں کسی اور کا بلاوا آجائے۔ ہم منہ دیکھتے رہ جائیں۔ جب شہر اجڑتا ہے بڑی اندھیر پڑتی ہے۔ چوہے بھی بلوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور ماس کھانے والے آسمان پر نظر آنے لگتے ہیں۔ہم سے محبت کرنے والے پرکھے ۔ ہمارے حال کو جاننے کے لیے آجاتے ہیں۔ وہ دیکھو بابا روڑا سنگھ کرپان لیے مسکرا رہا ہے۔ بابا ۔۔۔ جتندر سنگھ اپنی مونچھوں کو مروڑ رہا ہے۔ دونوں نے سیاہ لباس پہنے ہوئے ہیں۔ میری دادی کی آنکھوںمیں آنسو ہیں۔ وہ سفید لٹھا سینے سے چمٹائے ہوئے بین کر رہی ہے جیسا اس کا کوئی سگا مر گیا ہو۔۔۔
دیکھو سرجیتو ۔ مجھے زیادہ تنگ نہ کر۔
بی بی جی ۔ تم باپو کو جلدی بلا لو۔ جلد۔ کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ ہونے والاہے ۔ کچھ ہونے والا ہے ۔ کوئی کھونے والا ہے ۔ کھلونا ٹوٹ جاتاہے تو کب جڑتا ہے ۔ ہنستاکھیلتا گھر یونہی اجڑتا ہے۔
سرجیتو۔ چپ ہو جاؤ۔ میں تیرے باپو کو فون کرتی ہوں ۔ دیکھ یہ میں فون کر رہی ہوں۔
ہیلو۔ موہن سنگھ
ہیلو ۔ہاں میں موہنا بول رہا ہوں۔
سرجیت کور نے مجھے بہت تنگ کیا ہے ۔ کہتی ہے باپو جو جلد بلاؤ۔ کچھ ہونے والا ہے۔
بسنتو۔ سر جیت ٹھیک کہتی ہے ۔ دلی میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں۔ ہندو ہمارے ویری ہو گئے ہیں ۔۔۔ سکھوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ میں یہاں پھنسا ہوا ہوں۔ تم ایسے کرو۔ بابا ایسر سنگھ کو ساتھ لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاؤ۔ پھلکاری کی بکل مت مارنا۔ ماتھے پر بندیا لگاؤ۔ مانگ میں سیندور بھرو۔ سرجیو کو ساتھ لو ۔ گندی گلی سے باہر نکل جاؤ واہ گرو کی جے۔
موہنے۔ ہائے اللہ کیاکہہ رہے ہو۔ بھری پری حویلی چھوڑ کر چوروں کی طرح نکل جاؤں، تمھاری مونچھ نیچی ہو جائے۔‘‘
بسنتو۔ آگ، مونچھ اور آن کو نہیں دیکھتی۔بس جلا دیتی ہے۔ تم جلدی سے گندی گلی سے نکل جاؤ۔ میں بھی ادھر آ رہاہوں۔ جلدی کرو۔
’’ موہن سنگھ ۔ اوتارے اور کرپے کا کیا ہو گا۔‘‘
وہ دونوں اس وقت دلی سے بہت دور نکل گئے ہیں ۔ بس تم اپنی جان بچاؤ۔ جلدی کرو۔
موہن سنگھ۔۔۔ گندی گلی میں تو مسلمانو ںکے محلے میں نکلے گی۔
بسنتو۔ بس یہی بچاؤ کی جگہ ہے ۔ مسلمان تمھیں کچھ نہیں کہیں گے ۔
بسنتو۔ جلدی کر۔ نکل جا حویلی سے چھوڑ دے اس ٹیلی فون کو ۔ نکل جا جلد۔
سرجیتو۔ نکل ۔۔۔ پچھلے دروازے سے۔ بابے کو آواز دے۔
کیا بات ہے بی بی جی ۔ پریشان ہو ۔ کیوں۔
بابا ۔ شہر میں سکھوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
ہماری عزت و ناموس کو داغدار کیا جا رہا ہے۔
بی بی جی۔ آپ چنتا نہ کرو ۔ میں آخر مونا سکھ ہوں۔ کیا ہوا بوڑھا ہوں۔ آج بھی بہت سوں کو کھیت سکتا ہوں۔
بابا ۔ موہن سنگھ کا کہنا ہے کہ چپ چاپ گندی گلی سے نکل جاؤ۔
نہیں بی بی جی۔ مسلے بڑے خراب ہیں۔ میں آپ کو گندی گلی سے جانے نہیں دوں گا۔
