"مثل برگ آوارہ" کا گیارہواں در
مینیجرتاجک کی روسی بیوی لینا عمرمیں اس سے خاصی بڑی تھی۔ اس کا پہلے روسی خاوند سے ایک جوان بیٹا تھا۔ وہ جہاں ایک طرف گفتگو میں مصنوعی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تھی، جیسے وہ ابھی تک یونیورسٹی کی لیکچرر ہو، جی ہاں تاجک نے اپنی استانی ہی کو اچک لیا تھا یا شاید استانی نے اپنے شاگرد تاجک کو، وہاں بعض اوقات اپنے رویوں میں بہت چھچھوری اورمائل بہ جنس ہوا کرتی تھی۔ مثال کے طورپراگروہ اپنے خاوند کے ہمراہ پہنچی اورطغرل ابھی بستر پردرازتھا تووہ اپنے شوہر کے سامنے، طغرل کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتی تھی یا اگر طغرل کو چومتی تو ہونٹوں کے آس پاس تاکہ اس کے ہونٹ طغرل کے ہونٹوں سے مس ہو سکیں۔ طغرل کو بھی جوابا" چومنا پڑتا تھا لیکن اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ لینا کے ہونٹوں سے دوررہے۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ اس خاتون کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک بے نام سی وحشت ہوتی تھی دوسرے اس کے ہونٹ ہروقت نم دکھائی دیتے تھے۔ طغرل کبھی فیصلہ نہیں کرپایا تھا آیا اس خاتون کے ہونٹ تھوک سے نم تھے یا اس نے کوئی ایسی لپ سٹک استعمال کی تھی جو ہونٹوں کو نم دکھاتی تھی۔ قابل غوربات یہ تھی کہ مینیجر تاجک اپنی اہلیہ کی ان حرکات کوعموم لیتا تھا یا زیادہ سے زیادہ اس کی ایسی حرکتوں پرمسکرا دیا کرتا تھا۔ مگر سب کے سامنے اس کے چہرے سے کبھی مترشح نہیں ہو سکا تھا کہ وہ اس وتیرے سے نالاں یا آزردہ تھا۔
تاجک کے اس رویے کی اس روز وضاحت ہو گئی تھی جب اس نے بڑے آرام سے طغرل سے کہا تھا،" ہم بہت لبرل ہیں۔ اگر اپنے گھرمیں میں کسی اورعورت کے ساتھ ملوث ہوتا ہوں تو عمارت کی دوسری منزل پر اوپر والے گھر میں آپ کی بھابھی کسی کے ساتھ مصروف ہوتی ہے۔ ہم اس کوعمومی انسانی عمل خیال کرتے ہیں"۔ طغرل کوتو ویسے ہی اس بھابی سے خطرہ محسوس ہوتا تھا تبھی وہ اس کو اس کے نام سے نہیں بلاتا تھا بلکہ خاص طور پر "بھابی" کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔
نینا کو کئی بار اس خاتون کا رویہ مشکوک لگا تھا۔ اس نے عورت کی حیثیت سے یہی باورکیا تھا کہ ہونہ ہواس کو طغرل نے ہی شہہ دی ہوگی تبھی تو وہ اتنی فرینک ہوتی ہے۔ اکیلے میں وہ طغرل کو کئی بار اس سلسلے میں طعنہ دے چکی تھی اور طغرل نے بھی ہرباراسے سمجھانے کی سعی لاحاصل کی تھی کہ دیکھو اس خاتون کو اگر میں بھابی کہتا ہوں تو بھابی سمجھتا بھی ہوں اورہمارے ہاں بھابیوں کو ماؤں بہنوں سے کم خیال نہیں کیا جاتا۔ نینا کہہ دیا کرتی تھی، کونسی یہ تمہاری اصلی بھابی ہے اور طغرل سٹپٹا کر رہ جایا کرتا تھا۔
بھابی لینا ایک بار کوئی فارم لے کر آئی تھی جو امریکہ میں کام پانے سے متعلق تھا۔ اسے پر کرنے میں اس کو طغرل کی مدد درکار تھی۔ طغرل نے بڑے انہماک سے اس کی معاونت کی تھی اور فارم پر کرنے کے سلسلے میں مناسب مشورے بھی دیے تھے۔ طغرل نے پوچھا بھی تھا کہ خاوند ساتھ جائے گا کیا؟ لینا کا جواب تھا کہ پہلے وہ اپنے چھوٹے بچے کے ہمراہ جائے گی۔ تاجک سے اس کا عالم نام کا اڑھائی سالہ بچہ تھا، پھر مناسب وقت پر خاوند کو بھی بلوا لے گی۔
بہت بعد میں جب پانی سرسے گذرکرخشک ہوچکا تھا تونینا نے طغرل کو بتایا تھا کہ اس نے اسے متنبہ کیا تھا کہ تم جواس کو جانے کے سلسلے میں مدد دے رہے ہو، ان کے ارادے کوئی اچھے نہیں لگتے لیکن یا تو نینا کا خیال تھا کہ اس نے ایسا انتباہ کیا ہوگا یا پھر طغرل نے سنی ان سنی کر دی ہوگی۔ فوری طورپرکوئی ایسا احتمال دکھائی نہیں دیا تھا۔
اظفرطغرل کے دفتر میں ہی مکین تھا۔ وہ صبح کو نکل جاتا تھا اورشام کوآتا تھا۔ اس نے طغرل کے ساتھ کام کرنے کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ پھروہ پاکستان گیا تھا اوروہاں عاصم سے ملا تھا۔ اظفر کے رویے گرگٹ کی مانند تھے یعنی رنگ بدلتے ہوئے۔ وہ شخص شخص کو دیکھ کراورموقع و محل کی مناسبت سے لجاجت کی حد تک میٹھا، جھک کر ملنے والا بن جاتا تھا، کسی سے یکسربے رخی برتتا تھا۔ مفت مشورے دینے میں طاق تھا۔ بظاہر کوئی مفاد نہیں اٹھاتا تھا اوراسی انداز میں اس کا زیادہ بڑا مفاد مضمر ہوتا تھا۔ کسی پر ضرورت کے وقت خرچ کر دیتا تھا اوراس سے غیرمتوقع طورپرکچھ بڑھ کروصول بھی کر لیا کرتا تھا۔ طغرل اس کی ایسی متغیر مستحکم شخصیت سے شناسا ہونے کے باوجود اس کے ساتھ مناسب رویہ رکھتا تھا۔
جب عاصم نے ایک ٹیلیکس میں اظفر کا ذکرکیا اور طغرل کو اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی ہدایت کی تو طغرل فقط مسکرا دیا تھا کیونکہ طغرل کو یقین تھا کہ اظفر نے عاصم کو گرویدہ بنا لیا ہوگا کہ وہ اس کا بہت زیادہ خیر خواہ ہے، طغرل کو بھی اظفر یہی باورکرایا کرتا تھا۔ پاکستان سے لوٹنے کے بعد اس نے طغرل کو بتایا تھا کہ وہ وہاں عاصم سے ملا تھا اوراپنی خدمات بلا معاوضہ پیش کی تھیں۔
