جنگ ، تباہی ، آئینے اور بقاء کے راستے
( اطالوی اداکارہ صوفیہ لارین پر ایک نوٹ )
قدرت کے نظام میں جہاں اور بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں وہاں آفات بھی ایک لازمی امر ہیں ۔ یہ اسی قدرت کی دین ہے کہ جہاں حیاتیات بستی ہیں وہاں وہ برتنوں کی طرح آپس میں رگڑ بھی کھاتی ہیں اورکھڑکتی بھی ہیں ۔ انسانی معاشروں کا بھی یہی عالم ہے ۔ انسانی تاریخ اس رگڑ ، کھڑک اور جنگوں سے بھری پڑی ہے ۔ قدرتی آفات ہو یا انسانوں کی باہمی جنگ وجدل یہ جہاں حیات کے ایک حصے کو کھا جاتی ہے وہیں یہ بچ جانے والی باقی انواع حیات کو بقاء کے نئے ڈھنگ بھی سکھاتی ہے ۔ فاتح اپنے نقصان کا ازالہ اور طرح سے کرتا ہے جبکہ مفتوح اپنی ہار کو کچھ اور طرح سے دیکھتا ہے اور وہ راہیں بناتا ہے جس کا ادراک ہارنے والے کو ہی ہو سکتا ہے ۔ بیسویں صدی کی دوسری بڑی جنگ نے انسان کو ایک طرف جوہری تباہ کاری سے دوچار کروایا تھا اور اتحادیوں کی جیت کے بعد جرمنی ، جاپان اور اٹلی کو چت اور بے بس کرکے رکھ دیا تھا ۔ اس جنگ کے اسباب کیا تھے ، کون استعماری تھا ، جمہوریت پسند تھا اور کون فاشسٹ یہ بحث یہاں موضوع نہیں ہے ۔ ان ملکوں اور دیگر ہارے ملکوں کے لوگوں نے اپنی بقاء اور سماج کی پھر سے استواری کے عمل کے دوران کچھ نئے راستے بھی دریافت کئے تھے ۔
اگر ہم فنون لطیفہ کے میدان ’ فلم ‘ کی بات کریں تو دوسری جنگ عظیم سے پہلے جہاں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور امریکہ اس کھیتر کے آگو تھے وہاں اٹلی بھی کچھ پیچھے نہیں تھا ۔ خاموش فلموں کے زمانے میں ہی اس ملک میں ’اینرکو گوازونی‘ کی ’ کو ویدس ' ( Quo Vadis) 1913 ء اور ’جیووانی پیسترونی‘ کی ’ کبیریا‘ (Cabiria ) 1914 ء جیسی فلمیں عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا چکی تھیں ۔ ٹاکیز کے آنے پر جن اطالوی فلموں نے سینما کی دنیا میں اپنی پہچان بنائی وہ امریکی مزاحیہ فلموں کی طرز پر بنی فلمیں تھیں جن میں اشرافیہ کا ماحول رکھنے والے سیٹس (Sets) ، امریکی چائلڈ سٹار’ شرلے ٹمپل ‘ جیسے گھنگھریالے بال رکھنے والے بچے اور مختلف انواع کے ٹیلی فون سیٹس خاصہ تھے ( اس وقت یورپ میں بھی ٹیلی فون سیٹ اشرافیہ کے گھروں کی بیٹھکوں کی زینت ہی ہوتا تھا جبکہ عوام پبلک بوتھوں کے سہارے ہی زندہ رہتی تھی ) ۔ ان فلموں کو اسی حوالے سے ’ سفید ٹیلی فون‘ (Telefoni Bianchi) کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب نیشنل فاشسٹ پارٹی 1924 ء سے حکومت میں آ چکی تھی اور’ ٹیلی فونی بیانچی‘ طرز کی فلموں کے علاوہ بقیہ زیادہ تر کا شمار ’ پروپیگنڈا ‘ فلموں کے زمرے میں ہی ہوتا تھا ۔ فاشسٹ حکومت کے زمانے میں فلم کی ترقی کے لئے اگر کوئی کام ہوا تو صرف اتنا تھا کہ ’ سنسیتا‘ (Cinecittà) جیسے فلم سٹوڈیو وجود میں آئے جو دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی بمباری سے تباہ ہو گئے تھے ۔ جنگ کے خاتمے تک مسیولینی حکومت کا نہ صرف خاتمہ ہوا بلکہ وہ فرار کے دوران اطالوی مزاحمتی تحریک کے کارکنوں کے ہاتھوں نہ صرف پکڑا گیا بلکہ مارا بھی گیا ۔