بابا ایسر سنگھ ۔ ہم تمھیں حکم دیتے ہیں کہ ہمارا کہا مانو ۔ سکھ جاتی پر بڑا کٹھن وقت آیا ہے ۔ ہمارے ساتھ ایک مرد ہونا ضروری ہے ۔ چلو نکلو ۔ پچھلی طرف سے۔
بی بی جی۔ بڑی گندی ہے ۔ کیچڑ ہے ۔ بدبو ہے۔ اور پھرمسلوں کا محلہ۔ ہمیں نقصان ہو جائے گا۔
نہیں بابا جی۔ نہیں ۔ سرجیتو ۔ نکلو ۔ باباآؤ۔۔۔
بی بی جی ۔ میرے بھائیے۔ میرا باپو۔
سرجیتو ۔ بس سب ٹھیک ہے چلو شاباش۔
بی بی جی ۔ گندی گلی کتنی لمبی ہے۔
سرجیتو۔ ہماری زندگی جتنی ۔ نکل گئے تو بچ گئے۔ رہ گئے تو مارے گئے۔
بی بی جی۔ اس گلی میں پہلے بھی کبھی چلی ہیں۔
نہیں بابا۔ آج ہی دیکھنی پڑی ہے ۔ یہ نرکھ۔
اچھا جی۔ اس نرکھ میں پہلے میں چلتا ہوں۔میرے پیچھے پیچھے آپ آجائیں۔
بابا ۔ جلدی چلو۔
چلو جی۔ چلو جی ۔۔۔
بابا جی۔ رات بہت کالی ہے اور گلی میں اندھیرا بھی بہت ہے۔ اپنی لاٹھی سے راستہ بناتے چلنا۔
ہاں بی بی جی۔ مگر کوئی بات ہوجائے تو اپنے اوسان حواس میں رکھنا۔ مشکل وقت میں ثابت قدم رہنا ہی بہادری ہے۔ اور سرجیتو کو بیچ میں رکھنا ۔ میری بچی ۔ ہمت سے۔
بابا۔۔۔ چپ چاپ چلتے چلو۔ باتیں اچھی نہیں ہوتیں۔
اچھاجی۔مگر بی بی جی ۔ وہ دیکھو۔۔۔ کچھ لوگ ٹارچ کی روشنی جلائے آ رہے ہیں۔
ہمت کرنا ۔ میں سب کو دیکھ لوں گا۔ بی بی جی ۔ قدم پیچھے مت ہٹانا۔ میں سب پر نظریں رکھے ہوئے ہوں اور میری لاٹھی بھی میرے پاس موجود ہے۔
بابا ۔ اگر دشمن ہوئے تو۔
بی بی جی۔ پھر کیا مقابلہ کریں گے۔
ٹھیک ہے ۔ چلتے چلو ۔ خطرہ بہرحال ہے۔
بی بی جی۔ کوئی بات نہیں۔ دیکھ لیں گے۔ مونے ہمیشہ خطروں سے کھیلتے رہتے ہیں۔
بابا ۔ وہ دیکھو ۔۔۔ سب نظر آ رہے ہیں۔ مجھے تو تیرا آدمی موہن سنگھ لگ رہا ہے۔
بی بی جی ۔ آگے بڑھتے رہیے۔ سب سامنے آجائے گا۔
’’ بابا ایسرسنگھ۔۔۔ دور سے آواز آئی۔
ہاں جی۔ موہن سنگھ ۔ ہم ہیں۔۔۔
ٹھیک ہے ۔ آگے آتے آجاؤ۔۔۔
بی بی جی ۔ موہن سنگھ یہاں تک آ گیا ہے ۔ اب فکر کی بات نہیں ہے۔
بابا ایسر سنگھ ۔ تم نے بڑھاپے میں ہماری مدد کی ۔
وہ جی ۔ میں تو جان تک دینے کو تیار ہوں۔ واہ گرد کی قسم ۔ آپ سب خیریت سے ہیں۔ بس جی ۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔
بسنتو۔ سرجیتو ۔۔۔ آؤ۔ ہمیں رات سید سعادت علی شاہ صاحب کے یہاں پناہ لینی ہے ۔ یہ سارے آدمی سید صاحب کے ہیں۔
’’موہن سنگھ ۔ میرے گرو کی کرپا ہے سب ۔۔۔ بڑا کرم کیا میرے گرو نے۔۔۔
بابا ایسر سنگھ سب کو سید سعادت علی شاہ کے مکان پر لے چلو ۔ آج کی رات اس سے بڑی جائے امان ہمارے لیے کہیں نہیں ہے۔
اچھا جی۔ جو آپ کی مرضی۔چلتے ہو۔۔۔
’’ بھائی موہن سنگھ۔۔۔ آپ فکر نہ کریں ۔ ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ وقتی اُبال کا شکار ہوئے ہیں۔ بہرحال مذہبی جنون خطرناک ہوتا ہے۔
’’ ہاں جی۔ آج اس کا بھی تجربہ ہوا ہے۔‘‘
بھائی موہن سنگھ زندگی تجربات کا نام ہے ۔
’’ آپ صحیح کہہ رہے ہیں شاہ صاحب ! مگر آج ایک بات کا اور تجربہ بھی ہوا ہے کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔
