گنویری والا چولستان کا ایک معروف ٹوبہ ہے۔جو قلعہ ڈراوڑ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔کئی ہزار سال قبل یہ علاقہ اس وقت کی علاقائی تجارت کا اہم مقام تھا۔ماہرین آثار قدیمہ اس بات پر بہت حیران تھے کہ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان ہونے والے تجارت آمدورفت کے لیے بغیر رکے اتنا لمبا سفر کرنا ناممکن تھا۔کوئی وسطی مقام جہاں قیام و طعام کیساتھ ساتھ محفوظ گزرگاہ کہاں واقع تھی جو ہڑپہ اور موہنجوداڑو کو آپس میں ملاتی تھا۔کئی سوسالوں کی تحقیق کے بعد پتا چلا کہ بہاول پور سے ملحقہ چولستان جو دریائے ہاکڑہ کی قدیم ثقافت کا مرکز رہا ہے اسکا مقام گنویری والا دریائے سندھ کے تجارتی روٹ کے لیے وسطی اور نہایت اہم مقام کا حامل ہے۔گنویری والا کے علاوہ پورے چولستان میں قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں جس پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔گنویری والا اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جہاں باقاعدہ کھدائی کا کام شروع کردیا گیا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے اس حوالے سے مقامی انتظامیہ اور محکمہ آثار قدیمہ اور عالمی ادارے اس منصوبے پر کام کررہے تھے۔لیکن فنڈز۔کی عدم دستیابی اور ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ نہ ہونے کی بناء پر یہ منصوبہ تاخیر سے شروع ہوا ہے۔سابقہ کمشنر بہاول پور ڈاکٹر احتشام انور ۔پروفیسر نصراللہ خان ناصر اور ساجدہ ونڈل کی کاوشیں رنگ لائی اور اب تاریخ کا گمشدہ شہر دریافت ہونے جارہا ہے۔
1970ء کی دہائی میں ڈاکٹر رفیق مغل صحراء چولستان میں گنویری والا کے مقام پر سینکڑوں سال پُرانی تہذیب کے آثار کو سب کے سامنے لائے تھے، گو کہ اس سے پہلے بھی کچھ ماہرین نے اسکی نشاندھی کی تھی لیکن ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنے مفصل تحقیقی پیپر میں دلیل کے ساتھ ثابت کیا کہ گنویری والا میں ایک بڑا شہر مدفون ہے ـ
ڈاکٹر رفیق مُغل پاکستان میں ماہرین آثار قدیمہ کا ایک بہت بڑا نام ہے، اسِ وقت اُن کی عمر 80 سال کے لگ بھگ ہے، لیکن جزبے کے لحاظ سے اُن کے حوصلے ابھی بھی جوان ہیں اور وہ پرانے شہر کو۔ڈھونڈنے کے لیے پرعزم ہیں۔
2016 میں احتشام انور مہار جو اس وقر ڈپٹ کمشنر بہاول پور تھے یونیسکو پاکستان کی غیر ملکی ڈائریکٹر کے ساتھ صحراء چولستان میں دیراوڑ گئے غرض یہ تھی کہ قلعہ دیراوڑ کو یونیسکو کی عارضی لِسٹ ( Tentative Heritage List) میں ڈلوا سکیں ـ تاکہ قلعہ ڈیراور بحالی اور تحفظ کے لیے ماہرین کی خدمات اور فنڈز تک رسائی حاصل کر سکیں، اس کام میں NCA کی سابقہ پرنسپل، پروفیسر ساجدہ ونڈل صاحبہ کی معاونت بھی شامل تھی اور مسلسل کوششوں سے قلعہ ڈیراور یونیسکو کی ( Tentative Heritage List) میں شامل بھی ہوگیا ـ
اِسی دوران ڈاکٹر احتشام انور کو پہلی بار ڈاکٹر نصراللہ ناصر اور پروفیسر ساجدہ ونڈل نے گنویری والا کے متعلق بتایا لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی اور کچھ عرصہ بعد احتشام انور صاحب کا بھی بہاولپور سے تبادلہ ہوگیا ـ
تاہم گزشتہ برس فروری 2023ء میں ڈاکٹر احتشام انور کمشنر بہاولپور ڈویژن بن کر یہاں تعینات ہوئے تو اُنکے زہن کے کِسی گوشے میں گنویری والا نام موجود تھا ـڈاکٹر صاحب نے اس سلسلہ میں تحقیق کرانے کا سوچا کہ اگر گنویری والا واقع کوئی حقیقت ہے تو پھر اس کے لئے کچھ کرنا پڑے گا ـ
انہوں نے پروفیسر ساجدہ ونڈل صاحبہ سے رابطہ کیا مدعا بیان کیا انہوں نے چند نامور ماہرینِ آثارِ قدیمہ اپنے ساتھ لئے اور بہاولپور تشریف لے آئیں، ان ماہرین میں سلیم صاحب، مقصود صاحب، افضل صاحب اور حسن صاحب شامل تھے اور ایک بہت بڑا نام ڈاکٹر رفیق مغل کا تھا۔
اب ڈاکٹر احتشام انور صاحب کہتے ہیں کہ ” میرے دفتر میں ہماری پہلی نشست میں گنویری والا کی موجودگی اور اسکی قدامت کے حوالے سے وہ سب میرے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ بہاولپور سے کوئی ڈھائی گھنٹے کی مسافت طے کر کے ہم چولستان کے ایک بلند اور بڑے ٹیلے پر جا ٹھہرے۔ ڈاکٹر صاحب بتانے لگے گنویری والا ہمارے پیروں تلے اسی ٹیلے کے نیچے مدفون تھا۔