جنگ نے جہاں اٹلی میں ہر طرح کی تباہی پھیلائی تھی وہیں اس کی فلمی صنعت بھی زبوں حالی کا شکار ہوئی ۔ فلم سٹوڈیو بمباری سے تباہ ہوئے اور مہاجرین کی آماجگاہ بنے ایسے میں1910 ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے’ ویٹوریو ڈی سیکا ‘ (Vittorio De Sica) جیسے اداکاروں/ ہدایتکاروں نے فلمسازی کے فن کو ایک نئی ڈگر پر ڈالا ۔ دوسری جنگ عظیم میں اطالوی فلمی سٹوڈیوز کی تباہی اور معاشی بدحالی نے انہیں کم مالی اخراجات کے ساتھ حقیقی جگہوں پر فلم بندی کرنے کی طرف راغب کیا ۔ ڈی سیکا اپنی فلم ’ شو شائن 1946 ء‘ (Sciuscià) تک آتے آتے جنگ کے دوران پانچ فلمیں بنا چکا تھا ۔ ’ شو شائن ‘ دو جوتے پالش کرنے والے بچوں کی کہانی ہے جو گھوڑے خریدنے کا خواب رکھتے ہیں ۔ اس نے 1948 ء کے آسکرز میں وہ اعزاز حاصل کیا جسے آج ’ بیسٹ فارن لینگوئیج فلم ‘ کا ایوارڈ کہتے ہیں ۔ یہ سنیما کی تاریخ میں ایک نئے باب اور ایک نئی تحریک کا آغاز کا تھا ۔ ’ نیو ریلیزم‘ کی اس تحریک نے عالمی سطح پر ساری زبانوں بننے والی فلموں پر دیرپا اثرات چھوڑے ۔ ڈی سیکا کی فلم ’ سائیکل چور 1948 ء‘ (Ladri di biciclette ) اس کی دوسری فلم تھی جو اسی ’ نیو ریلیزم تحریک کی دوسری اہم اور نامورفلم ہے ۔
19600 ء کی دہائی کے اوائلی سالوں میں ، میں ڈی سیکا کو صرف ایک اداکار کے طور پر جانتا تھا ۔ میں نے اسے ’ راک ہڈسن ‘ کے ساتھ فلم ’ وداع ِ جنگ ‘ (A Farewell to Arms ) میں دیکھا تھا ۔ راک ہڈسن اس فلم کا ہیرو فریڈرک ہنری تھا جبکہ ڈی سیکا اس کا دوست میجر رنالڈی بنا تھا ( یہ 1957 ء کی بنی فلم تھی ۔ میں نے یہ فلم اپنے والد کے ہمراہ لاہور کے اوڈین سنیما میں کسی اتوار کو میٹنی شو میں دیکھی تھی ۔ سن مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ، شاید یہ 1963 ء تھا ۔)
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں درآمد ہونے والی بیشتر غیر ملکی فلمیں ( انگریزی زبان کی/ انگریزی میں ڈب شدہ ) پہلی و دوسری جنگ عظیم کے ارد گرد ہی گھومتی تھیں ۔ انہی دنوں میں نے ایک اور فلم دیکھی ۔ یہ ایک عورت’ سیسرا ‘کی کہانی تھی جو اپنی بارہ چودہ سال کی لڑکی کے ہمراہ روم ، جسے اتحادی ہوائی جہازوں کی بمباری نے بری طرح تباہ کر دیا ہوتا ہے ، سے جان بچانے کی خاطر نکلتی ہے تاکہ اپنے پہاڑی گاﺅں میں جا بسے ۔ اسی ہجرت کے دوران ایک مقامی کمیونسٹ دانشور کے سمجھانے پر وہ بیٹی کو ہمراہ لئے واپس لوٹتی ہے ۔ روم واپسی کے دوران ِ سفر دونوں ماں بیٹیاں اتحادی فوجوں کے سپاہیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جو انہیں ایک گرجا گھر میں جبری زنا کا نشانہ بنا ڈاتے ہیں ۔ اس فلم کا اردو نام کیا تھا مجھے یاد نہیں البتہ انگریزی میں یہ ’ ٹو وومن ‘ ( Two Women) تھا ۔ اس میں ماں کا کردارصوفیہ لارین ادا کر رہی تھی اور فلم کو ڈی سیکا نے ڈائریکٹ کیا تھا ۔ صوفیہ لارین وہ دوسری اطالوی اداکارہ ہے جس سے میں اپنی فلم بینی کے اس ابتدائی دور میں متعارف ہوا تھا ۔ اچھے قد کاٹھ ، چوڑے شانوں اور بھاری سینے والی اس اداکارہ سے قبل میں اطالوی اداکارہ ’ جینا لولو بریجیڈا ‘ کو پہلے ’ ہنچ بیک آف ناٹرڈیم ‘ اور ’ کم ستمبر ‘ ( Come September ) میں دیکھ چکا تھا ۔ اس فلم سے مجھے یہ بھی علم ہوا کہ ڈی سیکا ایک اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا فلمی ہدایت کاربھی ہے ۔ ( ’ٹو وومن ‘ 1961ء کی فلم ہے جو اطالوی ادیب رابرٹ موراویا کے اسی نام کے ناول سے ماخوذ ہے ۔ اس فلم نے جہاں صوفیہ لارین کو1962ء کا آسکر دلایا بلکہ دیگر بیسیوں دیگر ایوارڈز نے اسے عالمی شہرت بھی دلائی ۔ اس فلم میں فرانسیسی اداکار ’ژاں پال بلمنڈو‘ اوراطالوی اداکارہ’ ایلونورا براﺅن‘ بھی ایک مقامی کمیونسٹ دانشور اور بیٹی کے کردار نمایاں ہیں ۔ یہ فلم جنگ کی ’ Glory ‘ کا ترانہ گانے کی بجائے اس کے خوفناک اثرات میں سے ایک ’ زنابالجبر‘ پر ایک عمدہ فلم ہے ۔ )
دو ایک سالوں کے بعد ہی ڈی سیکا کی بنائی اور صوفیہ لارین کی اداکاری میں مجھے فلم ’ کل ، آج اور کل‘ ( Yesterday, Today and Tomorrow ) دیکھنے کا موقع ملا ۔ مجھے اس وقت یہ فلم کچھ زیادہ سمجھ نہیں آئی تھی ۔ اس فلم میں صوفیہ لارین کے ادا کئے کردار’ ایڈلینا ‘،’ آنا ‘اور ’مارا ‘سب آپس میں گڈ مڈ ہو گئے تھے ۔ اسی طرح اس کے مد مقابل کام کرنے والے ہیرو کا نام جو کہیں ’ کارمین ‘ تھا ، کہیں ’ رینزو‘ اور کہیں’ آگسٹو‘ بھی پلے نہ پڑا ۔ ہیرو اور ہیروئن کے ان تین تین کرداروں میں کیا چیز مشترک تھی ، ڈی سیکا نے ایک ہی فلم میں تین کہانیاں کیوں پیش کی تھیں ، یہ سب بھی میری سمجھ سے بالا تھا ۔ والد صاحب کا سمجھایا بھی کچھ کام نہ آیا ۔ ( ’Ieri, oggi, domani‘ سن 1963 ء کی فلم ہے ۔ اس نے 1964 ء کا ’ بیسٹ فارن لینگوئیج فلم ‘ کا آسکر جیتا تھا ۔ وی سی آر کی آمد کے بعد میں نے اس فلم کو دوبارہ دیکھا اور تب جانا کہ ڈی سیکا اس فلم میں کس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد کے اطالوی معاشرے کا ’ کراس سیکشن ‘ پیش کر رہا ہے اوراس نے طنز کرتے ہوئے ’ ایڈلینا ‘،’ آنا ‘اور ’مارا ‘ کی شکل میں عورت ذات کے المیے کو اجاگر کیا ہے ۔ )
’ سن فلاور‘ ( Sunflowerr ) ڈی سیکا کی ہدایت کاری میں اور صوفیہ لارین کی ایک اور اہم فلم ہے جو میں نے غالباً 1972 ء میں الفلاح سینما لاہور میں دیکھی تھی ۔ یہ جنگ کے انسانی معاشروں پر اذیت ناک اثرات میں ایک اورکی عکاس ہے جس میں سماجی اتھل پتھل اورخاندانوں کا ٹوٹنا اور بننا موضوع ہے ۔ ’ جیووانا ‘ اور ’ انتونیو‘ کی یہ کہانی گو ’ ایک مرد اور دو عورتوں‘ کی مثلث پر ہے لیکن جنگ ’ جیووانا ‘ اور ’ انتونیو‘ کی زندگی کو کس طرح متاثر کرتی ہے اوردوسری عورت ’ ماشا ‘ روسی محاذ پر انتونیو کی زندگی میں کیسے در آ تی ہے اور کیونکر اطالوی محبتی جوڑا ٹوٹ کر بکھرتا ہے۔ اس فلم میں دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ ( سن فلاور 1970 ء کی فلم ہے ۔)