طغرل نے اس سے کہا تھا کہ وہ اگرمارکیٹنگ کرسکتا ہے تو کرے۔ اس نے "سیل" لگانے کا مشورہ دیا تھا جس کی طغرل نے اجازت دے دی تھی۔ نزدیک کی عمارتوں میں اشتہارلگانے اورخواتین کو مال دیکھنے اور سستے داموں خرید کرنے پر قائل کرنے کا کام اس نے اپنے ذمے لے لیا تھا یوں اس عمل سے کچھ نہ کچھ مال نکلنے لگا تھا۔ وہ کیا چیز کس بھاؤ بیچتا تھا، کتنا مال بیچتا تھا، اس کی پڑتال کرنے کا طغرل نے کبھی تردد نہیں کیا تھا۔ وہ شام کو جتنے پیسے اورجو حساب طغرل کو پیش کرتا تھا طغرل اسے من وعن قبول کرلیا کرتا تھا۔
اب اظفر کہیں نہیں جاتا تھا۔ طغرل کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرتا تھا۔ الیکٹرک ہیٹرپرکبھی آلو کے چپس تل کردے رہا ہے توکبھی کھانا بنا رہا ہے۔ کھانا لذیذ بناتا تھا۔ یوں اس کی رہائش کے ساتھ ساتھ اس کے کھانے پینے کا بندوبست بھی دفتر کی جانب سے ہو گیا تھا کیونکہ طغرل کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری کی مد میں جو وہ مانگتا تھا اسے دے دیا کرتا تھا بلکہ کچھ عرصے کے بعد تو نوبت یہاں تک آ گئی تھی کہ طغرل نے اس کو حساب کتاب اپنے پاس ہی رکھنے کا کہہ دیا تھا، جب ضرورت پڑتی تو طغرل اظفر سے کچھ لے لیا کرتا تھا۔
ان ہی دنوں ایک روزحسام نے بتایا تھا کہ اسے سرراہ کوئی ذہین لڑکی ملی تھی جس کو فلسفے سے شغف تھا۔ مارینا نام کی اس لڑکی کو حسام نے رابطے کی خاطرطغرل کے دفترکا نمبر دے دیا تھا۔ اس نے طغرل سے درخواست کی تھی کہ اگراس کی غیرموجودگی میں وہ فون کرے تو آپ اس سے خود ہی مناسب طریقے سے نمٹ لیجیے گا۔ ایک روز کسی کا فون آیا تھا، طغرل مارینا نام کی کسی لڑکی کے بارے میں بھول چکا تھا لیکن جب اس نے حسام کا حوالہ دیا تووہ سمجھ گیا تھا۔ مارینا نے مدد کی درخواست کی تھی۔ استفسار پراس نے بتایا تھا کہ اسے عارضی طور پررہائش درکارہے۔ ظغرل اس کا کیا جواب دیتا، یہی کہا کہ دفتر میں بہت سے کمرے ہیں۔ ایک میں تم بھی عارضی طورپرشب بسری کر سکتی ہو۔ اس دوران اظفر نے دفتر کے قریب ہی ایک بوڑھی کے کوارٹر کا ایک کمرہ کرائے پر لے لیا تھا اور ازبکستان سے اپنی دوست گل چہرہ کو واپس بلا لیا تھا جسے بہت ماہ پہلے اپنا کرائے کا مکان چھن جانے اور طغرل کے دفتر میں منتقل ہونے پرازبکستان بھیج دیا تھا۔
طغرل ایک بارپھرمارینا نام کی اس لڑکی کو بھول گیا تھا۔ وہ کہیں کسی کام سے نکلا ہوا تھا جب دفتر لوٹا تو دفتر کا عملہ جا چکا تھا۔ طغرل حسب معمول داخل ہوتے ہی راہداری کوعبورکرتے ہوئے اپنے دفترمیں چلا گیا تھا البتہ اسے جاتے ہوئے دکھائی دیا تھا کہ اظفرحسب معمول کھانا تیارکررہا ہے اوربکھرے بکھرے گھنے بالوں والی کوئی لڑکی اس کے نزدیک کھڑی ہوئی ہے۔ تھوڑی دیرمیں اظفر نے آ کر بتایا تھا کہ کوئی لڑکی ملنے آئی ہے۔ "لڑکی؟" طغرل نے تحیر سے کہا تھا کیونکہ وہ تو سمجھا تھا کہ یہ بھی کوئی ہمسائی ہوگی جسے اظفر نے گھیرا ہوگا، پھر کہا تھا، "اچھا میں وہیں آتا ہوں"۔
یہ وہی لڑکی تھی مارینا نام کی جو حسام کی واقف ہوئی تھی۔ سنجیدہ اورڈری ہوئی سی لگتی تھی۔ ہرجانب بکھرے ہوئے گھنے خاکستری بال تھے جن میں کہیں کہیں چاندی کی سی چمکتی تاریں تھیں۔ آنکھیں بڑی بڑی اورہرجانب دیکھتی ہوئیں۔ قد بوٹا سا اورچہرہ بالوں کی رنگت سے بہت جوان، ظاہر ہے حسام کے بقول یونیورسٹی کی لڑکی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ جارجیا کے شہرتبلسی سے ہے اور پڑھنے کے لیے ماسکو آئی ہے۔
ایک عمومی تاثّریہی ہوتا تھا کہ جو لڑکی ایک غیر مرد کے پاس رہنے کے لیے آ گئی ہے، اسے اس مرد کے ساتھ سونے پربھی اعتراض نہیں ہوگا۔ کھانے سے پہلے اظفراورطغرل نے بیئر پی تھی مگر اس لڑکی نے بیئرپینے سے معذرت کر لی تھی۔ اظفر سونے کی خاطراپنے کرائے کے کمرے میں چلا گیا تھا۔ طغرل نے زمین پرایک بستر لگا دیا تھا جس میں دو کیے تھے۔ وقت گذرے جا رہا تھا مگر مارینا ٹانگیں سکیڑے کرسی پر بیٹھی اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ طغرل کو تھوڑا سا اضطراب ہوا تھا لیکن اس نے سوچا کہ صبرکر لینے میں کیا حرج ہے۔ اب وہ ایسا وحشی بھی نہیں تھا چنانچہ اس نے مارینا سے پوچھ ہی لیا کہ کیا وہ علیحدہ سونا چاہتی ہے؟ اس نے اثبات میں سرہلا دیا تھا۔ طغرل اسے خدا حافظ کہہ کراپنے دفتر میں سونے چلا گیا تھا۔ طغرل کے نکلتے ہی لڑکی نے کمرہ اندر سے چٹخنی چڑھا کربند کر لیا تھا۔
چونکہ لڑکی مجبوری کے عالم میں رہنے آئی تھی اس لیے طغرل اس کے ساتھ دست درازی سے گریزکررہا تھا۔ اظفر نے بتایا بھی تھا کہ مارینا عجیب سی لڑکی ہے۔ کمرے کے دروازے کی چٹخنی چڑھانے کے علاوہ دروازے کے آگے رکاوٹ ڈالنے کی خاطرمیز کرسیاں بھی رکھ چھوڑتی ہے۔ طغرل کو نفسیات سے شغف تھا، وہ کہتا تھا کہ ٹھیک ہے اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ پھر سوچتا تھا کہ اس کا نفسیاتی مسئلہ کوئی الجھا ہوا مسئلہ تھا۔
