(Last Updated On: )
جلسہ کہاں ہونا ہے…
بھاٹی دروازے پر
کیوں …
رونق زیادہ ہوتی ہے وہاں اور دل کی بات بھی کھل کر کہی جا سکتی ہے۔
دل کی بات اور کھل کے
ہاں جی ۔ دل کی بات اور وہ بھی کھل کے۔ عوامی جذبات کا اظہار صرف بھاٹی دروازے پر ہی ہو سکتا ہے۔
مگر بھائی۔ یار لوگ تو دل کی بات ’’ ٹی ہاؤس‘‘ میں بھی کر لیتے ہیں۔
وہ جی دانش ور ہوتے ہیں ۔ نئی نئی باتیں بنانے والے۔
مگر
عوام کی بات عوامی آدمی ہی کر سکتا ہے۔
ہمارے یہاں عوامی آدمی کی تعریف کیا ہے ۔
وہ جی جو عوام کے دل کی بات کہے۔ عوام کے ساتھ رہے۔ ان کی امنگوں کا ترجمان ہو۔
کیاایسے لوگ اندرون بھاٹی گیٹ بھی رہتے ہیں؟
ارے۔ آپ کیسا سوال کرنے لگے ہیں۔ عوامی آدمی بھاٹی میں کیو ں رہے گا۔ یہاں تنگ و تاریک مکانات میں صرف عوام رہتی ہے، عوامی نمائندے نہیں۔
تو اس کا مطلب یہ لوگ بھاٹی گیٹ سے باہر آتے ہیں … اپنا مجمع لگاتے ہیں۔ ڈگڈگی بجاتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔
دیکھو جی۔ آپ پھر انوکھی بات کرنے لگے ہیں ۔ یہ تو برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ کبھی میاں کی حکومت اور کبھی بی بی کی۔
پھر تم اتنے پرجوش کیوں ہو؟ آج تین دن سے تم دیوانہ وار جلسے کے انتظامات کرتے پھر رہے ہو۔
’’ بس جی۔ یہ جلسہ کامیاب ہو جائے پھر دیکھنا ہماری شان۔
دہ کیسے جی۔ یہ بات آپ کے سمجھ میں آنے کی نہیں ہے ۔ آپ نے کسی سرکاری دفتر میں کام کیا ہے ؟
نہیں
پھر آپ کیا جانیں کہ ۔۔۔
نہیں تم ہی بتلاؤ۔۔۔
میں یہ نہیں بتلا سکتا۔ ویسے موٹی بات سمجھ لو۔ جس پارٹی کاجلسہ بھاٹی گیٹ پر کامیاب ہو جائے بس سمجھو کہ وہ حکومت میں آئی کہ آئی۔
کیسے۔۔۔
یہ جلسہ بھاٹی گیٹ میں رہنے والے اور ان کے ہمدرد مل کر کامیاب بناتے ہیں ۔ آپ نہیں جانتے کہ نتھو پہلوان، بلابٹ، میاں عبداللہ ، چوہدری اللہ رکھا اور حاجی عمر دین جس کے ساتھ ہوں وہ اس علاقے سے الیکشن نہیں ہار سکتا۔
’’ اچھا، یہ سب بھاٹی کے رہنے والے ہیں؟‘‘
نہیں جی۔ اب نہیں رہتے۔ پہلے کسی زمانے میں رہتے تھے۔ اب تو ماڈل ٹاؤن میں رہتے ہیں۔
جب یہ لوگ بھاٹی میں نہیں رہتے تو پھر ان کی اہمیت کیا ہے ۔
وہ جی ۔ ان کا بڑا اثر رسوخ ہے۔ سارا سال ہی عوام کی خدمت کرتے رہتے ہیں ۔ کبھی تھانہ، کبھی کچہری۔۔۔ کبھی اس کا کام ، کبھی اس کا کام۔۔۔ بس شب و روز ایسا ہی ہوتا رہتا ہے۔
یہ ہر کسی کے کام کراتے ہیں۔
ہاں جی ۔ ہر ایک کے لیے ان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اگر یہ نہ ہوں تو ان کے ساتھی موجود ہیں وہ آپ کے مدد کریں گے ۔ بس شرط یہی ہے کہ آپ کو ان کے کہنے پر ووٹ دینا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری بھاٹی ان کی مرید ہے۔
جی ۔ آپ بہت جلد سمجھ گئے۔
ویسے میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے یہ سب ’’ مشہوری‘‘ ہے ۔