اس ٹیلے پر ہر طرف ٹھیکریاں پھیلی ہوئی تھیں۔ بقول ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کے، یہ اس زمانے میں بسنے والے لوگوں کے برتنوں، ضرورت کی دیگر اشیا اور اینٹوں کی باقیات تھیں۔ ہم سب اس ٹیلے پر پھیل گئے اور اس کی مٹی، اس کے پتھروں، اس کی ٹھیکریوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ لوٹے تو ہر ایک کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ تھا۔
ظروف کے ٹکڑے، کوہان والا ایک کھلونا بیل اوراس کی بیل گاڑی کا پہیہ برتنوں کی باقیات کے نقش بالکل ویسے ہی تھےجیسے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے عجائب گھروں میں دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مغل اور ان کے رفقا نے بتایا کہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی طرح عمومی طور پر اُس دور کے شہر نسبتاً بلند جگہوں پر اور ایک مرکزی ٹیلے کے گرد آباد ہوتے تھے۔ گنویری والا بھی اسی انداز میں آباد کیا گیا تھا۔
گنویری والا ایک اثاثہ تھا، ایک خزانہ تھا جس کی نشاندہی ہو چکی تھی اور جسے اب ڈھونڈ نکالنا تھا ۔
اگلا مرحلہ تھا کہ گنویری والا کی کُھدائی کے لئے اعلی حکام کو قائل کرنا اور اسکے لئے مطلوبہ فنڈ کا حصول، اس سلسے میں ڈاکٹر احتشام انور نے پہلا ٹارگٹ گورنر پنجاب جناب بلیغ الرحمٰن کو چُنا کیونکہ گورنر کا تعلق بہاولپور سے ہے، لہذا سارے متعلقہ افراد نے گورنر صاحب کو قائل کیا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ جو بھی بن پڑا وہ گنویری والا کے لیے کریں گے۔
ایک میٹنگ میں موقع غنیمت جانتے ہوئے احتشام انور صاحب نے سابق نگران وزیر اعلٰی پنجاب، جناب محسن نقوی کو بھی گنویری والا کی بابت مطلع کیا اور ان سے فنڈ مختص کرنے کی گزارش کی تو انہوں نے بھی دلچسپی لی اور فوری طور پر کھدائی کے ابتدائی مرحلے کے لیے مطلوبہ فنڈ فراہم کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
اب آتے ہیں ہم اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کی جانب، یکم مارچ 2024ء بروز جمعۃالمبارک کمشنر بہاول پور ڈویژن ڈاکٹر احتشام انور، معروف آرکیالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیق مغل، سی ای او تھاپ ساجدہ ونڈل اور ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی پنجاب شوذب سعید چولستان کے صحرا میں 7ہزار سال پرانی تہذیب کے شہر گنویری والا کو منظر عام پر لانے کے لیے کھدائی کا افتتاح کیا۔یہ پراجیکٹ حکومت پنجاب، محکمہ آرکیالوجی، ڈویژنل انتظامیہ اور سماجی تنظیم تھاپ(THAAP) کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے پروفیسر ڈاکٹرشازیہ انجم، صدر شعبہ آرکیالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد وقار مشتاق،ڈائریکٹر سی ڈی اے لیاقت علی گیلانی، ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر، امتیاز لاشاری، ماہرین آرکیالوجی، اسسٹنٹ کمشنر یزمان مجاہد عباس، صاحبزادہ عادل عباسی، صاحبزادہ عفان عباسی وسیم اقبال قریشی بطور خاص مدعو تھے ـ
گنویری والا کے مقام چولستان میں گنویری والا شہر کے آثار80 ہیکٹر رقبہ پر مشتمل ہیں یہ آثار انڈس تہذیب کے آثار پر مشتمل ہے اور موہنجودڑو کے بعد گنویری والا دوسرا بڑا قدیم شہر چولستان میں مدفون ہے۔
قلعہ ڈیراور کو اقوام متحدہ کی عارضی تاریخی ورثہ کی لسٹ میں شامل کیا جا چکا ہے اور اقوام متحدہ کی مستقل تاریخی ورثہ کی لسٹ میں شمولیت کے لیے اقدامات کیے جائیں گے تاکہ عالمی اداروں کے تعاون سے قلعہ ڈیراور اور دیگر تاریخی قلعوں کو ان کی تاریخی حیثیت کے مطابق محفوظ وبحال کیا جائے۔
کمشنر بہاول پور ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ صحرائے چولستان میں موجود 500 سے زائد تاریخی سائٹس اور19 قلعوں کو محفوظ و بحال کر کے صحرا میں اوپن میوزیم قائم کیے جائیں گے جس سے نہ صرف تاریخی ورثہ محفوظ ہوگا بلکہ انٹرنیشنل سیاحت کو فروغ دینے کے روشن امکانات حاصل ہوں گے۔