’’ جی۔‘‘
بھائی موہن سنگھ ۔ آپ حویلی میں آرام کریں ۔ کوئی فکر نہ کریں ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں خادم کو بھیج رہا ہوں۔ آپ کھانا تناول فرما لیں۔
شاہ صاحب ! آپ کی کیا یہ مہربانی کم ہے کہ اٖ نے ہم پر اتنا احسان کیا ۔ آگ کی بارش میں ، خون کی ارزانی میں ہمیں پناہ دی۔
ارے بھائی موہن سنگھ۔ آپ کی مدد کرنا ہمارا فرض تھا ۔ آپ قطعاّ فکر مند نہ ہوں ۔ ٹھیک ہے ہم خادمہ کو بھیج رہے ہیں۔
’’ جناب کھانا حاضر ہے۔ ہاتھ دھو لیجیے۔‘‘
’’ بسنتو سر جیتو ۔ تھوڑا سا کھانا کھالو۔
موہن سنگھ ۔ اس ظلم و ستم کے موسم میں کھانا کسے اچھا لگتا ہے۔
بسنتو ۔ شا ہ صاحب برا مان جائیں گے۔ کھانا کھالو۔
لائیے بی بی ۔ ہم ہاتھ دھو لیتے ہیں۔
لیجیے ۔ پانی حاضر ہے۔
تم ۔۔۔ تم ۔۔۔ زیتون ۔۔۔ تم ۰۰۰ ابھی زندہ ہوں۔
ہاں سردار جی۔ میں آج کے لیے زندہ رہی ہوں۔ چالیس سال عذاب سہا ہے میں نے۔
زیتون مجھے معاف کر دو۔
ہاں سردار موہن سنگھ کھیڑی والے۔ تمھیں معاف کرنے کے سوا اور چارہ کیا ہے ۔ مگر سنو ۔ میری دونوں بچیاں تمھیں معاف کر دیں گی؟
زیتون۔ اعتراف ِ گناہ کے بعد تو واہ گرد بھی معاف کردیں گے۔ لیکن زیتون بی بی ۔ ہشیار پورکواجاڑ کر۔۔۔ میں دلی میں کیسے بس سکتا تھا اور پھر ہر روز وہ دونوں گڑیاں میرے کاندھے پر آ کر مسلسل چالیس سال سے ایک ہی جملہ کہتی رہتی ہیں ۔ موہن سنگھ ظالم۔۔۔ جن معصوم بچیوں کی بے گوروکفن لاشوں سے تم نے اپنی حسرتوں کے محل تعمیر کیے ہیں۔ ان کا ایک ہی پیغام ہے ۔ ایک دن دوارتھیاں تم ہی اٹھاؤ گے۔
زیتون بی بی۔ میری بہن ۔ میں اپنی پگڑی تمھارے پاؤں میں ڈالتا ہوں۔ میرے ظلم کومعاف کر دو۔۔۔ ورنہ ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ مجھ بدنصیب باپ کو دوارتھیاں اٹھانی پڑیں گے۔۔۔
’’ نہیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ موہن سنگھ میں نے اپنے اللہ کی رضا کے لیے تمھیں معاف کیا۔ میرا خدا بھی تمھیں معاف کرے گا۔
دیکھو ۔ یہ لڑکی یقینا تمھاری بیٹی ہے ۔۔۔ تمھیں اس کے ہاتھوں پر مہندی دیکھنے کا کتنا ارمان ہے ۔۔۔ اگر تمھیں یہ تجربہ ہو جائے کہ ان ہاتھوں پر، مہندی کی جگہ خون ہو تو۔۔۔ اورکرپان میں پروئی ہوئی دو معصوم بچیاں۔۔۔
نہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ مجھے معاف کر دو ۔ بہن زیتون بی بی۔۔۔
’ ’ موہن سنگھ ۔۔۔ سردارا۔ باہر لوگ کہہ رہے ہیں کہ کہ اپنے دونوں بچے اوتارا اور کرپا مذہبی جنون کی وجہ سے پرلوک سدھار گئے ہیں۔
’’نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں‘‘ کی آوازوں نے سید سعادت شاہ کے گھر کو سر پر اٹھا لیا تھا۔
________________
دریچہ ادب پاکستان کی سلور جوبلی تقریب
لاہور کے قدافی سٹیڈیم میں، 4 مئی ، 2024 ، کو دریچہ ادب پاکستان کی سپیشل سلور جوبلی کے موقع...