مارینا سے طغرل کی اچھی گپ شپ تھی۔ اس نے مایا نام کی اپنی کسی جارجیائی سہیلی کے گن گانے شروع کیے تھے اورخیال ظاہر کیا تھا کہ طغرل کو اس سے متعارف کروا دیا جائے۔ اس نے اس کی عمر29 برس بتائی تھی لیکن جس طرح اس کی عادات کا ذکر کرتی تھی اس سے یہی لگتا تھا جیسے اس کی سہیلی "پرنسس آف ونڈسر" ہوگی۔ مثال کے طورپر یہ کہ جب مایا آئے گی تواسے میٹرو سے لانے کے لیے گاڑی بھیجنی ہوگی، طغرل نے ہنس کر کہا تھا کہ ایک کی بجائے دوگاڑیاں بھیج دی جائیں گی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اعلٰی قسم کی کونیاک پینا پسند کرے گی۔ طغرل نے کہا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ پھر مارینا نے اظفر کو کھانے کے سودوں کی فہرست دی تھی۔ اظفر طغرل کے پاس آیا تھا اور کہا تھا ،"سر یہ تو کوئی ڈیڑھ سو ڈالر کے مساوی رقم بنتی ہے"۔ طغرل نے کہا تھا،"دگنی بھی مانگے تو دے دو۔ پتا نہیں شاید کوئی ملکہ آ رہی ہو"۔
اس عرصے میں میرشاہبازاپنے انسٹیٹیوٹ کی سہیلیوں کو لے کرآ جایا کرتا تھا۔ ایک باروہ اپنے ساتھ ایک اورجوان شخص کو لے کرآیا تھا جس کا تعارف اس نے مقرب تاجک کے نام سے کروایا تھا۔ اس نووارد نے طغرل کو یاد کرانے کی کوشش کی تھی کہ وہ ایک بارپشاورمیں ہوئے سیاسی جلسے کے موقع پرطغرل سے مل چکا تھا۔ طغرل کو یاد نہیں تھا لیکن اس نے باورکر لیا تھا کہ ملا ہوگا۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ جوان شخص بیروزگار ہے۔ چونکہ پاکستانی تھا، بقول میرشاہبازطغرل کا سیاسی ہم خیال تھا اوراردو بھی جانتا تھا، دانشوری سے بھی کچھ علاقہ تھا۔ اس لیے طغرل نے اسے بطور اضافی مینیجردفترمیں کام کرنے کی پیشکش کی تھی اور مشاہرہ ڈھائی سو ڈالر مقرر کیا تھا۔ اس وقت تک سرگئی مینیجرساڑھے تین سو لے رہا تھا جبکہ باقی دو ملازمین کی تنخواہ بھی اتنی ہی تھی اورڈرائیور پونے دو سو ڈالر کے مساوی لیا کرتا تھا۔
مایا کولانے کے لیے مقرب کو بھیجا گیا تھا۔ مایا آ گئی تھی۔ طغرل آفس چیئر کی بجائے صوفے پر بیٹھا تھا جس کے سامنے کی میز پر اعلٰی کونیاک، وادکا، وسکی ، پھل اورہورزدیورے پڑے ہوئے تھے۔ مایا کودیکھ کرطغرل کو خاصی مایوسی ہوئی تھی۔ وہ خوبصورت نہیں تھی۔ اس کے جوان چہرے پر ہنستے ہوئے بہت جھریاں پڑتی تھیں مگروہ مزاج کی شہزادی بالکل نہیں تھی بلکہ سادہ طبیعت خاتون تھی۔
چند روز پیشتر ہی میرشاہباز اپنی ایک سہیلی کو لے کر آیا تھا۔ مارینا اوراظفرکوشرارت سوجھی تھی۔ مارینا نے "آئی لو یو" قسم کی کوئی تحریرلکھ کر دفترکے نمبر کے ساتھ رقعہ کسی طرح سے اس لڑکی کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ مایا کو آئے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہوئے تھے۔ طغرل نے دوایک پیگ لیے تھے کہ میرشاہباز کا فون آ گیا تھا جو اول فول بک رہا تھا، اسے لگا تھا کہ یہ کاررستانی طغرل کی تھی جو خاصی معیوب تھی۔ طغرل اپنی صفائی دے رہا تھا لیکن میرشاہباز سن ہی نہیں رہا تھا۔ طغرل کا پارہ چڑھ گیا تھا اوراس نے میرشاہباز کو بے نقط سنا کر فون بند کر دیا تھا۔ ساتھ ہی مایا سے کہا تھا میرے ساتھ آؤ، مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ وہ شرافت سے اٹھ کر اس کے ساتھ برآمدے سے گذرکر دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔ ظاہر ہے دفتر کا وقت تمام ہو چکا تھا، اس کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ مارینا بتا ہی چکی تھی کہ مایا انگریزی بول لیتی ہے۔ گفتگو انگریزی میں ہی ہوئی تھی۔ طغرل نے برملا اس سے کہا تھا " کیا میں چھو سکتا ہوں" اس نے اس کے بہت ابھرے ہوئے جوبن کی جانب انگلی سے اشارہ کرکے کہا تھا۔ مایا مسکرا دی تھی اور اثبات میں گردن خم کردی تھی۔ طغرل نے دونوں ہتھیلیوں سے وہ ابھار جونہی چھوئے اس کے اندرشرارہ پھوٹ پڑا تھا اوروہ اسے یہ کہہ کر "آو میرے ساتھ" راہداری کے دوسری جانب اس کمرے میں لے گیا تھا جوبند رہا کرتا تھا اورجسے اظفر نے اپنی چرب زبانی سے کام لے کر منتظمین سے کھلوا لیا تھا جہاں وہ طغرل کے عارضی قیام کا بندوبست کرنے میں جٹا ہوا تھا، ساتھ ہی اس نے باتھ روم میں ایک غسل خانہ بنوانے کی داغ بیل بھی ڈالی ہوئی تھی۔ مایا اورطغرل جونہی اس کمرے میں داخل ہوئے اورطغرل نے دروازہ بند کیا تو مایا نے انگریزی زبان میں ہی کہا تھا،" کیا مجھے سب کچھ اتارنا ہوگا" زمین پر ایک شیٹ بچھی ہوئی تھی۔ طغرل نے اسی پر مایا کو دوزانو کردیا تھا۔ اختتام پرجس میں کچھ زیادہ دیرنہیں لگی تھی، مایا نے گردن گھما کرمسکرا کر طغرل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی تھیں جبکہ طغرل کو بالکل ایسے لگا تھا جیسے صحرا میں کسی انتہائی پیاسے کو ٹھنڈے یخ پانی کا گلاس دے کراس کا حلق ترہونے سے پہلے گلاس چھین لیا گیا ہو۔ طغرل کو لگا تھا جیسے وہ پہلی بارکسی عورت کی بجائے کسی انسان سے ملا ہو جس کے ساتھ ایک ہو جانے کی خواہش نہ کبھی پوری ہوگی اورنہ ہی کبھی مرے گی۔
سالہا سال بیت جانے کے بعد ایک رات طغرل کو مایا کی یاد بہت آئی تھی۔ اس کا حال جاننے کی شدید خواہش نے اسے بے چین کر دیا تھا۔ اس نے مختلف ٹیلیفون نمبر دھونڈنے کی خاطرپرانی "فون بکس" کھنگال ڈالی تھیں۔ ملک ملک فون کیے تھے اور چند گھنٹوں میں مایا کوسویڈن میں ڈھونڈ نکالا تھا۔ ماسکو میں رات ڈھل چکی تھی لیکن شکر ہے کہ سویڈن کا وقت ماسکو سے تین گھنٹے پیچھے تھا۔ وہ فون پرطغرل کی آوازسن کرحیران ہونے کی بجائے بہت زیادہ خوش ہوئی تھی۔ پھرجب طغرل نے اسے بتایا تھا کہ اس نے کہاں کہاں فون کیے اورکس طرح اسے ڈھونڈا تھا تو اس نے تحیر کا اظہار اپنی مخصوص کھنکھناتی ہوئی ہنسی کے ساتھ کیا تھا، کہا کچھ نہیں تھا۔ تب غالبا" اس کا سویڈ شوہر نزدیک بیٹھا تھا جو یقینا" انگریزی میں بھی شد بد رکھتا ہوگا۔ شوہر کے بارے میں مایا بتا چکی تھی کہ وہ عمر میں اس سے خاصا بڑا تھا، پیشے کے حوالے سے ماہرامراض دماغی تھا اور"بہت اچھا" ۔