کمشنر بہاول پور ڈویژن نے کہا کہ چولستان کے اندر ملکی معیشت کو بہتر کرنے کا پوٹیشنل موجود ہے۔ ہم اس کی تہذیب کو دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں موجود قدرتی ماحول سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے گنویری والا سائٹ پر کھدائی کے آغاز کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گنویری والا موہنجودڑو سے چھوٹا لیکن ہڑپہ سے بڑا شہر تھا
انہوں نے کہا کہ نوجوان محقق اور جامعات کے طلبا وطالبات کو ریسرچ کے لیے اس سائٹ پر خصوصی توجہ دیں تاکہ دنیا کے سامنے ہم اس گمشدہ تہذیب کے آثار کو لاسکیں۔
ڈی جی آرکیالوجی شوذب سعید بہاولپور کے ڈپٹی کمشنر بھ رہ چکے ہیں نے کہا کہ حکومت پنجاب کے منصوبہ کے مطابق نامور ماہرین آثارِ قدیمہ کی زیر نگرانی گنویری والا کی کھدائی کے کام کاآغاز کردیا گیا ہے اور ماہرین کی8 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی سربراہی ماہر آثار قدیمہ و سابق ڈی جی آرکیالوجی ڈاکٹر رفیق مغل کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر کی دریافت سے ماضی کے کئی اسرار اور تہذیب و ثقافت دنیا کے سامنے آئیں گے۔
سی ای او تھاپ پروفیسر ساجدہ ونڈل نے بتایا کہ گنویری والا کے ٹیلے، قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں اوریہ مقام موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان میں واقع ہے جبکہ موہنجوداڑو سے اس کا فاصلہ 340 جبکہ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین کے مطابق یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا اور اس شہر کے باسی کاشت کاری کرتے اور مویشی پالتے تھے لیکن اب یہاں اس شہر کے کھنڈرات اور دریائے ہاکڑہ کے آثار ہی نظرآتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ آثار 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے دریافت کیے تھے لیکن آج تک یہاں کھدائی نہیں کی جاسکی۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔سی ای او تھاپ پروفیسر ساجدہ ونڈل نے کہا کہ اس مقام پر مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو وادی سندھ کے دیگر مقامات پر پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ مٹی کے برتن اورکچھ نوادرات بھی مشاہدے میں آئے ہیں ـ
کچھ عرصہ قبل لیاقت پور کے قریب چولستانی علاقے میں غیرمقامی گروہ غیر قانونی کھدائی کرتے پکڑا گیا تھا جو زیر زمین موجود کسی شہر کے مدفن سے قیمتی اشیاء نکال کر لیجارہا تھا۔جسکی نشاندہی خانپور کٹورہ کے صحافی قمر جتوئی نے کی تھی۔اور اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر محبوب نے آر پی او بہاول پور اور دیگر افسران کو آگاہ کرکے اس غیر قانونی کُھدائی کو رکوایا تھا۔
یہاں ایک اہم بات کرنا بھی ضروری ہے کہ گنویری والا سے نکلنے والی اشیاء کو ہڑپہ کے میوزیم میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وجہ بتائی جارہی ہے کہ ان اشیاء کو وہاں لے جاکر پرکھا جائے گا جوکہ انتہائی غیر مناسب فیصلہ ہے۔ تشویش ہے کہ ان اشیاء کی ریپلیکا بناکر واپس نا بھیج دیا جائے کیونکہ جب بھی کسی علاقے سے قدیم ثقافت کے آثار ملتے ہیں تو ایک مخصوص لابی ان اشیاء تک رسائی اور انہیں عالمی مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچنے کے لیے حرکت میں آجاتی ہے ۔گنویری والا سے نکلنے والی اشیاء کو ہڑپہ بھیجنے کی بجائے بہاول پور میوزیم میں رکھا جائے ۔ان کی جانچ پڑتال اور تحقیق کے لیے مقامی سطح پر موجود محکمہ آثار قدیمہ کو ترقی دیکر مزید ماہرین آثار قدیمہ بھرتی کیے جائیں۔گنویری والا کے مقام پر مرکزی عجائب گھر قائم کیا جائے تاکہ اس خطے کی اشیاء اور نوادرات یہیں پر موجد رہیں۔ گنویری والا جدید دور کی اہم بازیافت ہے۔جو خطے کی سیاحت اور معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔
راجہ شفقت محمود
آواز وسیب
بہاول پور
03005703652