نہیں بھائی جی۔ آپ خود دیکھ لو گے کہ جلسے میں کتنے آدمی تھے؟ یہ میدان بندوں سے بھر جائے گا۔
کیا میدان حشر سے بھی زیادہ آدمی ہوں گے۔
وہ جی ۔ کسی کا حشر نشر کرنے کے لیے تو ایک ہی بندہ کافی ہوتا ہے۔
دیکھو جی۔ یہ جلسہ ہو جائے پھر بتلائیں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے ۔
نہیں۔ یہ جلسہ کوئی خاص نہیں ہوگا۔ آخر’’ وہ‘‘ بھی تو زور لگائیں گے ۔ حکومت ہے ان کی۔
بس جی۔ ہمارا سارا زور اسی بات پر ہے کہ وہ بھی ’’ زور‘‘ لگائیں تاکہ بھاٹی کے عوام کی قسمت جاگ جائے۔
پھرآپ دیکھیں گے کیا ہو گا۔
کیا ہو گا یہی تو پوچھ رہا ہوں۔
و ہ جی۔ ہو گا یہ کہ پھر امیر وزیر سب ہمارے محلوں میں آئیں گے۔ گلے شکوے ہوں گے اور رُکے ہوئے کام ہو جائیں گے۔
مگر تمھیں تو جلسہ کامیاب بنانا ہے۔
ہاں جی ۔ میں پھر زیادہ تیز ہو جاؤں گا۔ ہر ایک کو بتلاتا پھروں گا کہ یہ سب کچھ ہر سال ہی ہوتا ہے صر ف وعدوں پر زندگی گزارنا حماقت ہے ۔ لوگ میری باتیں سنیں گے ۔ میں بھاٹی میں رہتا ہوں اور ہر ایک سے واقف ہوں۔ لوگ جانتے ہیں کہ میں برسوں سے عوامی خدمت سرانجام دے رہا ہوں ۔ نوبار جیل اور تین بار کوڑے کھا چکا ہوں۔۔۔
اس کے صلے میں تمھیں کیا ملا۔
مجھے جناب لاہور شہر میں پہچان ملی۔۔۔ اب بی بی میری بات ڈائریکٹ سنتی ہے؟
اچھا ۔ بی بی تمھاری بات سنتی ہے ؟ وہ بھی ڈائریکٹ ۔ خوب بھئی خوب۔
اور جی، یہ جلسہ ہو جائے۔۔۔ پھر دیکھنا۔۔۔ ہر آدمی میری بات مانے گا۔
وہ کیوں۔۔۔
یہ جلسے کا آئیڈیا میں نے دیا ہے۔۔۔ سب پجارو والے سو گئے تھے۔ میں نے کہا ہمت کرو۔ بھاٹی چوک پر آ کر سب کو للکارو کچھ ہلا گلا رہے گا۔۔۔ ہمارا کیا ہے چار دن اندر چلے گئے تو اور کمپنی کی مشہوری ہوگی۔
لیکن تمھارا جلسہ ناکام بھی ہو سکتا ہے۔
اس کے امکانات بہت کم ہیں۔۔۔ بہت دن ہوئی بھاٹی گیٹ پر رونق نہیں ہوئی ہے۔ یہاں کی رونق شہر لاہور کی جان ہے ۔ اسی رونق نے تو بھاٹی کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
اچھا۔ اس جلسے پر کتنا خرچہ ہو گا۔
’’ جو بھی ہو گا وہ پارٹی کرے گی۔‘‘
چلو یونہی سہی۔ پھر بھی پارٹی کتنا خرچ کرے گی۔
بس جی۔ دل کھول کر خرچ کرنا ہے۔ پورے شہر میں پوسٹر لگوا دیے ہیں ۔ گاڑیاں دوردراز سے لانی ہے ۔ خلقت کو جمع کرنا ہے ہر ایک اپنا زور لگائے گا۔
آدمی کہاں سے لاؤ گے۔
پورے پنجاب سے۔ آخر پارٹی کا جلسہ ہے۔۔۔
اوراگر گاڑیاں پولیس نے روک لیں تو؟
وہ جی اور بھی ذرائع ہیں ۔ ریل گاڑیاں ہیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہے ۔ نجی ٹریکٹر ہیں ۔ اپنی گاڑیاں ہیں ۔ اس دن تو پجارو میں بھی بندے بھرے جا سکتے ہیں۔ رہی پولیس تو ہر دور میں وہ یہی کرتی ہے ۔ ہمارا تجربہ ہے جی۔
اور وہ اس میدان میں پانی بھی تو چھوڑ سکتے ہیں؟
’’ مزہ آجائے گا جی۔ پانی چھوڑدیں۔۔۔ کیچڑ میں بھنگڑہ ڈالنے کا مزہ ہی اور ہے اس سے پہلے جلسوں میں سانپ تک چھوڑے گئے ہیں ۔۔۔ پھر کیا ہوا ۔ جلسہ ہر صورت میں ہوتا ہے جی۔