اس کے بعد بھی طغرل کی مایا کے ساتھ گاہے بگاہے فون پر بات ہوتی رہی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر کا ایک سکھ دوست بھی ہے۔ جو تب اس کے خاوند کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ مایا نے کہا تھا کہ طغرل اپنے ہم زبان سے بات کرے لیکن ساتھ ہی دبی زبان سے کہا تھا کہ "اس کو میرے اور اپنے جسمانی تعلقات کے بارے میں مت بتانا"۔ اس روز طغرل کو احساس ہوا تھا مرد عورتوں کی نسبت زیادہ حاسد ہوتے ہیں مگراس کا اظہارزبان سےکم کرتے ہیں البتہ کسی نہ کسی بہانے اس کا نزلہ عورت پر ضرورگراتے ہیں چنانچہ طغرل نے مایا سے رابطہ رکھنا چھوڑ دیا تھا۔
جن دنوں مایا سے مراسم تھے اس نے طغرل سے کبھی اس کی زندگی میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر نہیں کی تھی۔ مایا کی والدہ بھی جو ایک شفیق بوڑھی خاتون تھیں ان دنوں ماسکو میں مقیم تھیں مگرمایا کسی اوررشتے دارکے ہاں رہ رہی تھی۔ جارجیا کے سیاسی و معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔ اس کی والدہ طغرل کے دفتر سے مال لے کر یا تو کسی اورکو فراہم کرتی تھیں یا خود کہیں بیچتی تھیں لیکن جارجیائی عادت کے مطابق وہ طغرل کے لیے دیگچے بھر بھر کے گوشت سے تیار کردہ لذید سالن دفترمیں پہنچا دیا کرتی تھیں جس پران کے اس مبینہ منافع کا ایک خاطرخواہ حصہ خرچ ہو جاتا ہوگا جو وہ طغرل سے حاصل کردہ مال سے حاصل کرتی ہونگی ۔
اس کی والدہ کو یقینا" علم نہیں تھا کہ مایا طغرل کے ساتھ راتیں بتانے کی غرض سے اکثر و بیشتر شام ڈھلے اس کے دفتر پہنچ جاتی تھی۔ طغرل کومایا کے ساتھ گذاری راتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔ حسن ضروری نہیں کہ چہرے اوربدن میں ہی ہو، حسن حسن سلوک میں ہوتا ہے۔ مایا کا حسن سلوک باکمال اور لازوال تھا۔ مایا کبھی کبھار بہت اداس ہو جاتی تھی۔ طغرل نے اس سے جب بھی پوچھا کہ وہ اداس کیوں ہے، اس نے ہمیشہ قہقہہ لگا کر کہا تھا نہیں تو، میں بھلا اداس ہونے والی چیز ہوں کیا؟ طغرل کو تب احساس نہیں ہوا تھا لیکن عرصہ دراز کے بعد سوچا تھا کہ تب مایا کی اداسی کی وجہ ایک ہی ہو سکتی تھی کہ اس نے کبھی مذاق میں بھی مایا کو اپنی زندگی میں شامل ہونے کی پیشکش نہیں کی تھی۔
مایا کو نینا کے ساتھ طغرل کے گہرے مراسم کا گیان تھا۔ ایسے مراسم جنہیں روس میں میاں بیوی کے مراسم کے طورپرلیا جاتا ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے دوستوں اوررشتوں داروں سے نہ صرف شناسا ہوتے ہیں بلکہ ان کی تقریبات میں بھی مل کر شرکت کرتے ہیں۔ جتنی نینا اچھی تھی مایا اس سے کچھ بڑھ کر اچھی محسوس ہوتی تھی یا شاید اس لیے ایسا لگتا تھا کہ اس کے ساتھ اورطرح کا بندھن تھا۔ طغرل بہت چاہتا تھا کہ اسے نینا سے ملوائے۔ ایک روزوہ مایا کواپنے ہمراہ نینا کے ہاں لے ہی آیا تھا۔ مایا کے بارے میں وہ نینا کو بتاتا رہتا تھا۔ وہ ان کے تعلقات کی گہرائی بارے استفسار بھی کرتی تھی لیکن طغرل اسے یقین دلا دیتا تھا کہ مایا صرف فرینڈ ہے گرل فرینڈ نہیں۔ نینا کو اس بارے میں کبھی معلوم نہیں ہو پایا۔ اس کے شادی شدہ ہونے سے متعلق جان کر نینا نے طغرل کے کہنے پر مایا سے باتیں بھی کی تھیں۔ کسی بات پر مایا نے نینا سے کہا تھا کہ طغرل تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات اس نے طغرل کے ساتھ مراسم کے ختم ہونے کے سولہ سال بعد کہی تھی۔
تب نینا نے مایا سے مل کر خوشی کا اظہار کیا تھا اور خاطرتواضع بھی کی تھی لیکن مشکوک رہی تھی۔ شک تب فزوں ترہوگیا تھا جب وہ تینوں کہیں جانے کے لیے اکٹھے نکلے تھے اورطغرل مایا کا ہاتھ پکڑے چلنے ہوئے نینا کو بار بار پیچھے چھوڑ جاتا تھا۔ نینا طغرل سے یہ گلہ دو دہائیاں گذر جانے کے بعد بھی کرتی تھی۔
مایا سے تعلقات ابھی منڈھے نہیں چڑھے تھے کہ طغرل کے حالات بالکل خراب ہونے لگے تھے۔ آمدنی صفر ہوگئی تھی۔ اخراجات بہر طور پورے کرنے ہوتے تھے۔ مینیجر تاجک کی تنخواہ بڑی مشکل سے دی جاتی تھی۔ اظفر نے بھی اجازت مانگ لی تھی کہ اگر طغرل کو ناگوارنہ گذرے تووہ کمارنامی ایک ہندوستانی کے دفتر میں جزوی طور پر ہوآیا کرے۔ اظفر براہ راست کوئی معاوضہ یا مشاہرہ موصول نہیں کرتا تھا اس لیے طغرل نے اسے بخوشی اجازت دے دی تھی۔ وہ دن کے بارہ ایک بجے چلا جاتا تھا اورشام کو لوٹ آتا تھا تاکہ طغرل کو تھوڑی سی کمپنی دے دے۔ اس کا کزن کہیں اور جا کر رہنے لگا تھا البتہ اس کا سب سے چھوٹا بھائی طغرل کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ دفتر میں رہتا تھا۔