پاکستان میں ضیاءالحق کی مارشل لاء ( جولائی 19777ء ) لگنے تک جب سینما کلچر اپنے جوبن پر تھا میں نے صوفیہ لارین کی کئی اور فلمیں سینماﺅں میں دیکھیں جن میں’ اٹیلا‘ ،’ دی فال آف دی رومن ایمپائر‘ ، ’ اے سپیشل ڈے ‘ اور ’ کیسنڈرا کراسنگ ‘ قابل ذکر ہیں ۔ صوفیہ لارین کی اداکاری میں ڈی سیکا کی آخری فلم ’ The Voyage ‘1974 میں نے سینما میں نہیں دیکھی تھی ۔ جولائی 1901ء میں پیدا ہونے والا ڈی سیکا اِسی برس 73 برس کی عمر میں نومبر میں فوت ہو گیا تھا ۔ اس کی یہ فلم میں نے وی ایچ ایس کسیٹ پر دیکھی اُسی طرح ، جس طرح صوفیہ لارین کی فلمیں ’Grumpier Old Men‘ 1995 اور ’ Nine ‘ 2009 بعد ازاں ڈی وی ڈی پر دیکھیں ۔ میں نے تاحال اس کی آخری پرفارمنس اطالوی ٹیلی فلم ’ آئینوں سے بھرا میرا گھر‘ (La mia casa è piena di specchi ) میں دیکھی ہے جو 2010 ء میں سامنے آئی تھی اور میں نے ڈاﺅن لوڈ کرکے دیکھی تھی ۔ صوفیہ اس فلم میں کام کرتے وقت 75 سال کی تھی اور اس نے خود پر لکھی سوانح حیات کو اس فلم کا موضوع بنایا تھا ۔ یہ سوانح اس کی ہمشیرہ ’آنا ماریا ‘ نے تحریر کی تھی ( یاد رہے کہ صوفیہ لارین اصل نام ؛ ’ Sofia Villani Scicolone‘ اور اس کی ہمشیرہ ماریا ، ’روملڈا ویلانی‘ کے بطن سے اس وقت پیدا ہوئیں تھیں جب روملڈا کا معاشقہ ’ ریکارڈو سسیولون‘ سے چل رہا تھا لیکن ریکارڈو نے روملڈا سے شادی نہیں کی تھی اور اسے چھوڑ دیا تھا ۔ ) یہ بائیو پکچر صوفیہ کی پیدائش سے ہی شروع ہوتی ہے اور صوفیہ نے اس میں اپنی والدہ کا کردار ادا کیا ہے ۔ دو حصوں پر مشتمل یہ فلم لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے کی ہے ( یہاں ایک بات اہم ہے کہ صوفیہ اپنی سوانح پر فلم اپنی والدہ کی زندگی میں ہی بنانا چاہتی تھی لیکن اس کی والدہ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا تھا ۔ ویسے تو’ روملڈا ‘ 1991ء میں فوت ہو گئی تھی لیکن صوفیہ لگ بھگ اٹھارہ سال اپنی والدہ کے کہے کا پالن کرتی رہی اور اس نے اپنی سوانح پر فلم نہیں بنائی ۔ ویسے بھی اگر غور کیا جائے تو یہ صوفیہ کی کہانی کم اور اس کی نانی وماں کی کہانی زیادہ ہے جنہوں نے صوفیہ اورماریا کو انتہائی نامصائد حالات میں پروان چڑھایا تھا ۔ )
صوفیہ لارین نے، جسے بچپن میں اس کے ہمجولی ’ ٹوتھ پِک‘ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے، جوان ہوئی توچوڑی چکلی اور ساڑھے پانچ فٹ سے زیادہ قد کی مالکہ تھی ۔ اس نے 16، 35 اور 70 ایم ایم کے سلولائیڈ کے زمانے سے ڈیجیٹل دور میں قدم رکھا اور نوے سے زائد فلموں میں کام کیا ۔ یورپ اور ہالی ووڈ کا شاید ہی کوئی مرد ’ سٹار ‘ ہو گا جس نے اس کے ساتھ کام نہ کیا ہو ۔ اس نے اطالوی فلم میکر ’ کارلو پونتی ‘ سے 1957ء میں تعلق جوڑا تھا ۔ اس وقت وہ 23 جبکہ پونتی 45 برس کا تھا ۔ ان کا یہ رشتہ کارلو پونتی کی وفات (2007ء ) تک قائم رہا ۔ کارلو پونتی سے اس کی وفاداری اتنی پختہ تھی کہ کیری گرانٹ جیسے بڑے اداکار کا عشق بھی اسے پونتی سے الگ نہ کر سکا تھا ۔ کارلو پونتی سے صوفیہ کے دو بچے ہیں ۔ ایک بیٹا موسیقار ہے جبکہ دوسرا فلمی ہدایت کار ہے ۔
صوفیہ لارین 20 ستمبر 19344 ء کو روم ، اٹلی میں پیدا ہوئی تھی ۔ اس مضمون کو لکھتے وقت وہ زندگی کی82 بہاریں دیکھ چکی ہے اورزیادہ تر جنیوا میں رہتی ہے گو اس کے نیپلز اور روم ، اٹلی میں بھی گھر موجود ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لانگ لِوو صوفیہ لورین
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10154070924716895