جلسہ ناکام ہو سکتا ہے۔ بہت سے ہتھکنڈے ہیں ۔۔۔
مثلاّ
بھئی وہ بجلی بند کردیں۔ ریلو ں کی پٹڑی جام کر دیں گے ۔ جگہ جگہ راستہ بند کردیں۔ بندے اندر کر دیں۔۔۔ جلسہ کا اجازت نامہ کینسل کر دی۔۔۔ دفعہ ۱۴۴ لگا دیں ۔۔۔ یا پھر۔۔۔
وہ جی کچھ بھی کرلیں۔۔۔ یہ سب باتیں ہمارے پیش نظر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے فائدے میں جائے گا۔ میرے خیال میں اگر اہل لاہور بھاٹی کو ’’ ہائیڈپارک‘‘ بنا دیں تو کیسا رہے گا۔
کیوں ہائیڈپارک بنائیں۔۔۔یہاں صرف سیاسی جلسے اچھے لگتے ہیں ۔ سیاست میں جمہوریت ہی سب سے اچھا طرز حکومت ہے۔ آپ ہمیں اپنی بات کہنے دیں۔۔۔ بس۔۔۔ اتنی سی تو بات ہے۔
’’ یہی بات ہرپارٹی کا کارکن ہر دور میں کہتا رہا ہے ۔ مگر کسی نے کسی کی بات مانی ہے آج تک ۔ آج آپ باہر ہیں ۔۔۔ تو واویلا مچا رہے ہیں۔ کل آپ کی جگہ دوسرا واویلا مچائے گا تو آپ کو سانپ سونگھ جائے گا۔۔۔ یہ معاملہ یونہی چلتا رہے گا۔آپ مجھے یہ بتلائیں کہ اس جلسہ کامقصد کیا ہے۔
وہ جی عوام چاہتے ہیں کہ سیاسی دشمنیاں بند کی جائیں۔ نازیبا مقدمات کا سلسلہ بند ہو۔ مہنگائی کم ہو ۔ غریب کو سکھ کا سانس لینے دیا جائے۔
میرے دوست! پچاس سال سے ڈفلی بج رہی ہے۔ کب تک بجے گی۔۔۔ اور آئی ایم ایف کے بارے میں تمھاری پارٹی کیا کہتی ہے۔
وہ جی۔ عوامی پارٹی ہے ہماری۔ ہم عوام کے ساتھ ہیں۔ آئی ایم ایف کا مسئلہ ہم حکومت میں آنے کے بعد طے کریں گے۔
ویسے جناب آپ اپنا تعارف تو کرایے۔۔۔ بہت دیر سے سوال جواب کر رہے ہو۔۔۔
’’ میں اپنا تعارف تو بعد میں کراؤں گا پہلے آپ بتائیے کہ آپ نے کہا تھا کہ سرکاری کوفتر میں نوکری سے سیاست کا کیا تعلق ہے۔‘‘
وہ جی۔ جب تک سرکاری ملازم کا ’’صاحب ‘‘ سے ڈائریکٹ تعلق نہ ہو جائے و ہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ اس لیے سیاست میں بھی اعلیٰ قائدین سے ڈائریکٹ تعلق ہی کامیاب سیاست دان بناتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ آپ کا شمار اعلیٰ قائدین میں ہو گا۔ اس لیے آپ جو جلسہ کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں؟
وہ جی۔ بی بی مجھے ٹکٹ دینا چاہتی ہیں۔
اچھا۔ پھر تو مزہ آجائے گا۔
جی۔ وہ کام بڑھ جائے گا۔
آپ پھر بھاٹی میں ہی رہیں گے۔
ہاں جی ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ وزیر نہ بنا دیا جاؤں۔
ویسے آپ کی تعریف۔
مجھے اللہ جوائیا شیرکوٹی کہتے ہیں۔ میں تیس سال پہلے ہی بھاٹی چھوڑ گیا تھا۔ آپ کا نام پوسٹروںمیں پڑھا تھا۔ جوانی یاد آ گئی اور میں آپ سے ملنے چلاآیا۔۔۔ اللہ کرے آپ کا جلسہ کامیاب ہو جائے اور آپ کوٹکٹ مل جائے۔۔۔
ویسے ایک راز کی بات بتادیں۔۔۔ آپ بھاٹی کب چھوڑیں گے۔
بس جی۔ وزارت ہی بھاٹی چھڑوا سکتی ہے ۔۔۔ سنا ہے پجارو بھاٹی کی طرف کبھی کبھار ہی آتی اچھی لگتی ہے۔
_______________