ایک روز شراب نوشی کے بعد طغرل کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے طور پر کوئی دوائی لی تھی لیکن طبیعت بحال نہ ہو سکی تھی۔ اس نے اظفر کے چھوٹے بھائی کو کہا تھا کہ وہ اظفر کو بلا لائے۔ اس اثنا میں طغرل ایمرجنسی سروس کوبھی فون کرچکا تھا۔ جب تک اظفر پہنچا تو طغرل کی طبیعت خاصی سنبھل گئی تھی۔ طغرل نے اظفر سے کہا تھا کہ اسے غالبا" " پینیک اٹیک" ہوا تھا جو شدید پریشانی سے ہوجایا کرتا ہے، اسے عرف عام میں "تبخیر معدہ" کہتے ہیں۔ اظفر نے بہت سنجیدگی کے ساتھ گمبھیر لہجے میں کہا تھا، "طغرل صاحب، میرا نانا بھی یونہی فوت ہو گیا تھا۔ ہم سمجھتے رہے کہ تبخیر ہے لیکن اسے دل کا دورہ پڑا تھا"۔ طغرل نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ اسں نے اچھا اسے اپنی دلجوئی کی خاطر بلایا۔
کوئی ایک گھنٹے بعد ایمرجنسی ٹیم بھی پہنچ گئی تھی۔ ادھیڑعمرڈاکٹر مخمورتھا اور پینتیس چھتیس سال کی بھرے بھرے جسم والی خوبرو طویل قامت نرس کے بدن پر صرف "اوورآل" تھا، بیچاری انگیا اور بلاؤز جہاں اتارے ہونگے وہیں بھول آئی تھی۔ طغرل نے ہلکے ہلکے ڈگمگاتے ہوئے ڈاکٹر سے کہا تھا کہ اس کی طبیعت یکسر بحال ہو چکی ہے پھر یہ کہ ٹیم نے آنے میں دیرہی اتنی کردی تھی کہ اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہوا ہوتا تو اب تک کچھ کا کچھ ہو چکا ہوتا۔ ڈاکٹر موصوف نے سنی ان سنی کرکے کہا تھا،" تم ڈاکٹر ہو یا میں، فیصلہ مجھے کرنا ہے"۔ یہ کہہ کر اس نے نرس کو دس سی سی کی سرنج میں کوئی چارانجیکشن بھرنے کی ہدایت کی تھی اوربھری سرنج نرس نے طغرل کے سرین میں اتار دی تھی۔ طغرل نے ڈاکٹر کوبازو پکڑکربٹھا لیا تھا کہ آپ دس منٹ تک نہیں جا سکتے کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ اتنی زیادہ دوائی جسم میں اتارنے سے کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
اگلے روزطغرل کواتنی نقاہت تھی کہ اٹھنا دشوارتھا۔ خیروہ گاڑی چلا کر نینا کے گھر کے نزدیک ایک ہسپتال پہنچا تھا جو تھا توسرکاری لیکن اس میں معاوضے پرنجی طبی سروس بھی میسّر تھی۔ طغرل نے رات کے انجکشنوں کے خالی امپول محفوظ کر لیے تھے جواس نے ڈاکٹر کو دکھائے تواس نے پوچھا تھا " کس احمق نے اتنے ٹیکے اکٹھے لگا دیے؟" طغرل بھلا کیا کہتا کیونکہ یہ ان کے ملک کی ایمرجنسی سروس کے ڈاکٹرکا کمال تھا۔ اس ڈاکٹر نے صرف آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ ایمرجنسی ٹیم کے مخمورڈاکٹر نے غالبا" دوا کی زیادہ مقدار تزریق کروا دی تھی۔
اظفرکمارکی تعریف کیا کرتا تھا کہ اس نے اکیلے کس طرح تیزی سے اپنا کاروبار جما لیا تھا۔ وہ ایک بارکمار کو طغرل سے ملانے لایا تھا۔ کمار چھ فٹ کا چالیس بیالیس سال کا ہشاش بشاش سنجیدہ شخص تھا جو ڈیل ڈول سے فوجی لگتا تھا لیکن بنیادی طور پرانڈین پنجاب کے کاروباری ہندو خاندان سے تھا۔ اس نے رسمی طور پر طغرل کو اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی تھی چنانچہ طغرل ایک روز اس کے دفتر پہنچ گیا تھا۔ کہاں طغرل کا متعدد کمروں پر مشتمل مجہز دفتر مگرکاروبار سے خالی اور کہاں کمارکا دفترجو ایک ہی کمرے پر مشتمل تھا۔ ایک طرف چھت تک کارٹن لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف میزکے ایک جانب کمار بیٹھا تھا اوراس جانب دو کرسیاں رکھی تھیں جن میں سے ایک پر طغرل بیٹھ گیا تھا۔ طغرل کے بازو میں کمار کی سیکرٹری یا اہلکارہ جو بھی کہہ لیں بیٹھی ہوئی تھی۔ گاہک مسلسل آ رہے تھے۔ اظفر انہیں کارٹن کھول کھول کران میں سے سویٹرنکال کردکھاتا پھران کی خواہش کے مطابق ان کومال دیتا جا رہا تھا۔ کمارکوروسی نہیں آتی تھی چنانچہ اظفر ہی لوگوں سے بات چیت کررہا تھا یا اس کی سیکرٹری کبھی کبھار ان سے دو چارفقروں کا تبادلہ کر لیتی تھی۔ باوجود اس کے کہ کمارزبان نہیں جانتا تھا لیکن اس کے کان، آنکھیں اوردماغ کاروبار کی جانب لگے ہوئے تھے۔ طغرل نے مناسب جانا کہ وہ چائے پیے جو خاتون نے بنا کراسے پیش کر دی تھی اورخاتون سے رہ ورسم بڑھائے۔
کماروہی کام کرتا تھا جوماسکو میں موجود سارے جالندھری کرتے تھے یعنی روس پر واجب الادا سوویت یونین کے زمانے کے قرض حکومت ہند سے خرید لیتے تھے اوراس کے بدلے روس میں غیر معیاری سویٹر جرسیاں لا کر بیچتے تھے۔ کہنے کویہ جرسیاں اون کی ہوتی تھیں لیکن تھیں وہ نائلن کی بلکہ شاید پٹ سن کی تاہم اس طرح ہندوستان کے کاروباری لوگوں نے اوران کے ساتھ تعلقات بنا کر پاکستانی کاروبار کرنے والوں نے خوب پیسہ بنایا تھا۔ مگر طغرل کواس سے کیا غرض تھی۔ اسے کمار کے دفترمیں لڑکی اچھی لگی تھی، جس کو وہ ہفتے میں دوایک بارفون کرلیتا تھا پھرایک روز اسے اپنے دفتر آنے کی دعوت دے ڈالی تھی۔ لڑکی کوکمارکے دفترسے کام ختم کرکے نزدیکی میٹرو سٹیشن پہنچنا تھا جہاں طغرل اسے لینے پہنچا تھا۔ جب وہ سٹیشن سے باہرآئی توطغرل نے پہلا سوال وہی کیا تھا جو ملنے کے لیے آنے والی کسی بھی لڑکی سے کیا جاتا تھا کہ وہ کیا پینا پسند کرے گی۔ اس نے چھوٹتے ہی کہا تھا "وادکا" ۔ ۔ ۔ لڑکیاں عموما" وادکا پینے کی فرمائش نہیں کرتیں وہ وائن یا شیمپین یا زیادہ سے زیادہ بیئر پینے کا عندیہ دیتی ہیں ۔ ۔ ۔ وادکا پینے کی خواہش سنتے ہی طغرل کو جھٹکا سا لگا تھا کیونکہ وادکا پی کرخودسپردگی سہل ہوجاتی ہے، جو چھوٹتے ہی رضامند ہونے کی خواہشمند لڑکی کی طلب ہو سکتی تھی۔ الکحل کا کیمیائی اثر یہی ہوتا ہے کہ وہ دماغ کے سامنے کے حصے میں جو معاشرتی امتناعات درج ہوتے ہیں انہیں عارضی طور پرمٹا دیتی ہے اوریوں انسان ہر وہ حرکت کر لیتا ہے جو شراب نوشی سے پہلے نہیں کرسکتا۔ تاہم طغرل نے وادکا خرید لی تھی۔ جب وہ دونوں دفتر پہنچنے کی خاطر ٹیکسی میں سوار ہوئے اورکسی لمحے پرطغرل نے سوچا کہ ابتدائی بوسہ لے جو ظاہر ہے کہ گال پرہی لینا تھا، اس نے بوسہ لیا تھا تواسے ایک عجیب ناگوار بو کا احساس ہوا تھا۔ یہ بو لڑکی کے منہ سے آ رہی تھی۔ طغرل نے سوچا ممکن ہے اسے ایسے ہی لگا ہو۔ دفتر پہنچے تو تھوڑی دیر میں اظفر بھی پہنچ گیا تھا۔ وہ کمار کی اہلکارہ کو طغرل کے ساتھ دیکھ کرایک لمحے کے لیے ٹھٹکا تھا مگرفورا" ہی نارمل ہو گیا تھا۔ طغرل لڑکی کو لے کراپنے دفترمیں چلا گیا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھی تو طغرل اس کے ہونٹ چومنے کے لیے جھکا، لڑکی کے منہ سے پھر وہی بو آئی تھی۔ طغرل سے رہا نہیں گیا تھا، "یہ تم میں سے کیسی بوآ رہی ہے؟" طغرل کے استفسارپر لڑکی نے خجل ہو کر بتایا تھا،" میں نے لہسن کھایا ہوا ہے"۔ روس میں لوگ سردیوں میں لہسن کا زیادہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ لہسن زکام یعنی فلوہونے سے بچاتا ہے۔ طغرل نے اس سے پہلے یہ بومحسوس نہیں کی تھی کیونکہ گاڑی ہونے کی وجہ سے وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر نہیں کرتا تھا۔ اس کو یہ بو بہت ناگوار لگی تھی اوراب تک لگتی ہے۔ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ لڑکی کو کسی نہ کسی طرح اظفر کے حوالے کرکے، بہانہ بنا کرکارمیں بیٹھ کرنکل گیا تھا۔ اظفر کو کہتا گیا تھا کہ میں نینا کے ہاں جا رہا ہوں، مہمان سے خود ہی نمٹ لینا۔ وہ نینا کے ہاں پہنچا تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ کیا، جب اس نے نینا کو چومنے کے لیے چہرہ آگے بڑھایا تو محسوس ہوا کہ نینا نے بھی لہسن کھایا ہوا تھا۔ طغرل نے چونکہ آج نہیں آنا تھا، اس لیے نینا نے لاپرواہی برتی تھی۔ طغرل نے اس رات نینا کو متنبہ کردیا تھا کہ وہ اس کے نزدیک نہ آئے۔ اس رات طغرل کوبہت کروٹیں لینی پڑی تھیں کیونکہ اتفاق سے گھرپہ وہسکی بھی نہیں تھی، وہ تب وادکا نہیں پیتا تھا۔ وادکا روس کے ہر گھر میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے چاہے کوئی پیے یا نہ پیے۔ وادکا شراب کم اوردوا زیادہ خیال کی جاتی ہے۔
حالات کے باعث طغرل نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ نینا کو الوداع کہہ کر الماآتا چلا جائے گا اور ایمان کے ساتھ مل کررؤف کے پاس پھنسی ہوئی رقم نکلوا کر وہیں کوئی اورکام کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس نے اپنا بیشتر سامان ساتھ لے لیا تھا جو بچ رہا تھا، اظفر نے وہ کسی نہ کسی طرح الماآتا بھجوا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ساتھ ہی اظفر نے تسلی دی تھی کہ وہ تاجک کے ساتھ مل کر دفتر چلانے کی کوشش کرتا رہے گا، اگر حالات بہتر ہوئے تواطلاع دے دے گا۔
نینا کو دکھ توتھا لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ طغرل کی خیرخواہ تھی اوریہ بھی نہیں جانتی تھی کہ طغرل محض رؤف سے رقم وصول کرنے نہیں بلکہ کسی اورخاتون کے ساتھ رہنے کی خاطرجا رہا ہے۔
طغرل بچت کرنے کی خاطر طیارے کی بجائے ریل گاڑی میں سوارہوا تھا۔ وہ جس کوپے میں تھا اس میں دومرد اورایک خوشروعورت ساتھی تھے۔ عورت اڑتیس چالیس سال کی لگتی تھی لیکن تھی بالکل سمارٹ۔ ماسکو سے الماتا تک سفرچارراتوں اورتین روزکا ہے۔ چھتیس گھنٹے کے بعد جو دن آیا تھا اس روز طغرل کی سالگرہ تھی۔ وہ ریستوران کار میں جا کر ایک شیمپین کی بوتل خرید لایا تھا اور کوپے میں موجود ساتھیوں کو اپنی سالگرہ میں شریک ہونے کی دعوت دی تھی۔ شناسائی تو شرکائے سفر کے ساتھ ہو ہی چکی تھی۔ بلاشبہ طغرل کا زیادہ انہماک خاتون کی جانب تھا۔ وہ سب خوش ہوئے تھے۔ ایک شخص جا کرریل بان خاتون سے گلاس لے آیا تھا۔ دوسرے شخص اورخاتون سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں میز پرسجا دی تھیں، طغرل نے بوتل کھول کر سب کے لیے گلاسوں میں شیمپین انڈیل دی تھی۔ سب نے اس کے لیے جام صحت بلند کیا تھا۔ عمردریافت کرنے پر جب طغرل نے بتایا "پینتالیس سال" تو کسی نے اعتبار نہیں کیا تھا۔ وہ واقعی پینتیس چھتیس سال سے زیادہ کا نہیں لگتا تھا۔ ان کے بار بار شک کرنے پر بالآخر طغرل نے اپنا پاسپورٹ ان کے سامنے کر دیا تھا جو اس کی عمر پینتالیس سال ہونے کی تصدیق کرتا تھا۔
شیمپین ختم ہونے کے بعد طغرل کو سگریٹ پینے کے لیے ڈبے کے مخصوص حصے میں جانا تھا۔ وہ کمپنی کے لیے اپنی ہم سفرخاتون کو ساتھ لے گیا تھا۔ اس خاتون میں نینا کی جھلک تھی۔ وہ بھی ہلکے سے خمارمیں تھی چنانچہ ان دونوں نے سگریٹ نوشی کے مقام پرخوب بوس وکنارکیا تھا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ شام تک ریل گاڑی بیکانور پہنچنے والی تھی جہاں خلائی اڈہ تھا جو کزاخستان سے روس نے لیزپر لیا ہوا ہے۔ اس خاتون کا شوہروہاں میجرتھا۔ بہرحال باوجود خمارنہ ہونے کے وہ شام تک قربت کے خمار میں مبتلا رہے تھے۔ اس خاتون نے اعتراف کیا تھا کہ نمعلوم اس نے کیوں پہلی بار اپنے خاوند کے ساتھ دغا کیا۔ اف یہ عورتیں! طغرل کوئی کاسانووا تو تھا نہیں بلکہ یہ قربت یا دغا بازی شیمپین اورخاتون کے شوہر سے دوری کا نتیجہ تھی۔ جب گاڑی بیکانورپہنچی جہاں کوئی مناسب پلیٹ فارم نہیں تھا اورگاڑی بھی چند منٹوں کے لیے رکنی تھی تو طغرل نے خاتون کا سامان اس کے خاوند کو پکڑانے میں مدد کی تھی۔ خاوند نے طغرل کا شکریہ ادا کیا تھا اورخاتون نے مضطرب نگاہوں کے ساتھ الوداع۔ طغرل کو اس خاتون کے ساتھ یہ ملاقات کبھی نہیں بھولتی اگرچہ اس کے خدوخال قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔
سفر کا باقی حصہ بورگذرا تھا۔ گاڑی صبح پانچ بجے الماآتا ریلوے سٹیشن پرپہنچی تھی۔ طغرل ایمان کو اپنی روانگی کی اطلاع دے چکا تھا، ساتھ ہی کہا تھا کہ سردیوں کی اتنی صبح اسے لینے نہ پہنچے وہ خود ہی اس کے ہاں پہنچ جائے گا۔ طغرل نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید سٹیشن پربتایا تھا اور پھر ٹیکسی لے کر ایمان کے گھر پہنچ گیا تھا۔ اس نے ایک ہی دفعہ ہلکی سی بیل دی تھی۔ ایمان اس کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے فورا" دروازہ کھول دیا تھا اور طغرل کو بھینچ کراپنے گلے لگایا تھا۔ ایمان نے اپنے کمرے میں زمین پر بستر بچھایا ہوا تھا۔ ظاہر ہے گدے میں سے چوں چاں کی آوازین نہیں آتیں۔ نیند نے کہاں آنا تھا۔
موسم چونکہ سرد تھا۔ اس لیے طغرل کا قیام ایمان کے گھرپرہی رہا تھا۔ ایک روز طغرل کو ایک پرانا شناسا مل گیا تھا جو ایک عام سا شخص تھا اورجس کو طغرل پہلے ماسکومیں بھی، جہاں وہ کوئی چار سال پیشتر تک تھا، کوئی اتنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لیے تھوڑی دیر بعد آپس میں کھل گئے تھے۔ طغرل ایمان کی جانب اشارہ کرکے بولا تھا، "یہ دیکھنے میں اتنی اچھی نہیں لیکن مجھے اچھی لگتی ہے"۔ ایمان نے اپنے چند منٹوں کے رویے سے اس شخص پر نجانے کیا اچھا اثرچھوڑا تھا کہ اس نے طغرل سے کہا تھا،" اگر آپ نے اس کو دھوکہ دیا تومیں آپ کو قتل کردوں گا"۔ طغرل نے اس کی بات ایمان کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ لو بھئی تجھے مفت کا جاں نثارمحافظ بھی میسّر آ گیا ہے۔ ایمان خوش ہوئی تھی اورکھلھلا کرہنس دی تھی۔
دو ہفتوں کے دوران طغرل کو احساس ہو گیا تھا کہ ایمان کے ہمراہ گاہے گاہے گھوم پھرکروقت بتانا، گپ شپ لگانا، ٹخ ٹلیاں کرنا اورسونا اتنا برا نہیں لیکن اس کے ساتھ مستقل طورپررہنا جانکاہ ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ نہ صرف لاپرواہ بلکہ پھوہڑ بھی تھی۔ اسے ڈھنگ کی کوئی چیز بنانا نہیں آتی تھی۔ وہ جب باہر سے آتی تھی، جینز اتارکرلاپرواہی کے ساتھ ایک جانب پٹخ دیتی تھی اورکرسی پر بیٹھ کر کمپیوٹرکھول لیتی تھی۔ اس کے بعد سب جائیں بھاڑ میں۔
طغرل کو پہلی بار، چاہے اپنے لیے ہی سہی، کھانا بنانے کی خاطر اتنا وقت باورچی خانے میں بتانا پڑا تھا، پھرطغرل بھی کوئی اتنے اچھے پکوان نہیں بنا سکتا تھا۔ وہ اوبھ گیا تھا۔ دوسری جانب رؤف تاتار تھا کہ باتیں بناتا تھا یا غائب ہوجاتا تھا۔ اس کے گھر فون کروتوملتا نہیں تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ دھوکہ دینے کے چکر میں ہے۔ اس دوران ایمان اس کی چین لائن مارکیٹنگ سے نکل چکی تھی اور اس نے فلم ڈائریکشن کے کورس میں داخلہ لے لیا تھا۔ اس نے طغرل کواپنے ہم جماعت لڑکے لڑکیوں سے بھی ملایا تھا جن میں ایک مقامی کورین لڑکا بہت سوشل تھا جوہر بات پر" یولکا زیلیونے" یعنی سروسبز کہتا تھا۔ اس نے یہ طریقہ گالیاں دینے سے اپنے آپ کو بچانے کی خاطراستعمال کیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی زیادہ اٹھک بیٹھک روسیوں کے ساتھ رہی ہوگی جو امریکیوں کی طرح دوستوں کے ساتھ عام بول چال میں گندی گالیوں کا خوب استعمال کرتے ہیں۔
ایمان کو فلم سازی کا بہت شوق تھا۔ وہ ہروقت فلمیں بنانے کی بات کرتی تھی۔ تاکہ کوئی اچھی فلم بنا سکے، وہ پیسے کمانے کے لیے پورنوفلمانے کے بھی حق میں تھی۔ ایسی ہی ایک گفتگو کے دوران طغرل نے کہا تھا، "تمہاری پورنو کے لیے مرد تو میں ہوں، لڑکیاں مل جائیں گی۔ "مل جائیں گی" اس کے منہ سے نکلا تھا، پھر سنبھل کر بولی تھی لیکن تم کیوں اس فلم میں کام کروگے؟ "تاکہ تمہارا خرچ بچے" طغرل نے مسکرا کر کہا تھا۔ "نہیں مجھے نہیں بنانی پورنو" اس کے بعد اس نے پورنو بنانے سے متعلق طغرل کے سامنے کوئی بات نہیں کی تھی۔
اس نے طغرل کوکازفلمز، جوکزاخستان میں فلم سازی کا سرکاری ادارہ تھا، کے ڈائریکٹر جنرل سے بھی ملایا تھا جس نے گفتگو کے دوران پوچھا تھا کہ کیا آپ پاکستان میں ہماری فلم "ابلائی خان" کی نمائش کا اہتمام کرسکتے ہیں؟ یہ فلم ایک کازخ ہیرو کے متعلق تھی جو یونیسکو کے تعاون سے تیار ہوئی تھی۔ کازفلمز کی عمارت میں موجود سینیما ہال میں یہ فلم طغرل اورایمان نے اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ مل کر دیکھی تھی۔ ہال میں بس وہ تین تھے اورپروجیکٹر خاص طورپرچلایا گیا تھا۔ فلم بہت اچھی تھی۔ دیکھنے کے بعد طغرل نے فلم کی تعریف کی تھی اورساتھ ہی کہا تھا کہ جناب یہ فلم پاکستان میں بطور نمائش پیش نہیں کی جا سکتی۔ ڈائریکٹرجنرل نے مایوس اورحیران کر پوچھا تھا،"آخر کیوں؟"۔ "جناب جس سینیما میں یہ فلم دکھائی جائے گی لوگ اس سینیما کو نذر آتش کر دیں گے کیونکہ آپ کی اس فلم میں لوگ جوتوں سمیت مسجد میں نماز پڑھتے دکھائے گئے ہیں"۔ " لیکن یہ تو چند صدیوں پہلے کا واقعہ ہے جب بند مقامات کو گرم کرنے کے وافراورمناسب انتظامات مفقود تھے۔ اس قدرشدید سردی میں لوگوں کواسی طرح ہی نماز پڑھنی تھی۔ اس میں کیا غیر اسلامی ہے؟ اگر جوتوں کے تلووں کے ساتھ کوئی نجاست نہیں لگی تو نماز جوتوں سمیت بھی پڑھی جا سکتی ہے" ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا۔ طغرل نے اس سے اتفاق کیا تھا کہ فلم میں کچھ غلط نہیں دکھایا گیا لیکن ہمارے ہاں سینیماؤں میں اس بارے میں فلم سے پہلے توضیحی اعلان تو نہیں کیا جائے گا ناں پھر ہمارے ہاں لوگ مذہب کے معاملے میں حد سے بڑھ کر جذباتی واقع ہوئے ہیں، اس لیے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکوں گا۔
موصوف بڑے بددل ہوئے تھے لیکن مہذب آدمی تھے چنانچہ بڑے تپاک سے رخصت کیا تھا۔ بعد میں سوچا ہوگا کہ یہ پاکستانی بھی کوئی عجیب طرح کے لوگ ہیں۔ ایک کازخ کو پاکستانیوں سے متعلق بھلا کیسے سمجھ آ سکتی ہے جنہیں اسلام ملاؤں نے سکھایا ہے جومنظق اوراستدلال سے عاری ہے۔ اس کے برعکس کازخ لوگوں کی پاکستانیوں کو سمجھ نہیں آ سکے گی۔ سٹیپی پر مشتمل اس ملک میں (سٹیپی سینکڑوں ہزاروں میلوں میں پھیلی ہوئی غیرمسطح زمین کو کہتے ہیں جہاں کاشت نہیں کی جا سکتی۔ ہر چیز خود رو ہوتی ہے اوردرخت تو ہوتے ہی نہیں) قدیم زمانوں میں اناج کی کمی کے سبب ایک محاورہ بنا تھا کہ اگر قرآن کہیں اونچائی پررکھا ہوتوروٹیوں پرپیردھر کے اسے مت اتارو البتہ اگر روٹی کہیں بلندی پر دھری ہوتوقرآن پر (نعوذباللہ) کھڑے ہو کرروٹی اٹھا لو۔ روٹی بھوکے کے لیے سب سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔
فلم سے متعلقہ لوگوں کی محدود افراد کی کوئی محفل تھی جس میں ایمان نے طغرل کو ساتھ لے جانے کی اجازت لے لی تھی۔ اس محفل میں کوئی اٹھارہ بیس افراد تھے۔ جام صحت تجویز کرتے ہوئے روسی لوگ کسی کی تعریف میں بعض اوقات مبالغہ آرائی اوردروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔ سننے والے اس کو درگذر کرتے ہیں۔ ایسا ہی اس مشرقی ملک میں کیا جائے گا، طغرل کو احساس نہیں تھا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی متعلقہ نائب وزیر تھے۔ نائب وزیر بالعموم فیڈرل سیکرٹری کو کہا جاتا ہے۔ دو تین پیگ پینے کے بعد جن کے سبب اوئیگور قوم سے تعلق رکھنے والے یہ نائب وزیرمخمور ہو چکے تھے، اپنی باری آنے پرجام صحت تجویزکرتے ہوئے روس کی ملکہ ترنم آلا پوگاچووا کے ساتھ اپنی قربت کے بارے میں عیاں دروغ گوئی سے کام لینے لگے تھے۔ جس جانب وہ کھڑے ہو کر لمبی تقریر فرما رہے تھے، اس طرف بیٹھے لوگ مسکرا رہے تھے۔ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں طغرل اورایمان بھی تھے۔ طغرل بھی مسکرا رہا تھا۔ نائب وزیر موصوف کو شاید اچھا نہیں لگا کہ ایک غیرملکی ان کی کہی بات پر طنزا" ہنسے۔ انہوں نے طغرل کو آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا تھا ،" تم کیوں مسکرا رہے ہو" اس سے پہلے کہ طغرل کوئی جواب دیتا، انہوں نے دوچارقدم طے کیے اورپورے زور کا مکہ طغرل کی بائیں آنکھ کے اوپر جڑ دیا تھا۔ ان کی انگشت شہادت میں سونے کی ایک چوڑی مہردارانگوٹھی تھی۔ وہ شخص مکہ مارتے ہی تیزی سے باہر کے دروازے کی جانب گیا تھا۔ طغرل ہکا بکا تھا۔ ایمان چیختی ہوئی اس شخص کے پیچھے لپکی تھی، آنکھ کے اوپر بھنوسے نیچے کی کھال پھٹ گئی تھی، جونہی خون کا فوارہ چھوٹا طغرل بھی پنجابی زبان میں "تیری تے" کہتا ہوا ایمان کے ساتھ اس شخص کے پیچھے بھاگا تھا لیکن نائب وزیر کام دکھا کرغائب ہوچکا تھا۔
ایمان کا کوریائی دوست طغرل اورایمان کواپنی گاڑی میں بٹھا کرایمرجنسی سنٹر لے گیا تھا، جہاں طغرل کی کھال میں پانچ ٹانکے لگائے گئے تھے۔ اگلے روز ورکنگ ڈے تھا۔ ایمان اورکوریائی جوان شخص اخبارات کے دفاتر میں چلے گئے تھے۔ شام تک نائب وزیرمجبورہوکر طغرل سے معافی مانگنے پہنچا تھا۔ طغرل نے تو اسے معاف کر دیا تھا لیکن ایمان نے اسے خوب سنائی تھیں۔ اس کا ایمان کو خمیازہ بھگتنا پڑا تھا، کچھ عرصے بعد اسے ایک بے بنیاد الزام لگا کر فلم سازی کے کورس سے نکال دیا گیا تھا۔
جب طغرل کے ٹانکے کھل گئے تواس نے واپس ماسکو جانے کی ٹھانی تھی۔ رؤف یکسرغائب ہو گیا تھا۔ اس کا بھائی اوراس کی بیوی اس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے تھے۔ طغرل باورچی خانے میں کھانے نہیں بنا سکتا تھا۔ اس نے ایمان کو یہ نہیں بتایا تھا ک